Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hijr : 49
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ
نَبِّئْ : خبر دیدو عِبَادِيْٓ : میرے بندے اَنِّىْٓ : کہ بیشک اَنَا : میں الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اے نبی ؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں
درس نمبر 117 تشریح آیات 49 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ 84 آیت نمبر 49 تا 50 گمراہوں کے عذاب اور متبعین کی جزاء کے ذکر کے متصلاً بعد حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اس مضمون کا اعلان کردیں۔ سیاق کلام میں اس کا ربط ظاہر ہے ، یہاں اعلان رحمت اور مغفرت کو مقدم کیا گیا ہے اور اعلان سزا کا تذکرہ بعد میں کیا گیا ہے ، کیونکہ اللہ کی رضا اس میں ہے کہ لوگوں کو اس کی رحمت و مغفرت نصیب ہو ، کیونکہ اللہ نے رحمت و مغفرت کو اپنے اوپر فرض کرلیا ہے ، ہاں کبھی کبھی مضمون اور مقام کے تقاضے کے مطابق صرف عذاب کا تذکرہ ہوتا ہے یا تذکرہ تو دونوں کا ہوتا ہے لیکن سیاق کلام میں کسی مخصوص حکمت کی وجہ سے عذاب الٰہی کا تذکرہ پہلے آجاتا ہے۔ اس کی تشریح ایسے مقامات پر بھی کی گئی ہے اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان فرشتوں کا قصہ آتا ہے جو قوم لوط کی بیخ کنی کے لئے بھیجے گئے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا یہ قصہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ اسے مختلف انداز میں لایا گیا ہے۔ ہر مقام کی مناسبت سے اس قصے کا ایک حصہ لیا گیا ہے۔ ہاں حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ بعض مقامات پر علیحدہ بھی آیا ہے۔ سورة اعراف میں قصہ لوط کا ایک حصہ گذر گیا ہے۔ پھر سورة ہود میں بھی قصہ ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا ہے۔ سورة اعراف میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی جانب سے اپنی قوم کی فحاشی پر نکیر اور سرزنش کا ذکر تھا اور قوم کی طرف سے ان کی نکیر کا یہ جواب دیا گیا تھا : اخرجوھم من قریتکم انھم اناس یتطھرون ” نکالو ان کو اپنے گاؤں سے ، یہ لوگ بہت پاکباز بنتے ہیں “۔ لیکن جب عذاب الٰہی آیا تو اللہ نے انہیں اور ان کے اہل و عیال کو نجات دے دی ، ماسوائے ان کی ایک بیوی کے جو پیچھے رہنے والوں میں شامل ہوگئی۔ یہاں فرشتون کی آمد اور ان کے بارے میں قوم کی سرگوشیوں کا ذکر نہ تھا۔ سورة ہود میں یہ قصہ ذکر ملائکہ پر مشتمل ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بات کی گئی ہے لیکن انداز گفتگو ہر جگہ مختلف ہے۔ وہاں بعض تفصیلات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص ہیں۔ آپ کی بیوی کھڑی تھی اور فرشتوں کی جانب سے بشارت سن رہی تھی۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور قوم لوط کے بارے میں فرشتوں سے تکرار شروع کردی۔ ان کڑیوں کا تذکرہ یہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں واقعات کی ترتیب بھی مختلف ہے۔ سورة ہود میں جو واقعات بیان ہوئے ، ان میں فرشتوں کی حقیقت کو پوشیدہ رکھا گیا۔ ان کی حقیقت ان پر اس وقت کھلی جب لوگ لوط (علیہ السلام) کے خوبصورت مہمانوں کا سن کر دوڑتے ہوئے چلے آ رہے تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو بےعزتی سے بچانے کی خاطر ان کی منت سماجت کر رہے تھے اور وہ آپ کی ایک بھی نہ مان رہے تھے یہاں تک کہ ان کو دل بھر آیا اور وہ یہ اندوہناک بات کرنے پر بھی مجبور ہوگئے۔ لو ان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید ” اے کاش کہ میں تمہارے مقابلے میں قوت رکھتا یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ میں اس کی پناہ لیتا “۔ یہاں قصے میں ابتداء ہی سے فرشتوں کی حقیقت بتا دی گئی ہے اور لوگوں کے مشورے اور برے ارادوں کی بات کو بعد میں لایا گیا ہے ، کیونکہ یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ قصہ کے واقعات کی ترتیب کیا ہے بلکہ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کا عذاب کس طرح آتا ہے اور یہ کہ جب فرشتے آتے ہیں تو پھر مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے۔
Top