Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں
ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ (محمد ابن شہاب ، زہری سے) کہ ابو سفیان ابن حرب ، ابو جہل ، اور اخس ابن شریق ابن عمرو ابن وھب ثقفی ایک رات کو اپنے اپنے طور پر نکلے ، تاکہ حضور ﷺ سے قرآن سنیں۔ آپ ﷺ رات کو اپنے گھر میں ۔۔ نماز میں قرآن پڑھتے تھے۔ ہر شخص نے اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر کلام الٰہی سنا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے متعلق نہ جانتا تھا۔ رات کو وہ سنتے رہے ، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ صبح واپس ہوتے وقت راستے میں ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا : ” دوبارہ یہ کام نہ کرنا اگر نادان لوگوں نے ت میں دیکھ لیا تو وہ اچھا تاثر نہ لیں گے “۔ پھر چلے گئے۔ دوسرے دن یوں ہوا کہ دوبارہ یہ تینوں اپنی اپنی جگہ پہنچ گئے۔ رات گئے تک سنتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو پھر راستے میں انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ پھر انہوں نے وہی بات کی جو پہلے دن کی تھی پھر چلے گئے۔ جب تیسری رات ہوئی تو پھر سب کے سب اپنی اپنی جگہ پہنچ گئے اور سنتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو پھر اتفاقاً ایک دوسرے کو مل گئے۔ اب کے انہوں نے کہا کہ جب تک ہم معاہدہ نہ کرلیں واپس نہ ہوں گے۔ چناچہ انہوں نے باقاعدہ معاہدہ کیا کہ اب ہر گز یہ کلام نہ سنیں گے۔ جب صبح ہوئی تو احنس ابن شریق نے اپنی لاٹھی لو ، ابو سفیان ابن حرب کے پاس آیا خود اس کے گھر میں۔ تو ان سے کہا ابو حنظلہ ، براہ کرم تم نے محمد ﷺ سے جو کلام سنا اس کے بارے میں بتائیے۔ تمہاری حقیقی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ ، خدا کی قسم کہ میں نے بعض چیزیں ایسی سنی ہیں جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کا مطلب بھی سمجھتا ہوں۔ ہاں بعض چیزوں کا مطلب میں نہیں سمجھتا۔ اس پر اجنس نے کہا اور میری بھی یہی رائے ہے۔ اس خدا کی قسم جس کے ساتھ تم نے قسم کھائی۔ اس کے بعد وہ وہاں سے چلا اور ابو جہل کے پاس آیا۔ یہ اس سے بھی اس کے گھر پر ملا۔ اور یہی سوال کیا کہ ابو حکم براہ کرم محمد ﷺ سے جو کچھ تو نے سنا اس کے بارے میں تمہاری حقیقی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں نے کیا سنا ؟ ہمارے اور بنو عبد مناف کا عزت و شرف کے بارے میں مقابلہ تھا۔ انہوں نے لوگوں کو کھانا کھلایا ، ہم نے بھی کھلایا ، انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں ، ہم نے بھی دیں۔ انہوں نے عطیے دئیے ، ہم نے بھی دئیے ، یہاں تک کہ ہم گھٹنے سے گھٹنا ملا کر چلے اور ہم مقابلے کے گھوڑوں کی طرح دوڑے۔ اب انہوں نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ ہم میں ایک نبی آیا ہے جس وحی آتی ہے۔ تو ہم اسے کس طرح تسلیم کرسکتے ہیں ؟ ہم اس پر نہ ایمان لائیں گے نہ اس کی تصدیق کریں گے۔ اس پر احنس ابن شریق اسے چھوڑ کر اٹھ گیا…“۔ یہ تھے ان لوگوں کے حالات۔ یہ قرآن سے متاثر ہوتے تھے لیکن وہ زبردستی اس تاثر کو دور کرنے کی سعی کرتے۔ ان کے دل اس کی طرف کھنچتے تھے مگر وہ زبردستی اس سے دور کرتے۔ چناچہ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ نے ان کے اور قرآن کے درمیان ایسے خفیہ پردے حائل کردیے جو بظاہر نظر نہ آتے تھے مگر ۔۔۔ پردے تھے۔ وہ قرآن سے فائدہ نہ اٹھاتے تھے اور وہ قرآن سنت تھے مگر ہدایت نہ لیتے تھے۔ وہ جب سنتے تو مبہوت و محسو رہوجاتے ، لیکن واپس ہو کر پھر خفیہ مشورے کرتے۔ سازشیں کرتے اور پختہ عہد کرتے کہ اب کے بعد پھر سرے سے سنیں گے ہی نہیں تاکہ ان کے دلوں پر قرآنی اثرات نہ پڑجائیں۔ ان کا دماغ متاثر نہ ہوجائے۔ کیونکہ قرآن مجید کی تعلیمات جس نظریہ حیات اور جس عقیدہ توحید پر مبنی تھیں اس کے نتیجے میں قائم ہونے والا نظام اور معاشرہ ان کی خود ساختہ برتری اور امتیازات کو ختم کردیتا تھا اور یہ بات ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔
Top