Dure-Mansoor - Al-An'aam : 97
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : وہ جس جَعَلَ : بنائے لَكُمُ : تمہارے لیے النُّجُوْمَ : ستارے لِتَهْتَدُوْا : تاکہ تم راستہ معلوم کرو بِهَا : ان سے فِيْ : میں ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : علم رکھتے ہیں
اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو پیدا فرمایا تاکہ تم ان کے ذریعہ خشکی اور دریا کی اندھیریوں میں ہدایت پاؤ۔ ہم نے آیات کھول کر بیان کردی ہیں ان لوگوں کے لئے جو جانتے ہیں۔
(1) امام ابن بای حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وھوالذی جعل لکم النجوم لتھتدوا بھا فی ظلمت البر والبحر کے بارے میں فرمایا کہ آدمی رات سے بھٹک جاتا ہے اس حال میں کہ اندھیرے میں ہوتا ہے اور راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ (2) امام ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور خطیب نے کتاب النجوم میں عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ سیکھو تم ستاروں سے وہ چیز جو تم کو راستہ دکھا دے تمہاری خشکی میں اور تمہاری تری میں پھر رک جاؤ۔ بلاشبہ اللہ کی قسم ان کو نہیں پیدا کیا گیا۔ مگر آسمان کی زینت کے لئے شیطانوں کو مارنے کے لئے۔ اور نشانیوں کے لئے جس سے آدمی راہ پاتا ہے۔ اور نسب میں سے سیکھو جو تم اس کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرسکو۔ اور سیکھو تم جو حلال کی گئی ہے تمہاری لئے عورتوں میں سے اور جو تم پر حرام کی گئی ہیں پھر رک جاؤ۔ (3) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور خطیب نے کتاب النجوم میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین باتوں کے لئے بنایا ہے۔ اس کی بنایا ہے آسمان کی زینت کے لئے اور ان کو رائے کی رہنمائی کا ذریعہ بنایا۔ اور اس کو بنایا شیطانوں کو مارنے کے لئے اور جو شخص اس کے علاوہ اس میں سے کسی اور چیز کو لے گا تو اس نے اپنے رائے سے کہا اور اس نے اپنے حصے اور بخت کو نقصان پہنچایا اور اپنے نصیب کو ضائع کیا اور اسے حاصل کرنے کا تکلف کیا جس کے سبب کوئی علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور لوگ جاہل اور ناواقف ہیں اللہ کے حکم کے ساتھ اور ان ستاروں میں غیب کی باتوں بتانے کو اختیار کرلیا۔ جس نے فلاں فلاں ستارے کے سبب شادی کی۔ اس کا انجام اس طرح ہوگا۔ اور جس نے فلاں فلاں ستارہ کے سبب سفر کیا اس کا انجام اس طرح اور اس طرح ہوگا قسم ہے میری عمر کی کوئی ستارہ ایسا نہیں ہے کہ جس سے کوئی سرخ یا کالا یا لمبا یا ٹھگنا یا حسن و بدصورتی پیدا کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ایک کے پاس غیب کا علم ہوتا تو اس کو آدم (علیہ السلام) ضرور جانتے جن کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور اس کے لئے فرشتوں کو سجدہ کرایا اور ہر چیز کے نام سکھائے۔ (4) امام ابن مردویہ اور خطیب نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سیکھو تم ستاروں میں سے وہ چیز کہ جس سے تم راہ پا جاؤ خشکی اور دریا کے اندھیروں میں پھر رک جاؤ۔ (5) امام خطیب نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ کچھ حرج نہیں کہ آدمی ستاروں سے وہ چیز سیکھ لے جو اس کو راد دکھائے خشکی میں اور تری میں اور چاند کی منزلوں کا بھی علم حاصل کرے۔ (6) ابن ابی حاتم اور مرہبی نے فضل العلم میں حمید الشامی (رح) سے روایت کیا کہ علم نجوم بھی آدم (علیہ السلام) کا علم ہے۔ (7) امام مرہبی نے حسن بن صالح (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ وہ علم ہے کہ لوگوں نے اس سے ستاروں کو ضائع کردیا۔ (8) امام خطیب نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ستاروں کے حساب کے بارے میں پوچھا اور وہ آدمی آپ کو بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے لگا۔ عکرمہ ؓ نے فرمایا میں نے ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا یہ ایسا علم ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ عاجز ہوگئے اور میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ میں اس کو سیکھوں خطیب ؓ نے فرمایا کہ ان کی مراد وہ مباح قسم ہے جو عرب کے لوگ اس کے ساتھ خاص ہوتے ہیں (اس کے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں) (9) امام زبیر بن نے موفقیات میں عبد اللہ بن حفص (رح) سے روایت کیا کہ عرب لوگوں میں کہانت قیافہ شناسی پرندے کو اڑا کر شگون لینا اور ستاروں کا علم اور حساب کا رواج عام تھا۔ اسلام نے کہانیت کو ختم کردیا۔ اور اسلام کے بعد میں باقی خصلتیں باقی رہیں۔ (10) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عظمۃ میں قرظی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کی قسم اہل زمین میں سے کسی ایک کے لئے آسمان میں کوئی ستارہ نہیں لیکن پیچھے لگتے تھے کہانت کی باتوں کے اور ستاروں کو بیماری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ (11) امام ابوداؤد اور خطیب نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے خطبہ دیا اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث ذکر کرتے ہوئے فرمایا اما بعد کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ سورج گرہن اور چاند گرہن اور ان ستاروں کا زوال ہوجانا اپنی جگہ سے زمین والوں میں سے کسی بڑے آدمیوں کی موت کا سبب اٹھتا ہے وہ بلاشبہ انہوں نے جھوٹ کہا لیکن یہ اللہ کی آیات ہیں۔ اس کے ذریعہ اس کے بندے آزمائے جاتے ہیں تاکہ وہ دیکھے کون ان میں سے اس کے لئے توبہ کرتا ہے۔ (12) امام خطیب نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ستاروں کے بارے میں سوال نہ کرو۔ اور قرآن کی تفسیر اپنے رائے سے بیان نہ کرو۔ اور صحابہ میں سے کسی کو گالی نہ دو ۔ کیونکہ یہ خالص ایمان ہے۔ (13) امام ابن مردویہ اور خطیب نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو ستاروں میں غور وفکر سے منع فرمایا اور مجھ کو اچھی طرح پاک علم حاصل کرنے کا حکم فرمایا۔ (14) امام ابن مردویہ، مرہبی اور خطیب نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ستاروں میں غوروفکر سے منع فرمایا۔ (15) امام خطیب نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو ستاروں میں غوروفکر کرنے سے منع فرمایا۔ (16) امام طبرانی، ابو نعیم نے حلیہ میں اور خطیب نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو رک جاؤ۔ جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو رک جاؤ۔ اور جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو رک جاؤ۔ (17) امام ابو یعلی، ابن مردویہ اور خطیب نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اپنی امت پر دو چیزوں کو خوف رکھتا ہوں کہ تقدیر کو جھٹلانا اور ستاروں کی تصدیق کرنا اور دوسرے لفظ میں یوں ہے مہارت حاصل کرنا ستاروں (کے علم) میں۔ (18) امام ابن ابی شیبہ، ابو داؤد اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ستاروں کے علم میں سے کچھ حاصل کیا۔ اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کرلیا۔ جتنا اس میں اضافہ ہوگا اتنا یہ بھی بڑھتا جائے گا۔ (19) امام عبد الرزاق نے مصنف میں ابن ابی شیبہ اور خطیب نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا وہ قوم جو ستاروں میں دیکھتی ہے اور برجوں کا حساب لگاتی ہے میں ایسا کرنے والوں کو اخلاق والوں میں سے گمان نہیں کرتا۔ (20) امام خطیب نے میمون بن مھران (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ مجھ کو وصیت کیجئے فرمایا میں تجھ کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور بچ تو علم نجوم سے۔ کیونکہ وہ بلاتا ہے کہانت (یعنی غیب کی خبریں بتانے) کی طرف اور تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی کا تذکرہ کرنے سے بچ مگر خیر کے ساتھ (اس کا تذکرہ کر) ورنہ اللہ تعالیٰ تجھ تو اوندھے منہ جہنم میں گرا دے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ دین کو ظاہر فرمایا اور تقدیر کے بارے میں کلام کرنے سے بچ۔ کیونکہ جو اس میں دو آدمی نہیں کلام کرتے مگر دونوں کو گناہ ملتا ہے۔ یا ان دونوں میں سے ایک کو گناہ ملتا ہے۔ (21) خطیب نے کتاب النجوم میں ایک ایسی سند کے ساتھ جسے ضعیف قرار دیا عطاء (رح) سے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ سے کہا گیا کیا ستاروں کی کوئی اصل ہے۔ فرمایا ہاں انبیاء میں سے ایک نبی جس کو یوشع بن نون کہا جاتا تھا۔ اس کی قوم نے اس سے کہا ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہم کو مخلوق کی پیدائش اور اس کی موت کے بارے میں بتائیے اللہ تعالیٰ نے سورج چاند اور ستاروں کی طرف وحی بھیجی کہ پانی پر چلیں پھر یوشع بن نون کی طرف وحی کی کہ وہ اور اس کی قوم پہاڑ پر چڑھ جائے۔ وہ لوگ پہاڑ پر چڑھ گئے اور پانی پر کھڑے ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مخلوق کی پیدائش ان کی موت کو پہچان لیا۔ سورج چاند اور ستاروں کے چلنے اور رات اور دن کے اوقات کے سبب ان میں سے (ہر) ایک نے جان لیا کہ وہ کب مرے گا اور کب مریض ہوگا۔ اور کس کی اولاد ہوگی۔ اور کس کی اولاد نہ ہوگی راوی نے کہا کہ یہ لوگ اپنے زمانہ میں سے کچھ عرصہ تک (اس پر) باقی رہے۔ پھر داؤد (علیہ السلام) نے ان سے کفر پر قتال کیا۔ لڑائی میں داؤد کی طرف وہ لوگ نکلے جن کی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اور جن کی موت کا وقت آچکا تھا اور ان کے پیچھے گھروں میں رہے۔ جس کی وجہ سے داؤد کے اصحاب میں سے قتال کرتے رہے اور ان میں سے کوئی بھی قتل نہ ہوا۔ داؤد نے فرمایا اے میرے رب میں نے تیری اطاعت پر قتل کیا (دشمنوں سے) اور ان لوگوں نے تیری نافرمانی پر قتل کیا میرے اصحابی قتل ہوگئے اور ان میں سے کوئی بھی قتل نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے ان کو بتادیا تھا مخلوق کی پیدائش اور انکی موت کے بارے میں۔ تیری طرف جو آدمی تھے ان کی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اور جن کی موت کا وقت حاضر ہوا تھا وہ اپنے گھروں میں رہ گئے اس وجہ سے تیرے اصحاب میں سے قتل ہوئے اور ان میں سے کوئی قتل نہ ہوا۔ داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب کس طرح آپ نے ان کو علم عطا فرمایا سورج چاند اور ستاروں کے چلنے سے اور رات اور دن کے اوقات کے بدلنے سے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا اور سورج کو ان پر روک دیا۔ اس کے سبب دن زیادہ ہوگیا اور اس زیادتی نے رات اور دن کو خلط ملط کردیا انہوں نے زیادتی کی مقدار کو نہیں پہچانا تو اس دن کا حساب گڈ مڈ ہوگیا۔ علی ؓ نے فرمایا اس وجہ سے ستاروں میں نظر کرنا ناپسند یدہ ہوگیا۔ (22) امام مرہبی نے فضل العلم میں حسن بن علی ؓ سے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر خیبر کو فتح فرمایا تو آپ نے کمان منگوائی اور اس کے سہارے کھڑے ہوگئے۔ اور آپ نے اللہ کی حمد بیان فرمائی اور اس چیز کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح و نصرت اور مدد سے نوازا تھا۔ پھر ان چیزوں سے منع فرمایا بدکاری کے لہر سے، سونے کی انگوٹھی سے، گدھوں کے نشانات سے۔ سخت اور کھدرا لباس پہننے سے، کتے کی قیمت سے، گھریلو گدھے کا گوشت کھانے سے، سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے تبدیل کرنے سے اس طرح پر کہ ان کے درمیان زیادتی پائی جاتی ہے اور ستاروں میں غوروفکر کرنے سے۔ (23) امام مرہبی نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا تو نجوم کی تعلیم نہ کرو کیونکہ یہ کہانت کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ستاروں کی تاثیرات پر اعتقاد نہ رکھیں (24) امام ابن مردویہ نے حسن کے طریق سے عباس بن عبد المطلب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس جزیرہ کو شرک سے پاک کردیا ہے جب تک ان کو ستارے گمراہ نہ کریں۔ (25) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابو جاد کی حروف کو سیکھنے والا ستاروں کے بارے میں اس کے لئے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے نزدیک (خیر کا) کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اما قولہ : لفظ آیت وھو الذی انشاکم من نفس واحدۃ (26) امام ابن مردویہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اللہ تعالیٰ نے) اپنے آگے آدم کو کھڑا کیا پھر اس کے دائیں کندھے پر ہاتھ مارا تو ان کی حالت میں سے ساری اولاد نکل آئی یہاں تک کہ انہوں نے زمین کو بھر دیا۔ قولہ تعالیٰ : لفظ آیت فمستقر ومستودع (27) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور حاکم نے (اور اس کی تصحیح بھی کی ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت فمستقر ومستودع کے بارے میں فرمایا مستقر وہ جگہ جو رحم میں ہوتی ہے اور مستودع وہ امانت کی جگہ ہے جو مردوں اور چوپاؤں کی صلبوں میں رکھی جاتی ہے۔ اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے مستقر وہ جگہ ہے جو رحم میں ہے اور زمین کے ظاہر اور باطن میں جو چیز زندہ ہیں اور جو مرچکی ہیں۔ اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے۔ مستقر وہ جگہ ہے جو زمین میں ہے اور مستودع وہ جگہ ہے جو صلب میں ہے۔ (28) امام عبد الرزاق، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت فمستقر ومستودع کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ٹھہرنے کی جگہ دنیا میں ہے اور ان کے امانت رکھنے کی جگہ آخرت میں ہے۔ (29) امام فریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ مستقر سے مراد رحم ہے اور مستودع سے مراد وہ جگہ ہے جس میں وہ مرے گا۔ (30) امام عبد الرزاق، سعید بن منصور اور ابن منذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب کسی آدمی کی کسی زمین پر موت آتی ہے تو کوئی ضرورت اسے وہاں تک پہنچا دیتی ہے۔ جب وہ اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی روح قبض کرلی جاتی ہے اور زمین قیامت کے دن کہے گی یہ وہ ہے جس کو تو نے مجھ میں امانت رکھا تھا۔ (31) امام ابو الشیخ نے حسن (رح) اور قتادہ (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا کہ انہوں نے مستقر ومستودع کے بارے میں فرمایا کہ مستقر قبر میں ہے اور مستودع دنیا میں ہے قریب ہے کہ اسے اپنے صاحب کے ساتھ ملا دیا جائے۔ (32) امام ابو الشیخ نے عوف (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر مستقر اور ہر مستودع کے بارے میں قیامت کے دن تک مجھے اس طرح خبر دی گئی جیسے کہ آدم کو سارے اسماء کا علم تھا۔ (33) امام ابو الشیخ نے ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص کو اس کے دانت میں شکایت ہو تو وہ اپنے ہاتھ کو اس پر رکھ کر (یہ آیت) پڑھے لفظ آیت وھو الذی انشاکم من نفس واحدۃ الایہ (34) امام عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے پڑھا لفظ آیت فمستقر قاف کے نصب کے ساتھ۔ (35) امام عبد الرزاق نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے مجھ سے فرمایا کیا تو نے شادی کی ہے ؟ میں نے کہا نہیں آج تک میرے دل میں اس کا میلان پیدا نہیں ہوا انہوں نے فرمایا اگر وہ تیری صلب میں امانت ہے تو وہ یقینی طور پر نکلے گی۔ (36) امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت قد فصلنا الایت سے مراد ہے ہم نے آیات کو بیان کردیا ہے لفظ آیت لقوم یفقھون (یعنی اس قوم کے لئے جو سمجھتی ہے)
Top