Dure-Mansoor - As-Saff : 4
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحِبُّ الَّذِيْنَ : محبت رکھتا ہے ان لوگوں سے يُقَاتِلُوْنَ فِيْ : جو جنگ کرتے ہیں۔ میں سَبِيْلِهٖ : اس کے راستے (میں) صَفًّا : صف بستہ ہو کر۔ صف بنا کر كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ : گویا کہ وہ دیوار ہیں۔ عمارت ہیں مَّرْصُوْصٌ : سیسہ پلائی ہوئی
یقیناً اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں ان سے جو قتال کرتے ہیں اللہ کے رستے میں صف باندھ کر گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں
12۔ عبد بن حمید وابن المنذر قتادہ (رح) سے آیت ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کے بارے میں روایت کیا کہ تم عمارت والے کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ قطعاً پسند نہیں کرتا کہ اس کی عمارت میں اختلاف یعنی کوئی ٹیڑھا پن ہو تو اس طرح اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں فرماتے کہ اس کے حکم اور معاملہ میں اختلاف یا کوئی عیب ہو بیشک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ان کی جنگوں کا جو طریقہ کار بیان فرمایا وہی ان کے لیے نمازوں میں طریقہ بیان فرمایا سو تم لازم پکڑو اللہ کے حکم کو کیونکہ یہ حفاظت اور نجات کا ذریعہ اس شخص کے لیے جس نے اسے اپنا لیا یعنی اس کے حکم پر عمل کیا۔ 13۔ ابن مردویہ نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کھڑی ہوتی تو آپ ہمارے کندھوں کو اور ہمارے سینوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اور فرماتے تھے اختلاف نہ کرو یعنی آگے پیچھے نہ ہوجاؤ ورنہ تمہارے دل بھی مختلف ہوجائیں گے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صفوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں۔ اور تم کندھوں کو کندھوں کے ساتھ اور قدموں کو قدموں کے ساتھ ملا لو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز میں وہی پسند کرتا ہے جیسے لڑائی میں پسند کرتا ہے جیسے فرمایا آیت صفا کانہم بنیان مرصوص ایسی صف گویا کہ وہ سیسہ بلائی ہوئی دیوار ہے۔ 14۔ احمد وابن ماجہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں۔ وہ لوگ جب نماز کے لیے صف بناتے ہیں اور وہ لوگ جو مشرکین سے لڑنے کے لیے میدان میں صف بناتے ہیں اور وہ آدمی جو آدھی رات میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ 15۔ ابن مردویہ نے عرباض بن ساریہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ ام الکتاب یعنی لوح محفوظ میں خاتم النبیین ہوں اس وقت سے کہ آدم (علیہ السلام) اپنی مٹی میں گوندھے ہوئے تھے۔ اور میں عنقریب اس کی تاویل تم کو بتاؤں گا میں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو دی تھی۔ اور اپنی ماں کا خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے ایک نور خارج ہوا کہ جس نے ان کے لیے شام کے محلات روشن کردئیے۔ 16۔ ابن مردویہ نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ہم کو جعفر بن ابی طالب ؓ کے ساتھ نجاشی کی زمین کی طرف چلے جانے کا حکم فرمایا۔ تو اس نے کہا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو میرے لیے سجدہ کرے ؟ میں نے عرض کیا ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ پھر اس نے پوچھا وہ کون ہے ؟ جس نے سجدے سے روکا۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اپنے رسول کو بھیجا ہے اور یہ وہی رسول ہیں کہ جس کی عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا۔ جس کا نام احمد ہوگا۔ بس اس نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اللہ کی عبادت کریں اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ 17۔ مالک والبخاری ومسلم والدارمی والترمذی والنسائی نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں ماحی یعنی مٹانے والا ہوں کہ میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے کہ میں عاقب ہوں یعنی آخر میں آنے والا جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ 18۔ الطیالسی وابن مردویہ نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں محمد ہوں میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں (مردوں کو اٹھانے والا) اور میں نبی التوبہ ہوں اور میں نبی الملحمۃ ہوں (یعنی جنگ کا پیغام دینے والا نبی) ۔ رسول اللہ ﷺ کا رعب 19۔ ابن مردویہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مجھے وہ چیزیں دی گئیں جو اللہ کے انبیاء میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔ اور میرا نام احمد رکھا گیا اور میرے لیے زمین کی مٹی کو پاک بنادیا گیا اور میری امت کو امتوں میں سے خیر والی امت بنادیا گیا۔ 20۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ آیت فلما جاء ہم بالبینت۔ جب ان کے پاس دلائل آئے یعنی جب محمد ﷺ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے اور فرمایا۔ آیت یریدون لیطفؤا نور اللہ با فواہہم کہ وہ لوگ اپنے مونہوں سے اللہ کے نور کو بجھانے کا ارادہ کرتے ہیں یعنی اپنی زبانوں سے۔ 21۔ عبد بن حمید نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ وہ سورة مائدہ میں، سورة صف میں اور سورة یونس میں ” ساحر “ پڑھتے تھے۔ 22۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا آیت ہذا سحر مبین۔ بغیر الف کے، اور آیت واللہ متم نورہ کو تنوین کے ساتھ اور نورہ کو نصب کے ساتھ پڑھا۔
Top