Dure-Mansoor - Al-An'aam : 93
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : سے۔ جو افْتَرٰي : گھڑے (باندھے) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ : یا قَالَ : کہے اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف وَلَمْ يُوْحَ : اور نہیں وحی کی گئی اِلَيْهِ : اس کی طرف شَيْءٌ : کچھ وَّمَنْ : اور جو قَالَ : کہے سَاُنْزِلُ : میں ابھی اتارتا ہوں مِثْلَ : مثل مَآ اَنْزَلَ : جو نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذِ : جب الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) فِيْ غَمَرٰتِ : سختیوں میں الْمَوْتِ : موت وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَاسِطُوْٓا : پھیلائے ہوں اَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھ اَخْرِجُوْٓا : نکالو اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ : آج تمہیں بدلہ دیا جائیگا عَذَابَ : عذاب الْهُوْنِ : ذلت بِمَا : بسبب كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے تھے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (بارہ میں) غَيْرَ الْحَقِّ : جھوٹ وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَنْ : سے اٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں تَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے
: اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے یا یوں کہے کہ میری طرف وحی کی گئی حالانکہ اس کی طرف کچھ بھی وحی نہیں کی گئی۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو یوں کہے کہ میں ایسا کلام نازل کروں گا جیسا اللہ نے نازل کیا اور اگر تو اس منظر کو دیکھے جبکہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ نکالو اپنی جانیں آج تم کو ذلت والے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ اس وجہ سے کہ تم اللہ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور اس کی آیتوں کے ماننے سے تکبر کرتے تھے۔
(1) امام حاکم نے مستدرک میں شرجیل بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت عبد اللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی لفظ آیت ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء الآیہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو یہ اپنے رضاعی بھائی عثمان کی طرف بھاگ گیا۔ اور اس کے پاس چھپا رہا یہاں تک کہ جب مکہ والوں کو ایطمنان ہوا تو اس نے اپنے لئے پناہ طلب کی۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے ابو خلف اعمی (رح) سے روایت کیا کہ ابن ابی سرح نبی ﷺ کے لئے وحی لکھتا تھا۔ مکہ کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا اے ابن ابی سرح تو ابن ابی کبشہ کے لئے قرآن لکھتا ہے ؟ اس نے کہا میں لکھتا ہوں جسے میں چاہتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا (3) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح قریشی کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اسلام لایا اور نبی ﷺ کے لئے وحی لکھتا تھا۔ جب اس کو املا کرائی جاتی (اور کہا جاتا لکھ) لفظ آیت سمیعا بصیرا تو لکھتا لفظ آیت علیما حکیما اور جب کہا جاتا (لکھ) لفظ آیت علیما حکیما تو لکھتا لفظ آیت سمیعا علیما وہ شک میں مبتلا ہوگیا اور کافر ہوگیا اور کہا کہ محمد ﷺ کے پاس وحی آتی ہے تو میرے پاس بھی آتی ہے۔ (4) امام عبد بن حمید اور ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت مسیلمہ کذاب کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور اس جیسے لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اس کی مثل دعوی کیا۔ اور جس نے کہا لفظ آیت سانزل مثل ما انزل اللہ فرمایا یہ آیت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی۔ (5) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن اظلم یعنی ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت مسیلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ (6) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن اظلم کے بارے میں ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت مسیلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ (7) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت مسیلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ جو مسجع کلام کرتا تھا اور اس کے ساتھ کہانت کرتا تھا۔ اور لفظ آیت سانزل مثل ما انزل اللہ کے الفاظ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئے جو نبی ﷺ کے لئے لکھتا تھا جب اس کو املا کرائی جاتی کہ (لکھ) لفظ آیت عزیز حکیم تو وہ لکھتا لفظ آیت غفور رحیم یعنی اس کو بدل دیتا تھا پھر آپ پر پڑھ دیتا۔ جب واپس جاتاتو کہتا کیا اچھی مساوات اور برابری ہے۔ پھر وہ اسلام سے لوٹ گیا اور قریش سے مل گیا۔ (8) امام عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ جب لفظ آیت والمرسلت عرفا فالعصفت عصفا نازل ہوئی تو نصر نے کہا جو بنی عبد اللہ میں سے تھا لفظ آیت والطاحنات طحنا والعاجنات عجنا اور (اس طرح کا) بہت قول تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء (الآیہ) (9) امام ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نہیں ہے قرآن میں سے کوئی چیز مگر عمل کیا اس کے ساتھ ان لوگوں نے جو تم سے پہلے تھے۔ اور عنقریب وہ بھی عمل کریں گے جو تم سے بعد ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ اس آیت سے زیادہ ہو یعنی لفظ آیت ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء اور اس قبلہ کے ماننے والون نے اس پر عمل نہیں کیا یہاں تک کہ المختار بن ابی عبیدہ آیا اور اس نے عمل کیا۔ (10) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیتیں ہیں جن کے ذریعہ کافر کو اس کی موت کے وقت خوشخبری دی جاتی ہے لفظ آیت ولو تری اذالظلمون سے لے کر لفظ آیت تشکرون تک۔ ہر شخص کو موت سے پہلے اپنا ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے (11) امام ابن مردویہ نے سند ضعیف کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک دن ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور اس آیت لفظ آیت ولو تری اذالظلمون فی غمرت الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم الیوم تجزون عذاب الھون بما کنتم تقولون علی اللہ غیر الحق وکنتم عن ایتہ تستکبرون کی تلاوت فرمائی پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے نہیں ہے کوئی جان جو دنیا سے جدا ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ دیکھتی ہے اپنے ٹھکانہ کو جنت میں سے یا دوزخ میں سے پھر فرمایا اس وقت اس کے پاس دو صفیں فرشتوں کی ہوتی ہیں جو ہر چیز منظم کرتے ہیں مشرق اور مغرب کے درمیان گویا ان کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں۔ وہ ان کی طرف ایسے ہی دیکھتا ہے جیسے ان کے علاوہ دوسری چیزوں کی طرف دوسری چیزوں کو دیکھتا ہے۔ اگرچہ تم دیکھتے ہو کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہا ہے۔ ان میں ہر فرشتہ کے ساتھ کفن اور خوشبو ہوتی ہے اگر وہ مومن ہوتا ہے تو اس کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے پاکیزہ جان نکل اللہ کی رضا مندی اور اس کی جنت کی طرف۔ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اکراما ایسی چیز تیار کر رکھی ہے جو تیرے لئے دنیا و مافیھا سے بہتر ہے وہ برابر اس کو خوشخبری دیتے رہتے ہیں اور وہ گھیر لیتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ انتہائی نرمی اور بہت ہی مہربانی کا برتاؤ کرتے ہیں اس والدہ سے بڑھ کر جو اس کو اپنے بچے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کی روح ہر ناخن اور ہر جوڑ کے نیچے سے انتہائی نرمی کے ساتھ نکالتے ہیں باری باری سب اعضا مرجاتے ہیں۔ اور ہر عضو ایک ایک کر کے ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اس پر یہ حالت آسان ہوتی ہے اگرچہ تم اس کو شدت کی حالت میں دیکھو یہاں تک کہ (روح) حلق تک پہنچ جاتی ہے تو اس طرح باہر آنا اس کے لئے انتہائی عزت و کرامت کا باعث ہوتا ہے جیسے کہ ایک بچے کے لئے رحم سے نکلنا باعث عزت و کرامت ہوتا ہے ان میں سے ایک فرشتہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے کہ کون ان میں سے اس کو قبض کرے گا۔ مگر اس کے قبضہ کرنے کا اختیار ملک الموت کے پاس ہوتا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت لفظ آیت قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون تلاوت فرمائی پھر فرشتے اس روح کا سفید کفن میں لپیٹ لیتے ہیں کہ اسے اس طرح سینے سے لگا لیتے ہیں جیسے ایک عورت اپنے بچے کو اپنے ساتھ چمٹا لیتی ہے۔ پھر ان میں سے اس کی خوشبو پھوٹی پڑتی ہے جو مشک سے بھی زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے فرشتے اس کو خوشخبری دیتے ہیں اور کہتے ہیں خوش آمدید اے روح پرور ہوا اور پاکیزہ روح اے اللہ اس روح پر رحمت بھیج اور اس جسم پر رحمت بھیج۔ فرشتے اس روح کو لیکر اوپر چڑھتے ہیں اور اللہ کے لئے (بہت) مخلوق ہے ہوا میں ان کی گنتی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ان میں بھی ایسی پاکیزہ ہوا پھیل جاتی ہے جو مشک سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے وہ مخلوق اس پر رحمت کی دعائیں کرتی ہیں اور وہ اس کی خوشخبری دیتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر فرشتہ اس پر رحمت کی دعا کرتا ہے ہر آسمان میں جس آسمان سے یہ گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ الملک الجبار کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتی ہے جبار عزوجل فرماتے ہیں مرحبا اے پاکیزہ جان اور (پاکیزہ) جسم جس سے تو نکل کر آئی ہے جب رب عزوجل کسی چیز کے لئے مرحبا فرماتے ہیں تو ہر چیز اس کے لئے کشادہ کردی جاتی ہے اور ہر تنگی اس سے ہٹا دی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس پاکیزہ روح کو لے جاؤ اور اس کو جنت میں داخل کردو اور اس کو اس کا ٹھکانہ دکھاؤ اور اس پر پیش کرو (ہر وہ چیز) جو ہم نے اس کے لئے نعمت اور کرامت میں سے تیار کی ہے اس کو لے کر زمین پر اتر جاؤ کیونکہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نے اس (زمین سے) ان کو پیدا کیا اور اس میں ان کو لوٹاؤں گا۔ اور اس میں سے ان کو نکالوں گا دوسری مرتبہ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ وہاں سے نکلنے کو وہ اس پر بڑھ کر ناپسند کرتی ہے جتنا وہ جسم سے نکلتے وقت کرتی ہے اور وہ کہتی ہے مجھے کہاں لئے جا رہے ہو کیا اس جسم کی طرف جس میں میں تھی تو وہ کہتے ہیں ہم اس کا حکم کئے گئے ہیں تو تیرے لئے جانا ضروری ہے تو یہ فرشتے نیچے آتے ہیں اس کو لے کر ان کے غسل اور کفن پہنانے کے فارغ ہونے تک تو وہ اس روح کو داخل کردیتے ہیں جسم اور اس کفن کے درمیان جو کلمہ اللہ تعالیٰ نے کلام کے لئے پیدا کیا ہے۔ کہ جس کے ذریعہ دوست یا کوئی اور گفتگو کرے تو وہ سنتا ہے لیکن اس کے لئے جواب دینے کی اجازت نہیں ہوتی اگر وہ لوگوں کو اظہار محبت کرتا سن لے ان میں سے جو سب سے زیادہ اس کو محبوب تھا۔ اور اس کے عزیزوں رشتہ داروں میں سے تو اس پر کہتا ہے کہ تم ٹھہر جاؤ تم جلدی نہ کرو اور وہ سنتا ہے ان کے جوتوں کی آہٹ کو اور ان کے ہاتھوں کے جھاڑنے کو جب وہ لوگ اس سے لوٹ جاتے ہیں (دفن کے بعد) پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں انتہائی غضب ناک اور سخت گیر جن کو منکر اور نکیر کہا جاتا ہے ان کے ساتھ لوہے کے گرز ہوتے ہیں اگر جن اور انسان سب اس پر جمع ہوجائیں تو ان کو نیچا نہیں دکھا سکتے اور ان کے مقابلے میں یہ سب قلیل اور تھوڑے ہیں وہ اس سے کہتے ہیں اللہ کے حکم سے اٹھ کر بیٹھ جا۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جاتا ہے وہ اس وقت ایسی مخلوق کو دیکھتا ہے جو انتہائی خوفناک اور قابل نفرت ہوتی ہے اور اسے ایسی طرف منسوب کرتا ہے جو اس نے اپنی موت کے وقت دیکھا تھا۔ وہ اس سے کہتے ہیں تیر ا رب کون ہے وہ کہتا ہے اللہ پھر وہ کہتا ہے تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہے گا اسلام۔ پھر اس وقت وہ اس کو سخت جھڑکتے ہیں پھر وہ کہتے ہیں تیرا نبی کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے محمد ﷺ اور وہ پسینہ سے شرابور ہوجاتا ہے کہ جس سے اس کے نیچے کی مٹی بھیگ جاتی ہے اور اس کا پاکیزہ پسینہ مشک سے زیادہ خوشبودار ہوتا ہے۔ اس وقت آسمان سے ایک آواز دی جاتی ہے۔ ہلکی آواز کہ میرے بندے نے سچ کہا اور اس کو اس کا سچ بولنا نفع دے گا۔ پھر اس کی قبر کو حد کی نگاہ تک کھلا کردیتے ہیں۔ اور اس کے لئے پھول جمع کردیئے جاتے ہیں۔ اور اس کے لئے ریشم کو بچھا دیتے ہیں۔ اگر قرآن میں سے اس کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے تو اس کی روشنی کے لئے کافی ہوتی ہے اور اگر اس کے پاس نہ ہو تو اس کے لئے ایک روشنی سورج کی طرح اس کی قبر میں رکھ دی جاتی ہے اور اس کے لئے جنت کے دروازے اور روشندان کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور وہ اس سے اپنے ٹھکانہ کو دیکھتا ہے جو اس نے آسمان پر چڑھتے وقت دیکھا تھا پھر اس سے کہا جاتا ہے اے آنکھوں کی ٹھنڈک سوجا، پھر وہ اٹھائے جانے کے دن تک سویا رہے گا۔ مگر اس کی یہ نیند ایسے شخص کی نیند کی طرح ہوگی جو چاہت کے ساتھ سوتا ہے۔ اس سے ابھی تک پوری طرح سیراب نہیں ہوتا۔ وہ اپنی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اس میں اپنی نیند میں رہے گا قیامت کے دن تک۔ اگر وہ اس کے علاوہ (یعنی کافر) ہے جب ملک الموت نازل ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ دو صفیں فرشتوں کی صف بستہ ہوتی ہیں اور مشرق اور مغرب کے درمیان ساری زمین کو گھیر لیتے ہیں اس کی آنکھ تیزی سے اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہے پھر وہ ان کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھتا اگرچہ تم دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ تمہاری طرف دیکھتا ہے اور (یہ فرشتے) اس پر بہت سختی کرتے ہیں اگرچہ تم دیکھتے ہو کہ وہ اس پر آسانی کرتے ہیں مگر وہ اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں اے ناپاک روح نکل۔ اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے عبرت ناک سزا اور عذاب اور شدت اور سختی کے ساتھ ہر ناخن اور ہر عضو سے (ہر عضو) ایک ایک کر کے مرجاتا ہے۔ اور اس کی سانس اتنی تیزی سے نکلتی ہے جیسے کانٹے دار سلاخ اون سے نکلتی ہے یہاں تک کہ روح اس کے حلق تک پہنچ جاتی ہے۔ جسم سے نکلتے وقت اس کی حالت اس بچے کی حالت سے زیادہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہوتی ہے جو رحم سے نکلتے وقت اس کی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ فرشتے اس طرح کے عذاب اور سزا کی خوشخبری بھی سنا رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ (روح) اس کے حلق تک پہنچ جاتی ہے۔ اس میں سے کوئی فرشتہ ایسا نہیں ہوتا جو اس سے بچتا ہو اس سے کراہت کرتے ہوئے پھر ملک الموت اس کی (روح) کو قبض کرلیتا ہے اس فرشتے سے جو اس پر مقرر تھا میں گمان کرتا ہوں کہ یہ پھر فرمایا (پھر اس کی روح کو لپیٹ لیتے ہیں) بدبو اور دھاری دار کپڑے کے ٹکڑے میں جو ساری مخلوق میں زیادہ بدبودار اور کھردرا ہوتا ہے اور اس کی ایسی بدبو پھیل جاتی ہے جو مخلوق سے زیادہ مکروہ پھر ناپسندیدہ ہے۔ اور ملک الموت اپنی ناک کو ڈھانپ لیتے ہیں دوسرے فرشتے بھی اپنی ناکوں کو بند کردیتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں اے اللہ اس روح کو اور اس جسم کو لعنت کر جس سے یہ روح نکلتی ہے۔ جب یہ روح اوپر چڑھتی ہے تو آسمان کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں تو ملک الموت اس کو ہوا میں چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین سے قریب ہوتی ہے تو اپنے نشان پر تیزی سے نیچے گرتی ہے پھر اس کو ایک لوہے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اس کے ساتھ تین مرتبہ ایسا کیا جاتا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ومن یشرک باللہ فکانما خرمن السماء فتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق اور سحیق سے مراد ہے دور پھر وہ اس کی طرف پہنچتی ہے اور ملک الجبار کے سامنے کھڑی ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں اے ناپاک روح تیرے لئے کوئی خوش آمدید نہیں اور نہ اس جسم کو جس سے تو نکلی ہے۔ پھر وہ فرماتے ہیں اس کو جہنم کی طرف لے جاؤ اور اس میں اس کو اس کا ٹھکانہ دکھاؤ اور اس پر پیش کرو ہر وہ چیز جو اس کے لئے عذاب اور عبرت ناک سزائیں اور بیڑیاں تیار کی گئی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس کو زمین کی طرف لے جاؤ کیونکہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سے میں نے ان کو پیدا کیا اور اس میں ان کو لوٹا دوں گا اور اسی میں سے ان کو نکالوں گا دوسری مرتبہ لوگوں کے فارغ ہونے کے بعد فرشتے اس کو لے کر نیچے اتر آتے ہیں اور اس روح کو اس کے جسم اور اس کفنوں کے درمیان داخل کردیتے ہیں اس کے دوست رشتہ دار اور دوسرے افراد جو بھی کلام کرتے ہیں تو وہ اس کو سنتا ہے مگر اس کو اجازت نہیں دی جاتی جواب دینے کی اور اگر سنے اس کو لوگوں میں زیادہ عزت والا آدمی اور اس کی طرف زیادہ محبت رکھنے والا آدمی تو وہ کہے گا کہ ان کو نکالو اس کے ساتھ اور جلدی کرو اور اس کو جواب دینے کی اجازت دیجائے تو یقینی طور پر وہ اس پر لعنت کرے گا اور وہ دوست رکھے گا کہ اس کو اسی حال پر چھوڑ دیا جائے جس پر وہ ہے اور قیامت کے دن تک اسے قبر کے گڑھے میں نہ پہنچایا جائے۔ جب وہ قبر میں داخل کردیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو کالے فرشتے نیلی آنکھوں والے غضبناک اور تیز خو آتے ہیں اور ان کے ساتھ لوہے کے ہتھوڑے زنجیریں طوق اور گرز ہوتے ہیں وہ اس سے کہتے ہیں اٹھ کر بیٹھ جا اللہ کے حکم سے۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے کفن گرپڑتے ہیں اور وہ اپنے پاس خوفناک صورت دیکھتا ہے اور بھول جاتا ہے ان کو جو اس سے پہلے اس نے دیکھا تھا۔ وہ اس سے کہتے ہیں تیرا رب کون ہے۔ وہ کہتا ہے تو وہ دونوں اس کو اس وقت بہت زیادہ دہشت زدہ کرتے ہیں اس کو پکڑ کر لوہے کے ہتھوڑوں سے اس کو مارتے ہیں اس میں سے کوئی عضو باقی نہیں رہتا جس پر ہتھوڑا واقع نہ ہو وہ اس وقت چیختا ہے اور اس کی چیخ کو ہر مخلوق سنتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی فرشتے یا اس کے علاوہ ہر مخلوق سوائے جنات اور انسانوں کے اور وہ (فرشتے) اس پر یکبارگی لعنت کرتے ہیں اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت اولئک یلعنھم اللہ ویلعنھم اللعنون اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر جنات اور انسان جمع ہوجائیں تو ان دو کے ہتھوڑوں کے مقابلے میں تو یہ انہیں زیر نہ کرسکیں بلکہ سب ان کے مقابلے میں قلیل اور تھوڑے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں اٹھ جا اللہ کے حکم سے تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جاتا ہے وہ کہتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا۔ وہ کہتے ہیں تیرا نبی کون ہے ؟ وہ کہتا ہے میں نے لوگوں سے سنا وہ کہتے ہیں کہ وہ محمد ﷺ ہے۔ وہ کہتے ہیں اب تو کیا کہتا ہے ؟ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا وہ کہتے ہیں کہ تو نے (کچھ بھی) نہیں جانا۔ اور وہ اس وقت پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس کے نیچے مٹی بھیگ جاتی ہے۔ البتہ وہ بدبو ہوتی ہے۔ اس بدبودار لاش (کی طرح) جو تمہارے اندر ہوتی ہے۔ اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔ وہ فرشتے اس سے کہتے ہیں سو جا جاگنے والے کی نیند کی طرح سانپ اور بچھو بختی اونٹ کی کیچلیوں کی طرح اس کو کاٹتے رہتے ہیں پھر اس کے لئے دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس میں سے آگ میں اپنا ٹھکانہ دیکھتا ہے جہنم کی گرم ہوائیں اس پر چلتی ہیں اور آگ اس کے چہرے کو جھلستی رہے گی صبح اور شام قیامت کے دن تک۔ (12) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ غمرات الموت سے مراد ہے سکرات الموت۔ (13) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت والملئکۃ باسطوا ایدیھم یعنی یہ موت کے وقت کی کیفیت ہے اور بسط سے مراد ہے مارنا۔ وہ فرشتے ان کے چہروں اور ان کے پیٹھوں کو ماریں گے۔ (14) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت والملئکۃ باسطوا ایدیھم سے ملک الموت (علیہ السلام) مراد ہیں۔ (15) امام ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت والملئکۃ باسطوا ایدیھم یعنی عذاب کے ساتھ فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلاتے ہیں۔ (16) امام ابن ابی حاتم نے محمد بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ ملک الموت کے لئے فرشتوں میں بہت سے مددگار ہوتے ہیں پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ولو تری اذالظلمون فی غمرت الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم (17) امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ وہ فرشتے جو لوگوں سے ملتے ہیں وہی ان کو فوت کرتے ہیں اور ان کے لئے ان کی عمریں لکھتے ہیں جب وہ مقرر دن آجاتا ہے تو اسے موت دے دیتے ہیں اور اس کی روح کو کھینچے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ولو تری اذالظلمون فی غمرت الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم وھب سے کہا گیا کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا لفظ آیت قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم فرمایا ہاں فرشتے جب کسی جان کو فوت کرتے ہیں تو اس کو ملک الموت کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ عاقت یعنی نگران کی طرح ہے۔ یعنی وہ سردار جس کے ماتحت افراد کام کرکے اس تک پہنچا دیتے ہیں۔ (18) امام طستی اور ابن الانباری نے الوقف والابتداء میں نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت عذاب الھون کے بارے میں بتائیے فرمایا اس سے مراد دائمی اور شدید رسوائی اور ذلت ہے۔ پوچھا گیا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں ؟ کیا تو نے شاعر کو کہتے ہوئے نہیں سنا۔ انا وجدنا بلاد اللہ واسعۃ تنجی من الذل والمخزات والھون ترجمہ : ہم نے پایا اللہ کے شہروں کو کشادہ جو تم کو نجات دیتے ہیں ذلت سے رسوائی سے اور دائمی شدت سے۔ (19) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت عذاب الھون سے مراد ہے ذلت والا عذاب یعنی وہ عذاب دیا جائے گا جس میں ذلت اور شہرت ہوگی۔ (20) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت عذاب الھون یعنی وہ عذاب جو ان کو ذلیل کرے گا۔
Top