Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بخلاف اس کے متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
آیت نمبر 45 تا 48 متقی کون ہیں ؟ وہ جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اسباب سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں جو عذاب الٰہی کا باعث بنتے ہیں۔ جتنوں میں جن چشموں کا ذکر ہے وہ سات ابواب کے بالمقابل ہے۔ یہ لوگ جنتوں میں نہایت ہی امن و اطمینان سے اتریں گے اور وہ اس طرح خوفزدہ نہ ہوں گے جس طرح اہل جہنم تھے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کدورت ہوگی وہ بھی ہم نکال دیں گے ۔ جبکہ ابلیس کے دل میں جو حسد اور کینہ ہوگا وہ اہل جہنم کے ساتھ ہمیشہ رہے گا اور وہ ایک دوسرے کو ملامت کرتے رہیں گے۔ جبکہ اہل جنت کے لئے کوئی مشقت نہ ہوگی اور نہ ان کے لئے وہاں سے نکلنے کا کوئی خطرہ ہوگا۔ یہ لوگ زمین میں خدا سے ڈرتے تھے ، لیکن یہاں ان کے لئے کوئی خوف و خطر نہ ہوگا۔ رب کریم کے جوار رحمت میں خوش و خرم ہوں گے۔ درس نمبر 117 ایک نظر میں اس سبق میں اللہ کی رحمت اور اللہ کے عذاب دونوں کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی کبرسنی کے باوجود اولاد دی جاتی ہے اور اسے اولاد علیم کہا جاتا ہے ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو نجات دی جاتی ہے اور اس رحمت سے صرف ان کی بیوی محروم ہوتی ہے کیونکہ اس کا تعلق ظالمین سے تھا۔ پھر یہاں اصحاب ایکہ اور اصحاب حجر کے برے دنوں کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ تمام قصص اور مثالیں اس تمہید کے بعد آتی ہیں : نبیء عبادی ۔۔۔۔۔ الرحیم (39) وان عذابی ھو العذاب الالیم (50) (15 : 49 – 50) ” اے نبی میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے “۔ چناچہ ان امثلہ و قصص میں سے بعض تو اللہ کی رحمت کی مثالیں ہیں اور بعض اللہ کے عذاب کی۔ یہ قصص اس سورة کے ابتدائی تبصرے کے بھی مناسب ہیں جس میں لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا : ذرھم یاکلوا ۔۔۔۔ یعلمون (3) وما اھلکنا ۔۔۔۔۔ (4) ما تسبق ۔۔۔۔۔ (5) (15 : 3 تا 5) ” چھوڑ دو ، انہیں ، کھائیں پئیں ، مزے کریں اور بھلاوے میں ڈالے رکھے ان کو جھوٹی امید۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ ہم نے اس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لئے ایک خاص مہلت عمل لکھی جا چکی تھی۔ کوئی قوم نہ تو اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے نہ اس کے بعد چھوٹ سکتی ہے “۔ چناچہ یہ قصص ان بستیوں کی مثالیں ہیں جو ہلاک کی گئیں اور جب ان کی مہلت عمل ختم ہوگئی تو ان پر عذاب نازل ہوا۔ نیز سورة کے آغاز میں فرشتوں کے نزول کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا کہ وہ حق کے ساتھ اترتے ہیں۔ وقالوا یایھا الذی ۔۔۔۔۔۔ لمجنون (6) لو ما تاتینا ۔۔۔۔۔ من الصدقین (7) ما ننزل الملئکۃ ۔۔۔۔۔ منظرین (6 تا 8) ” یہ لوگ کہتے ہیں ” اے وہ شخص جس پر یہ ذکر نازل ہوا ہے تو یقیناً دیوانہ ہے اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کر کیوں نہیں آتا ؟ ہم فرشتوں کو یوں ہی نہیں اتار دیا کرتے۔ وہ جب اترتے ہیں تو حق کے ساتھ اترتے ہیں اور پھر ان لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی “ ۔ یوں یہ سورة ایک متحد اور مربوط مضمون بن جاتی ہے جس کے تمام حصے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور ایک دوسرے کے موید نظر آتے ہیں ، یہ اس حقیقت کے باوجود کہ قرآن سے نازل نہ ہوتی تھیں جس طرح ہم مصحف میں پاتے ہیں۔ ہاں یہ بات مسلم ہے کہ سورتوں کے اندر آیات کی ترتیب اللہ کی جانب سے ہے یعنی توقیفی ہے۔ لہٰذا اس خدائی ترتیب کے اندر حکمت اور ترتیب ضرور ملحوظ ہے۔ ان سورتوں کے مضامین کی ترتیب اور ہم آہنگی کے سلسلے میں اللہ نے بعض پہلو ہم پر منکشف کیے ہیں جن کا بیان ہم نے تمام سورتوں کے مقدمات میں کیا ہے۔ ہر سورة کی ایک فضا اور اس کے خدو خال بیاں کئے ہیں ، حقیقی علم بہر حال اللہ کو ہے۔ ہم نے جو ترتیب ، ربط مضامین اور حکمت بیان کی ہے وہ اجتہادی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
Top