Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fahm-ul-Quran - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰهِيْمُ
: ابراہیم
لِاَبِيْهِ
: اپنے باپ کو
اٰزَرَ
: آزر
اَتَتَّخِذُ
: کیا تو بناتا ہے
اَصْنَامًا
: بت (جمع)
اٰلِهَةً
: معبود
اِنِّىْٓ
: بیشک میں
اَرٰىكَ
: تجھے دیکھتا ہوں
وَقَوْمَكَ
: اور تیری قوم
فِيْ ضَلٰلٍ
: گمراہی
مُّبِيْنٍ
: کھلی
” اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے ؟ بیشک میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ (74)
فہم القرآن ربط کلام : شرک کی بےثباتی ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے ایک مشاہدہ اور ایک عملی مثال کا بیان کی تاکہ دنیا بھر کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اپنا رشتہ ناتہ جوڑتے ہیں انہیں معلوم ہوجائے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ کیا تھا۔ مؤرخین اور تورات نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ بتایا ہے اور قرآن مجید نے آزر لیا ہے۔ اس لیے مؤرخین کے خیالات میں فرق ختم کرنے کے لیے مختلف راہیں اختیار کی گئیں۔ ایک مفسر کا خیال ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد آپ کی پیدائش کے بعد جلد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ کی تربیت آپ کے چچا نے کی۔ چچا بمنزلہ باپ کے ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم نے آزر کو ابیہ کے نام سے پکارا ہے۔ دوسرے صاحب قلم کا عندیہ ہے کہ آپ کے والد کا اصلی نام تارخ تھا۔ لیکن وہ محب صنم ہونے کی وجہ سے آزر کہلایا۔ کیونکہ عربی میں محب صنم کو آزر کہا جاتا ہے۔ تیسرے مؤرخ نے تطبیق کا راستہ تلاش کرتے ہوئے لکھا کہ آپ کے باپ کا اصلی نام تارخ اور وصفی (پیشہ وارانہ) نام آزر تھا۔ لیکن قرآن مجید ان تکلفات سے پاک ہے اور واضح طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام آزربتارہا ہے لہٰذا ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کو آزر ہی کہیں گے۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد بت تراش کر بازار میں فروخت کیا کرتے تھے یہ بات غلط ہے کیونکہ جدید تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ آپ کے والد مذہبی پیشوا اور اس زمانے کی حکومت میں مرکزی کابینہ کے رکن ہونے کی بنا پر حاکم وقت اور عوام الناس میں انتہائی احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت : تورات کے نسخہ سجینہ کا جو ترجمہ عبرانی سے یونانی میں تین سو سال قبل مسیح کیا گیا اور جس میں نامور دانشور یہودی شریک تحقیق ہوئے ان کے حوالے سے ماہر اثریات سر چارلس مارسٹن نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سن ولادت 2160 قبل مسیح تحریر کیا ہے۔ آپ کی عمر مبارک 175 سال تھی چناچہ مذکورہ تحقیق کے مطابق آپ کی وفات پر ملال 1985 قبل مسیح قرار پائی۔ تاہم یہ تحقیق حتمی حیثیت نہیں رکھتی۔ جدیدتحقیق میں نہ صرف وہ شہر معلوم ہوگیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی بلکہ آپ کے دور کے حالات و واقعات قدرے تفصیل کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ آپ جنوبی عراق میں دریائے فرات کے کنارے واقع شہر ار میں پیدا ہوئے جس کو موجودہ جغرافیہ کی زبان میں تل ابیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیدائشی شہر کی آبادی کا ڈھائی لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ تک اندازہ کیا گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے کھنڈرات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگی کا مقصد دولت کمانا، سود خوری اور مقدمہ بازی مشغلہ تھا۔ گویا کہ اخلاقی اور اعتقادی اعتبار سے یہ قوم تباہی کے گڑھے پر کھڑی تھی۔ اس وقت کے مذہبی حالات کا آپ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ کے شہر ار میں پانچ ہزار خداؤں کے نام دریافت کیے گئے ہیں۔ دوسرے شہروں اور قصبات کے الگ الگ خدا مقرر تھے۔ ہر شہر کا ایک خاص خدا ہوتا تھا، جس کو رب البلد یعنی خدائے شہر کہتے تھے۔ ظاہر ہے لوگ اس کا احترام دوسرے خداؤں سے زیادہ کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیدائشی شہر ار کا بڑا خدا ننار تھا (چاند دیوتا) اسی وجہ سے بعض مؤرخین نے اس شہر کا نام قمرینہ بھی لکھا ہے۔ ننار کا بت شہر میں سب سے اونچی جگہ رکھا گیا تھا۔ جس کے ساتھ ہی اس کی بیوی (نن گل) کا معبد تھا۔ لوگ بتوں، مزاروں کے سامنے مراقبے کرتے، سجدہ ریز ہوتے اور طواف کرتے تھے۔ ننار کی شان شاہی محل سرا کی تھی۔ یہاں ہر وقت نئی عورتیں آکر ٹھہرتی۔ یہاں بہت سی عورتوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ وہ عورت بڑی محترم سمجھی جاتی تھی جو اپنی چادر عفت کو یہاں قربان کردیتی۔ اس مزار کے نام بہت سے رقبے وقف تھے جن کی آمدنی مجاور ہی استعمال کرسکتے تھے۔ اس شرک و خرافات کی یلغار اور بھرمار میں رب کریم کا فضل و کرم جوش میں آیا۔ اس نے شرک ورسومات کے مرکز میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا۔ اس کی قدرت کا کرشمہ اور سنت قدیمہ ہے کہ جب بھی برائی حد سے بڑھنے لگتی ہے تو رب کبریا حق و باطل کا معرکہ برپا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا چہرۂ مبارک : واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل (علیہ السلام) ساتویں آسمان پر لے گئے۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ شخصیت بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے تعارف کرواتے ہوئے فرمایا۔ (ہٰذَا اَبُوْکَ اِبْرَاہِیْمُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ )[ مشکوۃ : باب فی المعراج ] ” یہ آپ کے والد گرامی ابراہیم (علیہ السلام) ہیں آپ آگے بڑھ کر سلام عرض کریں چناچہ میں نے سلام کیا۔ “ جواباً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سلام کہتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (قَالَ مَرْحَبًا لاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیّ الصَّالِح) ِ [ مشکوۃ : باب فی المعراج ] ” خوش آمدید (جی آیاں نوں) نیک بیٹا اور نبی صالح بھی۔ “ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ ؓ کا ذوق و شوق دیکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ جس نے ابراہیم (علیہ السلام) کے رخ زیبا کا اندازہ لگانا ہو وہ مجھے دیکھ لے۔ (قَالَ أَمَّا إِبْرَاہِیمُ فَانْظُرُوا إِلَی صَاحِبِکُمْ ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء ] جیسا کہ ابھی ابھی ذکر کیا گیا ہے حضرت خلیل (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ صنم پرستی کے ساتھ ساتھ ستارہ پرستی کے بھی قائل تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے مناسب جانا کہ اب وقت آگیا ہے کہ معبود ان ارضی کے ساتھ معبودان فلکی (چاند سورج، ستاروں) کی پر زور تردید کی جائے۔ لیکن اسلوب بیان ایسا اختیار فرمایا۔ کہ شرک کا مریض، یکایک بدک نہ جائے، کیونکہ مریض شرک بہت جلد باز اور ہلکی طبیعت کا واقع ہوا ہے۔ جب بھی اس کو محسوس ہوجائے کہ نسخہ توحید کے ساتھ میرا علاج ہونے والا ہے تو پہلے ہی بھاگنا اور منہ بسورنا شروع کردیتا ہے۔ (وإِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِا لْاٰ خِرَۃِ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ إِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ ) [ الزمر : 45] ” جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت کے منکروں کے دل کڑھنے لگتے ہیں۔ جب اس کے علاوہ دوسروں کا تذکرہ ہوتا ہے تو یکایک خوشی سے کھل جاتے ہیں۔ “ حضرت خلیل (علیہ السلام) نے نہایت اچھے اور دلچسپ انداز میں توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی۔ یہ انداز بیان ان کی زبردست معجزانہ فصاحت و بلاغت اور حکمت و دانائی کا مرقع ہے۔ جب شام ہوئی تو پردۂ ظلمت سے ستارے درخشاں ہوئے تو اپنی قوم کا عقیدہ نقل کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ میرا رب ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد چمکتا ہوا ستارہ ڈوب گیا۔ فرمایا ڈوبنے والا رب نہیں ہوسکتا۔ پھر چاند نمودار ہوا، فرمایا یہ ہے میرا رب، لیکن چاند بھی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ صبح ہوئی اور مہر جہاں روشن ہوا، فرمایا یہ میرا رب ہے یہ ان سب سے بڑا ہے، لیکن سورج کو دوام اور روشنی کو بھی قرار نہیں۔ پہلے بڑھ رہی تھی، دوپہر کے بعد ڈھلنے لگی شام کو سورج غروب ہوگیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پکارا ٹھے یہ سب محکوم و مجبور اور بےبس ہیں ان کو لانے اور لے جانے والا حقیقی مالک اللہ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اب ان کا مکالمہ قرآن کے الفاظ میں سنیے ! ” اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم نے زمین و آسمان کا نظام حکومت دکھایا تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں ہوجائے۔ چناچہ جب رات چھاگئی، تو اس نے ایک تارا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ تارا ڈوب گیا تو کہنے لگے میں ڈوبنے والے کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ جب چمکتے ہوئے چاند کی طرف دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے۔ جب وہ بھی ڈوب گیا تو فرمایا۔ اگر میرا رب مجھے ہدایت سے نہ نوازتا تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہوتا۔ پھر سورج کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے۔ اور یہ ان سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو فرمایا اے برادران قوم میں بری ہوں، ان سے جن کو تم شریک بناتے ہو۔ میں نے تو اپنا چہرہ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے، جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور میں مشرکوں کا سا تھی نہیں ہوں۔ اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی۔ فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں میرے ساتھ جھگڑتے ہو۔ حالانکہ اس نے مجھے صراط مستقیم دکھائی، میں تمہارے بنائے ہوئے معبودان باطل سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب میرا نقصان چاہے تو ضرور نقصان ہوجائے گا۔ میرے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے کیا اب بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرو گے ؟ آخر تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے کیوں ڈروں ؟ اللہ نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔ ہم دونوں فریقوں میں کون امن و سلامتی کا حق دار ہے۔ بتاؤ اگر کچھ علم رکھتے ہو۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا تدریجی عمل تھا، حالانکہ اس خطاب کے سیاق وسباق سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا تدریجی عمل تھا اور نہ ہی ایک لمحہ کے لیے ان کو معبود تصور کرتے تھے۔ کیونکہ قرآن مجید واقعہ کے آخر میں واشگاف الفاظ میں اعلان کرتا ہے۔ کہ ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے خلاف دلائل دیے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں یقیناً تیرا رب حکیم وعلیم ہے۔ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرَاھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْن)[ الانبیاء : 51] ” ہم نے ابراہیم کو ابتداء ہی سے ہدایت سے نوازا تھا اور ہم اس کو خوب جاننے والے تھے۔ “ ارشاد الٰہی سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ابتدا سے ہی رشد و ہدایت حاصل ہوچکی تھی، بقول بعض مفسرین، اگر پھر بھی وہ ستارے اور چاند سورج ہی کو معبود تصور کر رہے تھے تو وہ ہدایت کیا تھی جو پہلے سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرما رکھی تھی۔ چاند، سورج کی حیثیت : (وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ )[ یٰس : 39۔ 40] ” سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے۔ جو زبردست علیم ہستی کا مقرر کیا ہوا ہے۔ اور چاند کے لیے بھی ہم نے منزلیں مقرر کر رکھی ہیں، یہاں تک کہ ان منزلوں سے گزرتا ہوا بالآخر وہ کھجور کی سوکھی ہوئی ٹہنی کی مانند پتلا ہوجاتا ہے نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے ہر ایک اس فضا میں تیر رہا ہے۔ (یٰسین : 38 تا 40) (قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَدًا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلَہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَأْتِیْکُم بِضِیَآء أَفَلَا تَسْمَعُوْنَ قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَأْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فیہِ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ )[ القصص : 71، 72] ” آپ فرما دیں کیا تم نے غور نہیں کیا اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر رات کو لمبا کر دے۔ کون ہے جو اللہ کے سوا رات کو بدل کر دن کی روشنی لے آئے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ آپ اعلان کردیں ! غور کرو اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر دن چڑھائے رکھے کون ہے جو اس کے بغیر دن کو رات میں بدل دے، جس میں تم آرام کرتے ہو ؟ کیا پھر بھی تم نہیں دیکھتے ؟ “ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖ الَّیْلُ وَالنَّھَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ) (حٰمٓ السجدۃ : 37) ” رات اور دن، سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ سورج چاند کو سجدہ نہ کر وبل کہ اس ذات کبریاء کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر واقعتا تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ “ مسائل 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود بنانا کھلی گمراہی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو زمین و آسمان کی بادشاہت دکھائی۔ 3۔ شرک اور مشرکوں سے برأت کا اعلان کرنا سیرت ابراہیم (علیہ السلام) کا روشن باب ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ : 1۔ آپ ابراہیم کا قرآن سے تذکرہ فرمائیں وہ سچے نبی تھے۔ (مریم : 41) 2۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنا لیا۔ (النساء : 125) 3۔ تمہارے لیے ابراہیم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ (الممتحنۃ : 4) 4۔ اے نبی ابراہیم کے دین کی پیروی کرو۔ (النساء : 125) 5۔ ہم نے آپ کو وحی کی کہ ابراہیم کے دین کی پیروی کرو۔ (النحل : 123) 6۔ آپ ابراہیم کے مہمانوں کے متعلق بتلائیں۔ (الحجر : 51) 7۔ یقیناً ابراہیم (علیہ السلام) تحمل مزاج، آہ وزاریاں کرنے والے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ (ہود : 75) 8۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) آہ وزاریاں کرنے والے اور متحمل مزاج تھے۔ ( التوبۃ : 114)
Top