Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ
: اور
الْمُحْصَنٰتُ
: خاوند والی عورتیں
مِنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
اِلَّا
: مگر
مَا
: جو۔ جس
مَلَكَتْ
: مالک ہوجائیں
اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے داہنے ہاتھ
كِتٰبَ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم ہے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَاُحِلَّ
: اور حلال کی گئیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مَّا وَرَآءَ
: سوا
ذٰلِكُمْ
: ان کے
اَنْ
: کہ
تَبْتَغُوْا
: تم چاہو
بِاَمْوَالِكُمْ
: اپنے مالوں سے
مُّحْصِنِيْنَ
: قید (نکاح) میں لانے کو
غَيْرَ
: نہ
مُسٰفِحِيْنَ
: ہوس رانی کو
فَمَا
: پس جو
اسْتَمْتَعْتُمْ
: تم نفع (لذت) حاصل کرو
بِهٖ
: اس سے
مِنْھُنَّ
: ان میں سے
فَاٰتُوْھُنَّ
: تو ان کو دو
اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً
: ان کے مہر مقرر کیے ہوئے
وَلَا
: اور نہیں
جُنَاحَ
: گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
فِيْمَا
: اس میں جو
تَرٰضَيْتُمْ
: تم باہم رضا مند ہوجاؤ
بِهٖ
: اس سے
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
الْفَرِيْضَةِ
: مقرر کیا ہوا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
والمحصنت من النسآء اور حرام کردی گئی ہیں شوہروں والی عورتیں۔ یعنی شوہروں والی عورتوں سے کسی دوسرے کا نکاح اس وقت تک درست نہیں جب تک ان کے شوہر مر نہ جائیں یا طلاق نہ دے دیں اور عدت وفات یا عدت طلاق گزر نہ جائے۔ سہاگن عورتوں کو محصنات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ نکاح اور بیاہ سے ان کا تحفظ ہوجاتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت ہے کہ اس آیت کا نزول ان مہاجر عورتوں کے متعلق ہوا جو خود بغیر شوہر کے مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آجاتی تھیں اور بعض مسلمان ان سے نکاح کرلیتے تھے پھر ان کے شوہر مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آجاتے تھے اللہ نے ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کی اس آیت میں ممانعت فرما دی۔ میں کہتا ہوں شاید اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ آزاد عورت اگر ہجرت کر کے آجائے اور اس کا شوہر مسلمان ہو تو خواہ وہ دارالحرب میں ہی ہو مگر اس عورت کا جدید نکاح جائز نہیں کیونکہ دین دونوں کا ایک ہے اگرچہ حکماً وطینت کا اختلاف ہے لیکن اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر ہجرت کر آئے اور اس کا شوہر مسلمان نہ ہو اور دارالحراب میں موجود ہو تو ایسی عورت کا جدید نکاح درست ہے اللہ نے فرمایا ہے : یٰٓآیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا جَآءَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بایْمَانِہِنَّ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ لاَہُنَّ حِلٌّ لَہُمْ وَلاَہُمْ یَحِلُوْنَ لَہُنَّ ۔۔ اِلٰی وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّیعنی اگر مؤمن عورتیں تمہارے پاس ہجرت کر کے آجائیں تو ان کی جانچ کرلو اگر جانچ کے بعد وہ مومن ثابت ہوں تو پھر کافروں کے پاس ان کو واپس نہ بھیجو نہ وہ ان (کافروں) کے لئے حلال ہیں نہ وہ (کافر) ان کے لئے حلال ہیں۔۔ الی قولہ اور ان سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن امام اعظم (رح) اور صاحبین (رح) کے نزدیک دارالحرب سے نکلتے ہی مؤمن عورت کی اپنے کافر شوہر سے فرقت ہوجاتی ہے کیونکہ وطینت حقیقتہً بھی بدل جاتی ہے اور حکماً بھی۔ امام صاحب (رح) کے نزدیک فرقت کے بعد کوئی عدت بھی نہیں ہے لیکن صاحبین کے نزدیک عدت لازم ہے۔ امام مالک (رح) ‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک مسلمان ہونے کے وقت سے تین حیض ہوجانے کے بعد فرقت کا حکم ہوگا بشرطیکہ شوہر نے اس سے قربت کی ہو اور قربت نہ کی ہو تو مسلمان ہوتے ہی فرقت کا حکم ہوجائے گا وطینت کے اختلاف سے ان ائمہ کے نزدیک کوئی اثر نہیں پڑتا۔ الا ما ملکت ایمانکم مگر جو تمہاری مملوک ہوجائیں۔ عطاء نے کہا اس استثناء کی مراد یہ ہے کہ اگر کسی کی باندی اسی کے غلام کے نکاح میں ہو تو غلام کے نکاح سے نکال لینے کا اس کو حق ہے مگر یہ قول باجماع سلف غلط ہے صحیح وہ ہے جو مسلم اور ابو داؤد اور ترمذی اور نسائی نے حضرت ابو سعید ؓ خدری کی روایت سے لکھا ہے ابو سعید کا بیان ہے کہ جنگ اوطاس میں ہم نے کچھ عورتیں گرفتار کی تھیں جن کے شوہر موجود تھے۔ ہم نے ان سے قربت کرنی مناسب نہیں سمجھی اور رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو عورتیں غنیمت جنگ میں تم کو اللہ نے دی ہوں اور تم نے ان سے حلال سمجھ کر قربت کی ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول جنگ حنین کے دن ہوا۔ فتح حنین کے دن مسلمانوں کو کچھ عورتیں ہاتھ لگیں جو اہل کتاب کی تھیں اور ان کے شوہر موجود تھے اگر کوئی مسلمان ان میں سے کسی عورت سے قربت کرنی چاہتا تھا تو وہ کہتی تھی میرا شوہر ہے یہ مسئلہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت گرفتار ہو کر آئے خواہ شوہر کے ساتھ یا بغیر شوہر کے بہرطور شوہر سے فرقت ہوجاتی ہے اور جو اس عورت کا مالک ہو اس کے لئے اس عورت سے قربت درست ہے لیکن استبراء ضروری ہے کیونکہ اوطاس کے دن رسول اللہ ﷺ کے منادی نے نداء کردی تھی کہ حاملہ عورتوں سے وضع حمل سے پہلے نکاح نہ کیا جائے اور نہ غیر حاملہ عورتوں سے جب تک ان کو حیض نہ آجائے۔ اسی طرح مالک کو اختیار ہے کہ وہ مملوکہ کا کسی اور سے نکاح کرا دے اور یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ کسی عورت کے قیدی بنا لینے کا تقاضا یہی ہے کہ قید کرنے والے کو جس طرح قیدی کی ذات کی ملکیت خالص طور پر حاصل ہوجاتی ہے اسی طرح قیدی سے کامل نفع اندوزی کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔ امام مالک (رح) ‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد کا یہی قول ہے ان ائمہ کا بیان ہے کہ اوطاس کی لڑائی میں عورتوں کو ان کے شوہروں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ امام اعظم نے فرمایا کہ صرف قید ہونے سے ہی کسی عورت کی فرقت کا حکم نہیں ہوجاتا ‘ ہاں اگر صرف ایک گرفتار ہو دوسرا گرفتار نہ ہو (تو محض گرفتاری سے ہی فرقت کا حکم ہوجائے گا) امام صاحب کے نزدیک وطنیت کا حقیقی اور حکمی اختلاف موجب فرقت ہے قیدی ہوجانا موجب فرقت نہیں۔ احناف کا مقولہ ہے کہ وطنیت کے اختلاف سے مصالح نکاح کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے گویا وطنیت کا اختلاف محرم ہونے کی طرح ہے اور گرفتاری کا تقاضا ہے کہ مملوک کی ذات کی خالص ملکیت مالک کو حاصل ہو رہا کامل طور پر صنفی تمتع اندوزی تو یہ ضروری نہیں۔ ملکیت ذات کے لئے ملکیت تمتع لازم نہیں۔ مگر یہ نص کے مقابلہ میں قیاسی استدلال ہے (جو قابل قبول نہیں) ابن ہمام نے لکھا ہے کہ جنگ اوطاس میں تنہا عورتوں کا بغیر مردوں کے گرفتار ہونا روایت میں آیا ہے۔ ترمذی کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا ہم نے اوطاس میں کچھ عورتیں قید کیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے لوگوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ ترمذی کی روایت میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس سے یقینی طور پر صرف عورتوں کا بغیر شوہروں کے گرفتار ہونا معلوم ہوتا ہو اس لئے امام شافعی (رح) کا قول ظاہر ہے اور اگر صرف عورتوں کا بغیر شوہروں کے گرفتار ہونا ثابت بھی ہوجائے تب بھی عموم الفاظ قابل اعتبار ہے۔ خصوص سبب معتبر نہیں۔ پھر یہ بھی قابل غور ہے کہ آیت میں شوہر والی عورتوں سے استثناء ملکیت ذات کے الفاظ سے کیا گیا ہے۔ اختلاف دار (وطن) کا لفظ نہیں ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ بالاجماع آیت اپنے عموم پر نہیں ہے کیونکہ عموم آیت تو ہر مملوکہ کو شامل ہے خواہ جنگ میں گرفتار کی گئی ہو یا خریدی گئی ہو یا میراث کے ذریعہ سے ملی ہو اور یہ مسئلہ اجماعی ہے کہ اگر کوئی منکوحہ خریدی جائے تو عموم آیت اس کو شامل نہیں ہے۔ پس آیت اگرچہ عام ہے مگر اپنے عموم پر نہیں ہے بلکہ مخصوص البعض ہے اس لئے شوہر والی عورت اگر بطور غنیمت ملی ہو تو آیت کے عموم سے اس کو بھی ہم نے خاص کرلیا (کیونکہ شوہر والی عورت کو اگر خرید لیا جائے تو وہ بالاجماع مخصوص ہے اوس پر ہم نے قیدی منکوحہ کو قیاس کرلیا) میں کہتا ہوں کہ تخصیص عام خواہ ظنی ہی ہو مگر اس کے لئے دلیل شرعی ہونی چاہئے نص ہو یا اجماع ہو یا قیاس ہو صرف رائے تو تخصیص کے لئے کافی نہیں۔ اس کے علاوہ خرید کردہ منکوحہ کو بالاجماع عموم آیت سے مخصوص قرار دے دینا قابل تسلیم نہیں (ایسا کوئی اجماع نہیں ہے) بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا اللہ کی مراد اس آیت سے یہ ہے کہ جب منکوحہ باندی کو فروخت کردیا جائے تو صرف بیچنے سے ہی شوہر سے اس کی تفریق ہوجاتی ہے اور محض فروخت ہی اس کے لئے طلاق بن جاتی ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ و ابن جریر و عبد بن حمید) میں کہتا ہوں ممکن ہے کہ آیت میں محصنات سے مراد ہوں صرف وہ آزاد عورتیں جو شوہر والیاں ہوں اور ان پر قیاس کر کے منکوحہ باندیوں کو بھی ان کے ساتھ ملا دیا جائے اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ منکوحہ آزاد عورتیں تم پر حرام کردی گئی ہیں سوائے ان عورتوں کے جن کو قید کر کے باندی بنا لیا گیا ہو اس وقت خریدکردہ یا میراث میں ملی ہوئی باندی کو حکم حلت سے خاص کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی کیونکہ خریدنے (اور میراث میں آنے سے) پہلے وہ محصنہ ہی نہیں تھی ‘ مملوکہ تھی ہاں وہ قیدی عورت جس کو قید کر کے باندی بنایا گیا ہو پہلے سے باندی نہیں تھی آزاد عورت تھی۔ کتب اللہ علیکم اللہ نے ان عورتوں کی حرمت کو تم پر فرض کردیا ہے۔ عبیدہ ؓ کی روایت سے ابن جریر نے کتاب اللہ کی تشریح میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کا قول نقل کیا ہے (یعنی) چار (عورتیں تمہارے لئے مقرر کردی ہیں) اور ابن جریح کی روایت سے ابن المنذر (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ ایک سے چار تک نکاح میں لانے کی اجازت دی ہے) واحل لکم ما ورآء ذلکم اور ان مذکورہ عورتوں کے ماسوا تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے۔ حدیث اور اجماع اور قیاس کی وجہ سے وہ عورتیں جن کی حرمت کی تشریح ہم نے مذکورۂ بالا بیان میں کردی ہے اور چار سے زیادہ عورتیں اس عمومی حکم حلت سے الگ کرلی گئی ہیں۔ ان تبتغوا باموالکم حرام کردہ مذکورۂ بالا عورتوں کے علاوہ دوسری عورتوں کو طلب کرنا مال کے ساتھ (تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے) باموالکم سے مراد ہے مال دے کرلینا خواہ مہر دے کر یا خرید کر۔ محصنین غیر مسافحین پاک دامن رہتے ہوئے بغیر ناجائز تعلق کے۔ محصنین سے مراد ہیں پاکدامن باعفت کیونکہ عفت نام ہے فاحشہ (یعنی بےحیائی اور زنا) سے شرمگاہ کو اور ملامت و عذاب سے نفس کو بچانے اور محفوظ رکھنے کا۔ سفاح سے مراد ہے زنا ‘ کیونکہ سفح کا لغوی ترجمہ ہے بہانا یعنی جوہر منوی کو بےفائدہ بغیر غرض نسل کے بہانا (یہ ہی زنا ہے) ۔ اَنْ تَبْتَغُوا بامْوَالِکُمْ ۔ اَحِلَّ لَکُمْ ‘ مَاوَرَآءَ ذٰلِکُمْ سے بدل ہے کیونکہ ماورائ کی طرف حلت کی نسبت کرنے سے طلب بالمال ہی مقصود ہے کیونکہ محرمات کے علاوہ دوسری عورتیں بھی کسی کے لئے بلاشرط حلال نہیں ہیں بلکہ صحیح نکاح (1)[ اس صراحت سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت واحل لکم ماوراء ذلکمعام نہیں ہے کہ محرمات کے علاوہ ہر عورت کی حلت پر بہرطور دلالت کر رہی ہو اور نہ آیت سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ ہر طرح طلب بالمال جائز ہے بلکہ یہ امر مجمل ہے اس کے اندر وہ نکاح صحیح بھی آتا ہے جو موجب احصان ہے اور زنا بھی اس کے اندر آتا ہے (طلب بالمال دونوں میں ہوتی ہے) پس حدیث یا اجماع سے نکاح کی جو شرائط مثلاً شہادت اعلان اور ولی کی اجازت وغیرہ مقرر کی گئی ہیں وہ اس مجمل کا بیان ہیں شہادت وغیرہ کی شرط لگانے کو قرآن پر حدیث یا اجماع سے زیادتی یا خبر آحاد سے کتاب کے عموم کی تخصیص نہیں کہا جاسکتا۔ واللہ اعلم۔ (از مؤلف قدس سرہ)] یا ملکیت شرط ہے اور طلب بالمال سے یہی مراد ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اَنْ تَبْتَغُوْسے پہلے ب محذوف ہو اور اس کا تعلق احل سے ہو یعنی محرمات کے علاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے اس طور پر حلال کی گئی ہیں کہ تم ان کو مال کے عوض طلب کرو خواہ مہر کے ساتھ نکاح کرلو یا قیمت سے خرید لو۔ اس صورت میں مہر نکاح کے لئے ضروری قرار پائے گا (جیسے خریدنیکے لئے قیمت) کیونکہ حلت کے لئے طلب بالمال کی قید لگائی ہے اس کی تائید دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے اللہ نے فرمایا ہے : وَامْرَأَۃً مُّوْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا للنَّبِیِّ اِنْ اَرَاد النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَاس آیت میں صراحت ہے کہ بغیر مہر کے نکاح کا جواز صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کے لئے مخصوص تھا قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ بغیر تعیین مہر کے نکاح صحیح ہی نہ ہو مگر ہم نے قیاس کو آیت ذیل کی وجہ سے ترک کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُوا النِّسَآءَ مَالَمْ تَمَسُّوْہُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً اس آیت کے آخری فقرہ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بغیر تعیین مہر کے بھی نکاح صحیح ہوجاتا ہے۔ اسی آیت کی وجہ سے ہم نے کہا کہ نکاح کے لئے مہر لازم ہے اور نکاح کا مقتضا بھی ہے۔ مگر نکاح کے وقت مہر کا ذکر ضروری نہیں ہے اسی پر اجماع ہے۔ لیکن امام شافعی (رح) قائل ہیں کہ نکاح کے وقت اگر مہر کا ذکر نہیں کیا یہ شرط کرلی کہ مہر نہ ہوگا اور خلوت صحیحہ سے پہلے مرگیا تو عورت کا مہر واجب نہ ہوگا مگر جمہور کے نزدیک اس صورت میں خلوت سے پہلے بھی مہر مثل واجب ہے جیسے خلوت کے بعد مرجانے کی صورت میں بالاجماع مہر مثل واجب ہوتا ہے ہم کہتے ہیں کہ عورتوں کی حلت کو مال کے ساتھ آیت میں مقید کیا ہے لہٰذا بطور حق شرع مہر کا وجوب ہے اس کے علاوہ باموال میں باء الصاق کے لئے ہے یعنی حلت کو طلب بالمال کے ساتھ متصل ہونا چاہئے پس شافعی جو کہتے ہیں کہ جو عورت اپنے نفس کو بغیر ذکر مہر کے یا مہر نہ ہونے کی شرط پر شوہر کے سپرد کر دے تو اس کے مہر مثل کا وجوب جماع تک مؤخر کیا جائے گا۔ غلط ہے ورنہ باء کا مفہوم (یعنی نکاح کے ساتھ مہر کا اتصال) متحقق نہ ہوگا۔ پھر علقمہ کی روایت بھی آئی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی نے بغیر مہر مقرر کئے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور جماع کئے بغیر مرگیا ہو تو کیا حکم ہے فرمایا عورت کے لئے مہر مثل ہوگا نہ کم نہ زیادہ اور عدت لازم ہوگی اور میراثی حصہ دیا جائے گا۔ یہ سن کر حضرت معقل بن سنان اشجعی کھڑے ہوگئے اور بولے ہمارے خاندان کی ایک عورت تھی بروع بنت واشق اس کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ جیسا آپ نے کیا اس پر حضرت ابن مسعود ؓ خوش ہوگئے۔ رواہ ابو داؤد والترمذی والنسائی والدارمی۔ بیہقی نے کہا اس حدیث کی تمام سندیں اور روایتی سلسلے صحیح ہیں۔ ایک شبہ : اگر مہر لوازم نکاح میں سے ہے تو بغیر مہر کے نکاح کرنے والی عورت کو اگر جماع سے پہلے طلاق دے دی جائے تو اس کے لئے مہر لازم ہونا چاہئے۔ حالانکہ سوائے امام احمد (رح) کے اس کا کوئی قائل نہیں اور وہ بعض روایات کے لحاظ سے صرف نصف مہر مثل کے قائل ہیں لیکن صحیح روایات میں ان کا قول بھی جمہور کے قول کی طرح ہی ہے۔ ازالہ : متعہ (کپڑوں کا جوڑا وغیرہ) دینا تو اس کو بھی لازم ہے اور یہ متعہ نصف مہر کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ مسئلہ : اگر مہر نہ ہونے کی شرط پر نکاح کیا ہو تو امام مالک (رح) کے نزدیک نکاح ہی صحیح نہ ہوگا کیونکہ بیع کی طرح نکاح بھی عقد معاوضہ ہے پس جس طرح بیع بشرط عدم قیمت اجماعاً درست نہیں اسی طرح نکاح بھی بلاشرط مہر درست نہیں۔ ہم کہتے ہیں نکاح بیع کی طرح عقد معاوضہ نہیں ہے بلکہ مہر کا وجوب بحکم شرعی ہے (نکاح حقیقت میں عقد اقرار ہے اور محض تراضی کا نام ہے جس کے لئے شریعت نے مہر کو واجب کردیا ہے) تاکہ محل کی عظمت کا اظہار ہوجائے اگر بیع کی طرح عقد معاوضہ ہوتا تو بغیر ذکر مہر کے نکاح صحیح نہ ہوتا جیسے قیمت کا ذکر کئے بغیر بیع صحیح نہیں ہوتی پس مہر نہ ہونے کی شرط لغو اور فاسد ہوجائے گی اور نکاح صحیح رہے گا البتہ بیع میں چونکہ قیمت رکن ہے اس لئے بیع بغیر ذکر قیمت کے یا عدم قیمت کی شرط پر درست نہ ہوگی۔ فائدہ : یہ آیت چاہتی ہے کہ مہر مال ہو کیونکہ طلب بالمال کے ساتھ حلت مقید ہے لیکن معلوم اور مقرر منافع کا حکم بھی شرعاً مال کا ہی ہے (ان کی بھی مالی قیمت ہوتی ہے) اسی لئے نص حدیث اور اجماع کی رو سے عقد اجارہ (ٹھیکہ ‘ کرایہ داری وغیرہ) درست ہے ‘ باوجود یکہ اجارہ میں صرف منافع کی بیع ہوتی ہے مقابلہ میں کوئی مال نہیں ہوتا اور قیاس اس کے جواز سے انکار کرتا ہے پھر منافع وقت بیع موجود نہیں ہوتے (اور بیع کا بیع کے وقت موجود ہونا ضروری ہے) اور آئندہ پیدا ہونے والے منافع کی طرف اپنی ملکیت کی اور خریدار کو مالک بنانے کی نسبت ایک لغو چیز ہے (معلوم نہیں آئندہ وہ منافع پیدا بھی ہوں یا نہ ہوں) لیکن ضرورت عمومی کے تحت شریعت نے منافع کو مثل مال کے قرار دے کر اجارہ کو جائز کہا ہے مثلاً کسی مکان کو کرایہ پر لینے کا جواز قیاساً تو ممکن نہیں کیونکہ ایک طرف سے زر کرایہ مقرر ہے مگر دوسری طرف سے (مکان ہے جس کی بیع نہیں کی جا رہی ہے) مکان میں سکونت اور سردی گرمی سے حفاظت وغیرہ کے منافع وقت عقد موجود نہیں ہیں آئندہ حاصل ہونے والے ہیں (لیکن نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ یہ منافع پیدا ہو بھی سکیں گے یا نہیں) مگر مکان موجود ہے پس مکان کے وجود ہی کو وجود منافع کے قائم مقام قرار دے کر عقد اجارہ کو شریعت نے جائز رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کے لئے جانور کو سواری کے یا بوجھ لادنے کے لئے زمین کو کھیتی کرنے کے لئے اور مکان کو رہنے اور استعمال کرنے کے لئے کرایہ پر لینا دینا جائز ہے نکاح کی بھی یہی حالت ہے ‘ اجارہ کی طرح اس کی بھی ضرورت ہے۔ شوہر کی طرف سے اگر مہر میں دینے کے لئے حقیقتہً مال نہ بھی ہو تب بھی اگر منافع مقررہ کو مہر بنا دیا گیا ہو تو نکاح صحیح ہوجائے گا۔ گویا یہ بھی طلب بالمال کی ایک صورت ہوجائے گی۔ مسئلہ : اگر نکاح کے وقت یہ شرط لگائی کہ شوہر ایک سال تک بیوی کی خدمت کرے گا اور یہ یکسالہ خدمت مہر نکاح ہوگی تو امام محمد (رح) کے نزدیک خدمت یکسالہ کی قیمت واجب ہوگی کیونکہ شوہر کا بیوی کی خدمت کو مہر قرار دینا مقتضائے نکاح کے خلاف ہے نکاح کا تقاضا شوہر کی مالکیت ہے اور خدمت مقتضاء مملوکیت ہے مگر چونکہ خدمت کو مہر قرار دیا ہے اور مقرر کردہ چیز کو ادا کرنا تقاضاء عقد ہے لیکن اس کو ادا کرنے سے قاضر ہے اس لئے اس کی قیمت ادا کرنی لازم ہے۔ امام اعظم (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک مہر مثل واجب ہوگا کیونکہ منافع کو مال کے قائم مقام قرار دینا اس وقت صحیح تھا جب منافع کو ادا کرنا ممکن تھا اور جب ادائے منافع تقاضائے عقد کے خلاف ہے اور اس کی سپردگی ممکن نہیں تو منافع کو مال کے قائم مقام نہیں قرار دیا جائے گا اور مہر مثل واجب ہوگا۔ مسئلہ : اگر نکاح کے وقت یہ شرط کی کہ کوئی دوسرا آزاد ملازم ایک سال تک بیوی کی خدمت کرے گا اور یہی نکاح کا مہر ہوگا تو نکاح صحیح ہوگا اور شوہر کے ذمہ خدمت کی قیمت ادا کرنا بالاتفاق واجب ہوگا بشرطیکہ مقرر کردہ ملازم خدمت کرنے پر راضی نہ ہو یا خدمت سے اجنبی مرد کا عورت سے میل جول ہوجانا ضروری ہو۔ مسئلہ : اگر عورت کے جانور سال بھر تک چرانا یا اس کی زمین کو جوتنا ‘ بونا اور کھیتی کرنا مہر قرار دیا تو بعض روایات میں آیا ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں یہ بھی ایک طرح کی عورت کی خدمت ہے لیکن صحیح روایت میں اس کا جواز آیا ہے کیونکہ یہ عورت کی خالص خدمت نہیں ہے عام طور پر میاں بیوی مل کر مالی امور کی نگہداشت کرتے ہیں اس کی تائید حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے قصے سے ہوتی ہے اور ہماری شریعت میں اس کے خلاف کوئی حکم آیا نہیں ہے امام احمد اور ابن ماجہ نے لکھا ہے کہ حضرت عتبہ بن منذر ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ نے طٰسمکی تلاوت فرمائی جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے قصہ پر پہنچے تو فرمایا موسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی شرمگاہ کو پاک رکھنے (یعنی حضرت شعیب کی لڑکی سے نکاح کرنے) اور اپنے پیٹ کی روٹی کی شرط پر آٹھ یا دس سال کے لئے اپنی جان کو (حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے کام پر) لگا دیا۔ یہ قصہ دلیل میں اس وقت پیش کیا جاسکتا ہے جب وہ بکریاں جن کو چرانے کا موسیٰ ( علیہ السلام) نے وعدہ کیا تھا حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی صاحبزادی کی ہونا ثابت ہوجائے مگر بظاہر ایسا نہیں ہے (بلکہ قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بکریوں کے مالک حضرت شعیب ( علیہ السلام) تھے۔ پھر بیٹی کے مہر کے عوض خود اپنی بکریاں چرانے کی خدمت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کیسے لے سکتے تھے۔ مسئلہ : اگر قرآن کی کسی سورت کی تعلیم کو مہر قرار دیا تو امام مالک (رح) و امام شافعی (رح) کے نزدیک جائز ہے ایک روایت میں امام احمد کا قول بھی یہی آیا ہے۔ امام اعظم اور صحیح روایت میں امام احمد (رح) کے نزدیک ناجائز ہے اور مہر مثل دینا واجب ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرا اختلافی مسئلہ ہے سوال یہ ہے کہ حج اذان اور تعلیم قرآن ایسی عبادتوں کی اجرت لینی جائز ہے یا نہیں جو اس کو جائز کہتا ہے وہ تعلیم قرآن کو مہر قرار دینے کے جواز کا بھی قائل ہے کیونکہ جب ان عبادات کی اجرت (یعنی قیمت) ہوسکتی ہے تو ان کا شمول بھی مال کے ذیل میں ہوسکتا ہے اور جو ان عبادات کی اجرت کو ناجائز کہتا ہے وہ تعلیم قرآن کو مہر قرار دینے کا بھی مخالف ہے۔ شافعی (رح) جو تعلیم قرآن کو مہر قرار دینے کے جواز کے قائل ہیں ان کی طرف سے استدلال دو طرح سے کیا گیا ہے اوّل تو یہی کہ مطلق عبادات کی اجرت جائز ہے دوسرے خصوصیت سے تعلیم قرآن کو مہر قرار دینے کا جواز۔ اوّل مسئلہ کی تائید دو حدیثوں سے ہوتی ہے پہلی حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری ؓ ہیں کہ کچھ صحابی ؓ عرب کے کسی قبیلہ کی طرف سے گزرے قبیلہ والوں نے صحابیوں کو کھانا نہیں دیا اتفاقاً ان کے سردار کو کسی سانپ یا بچھو نے ڈس لیا ‘ اہل قبیلہ نے صحابہ ؓ سے پوچھا کیا تمہارے پاس اس کی کوئی دوائی ہے یا کوئی منتر پڑھنے والا ہے صحابہ ؓ نے کہا تم نے چونکہ ہماری میزبانی نہیں کی اس لئے بغیر اجرت مقرر کئے ہم منتر دم نہیں کریں گے۔ آخر ان لوگوں نے بکریوں کا ایک گلہ دینے کا اقرار کیا اور حضرت ابو سعید ؓ سورة فائحہ پڑھ کر تھتکارنے لگے یہاں تک کہ وہ شخص اچھا ہوگیا اور قبیلہ والے بکریاں دینے لگے۔ صحابہ ؓ نے کہا جب تک ہم رسول اللہ ﷺ سے دریافت نہ کرلیں گے بکریاں نہیں لیں گے چناچہ حضور ﷺ سے (حاضر ہو کر) دریافت کیا۔ آپ ہنس دیئے اور فرمایا تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ منتر ہے ‘ بکریاں لے لو اور میرا بھی ان میں حصہ مقرر کر دو ۔ دوسری حدیث کے راوی حضرت ابن عباس ؓ ہیں کہ چند صحابی ؓ ایک پانی (چشمہ) کی طرف سے گزرے وہاں ایک شخص کو بچھو یا سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ مقامی باشندوں میں سے ایک شخص سامنے آیا اور اس نے پوچھا کیا تم میں سے کوئی منتر جانتا ہے (صحابہ ؓ میں سے ایک آدمی نے جا کر سورة فاتحہ پڑھ دی ‘ وہ شخص اچھا ہوگیا۔ سورة فاتحہ پڑھ کر دم کرنے والا وہاں سے بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا ‘ ساتھیوں نے اس فعل کو برا سمجھا اور کہا تو نے کتاب اللہ کی مزدوری لی ہے جب سب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اس شخص نے کتاب الٰہی کی مزدوری لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے سب سے زیادہ اجر لئے جانے کی مستحق تو اللہ کی کتاب ہی ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تم نے ٹھیک کیا اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگا لو۔ یہ دونوں حدیثیں صحیحین میں مذکور ہیں۔ خارجہ بن صلت کے چچا کی روایت سے ایسی ہی حدیث ‘ امام احمد اور ابوداؤد نے بھی نقل کی ہے ان دونوں حدیثوں کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ جن سے بکریاں لی تھیں کافر تھے اور ان کا مال لینا جائز ہے ایک بات یہ بھی ہے کہ منتر کوئی خالص عبادت نہیں اس لئے اس کی اجرت لینی جائز ہے (اور تعلیم قرآن محض عبادت ہے) نمبر دوئم کی دلیل میں امام شافعی (رح) کی طرف سے حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت کردہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے حضور ﷺ کے لئے اپنے آپ کو ہبہ کیا یہ کہہ کر وہ دیر تک کھڑی رہی۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس کا نکاح مجھ سے کرا دیجئے بشرطیکہ آپ ﷺ کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ فرمایا مہر میں دینے کے لئے تیرے پاس کوئی چیز ہے۔ اس نے عرض کیا سوائے اس تہبند کے جو میں باندھے ہوئے ہوں اور کچھ نہیں ہے فرمایا کچھ تلاش کرو خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو اس شخص کو جستجو کے بعد بھی کچھ نہیں ملا تو حضور ﷺ نے فرمایا کیا تجھے کچھ قرآن آتا ہے اس نے جواب دیا جی ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں فرمایا تجھے جو قرآن آتا ہے اس (کی تعلیم) کے عوض میں نے اس عورت کو تیرے نکاح میں دیا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جا میں نے اس کو تیرے نکاح میں دیا اس کو قرآن سکھا دینا۔ متفق علیہ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح بغیر مہر کے اپنے نکاح میں لے آنا حضور ﷺ کے لئے خاص تھا اسی طرح بغیر مہر کے اس عورت کا نکاح کرا دینا جس نے اپنے نفس کا اختیار دے دیا ہو آپ ﷺ کے لئے مخصوص تھا۔ ابن جوزی نے مکحول کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کا نکاح تعلیم قرآن کے عوض کرا دیا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کو اس کی اجازت نہیں ‘ اسی طرح ملحاوی نے لیث کا قول لکھا ہے کہ رسول اللہ کے بعد یہ کسی کے لئے جائز نہیں۔ ابن جوزی نے اس حدیث کا یہ بھی جواب دیا ہے کہ شروع اسلام میں افلاس کی مجبوری کی وجہ سے ایسا تھا۔ میں کہتا ہوں گویا ابن جوزی نے اس حکم کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا حالانکہ نسخ صرف احتمال سے ثابت نہیں ہوتا۔ نہ رسول اللہ ﷺ کے لئے اس حکم کے خاص ہونے کی کوئی دلیل ہے۔ امام اعظم (رح) کے قول کو ثابت کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔ (2) [ لا تفعلواحد سے تجاوز نہ کرو ‘ صاحب نہایہ نے لکھا ہے کہ حضور کو جن اخلاق و آداب کا حکم دیا گیا تھا ان میں سے ایک امر یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ ہر کام میں حد اعتدال پر قائم رہیں حد اوسط ہی سب سے افضل ہے افراط وتفریط دونوں بری ہیں۔] عموماً عبادت کی اجرت لینا جائز نہیں نمبر (3) [ یعنی قرآن کی نگہداشت کرو اس کی تلاوت سے دور نہ ہوجاؤ۔ جفاء کا معنی ہے دوری۔ نہایہ۔ (از مؤلف قدس سرہ)] خصوصیت کے ساتھ تعلیم مہر نہیں بن سکتی۔ نمبر اول کا ثبوت چند احادیث سے ملتا ہے حضرت عبادہ بن صامت کا بیان ہے کہ میں نے اصحاب صفہ میں سے کچھ لوگوں کو لکھنا سکھا دیا اور قرآن پڑھا دیا ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان تحفہ میں دے دی ‘ میں نے خیال کیا اس سے جہاد میں تیر اندازی کروں گا اور رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا فرمایا اگر آگ کا طوق پہنایا جانا تم کو پسند ہو تو قبول کرلو۔ رواہ احمد و ابوداؤد۔ اس روایت کی سند میں ایک شخص مغیرہ ہے جس کو ابن جوزی (رح) نے ضعیف کہا ہے۔ دوسری حدیث حضرت ابی بن کعب ؓ کی روایت کردہ ہے حضرت ابی نے فرمایا میں نے ایک شخص کو قرآن سکھایا اس نے مجھے ایک کمان ہدیہ میں دی۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا اگر تو اس کو لے لے گا تو آگ کی کمان لے گا یہ سن کر میں نے واپس کردی۔ رواہ ابن الجوزی۔ ایک اور حدیث حضرت عبدالرحمن بن سہل انصاری کی روایت سے آئی ہے حضرت عبدالرحمن نے کہا میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے قرآن پڑھو مگر حد 1 سے تجاوز نہ کرو اور نہ اس سے دور 2 ہوجاؤ (کہ بالکل ہی پڑھنا چھوڑ دو ) اور نہ اس کے عوض کچھ کماؤ (یعنی تعلیم قرآن کو کمائی مت بناؤ) اور نہ اس پر مغرور بنو (یعنی قرآن کا علم سیکھ کر مغرور نہ بن جاؤ) رواہ الطبرانی۔ حضرت مطرف بن عبداللہ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان بن عاص نے عرض کیا مجھے میری قوم کا امام بنا دیجئے فرمایا (اچھا امامت کرو مگر) قوم میں جو شخص سب سے کمزور ہو اس کا لحاظ رکھنا اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان کی اجرت نہ لے۔ رواہ احمد (ان تمام روایات سے عبادات کی اجرت لینے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے تعلیم قرآن ہو یا اذان) نمبر 2 اگر ہم دوسری عبادات کی اجرت لینے کو جائز بھی تسلیم کرلیں تب بھی تعلیم قرآن کی اجرت لینی جائز نہیں ہوسکتی کیونکہ اجارہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ کام معلوم ہو اور وقت عمل بھی معلوم ہوا اور تعلیم کبھی تھوڑے عمل سے مکمل ہوجاتی ہے اور کبھی زیادہ عمل کی ضرورت پڑتی ہے پھر تعلیم متعلم کی صلاحیت و استعداد پر موقوف ہے اور صلاحیت کی تخلیق سے معلم قاصر ہے جب تعلیم قرآن کی اجرت لینی جائز نہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ شریعت نے اس کی کوئی مالی قیمت تسلیم نہیں کی اور تعلیم قرآن کو اموال کی فہرست میں شامل نہیں کیا لہٰذا اس کو مہر بھی نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ طلب نساء مال کے عوض ضروری ہے۔ رہی حدیث سہل بن سعد تو وہ حدیث احاد ہے قرآن کی صراحت ان تبتغوا باموالکم اس کے خلاف ہے لہٰذا قرآن کے مقابلہ میں اس پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ بیضاوی (رح) نے لکھا ہے کہ ان تبتغوا باموالکم مفعول ہے احل لکمکا یعنی حلت کی قید نہیں ہے (کہ طلب بالمال حلت کی لازمی شرط ہو اور بغیر مال دیئے حلت نہ ہو) مطلب یہ ہے کہ محرمات کے علاوہ دوسری عورتوں کی طلب کرو اس خیال سے کہ تمہارا مال ان کے مہر اور قیمتوں میں صرف ہو سکے جب کہ تم پاکدامن ہو اور زناکار یا رانے گانٹھنے والے نہیں ہو۔ بیضاوی نے ان تبتغوا سے پہلے مضاف کو اس لئے محذوف مانا ہے تاکہ ان تبتغوا مفعول ہو سکے صحیح یہ ہے کہ مضاف محذوف ماننے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ان اور انسے پہلے حرف جار کا محذوف ہونا قیاساً صحیح ہے پس ان تبتغوا سے پہلے لقیاساً محذوف ہی ہے اور حلت کی علت ہے) اس تاویل کے بعد بیضاوی نے لکھا ہے کہ حنفیہ نے جو اس آیت سے مہر کے مال ہونے کی ضرورت پر استدلال کیا ہے وہ اس توجیہ کی روشنی میں غلط ہے بیضاوی کا مطلب یہ ہے کہ محرمات کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کی حلت کی علت یہ ہے کہ تمہارا مال زناکاریوں میں صرف نہ ہو آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کی حلت بغیر مال کے ممکن نہیں ہے (اور مہر میں مال دینا لازم ہے) میں کہتا ہوں کہ ان تبتغواکو مفعول لہٗ قرار دینا غلط ہے یہ حکم حلت کی قید ہی ہے کیونکہ بغیر مالی مہر کے نکاح کا ناجائز ہونا اجماعی فیصلہ ہے دیکھو اگر کسی نے بغیر مہر کے نکاح کیا تو مہر مثل لازم ہے اسی طرح اگر کسی نے کسی مردار کو یا مٹی کو یا چولھے کی خاک کو مہر قرار دیا یا اسی قسم کی کسی اور ایسی چیز کو مہر بنایا جو کچھ قیمت نہیں رکھتی تو مہر مثل اجماعاً واجب ہے۔ امام شافعی (رح) نے بھی جو تعلیم قرآن کو مہر قرار دینے کے جواز کا قول کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے تعلیم قرآن کی مالی قیمت مان کر مال کی فہرست میں اس کو شامل کیا ہے جس طرح تعلیم قرآن کی اجرت لینے کو انہوں نے جائز کہا ہے صحیح توجیہہ وہی ہے جو ہم نے ذکر کردی اسی سے اجماعی مسائل کا استنباط کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ : اگر کسی نے باندی کو آزاد کیا اور آزادی کو ہی اس کا مہر قرار دیا اور یوں کہا کہ میں تجھے اس شرط پر آزاد کرتا ہوں کہ تو مجھ سے نکاح کرلے اور اس آزادی کو اپنا مہر تسلیم کرلے تو آزادی بالاجماع صحیح ہے۔ امام احمد نے فرمایا اگر ایسا دو گواہوں کی موجودگی میں کہا ہے تو نکاح بھی صحیح ہوجائے گا۔ حضرت صفیہ کے نکاح کا قصہ اس کا مؤید ہے دوسری روایت میں امام احمد کا قول جمہور کے قول کے موافق آیا ہے جمہور کا قول یہ ہے کہ آزادی تو ہوجائے گی مگر عورت کو اختیار ہوگا نکاح بشرط عنق کرے یا نہ کرے اگر کرلے گی تو اس کے لئے مہر مثل ہوگا۔ امام ابو یوسف (رح) اور سفیان (رح) ثوری کا قول جمہور کے خلاف ہے یہ دونوں امام عورت کے اختیار کے قائل نہیں۔ ایک تو حضرت صفیہ ؓ کے نکاح کا واقعہ اس کی تائید کرتا ہے اور دوسرے حضرت جویریہ ؓ : کا واقعہ بھی ہے کہ جب بنی مصطلق کے قیدیوں کے ساتھ وہ گرفتار ہو کر آئیں اور ثابت ؓ بن قیس اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کے حصہ میں پہنچیں تو ثابت ؓ نے ان کو مکاتب بنا دیا جویریہ ؓ : حضور ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور زر مکاتبت کی درخواست کی ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں زر مکاتبت تو تمہاری طرف سے ادا کر دوں گا مگر شرط یہ ہے کہ تم کو مجھ سے نکاح کرنا ہوگا ‘ حضرت جویریہ نے کہا بہت اچھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تو میں نے ایسا کرلیا (یعنی نکاح کرلیا) رواہ احمد و ابو داؤد من حدیث عائشہ ؓ ۔ ہم کہتے ہیں یہ نکاح بلامہر تھا کیونکہ کسی کو بھی اپنی ذات کی ملکیت حاصل نہیں (کہ جب وہ چاہے تو اپنے کو بیچ ڈالے) لہٰذا اس نکاح کا حکم نکاح بلا مہر کا ہے اور مہر مثل واجب ہے رہی حدیث تو وہ ناقابل استدلال ہے کیونکہ بغیر مہر مثل کے نکاح بلا مہر رسول اللہ ﷺ کے لئے ہی خاص تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : خَالِصَۃً لَکَ مِنْ دُوْنِ المُؤْمِنِیْنَ ۔ اگر باندی صورت مذکورہ میں نکاح سے انکار کر دے تو مزدوری کر کے اپنی قیمت کے بقدر آزاد کرنے والے کو دینا اس پر لازم ہے۔ امام اعظم اور صاحبین (رح) اور امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے امام مالک اور امام زفر باندی پر اداء قیمت واجب نہیں قرار دیتے اوّل الذکر قول کی وجہ یہ ہے کہ آقا نے آزادی کو نکاح کا مہر قرار دیا ہے اور باندی نے نکاح سے انکار کردیا اس لئے آزادی بغیر عوض کے رہ گئی اور آقا اس پر راضی نہیں لہٰذا کوشش کر کے اپنی قیمت ادا کرنا باندی پر لازم ہے جیسے اگر کسی نے اس شرط پر آزاد کیا ہو کہ آزاد کردہ غلام کو ایک سال تک خدمت کرنی ہوگی اور آزاد کرنے کے بعد آقا مرجائے (اور غلام کے لئے خدمت کرنے کا موقع نہ رہے) تو امام اعظم (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک غلام پر لازم ہے کہ اپنی قیمت (آقا کے وارثوں) کو ادا کرے اور امام محمد (رح) کے نزدیک خدمت کے معاوضہ کے برابر قیمت ادا کرے۔ امام مالک (رح) اور امام زفر (رح) کے قول کی دلیل یہ ہے کہ جب آزادی کو مہر نہیں قرار دیا جاسکتا تو یہ آزادی بلا عوض ہوگی لہٰذا باندی اگر نکاح سے انکار کر دے تو اس پر اپنی قیمت ادا کرنا لازم نہیں جیسے اس صورت میں ادائے قیمت لازم نہیں جبکہ وہ نکاح کا اقرار کرے (بہرحال اقرار ہو یا انکار ہر صورت میں آزادی بلاقیمت ہوگی) یہی قول زیادہ ظاہر ہے۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top