Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِنَاثًا١ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اَفَاَصْفٰىكُمْ : کیا تمہیں چن لیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِالْبَنِيْنَ : بیٹوں کے لیے وَاتَّخَذَ : اور بنا لیا مِنَ : سے۔ کو الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اِنَاثًا : بیٹیاں اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَقُوْلُوْنَ : البتہ کہتے ہو (بولتے ہو) قَوْلًا عَظِيْمًا : بڑا بول
کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لئے ملائکہ کو بیٹیا بنا لیا ؟ بڑی جھوٹی با ت ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو
درس نمبر 721 ایک نظر میں۔ دوسرے سبق کا آغاز و انجام عقیدہ توحید کے بیان اور رد شرک کے مضمون کے ساتھ ہوا ، اور اس آغاز و انجام کے درمیان بیشمار احکام امرو ونہی اور بیشمار آداب و اخلاق بیان ہوئے جو سب کے سب عقیدہ توحید کے ساتھ مربوط تھے اور اسلامی نظریہ حیات کے تقاضے تھے۔ اس سبق کا آغاز و انجام بھی شرک کی ایک مخصوص قسم کے رد کے ساتھ ہوتا ہے ، یعنی یہ کہ اللہ کا کوئی بیٹا اور شریک نہیں ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ اللہ کے لیے بیٹا ہونا ایک ایسا نظریہ ہے جس کی کمزوری اور لچرپن بالکل واضح ہے۔ کیونکہ یہ پوری کائنات اللہ وحدہ کی مخلوق ہے اور سب چیزیں اس ثنا خواں اور تسبیح گویا ہیں۔ وان من شئی الا یسبح بحمدہ (71 : 44) ” جو چیز بھی ہے وہ اس کی تعریف کے ساتھ اس کی ثنا خواں ہے “۔ اور تمام اشیاء کا انجام ایک ہے اور سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور جو چیزیں بھی زمین و آسمان میں ہیں وہ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ اور اللہ وحدہ اپنی مخلوقات کے اندر جو تصرفات بھی کرتا ہے ، کوئی اس کے معامالت میں اس سے باز پرس نہیں کرسکتا۔ ان یشاء یرحمکم او ان یشاء یعذبکم (71 : 45) ” اگر چاہے تو تم پر رحم کردے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے “۔ اس سبق کے درمیان بتایا جاتا ہے کہ شرکیہ عقائد کمزور اور غیر معقول ہیں اور ذات باری تعالیٰ وحدہ ، حاکم ، مطاع ، ضاحب قدرت ، متصرف اور تمام معاملات کائنات میں خود مختار ہے۔ اور اسے کوئی بھی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ دنیاوی امور میں اس کے ہاتھ میں ہیں ، اخروی بھی اس کے ہاتھ میں ہیں ، ظاہری بھی اور خفیہ بھی۔ اور یہ پوری کائنات اللہ کی مطیع فرمان ہے ، اس کی طرف متوجہ ہے اور اس کی تعریف اور تسبیح کرتی ہے۔ اور اس کام میں انسان ، حیوان ، چرند ، پرند اور تمام اشیاء شامل ہیں۔ یہ استفہام انکاری ہے ، اور یہ انداز اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب مخاطب کو یہ بتانا مقصو ہو کہ تمہاری یہ حرکت بہت ہی بری ہے۔ تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ حالانکہ اللہ بیوی ، اولاد ، مثلا اور مثال سے پاک ہے۔ اور اس کا کوئی شبیہ او کوئی شریک نہیں ہے۔ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے لئے تو لڑکیوں کو معیوب سمجھتے ہیں اور اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور خود رزق کے خوف ور عار لاحق ہونے کی وہج سے بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں اور اس کے باوجود فرشتوں کو لڑکیاں قرار دیتے ہیں اور انہیں اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ تو اگر لڑکے اور لڑکیاں دینے والا اللہ ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسروں کو لڑکے دے اور اپنے لئے لڑکیاں رکھے جو درجے میں لڑکوں سے کم ہیں۔ یہ ستدلال محض اس کے رواج کے مطابق کیا گیا ، کیونکہ ان کے ہاں لڑکوں کو برا سمجھا جاتا تھا اور لڑکوں کو اچھا تاکہ یہ بتایا جائے کہ کود ان کے تصورات کے مطابق بھی۔ ان کا قول کمزور ہے۔ ورنہ بات درحقیقت اپنی اصل ہی سے غلط تھی۔ انکم لتقولون قولا عظیما (71 : 04) ” بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبان سے نکالتے ہو “۔ یہ برائی کے اعتبار سے بہت ہی بڑی بات ہے اور یہ اللہ کی شان میں بری جسارت ہے اور نہایت ہی گندی بات ہے اور یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور اسلامی عقائد ، قرآنی آیات اور حقائق کے ساتھ متصادم ہے اور ناقابل یقین و تصدیق ہے۔
Top