Fahm-ul-Quran - Al-An'aam : 10
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : ہنسی کی گئی بِرُسُلٍ : رسولوں کے ساتھ مِّنْ : سے قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَحَاقَ : تو گھیر لیا بِالَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہوں نے سَخِرُوْا : ہنسی کی مِنْهُمْ : ان سے مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس پر يَسْتَهْزِءُوْنَ : ہنسی کرتے
” اور بیشک آپ سے پہلے کئی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو ان میں سے جنہوں نے مذاق اڑایا تھا انہیں اسی چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (10)
فہم القرآن ربط کلام : کفار کا انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مذاق اور اس کا انجام۔ اہل کفر انبیاء کرام (علیہ السلام) سے صرف اوٹ پٹانگ مطالبات ہی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ انھیں ہر طرح زچ اور پریشان کرنے کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے تھے۔ ان ہتھکنڈوں اور کٹ حجتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ان کی شخصیات کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی نبوت کو مذاق اور ان کے کام کو کھیل تماشا سمجھتے تھے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ان سے کہنے لگی کہ کیا تو ہمارے پاس کوئی حق اور سچ کی بات لایا ہے یا کہ محض کھیل تماشا کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کے دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے رب کی ہی بات کہہ رہا ہوں وہ رب جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور میں تم پر شہادت قائم کر رہا ہوں۔ (الانبیاء : 56، 55) حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ساڑھے نو سو سال آپ کو ستایا چند لوگوں کے سوا باقی لوگ ان کی مخالفت اور کفر پر ڈٹے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں بد دعا کی اے میرے رب اب ایسا عذاب نازل فرما کہ کفار کا ایک فرد بھی نہ بچے۔ اس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا آپ ہماری نگرانی اور وحی کے مطابق ایک کشتی تیار کریں۔ جب نوح (علیہ السلام) کشتی تیار کر رہے تھے تو ان کی قوم کے بڑے لوگ دیکھ کر انھیں مذاق کرتے تھے۔ جس کے جواب میں جناب نوح (علیہ السلام) فرماتے کہ وقت آنے والا ہے۔ جس طرح ہمیں مذاق کرتے ہو ہم بھی تمہیں اسی طرح مذاق کریں گے۔ پہلی اقوام کی طرح کافر اور منافق بھی نبی ﷺ کو مذاق کرتے تھے۔ منافقوں کے بارے میں تو یہاں تک موجود ہے جب آپ پر کسی نئی سورت کا نزول ہوتا تو منافق آپ کو استہزاء کا نشانہ بناتے۔ جب آپ انھیں سمجھاتے تو وہ کہتے ہم تو محض شغل اور دل لگی کے لیے ایسی بات کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کیا تم اللہ کی ذات اور اس کے ارشادات اور اس کے معزز رسول سے مذاق کرتے ہو ؟ (التوبۃ : 64 تا 65) یہاں ایسے لوگوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے رسول ! اپنا عزم اور حوصلہ بلند رکھیے آپ سے مذاق ہونا کوئی عجب کی بات نہیں آپ سے پہلے انبیاء کا تمسخر اڑایا جاتا رہا ہے جس طرح پہلے لوگوں کو ان کے کردار کی سزا ملی اسی طرح آپ کو مذاق کرنے والے بھی اپنے انجام سے دو چار ہوں گے۔ لہٰذا آپ فرما دیجیے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور انبیاء کو مذاق کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ مسائل 1۔ پہلی اقوام کے انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ 2۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کو نشانۂ عبرت بنا دیا گیا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء اور ” اللہ “ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ : 1۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے۔ (آل عمران : 184) 2۔ آپ کو اگر انھوں نے جھٹلادیا ہے آپ فرما دیں میرے لیے میرے عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ (یونس : 41) 3۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : 147) 4۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو جھٹلائے گئے ان سے پہلے حضرت نوح وغیرہ۔ (الحج : 42) 5۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلایا ہے۔ تو ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ (الفاطر : 25) 6۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ : 39) 7۔ انہوں نے کہا کیا بشر ہم کو ہدایت دے گا انہوں نے کفر کیا اور ایمان لانے سے اعراض کیا۔ (التغابن : 6) 8۔ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو انہیں ہلاک کردیا گیا۔ (العنکبوت : 37)
Top