Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
وَاخْفِضْ : اور جھکا دے لَهُمَا : ان دونوں کے لیے جَنَاحَ : بازو الذُّلِّ : عاجزی مِنَ : سے الرَّحْمَةِ : مہربانی وَقُلْ : اور کہو رَّبِّ : اے میرے رب ارْحَمْهُمَا : ان دونوں پر رحم فرما كَمَا : جیسے رَبَّيٰنِيْ : انہوں نے میری پرورش کی صَغِيْرًا : بچپن
اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو ، پروردگار ، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا
واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ (71 : 42) ” اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو “۔ یہاں نہایت ہی نرم اور شفاف انداز بیان اختیار کیا گیا ہے انداز بیان کے اندر اطاعت اور بندگی اور وفا شعاری کو مجسم کردیا گیا ہے یعنی اس طرح بچھ جائو اور اس قدر برخوداری اختیار کرو کہ گویا ” جھکنا “ ایک مجسم پرندے کی شکل میں کھڑا ہے اور اس کے پر ہیں اور اس نے اپنے پر بھی بچھا رکھے ہیں۔ وقل رب ارحمھما کما زبینی صغیرنا (71 : 42) ” اور دعا کیا کرو ، پروردگار ، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا “۔ خوشگوار یادیں ہیں۔ محبت کی یادیں بچپن کی یادیں اور ماں اور باپ کی محبت کی یادیں۔ لیکن اس یاد سے انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ اب یہ مشفق والدین اسی طرح تمہاری شفقت کے محتاج و ۔۔۔ ہیں۔ جس طرح تم تھے اور دعا اس لئے کی گئی کہ انسانی شفقت و رحمت کے مقابلے میں اللہ کی رحمت و شفقت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اللہ کی رحمت و شفقت کا دائرہ نہایت ہی وسیع ہے اور انہوں نے اپنی اولاد کے ساتھ جو محنت و مشقت کی ہے اس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔ اولاد کے لئے یہ ممکن ہے کہ والدین کو وہ رحم اور شفقت دے سکیں جس کے وہ حق دار ہیں۔ حافظ ابوبکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ انہوں نے حضرت برید سے انہوں نے اپنے والد سے کہ ایک شخص طواف میں تھا اور وہ اپنی والدہ کو اٹھا کر طواف کرا رہا تھا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں نے اسی طرح اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ” نہیں “۔ بلکہ ایک سانس کے برابر بھی نہیں۔ انسان کے تمام تاثرات اور حرکات چونکہ انسانی نظریہ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور نظریہ کی اساس پر وجود میں آتے ہیں اس لئے ان تمام احکام کے آخر میں تمام امور کو اللہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے ، جو نیتوں کو جانتا ہے اور احوال اور افعال کے پیچھے جو نیت ہے ، اس سے بھی واقف ہے۔
Top