Dure-Mansoor - Al-An'aam : 68
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاَيْتَ : تو دیکھے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ يَخُوْضُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَعْرِضْ : تو کنارا کرلے عَنْهُمْ : ان سے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہو فِيْ : میں حَدِيْثٍ : کوئی بات غَيْرِهٖ : اس کے علاوہ وَاِمَّا : اور اگر يُنْسِيَنَّكَ : بھلا دے تجھے الشَّيْطٰنُ : شیطان فَلَا تَقْعُدْ : تو نہ بیٹھ بَعْدَ : بعد الذِّكْرٰي : یاد آنا مَعَ : ساتھ (پاس) الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اے مخاطب ! جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں عیب جوئی کرتے ہیں تو ان سے کنارہ ہوجا ! یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں۔ اور اگر تجھے شیطان بھلا دے تو یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ مت بیٹھو۔
(1) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا کے بارے میں فرمایا اسی طرح بھی قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم فرمایا جماعت کے ساتھ (رہنے کو) اور ان کو منع فرمایا اختلاف سے اور فرقہ بندی سے اور ان کو خبر دی کہ اس سے پہلے لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اللہ کے دین میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے۔ دین کا مذاق اڑانے والوں کی مجلس میں بیٹھنا حرام ہے (2) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم یعنی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھیں جو اللہ کی آیات میں عیب جوئی کرتے ہیں۔ ان کو جھٹلاتے ہیں۔ اگر تو بھول جائے تو یاد آنے کے بعد مت بیٹھو ظالم قوموں کے ساتھ۔ (3) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا یعنی وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں تو محمد ﷺ کو ان کے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا مگر یہ آپ بھول جائیں جب یاد آئے تو کھڑے ہوجائیں۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین (4) امام عبد بن حمید، ابو داؤد نے ناسخ میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابو مالک (رح) و سعید بن جبیر (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگ جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں یعنی مشرکین (پھر فرمایا) لفظ آیت واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری یاد آنے کے بعد پھر فرمایا اگر تو بھول جائے پھر یاد آنے کے بعد ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔ لفظ آیت وما علی الذین یتقون من حسابھم من شیء یعنی تجھ پر کوئی الزام نہیں جو وہ لوگ عیب جوئی کرتے ہیں اللہ کی آیات میں پھر فرمایا لفظ آیت ولکن ذکری لعلھم یتقون یعنی ان کو یہ بات یاد دلاؤ اور ان کو خبر دو کہ تمہارے لئے یہ طریقہ باعث اذیت و تکلیف ہوگا تاکہ وہ تمہارے ساتھ برا سلوک کرنے یا باز آجائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت وقد نزل علیکم فی الکتب الایہ (النساء آیت 24) (5) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ مشرکین جب مؤمنین کے ساتھ بیٹھ جاتے تو نبی کریم ﷺ اور قرآن کے بارے میں نازیبا الفاظ کہتے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں۔ (6) امام عبد بن حمید، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے محمد بن سعید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم یعنی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ آیت اہل اھواء کے بارے میں نازل ہوئی۔ (7) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو نعیم نے حلیہ میں ابو جعفر (رح) سے روایت کیا کہ فتنہ فساد کرنے والوں کے پاس نہ بیٹھو کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات میں عیب جوئی کرتے ہیں۔ (8) امام عبد بن حمید اور ابن منذر نے محمد بن علی (رح) سے روایت کیا کہ اصحاب الاھواء (یعنی اپنی خواہشات پر چلنے والے) ان لوگوں میں سے ہیں جو اللہ کی آیات میں عیب جوئی کرتے ہیں۔ مشرکین سے اعراض کا حکم (9) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ مشرکین نبی ﷺ کے پاس بیٹھ جاتے تھے اور اس بات کو پسند کرتے تھے کہ ان سے وہ کلام سنیں۔ جب وہ سنتے تھے تو مذاق اڑاتے تھے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم یعنی جب وہ مذاق اڑانا شروع کریں تو ان سے کھڑے ہوجاؤ تاکہ اس سے باز رہیں۔ اور ان سے کہو مذاق مت اڑاؤ اور کھڑے ہوجاؤ (وہاں نہ بیٹھو) اسی کو فرمایا لفظ آیت لعلھم یتقون یعنی اگر وہ عیب جوئی کریں تو کھڑے ہوجاؤ اور اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت وما علی الذین یتقون من حسابھم من شیء یعنی اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے ہو تو مت بیٹھو۔ (کھڑے ہوجاؤ) پھر مدینہ منورہ میں اس قول نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ یعنی لفظ آیت وقد نزل علیکم فی الکتب ان اذا سمعتم سے لے کر لفظ آیت انکم اذاقتلتم تک اور یہ حکم اس آیت یعنی لفظ آیت وما علی الذین یتقون من حسانھم من شیء کے لئے ناسخ ہے۔ (10) امام فریابی اور ابو نصر السجزی نے الابانۃ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا وہ اھل کتاب مراد ہیں۔ منع کیا گیا ان کے ساتھ بیٹھنے کو جب سنو تم کے وہ قرآن کے بارے میں خلاف حق کہتے ہیں۔ (11) امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابو وائل (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی جھوٹ کا ایسا کلمہ کہتا ہے کہ اس سے مجلس کے لوگ سنیں تو اللہ تعالیٰ پر ناراض ہوتے ہیں یہ بات ابراہیم نخعی کو بتائی گئی تو انہوں نے فرمایا اس سنے سچ کہا کیا کتاب اللہ میں اس طرح نہیں ہے (ضرور ہے) یعنی لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم (12) امام ابو الشیخ نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ مکہ میں مشرکین جب نبی ﷺ کے اصحاب سے قرآن سنتے تھے تو عیب جوئی کرتے اور مذاق اڑاتے مسلمانوں نے کہا ان کے ساتھ مجالست صحیح نہیں ہم ان کی باتیں سنتے وقت اٹھنے سے ڈرتے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں (یہ آیت) اتاری لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم (13) امام ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت لفظ آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا کو منسوخ کردیا اس آیت نے جو سورة النساء میں ہے یعنی لفظ آیت وقد نزل علیکم فی الکتب ان اذا سمعتم ایت اللہ یکفر بھا اسے کے بعد پھر حکم نازل ہوا لفظ آیت فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم (14) امام نحاس نے ناسخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت وما علی الذین یتقون من حسابھم من شیء یہ مکی آیت ہے اس کی مدینہ کی آیت نے منسوخ کردیا یعنی لفظ آیت وقد نزل علیکم فی الکتب ان اذا سمعتم ایت اللہ یکفر بھا (15) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت وما علی الذین یتقون من حسابھم من شیء وہ بیٹھیں لیکن تم نہ بیٹھو۔ (وہاں سے چلے جاؤ) (16) امام ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ان کے ساتھ منافقوں نے بیٹھنا شروع کردیا۔ جب وہ قرآن کو سنتے تو عیب جوئی کرتے اور مذاق اڑاتے جیسے مکہ میں مشرکین کا بھی یہی کام تھا۔ مسلمانوں نے کہا ہم پر کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دی ہے۔ اور ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ان کی بےہودہ بحثوں کی تو یہ آیت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی (جس سے یہ رخصت ختم کردی گئی) (17) امام ابن ابی شیبہ نے ہشام بن عروہ بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن عبد العزیز ایک قوم کے پاس تشریف لائے ان کے ساتھ شراب پر ایک روزے دار آدمی بیٹھا ہوا تھا تو آپ نے اس کو مارا اور فرمایا لفظ آیت فلا تقعدوا معھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرۃ
Top