Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hijr : 85
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْنَا : پیدا کیا ہم نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَآ : ان کے درمیان اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک السَّاعَةَ : قیامت لَاٰتِيَةٌ : ضرور آنیوالی فَاصْفَحِ : پس درگزر کرو الصَّفْحَ : درگزر کرنا الْجَمِيْلَ : اچھا
“ ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے ، اور فیصلے کی گھڑی یقیناً آنے والی ہے ، پس اے نبی ﷺ (ان لوگوں کی بیہودگیوں پر ) شریفانہ درگذر سے کام لو۔
درس نمبر 118 ایک نظر میں یہ ہیں وہ سنن الٰہیہ جن میں تخلف ممکن نہیں ہے۔ یہ کائنات اللہ کے ان نوامیس اور سنن کے مطابق چلتی ہے۔ یہی قوانین و نوامیس کائنات اور زندگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جماعت اور تحریکات کو بھی یہی کنٹرول کرتے ہیں۔ ہدایت و ضلالت کے نتائج بھی ان نوامیس الٰہیہ کے مطابق برآمد ہوتے ہیں۔ اقوام کا انجام اور آخرت کا حساب و کتاب بھی انہی نوامیس فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس سورة کا ہر سبق انہی نوامیس فطرت اور سنت الٰہیہ کے مطابق اختتام پذیر ہوتا ہے اور مختلف اسالیب میں سنن الٰہیہ کو پیش کرتا ہے۔ یہ نوامیس فطرت اللہ کی تمام مخلوقات کے اندر پائے جاتے ہیں اور یہی حق ہے اور فطرت کائنات اسی حق پر قائم ہے۔ چناچہ اس سورة کے خاتمے پر اس عظیم سچائی کو واضح کر کے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سچائی زمین و آسمان اور ان کے درمیان پائے جانے والے تمام موجودات کی فطرت میں عیاں ہے۔ یہ کہ قیامت برپا ہونے والی ہے۔ یہ اس کائنات کا فطری انجام ہے اور اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے ، اور یہ کہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہے اور اس ناموس فطرت کے مطابق ہے۔ تمام رسولوں کے درمیان قدرت مشترک یہ ہے کہ وہ ایک ہی عظیم حق کے حامل ہیں جو روشن ہے۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ یہ سچائی تمام مخلوقات کے اندر موجود ہے ، اور اللہ ہی اس سچائی کا خالق ہے۔ ان ربک ھو الخلق العلیم (15 : 86) “ یقیناً تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے ”۔ لہٰذا اس سچائی کو آگے بڑھنا چاہئے اور اس سچائی پر جو اسلامی دعوت برپا ہے اسے چاہئے کہ وہ آگے بڑھے۔ داعیان حق کسی کی پرواہ نہ کریں اور آگے بڑھیں۔ اور دعوت کے مخالفین اور مذاق اڑانے والوں کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ فاصدع بما تومر واعرض عن المشرکین ( 15 : 94) “ آپ ﷺ کو جو حکم دیا جاتا ہے اسے صاف صاف بتائیں اور مشرکین کو نظر انداز کردیں ”۔ اللہ کی سنت بھی اپنی راہ پر گامزن ہے ، وہ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹی۔ سنت الٰہیہ کی پشت پر جو سچائی ہے اور یہ سچائی دعوت اسلامی ، قیام قیامت اور تخلیق ارض سے وابستہ ہے۔ یہ سچائی ان تمام چیزوں سے متعلق ہے جو زمین و آسمان میں موجود ہیں اور جو اخلاق علیم کی پیدا کردہ ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی اور تنبیہ ہے جس پر اس سورة کا خامتہ ہو رہا ہے اور یہ تنبیہ انسان کو اس عظیم سچائی کی طرف متوجہ کرتی ہے جس پر یہ وجود قائم ہے۔ آیت نمبر 85 تا 86 یہ تبصرہ کہ آسمان و زمین کی تخلیق ایک سچائی کے ساتھ ہوئی ہے ایک عظیم اور اہم تبصرہ ہے یعنی یہ کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو چیزیں بھی ہیں یہ سچائی کے ساتھ پیدا کردہ ہیں۔ یہ انداز بیان بھی عجیب ہے کہ تمام موجودات حق کے سوا کسی اور ناموس پر پیدا نہیں کئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس فقرے کا حقیقی مفہوم کیا ہے ؟۔ وما خلقنا السموت والارض وما بینھما الا بالحق (15 : 85) “ ہم نے آسمان و زمین کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ”۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق میں سچائی کا گہرا دخل ہے۔ یہ سچائی کائنات کی گہرائیوں میں ہے۔ کائنات کی رفتار کے ضابطے میں سچائی موجود ہے۔ کائنات کا انجام اور خاتمہ بھی حق پر ہوگا۔ اس کائنات کے وجود میں سچائی ہے اور اس کی منصوبہ بندی اور اس کے نقشہ تخلیق میں سچائی ہے ، یعنی یہ کہ یہ بطور کھیل تماشا پیدا نہیں کی گئی۔ نہ یہ کائنات اتفاقاً وجود میں آگئی ہے۔ اس کے اصل نقشے اور منصوبے میں نہ دھوکہ و فریب ہے ، نہ کھوٹ ہے اور نہ یہ باطل مخلوق ہے۔ اس پر اگر بظاہر باطل چھایا ہوا نظر آتا بھی ہے تو وہ اوپر ہوا ہوتا ہے ، باطل اس کائنات کے حقیقی عناصر میں سے نہیں ہے۔ اس کائنات کی ساخت میں سچائی بہت گہری ہے۔ اس کے عناصر ترکیبی وہ ہیں جو حق کے عناصر ترکیبی ہیں۔ اس میں نہ وہم ہے ، نہ فریب ہے۔ وہ قوانین جو عناصر کائنات کو جوڑے رکھتے ہیں ، وہ سچائی پر مبنی ہیں اور ان قوانین میں کبھی بھی تخلف نہیں ہوتا۔ نہ ان میں تبدیلی آتی ہے اور نہ ان میں اضطراب ہوتا ہے۔ نہ ان میں کوئی التباس اور افراتفری ہوتی ہے۔ اس کائنات کی تدبیر اور کنٹرول نہایت ہی گہرے ضوابط پر ہے۔ اور اسے سچائی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔ اس کائنات کے چلانے کے لئے جو نوامیس و ضوابط وضع کئے گئے ہیں وہ صحیح اور عادلانہ ہیں۔ اس کائنات کے انجام میں بھی حق گہرائی تک رچا بسا ہے۔ نہایت ہی محکم قوانین کے مطابق اس کائنات کے تمام نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان اشیاء کے اندر جو تغیر و تبدل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سچائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان اشیاء کے اندر جو تغیر و تبدل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سچائی کے ساتھ ہوتا ہے اور سچائی کے لئے ہوتا ہے ۔ اس کائنات میں جزاء و سزا کا ہر واقعہ اور ہر اصول سنت الٰہیہ کے مطابق ہے اور کوئی واقعہ سنت الہٰیہ کے برخلاف وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت جو یقیناً وقوع پذیر ہونے والی ہے ، وہ اسی سچائی کا نتیجہ ہے ، کیونکہ کائنات کی تخلیق حق کے ساتھ ہوئی ہے ، لہٰذا قیامت نے ایک دن واقعہ ہونا ہے ، یہ ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ جس ناموس کے مطابق یہ کائنات قائم و دائم ہے اور رواں دواں ہے ، اسی حق کا تقاضا ہے کہ ایک دن قیامت آئے۔ یہ بذات خود حق ہے۔ جب قیامت حق ہے تو اس کا وقوع بھی حق ہے۔ فاصفح الصفح الجمیل (15 : 85) “ لہٰذا ان لوگوں کی بیہودگیوں پر شریفانہ درگذر سے کام لیں ”۔ اور اپنے دل کو تنگ نہ کریں ، اور کسی کے ساتھ بغض و عداوت نہ رکھیں کیونکہ سچائی بہرحال سچ ہو کر رہنے والی ہے۔ ان ربک ھو الخلق العلیم ( 15 : 86) “ بیشک تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے ”۔ وہ پیدا کرنے والا ہے ، وہ جانتا ہے کہ اس نے کیا پیدا کیا اور کیوں پیدا کیا ؟ چونکہ اس نے سب کچھ پیدا کیا ہے لہٰذا ہر چیز کی ماہیت میں حق و دیعت شدہ ہے۔ لہٰذا جس طرح سچائی سے اس جہان کا آغاز ہوا اسی طرح سچائی پر اس کا اختتام ہوگا ۔ کیونکہ سچائی اس کائنات کی اصل ماہیت ہے اور سچائی کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ باطل ہے ، کھوٹ ہے ، ختم ہونے والی ہے اور زندہ و تابندہ اور دائماً سچائی نے رہنا ہے جو قلب کائنات کے اندر ودیعت شدہ ہے۔ رسول جو پیغام لے کر آئے ہیں وہ بھی اس کائناتی سچائی ہی کا ایک حصہ ہے ، اور اس کا ظہور بشکل قرآن ہے ، جو حضرت نبی ﷺ کو دیا گیا۔
Top