Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا
: اور تحقیق ہم نے پیدا کیا
الْاِنْسَانَ
: انسان
مِنْ
: سے
صَلْصَالٍ
: کھنکھناتا ہوا
مِّنْ حَمَاٍ
: سیاہ گارے سے
مَّسْنُوْنٍ
: سڑا ہوا
ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا
ذرا اب اس قصے کے مناظر کو یہاں ہم تفصیل سے لیتے ہیں۔ آیت نمبر 26 تا 27 قصے کے آغاز ہی میں یہ کہا جاتا ہے کہ انسان اور جنات یا شیطانوں کی فطرتوں میں یوم تخلیق کائنات سے ہی فرق امتیاز ہے۔ انسان کو بجنے والی خشک مٹی سے پیدا کیا گیا جو سڑی ہوئی خمیری مٹی یعنی کیچڑ سے لی گئی تھی یعنی اس مٹی کو ٹھوکا جائے تو بجتی ہے اور شیطان کو نار سموم یا آگ کی لپیٹ یا شعلے سے بنایا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوگا کہ انسان کے مزاج میں ایک جدید عنصر بھی داخل ہوا ہے یعنی انسان کے اندر اللہ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ رہا شیطان تو وہ نار سموم ہی کی طبیعت پر قائم ہے۔ واذ قال ربک ۔۔۔۔۔ حما مسنون (28) فاذا سویتہ ۔۔۔۔ سجدین (29) فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون (30) الا ابلیس۔۔۔۔ السجدین (31) قال یا بلیس ۔۔۔۔۔ السجدین (32) قال لم اکن ۔۔۔۔۔ مسنون (33) قال ۔۔۔۔ رجیم (34) وان علیک ۔۔۔۔ یوم الدین (35) ( 15 : 31 تا 35) “ پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ “ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا ”۔ چناچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا ”۔ اس نے کہا “ میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے ”۔ رب نے فرمایا : “ اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے اور اب روز جزاء تک تجھ پر لعنت ہے ”۔ پھر یاد کرو اس موقع کو کہ جب اللہ فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہوا۔ یہ کب کی بات ہے ؟ کہاں یہ واقعہ پیش آیا ؟ اس کی تفصیلی کیفیت کیسی تھی ؟ ان سوالات کا جاب ہم نے پارۂ اول میں سورة بقرہ میں دے دیا ہے۔ وہ یہ کہ ان سوالات کا شافی جواب ہی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ عالم بالا کی کہانی ہے اور ہمارے پاس کوئی نص صریح نہیں ہے کیونکہ عالم غیب سے متعلق کسی سوال کا جواب ہم صرف نص صریح ہی سے دے سکتے ہیں۔ جو لوگ ایسے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں اور ان کی باتوں پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان کو ایسی مٹی سے کیسے بنایا گیا جو سڑی ہوئی تھی اور اس خمیری مٹی سے بنا کر اس کو کسی طرح خشک کردیا گیا تھا کہ وہ بجتی تھی۔ پھر یہ کہ اس کے اندر روح کس طرح ڈال دی گئی۔ ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ان امور کی تفصیلی کیفیات سے ہم بیخبر ہیں۔ کسی صورت میں بھی ہم از سر نو اس کیفیت کا سائنسی تجزیہ نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی جو آیات وارد ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھتے ہیں ، خصوصاً یہ آیت کہ۔ ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (23 : 2) “ ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ”۔ اور دوسری آیت میں ہے۔ ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من ماء مھین “ ہم نے انسان کو مٹی کی ست سے پیدا کیا جو حقیر پانی کی شکل میں ہے ”۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اصلیت اور زندگی کی حقیقت اس زمین کی مٹی سے ہے اور انسان کے اندر وہی اہم عناصر موجود ہیں جو اس زمین کے اہم عناصر ترکیبی ہیں۔ اسی طرح انسان اور تمام دوسرے زندوں کے اجسام انہی عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ لفظ سلالۃ ایک خاصل انداز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہاں تک تو قرآن اشارہ کرتا ہے اور اس کے الفاظ سے یہ مفہوم نکلتا ہے ، لیکن اس سے آگے جدید دور کے انکشافات سے جو کچھ معلوم ہوا اسے قرآن مجید سے اخذ کرنا ایک تکلف ہی ہے۔ موجودہ آیات ان مفاہیم کی متحمل نہیں ہیں۔ جہاں تک سائنسی تحقیقات کا تعلق ان کا اپنا ایک انداز ہے۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل و ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرضی ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرض ہوتے ہیں اور وہ حقائق نہیں بلکہ نظریات ہوتے ہیں ۔ ان نظریات میں سے بعض حقائق کا روپ نہیں اختیار کرتے وہ بحث و تمحیص کے بعد بدل بھی جاتے ہیں لیکن ان سائنسی تحقیقات کا کوئی نتیجہ بھی ان اصولی حقائق سے متضاد نہیں ہوتا جو قرآن میں ثبت ہیں۔ قرآن کریم نے جو ابتدائی حقیقت دی ہے وہ صرف یہ ہے کہ “ ابتداء انسان کو مٹی کے ست سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس کی تخلیق میں پانی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ لہٰذا ابتدائی حقیقت جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ، اپنی جگہ باقی ہے ، بعد میں آنے والے نظریات اس کی تفصیلات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیچڑ اور اس کے اندر پائے جانے والے عناصر طبیبہ نے ایک زندہ انسان کی شکل کس طرح اختیار کی۔ کس طرح اعضا بنے اور کس طرح انسان کی شکل و صورت وجود میں آئی۔ یہ وہ راز ہے جس کے علل و اسباب معلوم کرنے سے انسان آج تک بےبس ہے۔ پہلے خلیے کو زندگی کس طرح ملی۔ انسان اور زندگی کی نشو ونما پر کام کرنے والے سائنس دان آج تک اس راز سے آگاہ نہیں ہو سکے۔ رہی اعلیٰ درجے کی انسانی زندگی جس کے اندر فہم و فراست کی قوتیں موجود ہیں ، اس کے اندر ایسی امتیازی قوتیں موجود ہیں جن کے ذریعے انسان نے پوری کائنات کو مسخر کرلیا ہے ، تمام دوسرے درجے کے زندہ حیوانات کو قابو کرلیا ہے۔ اس حضرت انسان کو اس پوری دنیا پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ یہ تو وہ عظیم راز ہے جس کے بارے میں انسانی نظریات آج تک مخبوط الحواس ہیں۔ لیکن اس اہم راز کے بارے میں قرآن کریم انسان کو نہایت ہی سادہ ، واضح اور اجمالی علم دیتا ہے۔ سویتہ ونفخت فیہ من روحی (15 : 29) ( جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو ) تو درحقیقت یہ اللہ کی پیدا کردہ روح ہے جو اس حقیر عضویاتی مخلوق کو ایک بلند انسانی مخلوق بنا دیتی ہے۔ لیکن اہم سوال یہی ہے کہ یہ کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ حقیقت ہے کہ اس انسان کو اس قدر قوت مدرکہ دی کب گئی ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ سکے۔ چناچہ مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ وہ اس راز کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔ یہ موقف نہایت ہی ٹھوس ہے اور ہم اس پر بڑے اطمینان سے کھڑے ہیں۔ اس سے قبل یعنی تخلیق انسان سے قبل اللہ نے شیطان کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا تھا۔ شیطان اور شیطانی قوت تخلیق آدم سے بھی پہلے موجود تھی۔ یہ ہے وہ علمی اور یقینی اطلاع جو اللہ نے ہمیں دی ہے۔ رہی یہ بات کہ ذلت شیطانی کی کیفیت کیا ہے اور اس کی تخلیق کی تفصیلات کیا ہیں تو یہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اللہ نے ہمارا یہ فرض قرار نہیں دیا کہ ہم ان لاحاصل چیزوں میں فضول بحثیں اور تحقیقات کریں۔ ہاں ہم اس ناری مخلوق کی بعض صفات سے ضرور واقف ہیں اور آگ کی لپیٹ اور شعلوں کو بھی جانتے ہیں اور اس قوت کی ناری صفات انسانی ذات پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ آگ سے ہیں۔ نیز ہمیں اس قدر معلوم ہے کہ جنات کی ذات صفات میں اذیت اور برق رفتاری شامل ہے کیونکہ ان کی تخلیق نار سموم سے ہے۔ اس قصے کے درمیان میں سے یہ بات بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان میں صفت غرور اور تکبر پایا جاتا ہے۔ چونکہ شیطان جن تھا اس لیے غرور و استکبار اس کے مزاج کا خاصہ ہونا چاہئے کیونکہ نار کے ساتھ یہ صفات لگا کھاتی ہے۔ انسان کی تخلیق چونکہ سڑے ہوئے گارے سے ہوئی ، جو خشک ہو کر صلصال بن گیا تھا یعنی بجنے کی آواز اس سے نکلتی تھی۔ پھر اس میں ذات باری کی طرف سے ایسی روح پھونکی گئی جس کی وجہ سے زندہ مخلوق کی یہ صنف دوسری مخلوقات سے ممتاز ہوگئی ۔ پھر اسے مخصوص انسانی صفات بھی عطا ہوئیں۔ اور ان صفات میں سے اہم صفت انسان کی وہ علمی ترقی تھی جو وہ انسانیات کے شعبے میں کر رہا تھا۔ یہ نفح روح ، دراصل انسان کو عالم بالا سے مربوط کردیتی ہے۔ یہی صفت ہے جو انسان کو خدا رسیدگی کی قوت دیتی ہے اور یہی قوت انسان کو یہ صلاحیت دیتی ہے کہ وہ خدا سے ہدایت اخذ کرسکے ، یوں حضرت انسانی جسمانی اور مادی اور حواس کی دنیا سے بلند ہوجائے اور اس عالم تجرید میں کام کرے ، جس میں دل و دماغ جو لانی دکھاتے ہیں۔ اس طرح انسان کو وہ راز عطا کیا جاتا ہے جس تک انسان ایسے حالات میں پہنچتا ہے کہ وہ زمان و مکان سے وراء ہوتا ہے اور دائرہ حواس سے آگے بڑھ کر غیر محدود تصورات کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ اونچے درجات حاصل کرنے کے باوجود انسان کے ساتھ مادیت کی آلودگی بہرحال قائم رہتی ہے۔ اس کا مزاج مادی ہی رہتا ہے اور وہ مادی ضروریات اور کمزوریوں کا شکار رہتا ہے۔ وہ کھاتا ہے ، پیتا ہے ، لباس کا محتاج ہوتا ہے۔ طبعی میلانات اور جنسی خواہشات رکھتا ہے۔ کمزوریاں اور کو تاہیاں اس میں ہوتی ہیں اور اپنے جسمانی اور تصوراتی کمزوری کی وجہ سے پھر اس سے برے افعال سرزد ہوتے ہیں۔ اسلام کا منشا اور اعلیٰ نصب العین یہ ہے کہ انسان ، انسان مادی اور مٹی کے تقاضوں اور روحانی اور علوی تقاضوں کے درمیان ایک حسین توازن کے اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچ جائے۔ یہ وہ ترقی یافتہ اور بلند مقام ہے جسے ہم کمال بسری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسلام انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اپنے عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک کو نظر انداز کر دے اور یا خالص روحانی بن جائے ، رہبان ہو یا ہندو ، جوگی ہو یا خالص مادہ پرست بن جائے اور مادی اقدار کے سوا تمام اعلیٰ اقدار کی نفی کر کے حیوان بن جائے۔ اگر انسان ان دونوں عناصر میں سے کسی ایک ہی کا انتخاب کرے گا تو وہ کبھی بھی کمال و ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا۔ جو قومیں صرف ایک عنصر کو پیش نظر رکھ کر انسان کو نرمی دیتی ہیں وہ ان مقاصد کے خلاف کام کر رہی ہیں جن کے لئے اس مخلوق کی تخلیق کی گئی ہے۔ جو لوگ انسان کی جسمانی قوتوں کو معطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی ہیں جو انسان کی روحانی قوتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں فریق انسان کے سیدھے فطری مزاج کے خلاف جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ انسان سے وہ کام لینا چاہتے ہیں جس کے بارے میں خالق انسان کا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ جسد انسانی کے ایک حصے کو کاٹ رہے ہیں ، لہٰذا وہ اس سلسلے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے کیونکہ وہ فطرت کے خلاف جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو تنبیہ کی جو رہبانیت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ بعض نے کہا کہ وہ کبھی عورت کے قریب نہ جائے گا۔ بعض نے کہا کہ وہ صائم الدہر ہوگا ، کبھی بھی افطار نہ کرے گا۔ کسی نے کہا کہ وہ ساری ساری رات عبادت کرے گا۔ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں سوئے گا۔ حضور ﷺ نے ان کو سخت تنبیہ فرمائی۔ حدیث عائشہ کے آخر میں ہے : فمن رغب عن سنتی فلیس منی “ جو شخص میری سنت سے منہ موڑے گا وہ میری امت سے نہ ہوگا ”۔ اسلام نے انسان کے لئے قوانین شریعت کی جو ضابطہ بندی کی ہے وہ اسی اصول پر کی ہے ۔ اسلام نے اخلاق و قانون کا ایسا ضابطہ دیا ہے جو اسی اصول پر مبنی ہے اور اس میں انسان کی تمام فطری صلاحیتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اسلام انسان کی صلاحیتوں میں سے کسی صلاحیت کی بیخ کنی نہیں کرتا ، ہاں اسلام ان صلاحیتوں کے درمیان ایک قسم کا توازن ضرور قائم کرتا ہے تا کہ ان میں سے کوئی طاقت اور صلاحیت حد اعتدال سے تجاوز نہ کر جائے اور کوئی صلاحیت دوسری کو ختم نہ کر دے۔ کیونکہ توازن بگاڑنے سے بہرحال غیر متواز صلاحیت ختم ہوگی اور انسان کی بعض خصوصیات کو وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ اور یوں انسان ایک شرعی جرم کا مرتکب ہوگا کیونکہ اللہ کا یہ بھی حکم ہے کہ اپنی فطری قوتوں کو محفوظ رکھو اور ان کی نشوونما کرو۔ کیونکہ یہ اللہ کی عطا کردہ ہیں اور کسی مقصد کے لئے ہیں ، محض اضافی نہیں ہیں اور نہ بےمقصد ہیں۔ یہ تھیں وہ بعض باتیں اور کچھ خیالات جو انسان کی تخلیق کی حقیقت پر غور کرنے کے بعد دل میں اترے۔ قرآن کریم تخلیق انسان کے بارے میں یہی حقائق ذہن نشین کراتا ہے۔ اب مناسب ہے کہ ہم اس قصے کے مشاہد اور مناظر کی طرف آئیں۔
Top