Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hijr : 67
وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَجَآءَ : اور آئے اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : شہر والے يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے
” اتنے میں شہر کے لوگ خوشی کے مارے بیتا ہو کر لوط (علیہ السلام) کے گھر چڑھ آئے “۔
آیت نمبر 67 اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فسق و فجور اور فحاشی وبے حیائی کی حدیں پار کر گئے تھے اور یہ قوم سب کی سب اخلاقی مریض تھی۔ یہ منظر کس قدر عجیب و شرمناک ہے کہ یہ لوگ گروہ در گروہ آرہے ہیں ، خوشیاں منا رہے ہیں اور اعلانیہ کہہ رہے کہ آج خوب شکار ہاتھ آیا ہے۔ ایک تو برائی اور بےراہ روی ہے ، دوسرے یہ کہ یہ اعلانیہ اور دیدہ دلیری سے کی جا رہی ہے۔ کوئی بھی صحت مند انسانی معاشرہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایک فرد تو یہ رویہ کبھی کبھار اختیار کرسکتا ہے لیکن وہ بھی اپنی بیماری کو چھپاتا ہے۔ وہ یہ بےراہ لذت خفیہ طور پر حاصل کرسکتا ہے اور اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے شرمندگی سے بچا سکتا ہے ۔ لیکن ایک پورا معاشرہ اعلانیہ ایسا کرے اس لیے کہ اگر جنسی لذت سے کوئی سلیم الفطرت شخص جائز حدود کے اندر بھی لطف اندوز ہوتا ہے تو وہ بھی خفیہ طور پر ایسا کرتا ہے۔ بعض حیوانات بھی جنسی ملاپ کو چھپاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو دیکھو کہ یہ لوگ میلے ٹھیلے کی طرح اعلانیہ اس فحاشی کے لئے جا رہے ہیں ، اس کا اعلانیہ مطالبہ کرتے ہیں ، ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور اجتماعی شکل میں اس کام کے لئے آتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ انسانی سوسائٹی کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ان حالات میں ، نہایت بےبسی کے حالات میں ، حضرت لوط (علیہ السلام) نہایت ہی کربناک اور اندوہناک حال پریشانی میں کھڑے ہیں ، وہ اپنے مہمانوں اور اپنی آبرو بچانے کی سعی کرتے ہیں ، وہ انہیں انسانی شرافت اور انسانی قدروں کا واسطہ دے رہے ہیں ، وہ ان کو خدا سے ڈراتے ہیں ، وہ اللہ کا واسطہ دے رہے ہیں ، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے دل خدا خوفی سے عاری ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں میں نہ آدمیت کا احساس ہے ، نہ انسانی شعور ہے ، اور نہ ان کے اندر خدا خوفی اور تقویٰ نام کی کوئی چیز ہے۔ لیکن وہ اس حالت پریشانی میں بھی بہرحال اپنی آخری کوشش کرتے ہیں اور انہیں انسانیت کا واسطہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو مہمان ہیں اور خدا سے ڈراتے ہیں کہ تمہارے جو ارادے ہیں وہ خدا کے حکم کے خلاف ہیں ، بہرحال وہ سعی کرتے ہیں۔
Top