Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 103
فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًاۙ
فَاَرَادَ : پس اس نے ارادہ کیا اَنْ : کہ يَّسْتَفِزَّهُمْ : انہیں نکال دے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین فَاَغْرَقْنٰهُ : تو ہم نے اسے غرق کردیا وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ جَمِيْعًا : سب
آخر کار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے ، مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کردیا
فاراد ان یستفزھم من الارض (71 : 301) ” آخر کار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے “۔ تمام ڈکٹیٹر اور سرکش لوگ کلمہ حق کے بارے میں یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔ ان کے پاس کلمہ حق کا یہی جواب ہوتا ہے۔ اس مقام پر آکر ایسے سرکشوں پر اللہ کا کلمہ اور اللہ کی سنت کا اطلاق برحق ہوجاتا ہے اور پھر اللہ کی اٹل سنت کے مطابق ، ظالموں کو ہلاک کردیا جاتا ہے اور زمین کے اندر جو کمزور اہل ایمان اور صبر کرنے والے طبقات ہوتے ہیں ، ان کو زمین کو وارث بنا دیا جاتا ہے۔ فاغرقنہ………(401) (71 : 301۔ 401) ” مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کردیا اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو ، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پورا ہوگا ، تو ہم تو سب کو ایک ساتھ لاحاضر کریں گے “۔ یہ تھا انجام آیات الٰہی کے جھٹلانے کا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین کے اقتدار کا وارث ان لوگوں کو بنایا ، جو زمین میں پسے ہوئے تھے۔ اور اب ان کو کہا گیا کہ تمہارے مستقبل کا دار و مدار تمہارے اعمال و افعال پر ہوگا۔ اس سورت کے آغاز میں بتا دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا تھا ؟ یہاں صرف یہ کہا جاتا ہے کہ تم اور تمہارے دشمن اب قیامت کے سپرد ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو تم سب کو لپیٹ کر اللہ لے آئے گا۔ یہ تھی مثال اس پیغمبر کی جو نو خوارق عادت معجزات لے کر آئے اور ان کا استقبال جھٹلانے والوں نے اس طرح کیا۔ اور اللہ کی اٹل سنت نے پھر اپنا کام یوں کیا۔ رہا یہ قرآن تو یہ تو ایک ابدی سچائی لے کر آیا ہے۔ اور اسے تھوڑا تھوڑا کرکے وقفے وقفے کے بعد نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کو پڑھ کر مہلت بعد مہلت کے ساتھ سنائیں۔
Top