Dure-Mansoor - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور آپ اس کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرایئے جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا۔ تاکہ یہ لوگ ڈر جائیں۔
(1) امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے حلیہ میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ قریش کی ایک جماعت نبی ﷺ کے پاس سے گزری اور آپ کے پاس صہیب، عمار، بلال، شہاب ؓ اور ان جیسے ضعیف مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا اے محمد ﷺ کیا تو اپنی قوم میں سے ان لوگوں کے ساتھ راضی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان سے ان لوگوں پر احسان فرمایا کیا ہم ان لوگوں کے تابع ہوجائیں۔ ان کے اپنے پاس سے دور کر دیجئے اگر آپ نے ان کو دور کردیا تو شاید ہم آپ کی پیروی کرلیں۔ ان کے بارے میں قرآن نازل ہوا لفظ آیت وانذر بہ الذین یخافون ان یحشروا الی ربھم سے لے کر لفظ آیت واللہ اعلم بالظلمین تک۔ (2) امام ابن جریر اور ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ قرظہ بن عبد، عمرو بن نوفل، حارث بن عامر بن نوفل، معظم بن عدی بن الخیار بن نوفل جو عبد مناف میں سے کفار کے اشراف میں سے تھے۔ ابو طالب کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اگر تیرا بھتیجا ہم سے ان غلاموں کو ہٹا دے جو ہمارے غلام اور ہمارے دست نگر ہیں۔ تو ان کی عزت ہمارے سینوں میں بڑھ جائے گی۔ اور ہماری طرف سے اس کے لئے زیادہ فرمانبرداری ہوگی۔ اور ہم اس کی پیروی اور اس کی تصدیق میں زیادہ قریب ہوں گے۔ ابو طالب نے یہ بات نبی ﷺ کو بتائی عمر بن خطاب نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ اگر آپ ایسا کرلیں جیسا ہو چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کی بات کی سچائی کو پرکھ سکیں تو اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت وانذربہ الذین یخافون ان یحشروا الی ربھم سے لے کر لفظ آیت الیس اللہ باعلم بالشکرین تک آیات نازل فرمائیں۔ کہ یہ لوگ تھے بلال، عمار بن یاسر، سالم بن ابی حذیفہ، صبحا مولی اسید اور ابن مسعود کے اتحادیوں میں سے مقداد بن عمرو، واقد بن عبداللہ حنظلی، عمرو بن عبد عمر، ذوالشمالین اور مرثد بن ابی مرثد اور ان کی طرح کے اور لوگ بھی تھے۔ قریش میں سے آئمہ الکفر اور موالی اور حلفاء کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی فرمایا لفظ آیت وکذلک فتنا بعضھم ببعض لیقولوا الایہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عمر بن خطاب متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنی بات سے عذر پیش کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت واذا جاءک الذین یومنون بایتنا اللہ کے ہاں غریب امیر کی تفریق نہیں (3) امام ابن ابی شیبہ، ابن ماجہ، ابو یعلی، ابو نعیم نے حلیہ میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں خباب ؓ سے روایت کیا کہ اقرع بن حابس تمیمی، عینیہ بن حصن الفرازی آئے اور انہوں نے نبی ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا پایا بلال کو صہیب کو عمار کو اور خباب کو اور کچھ لوگ ضعیف مومنین میں سے جب انہوں نے ان لوگوں کو آپ کے گرد بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان کو حقیر جانا اور آپ کے پاس آئے اور آپ کی خلوت میں بیٹھنے کی گزارش کی۔ اور انہوں نے کہا ہم اس بات کو محبوب رکھتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹھنے کی علیحدہ جگہ بنا لیں۔ تاکہ عرب کے لوگ ہماری فضیلت کو جان لیں کیونکہ عرب کے وفد عنقریب آپ کے پاس آئیں گے۔ ہم کو شرم آتی ہے اگر ہم کو عرب کے لوگ ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھیں۔ جب ہم آپ کے پاس آئیں تو یہ لوگ ہم سے دور ہوجائیں۔ جب ہم فارغ ہوجائیں تو پھر آپ ان کے پاس چاہیں تو بیٹھ جائیں اگر آپ چاہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں (ٹھیک ہے) انہوں نے کہا ہمارے لئے اس بارے میں کچھ لکھ دیجئے آپ نے کاغذ منگوایا اور علی ؓ کو بلوایا تاکہ وہ لکھیں اور ہم ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ اچانک جبرئیل (یہ آیت) لے کر نازل ہوئے لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی سے لے کر لفظ آیت فقل سلم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ تو رسول اللہ ﷺ نے وہ کاغذ اپنے ہاتھ مبارک سے نیچے ڈال دیا۔ پھر آپ نے بلوایا تو ہم آپ کے پاس آگئے۔ اور آپ پڑھ رہے تھے لفظ آیت فقل سلم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ ہم آپ کے پاس بیٹھ گئے جب آپ نے کھڑا ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ کھڑے ہوگئے اور ہم کو چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی یریدون وجھہ الایہ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھ گئے جب وہ وقت پہنچ جاتا کہ جس میں آپ کھڑے ہوجاتے تو آپ ہم کو چھوڑ دیتے یہاں تک کہ کھڑے ہوجاتے۔ (4) زبیر بن بکار نے اخبار المدینہ میں عمر بن عبد اللہ بن مھاجر (رح) جو عفرہ کے آزاد کردہ غلام تھے ان سے توبہ کے ستونوں کے بارے میں فرمایا کہ نبی ﷺ کی اکثر نفل نماز اس کی طرف ہوتی تھی۔ جب آپ صبح کی نماز ادا فرما لیتے تو اس کی طرف تشریف لے جاتے۔ پھر ضحفاء مساکین تکلیف والے اور نبی ﷺ کے مہمان اور مولفتہ القلوب تمام لوگ اس کے پاس آئے وہ جگہ بھی آتے جن کا رات کا گزارنا مسجد میں تھا راوی نے کہا اور یہ لوگ آپ کے ارد گرد حلقہ بنا لیتے اور آپ بھی صبح کی نماز کے مصلے سے ان کی طرف تشریف لے جاتے۔ اور ان پر تلاوت فرماتے جو اللہ تعالیٰ نے رات میں آپ پر اتارا تھا اور آپ ان کو گفتگو فرماتے اور وہ لوگ آپ سے باتیں کرتے رہتے یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہوتا تو آپ کے پاس مال والے اور خوشحال لوگ آتے جب وہ آپ کو اپنے لئے فارغ اور تنہا نہ پاتے (تا کہ علیحدہ ہو کر آپ سے بات کریں) تو ان کے دلوں نے آپ کی طرف خواہش کی۔ اور آپ کے دل نے ان کی طرف خواہش کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی یریدون وجھہ جب ان کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا۔ تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر آپ ان لوگوں کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم آپ کے ساتھی اور آپ کے بھائی ہوں گے۔ اور ہم آپ سے جدا نہیں ہوں گے۔ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی (5) امام فریابی، احمد، عبد بن حمید، ومسلم نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، ابو الشیخ، ابن مردویہ، حاکم ابو نعیم نے حلیہ میں بیہقی نے دلائل میں سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت چھ آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی میں، عبد اللہ بن مسعود، بلال، ھذیل، میں سے ایک آدمی اور دو اور آدمی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ ان (غریب لوگوں) کو ہٹالیں۔ ہم کو شرم آتی ہے کہ ہم ان لوگوں کے تابع ہوجائیں۔ نبی ﷺ کے دل میں اتنا سا خیال واقع ہوا جو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ واقع ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی سے لے کر لفظ آیت الیس اللہ باعلم بالشکرین (6) امام عبد بن حمید، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی سے مراد وہ نماز پڑھنے والے۔ حضرت بلال اور ابن ابی عبید تھے۔ دونوں محمد ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے قریش نے ان سے حقارت کرتے ہوئے کہا اگر یہ دونوں اور ان دونوں کی طرح (دوسرے غریب مسلمان) نہ ہوتے تو ہم آپ کے ساتھ بیٹھتے تو ان کے ہٹانے سے منع کردیا گیا۔ یہاں تک کہ فرمایا لفظ آیت الیس اللہ باعلم بالشکرین (7) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی مجلس کی طرف آگے بڑھ جاتے تھے۔ ان میں سے بلال، صہیب سلمان تھے آپ کی قوم میں سے کچھ سردار اور بڑے لوگ حاضر ہوئے۔ ان (غریب مسلمانوں) نے مجلس کو گھیرے کی وجہ سے یہ لوگ ایک کونے میں بیٹھ جاتے۔ اور کہتے لگے صہیب سلیمان فارسی اور بلال حبشی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم آتے ہیں تو ہم ایک کونے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی گئی کہ ہم اپنی قوم کے سردار اور بڑے لوگ ہیں (اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو) ہم آپ سے قریب ہوجاتے ؟ راوی نے کہا کہ آپ نے ایسا کرنے کا ارادہ فرمالیا مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم (8) امام ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ قریش کے بڑے لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ کے پاس بلال، سلمان، صہیب اور انہی کی طرح دیگر افراد ام عبد کے بیٹے، عمار اور خباب بیٹھے ہوئے تھے۔ جب ان (غریب مسلمانوں) نے (آپ کے گرد) احاطہ کرلیا تو قریش کے بڑے لوگوں نے کہا کہ بلال حبشی، سلمان فارسی اور صہیب اور اگر آپ ان کو ہٹا دیتے تو ہم آپ کے پاس حاضر ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی یریدون وجھہ (9) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی کے بارے میں فرمایا یعنی وہ عبادت کرتے ہیں اپنے رب کی صبح اور شام کو یعنی فرض نماز (پڑھتے ہیں) (10) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی کے بارے میں فرمایا کہ اس سے فرض نماز مراد ہے۔ یعنی صبح اور عصر کی نماز۔ (11) امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوۃ والعشی کے بارے میں فرمایا کہ ان سے ذکر والے مراد ہیں کہ ان کو ذکر سے نہ ہٹاؤ سفیان ؓ نے فرمایا کہ یہ فقیر لوگ مراد ہیں (آپ ان کو دور نہ کیجئے) (12) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک فتنا بعضھم ببعض کے بارے میں فرمایا کہ ان کے بعض کو غنی اور ان کے بعض کو فقیر بنا دیا گیا۔ غنی لوگوں نے فقیر لوگوں سے کہا لفظ آیت اھولاء من اللہ علیھم من بیننا یعنی ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی۔ اور یہ انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا۔ (13) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت وکذلک فتنا بعضھم ببعض یعنی ہم نے ان کے بعض کو بعض کی وجہ سے آزمایا۔ (14) امام ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت اھولاء من اللہ علیھم من بیننا یعنی اگر ان کو اللہ کے نزدیک کوئی عزت حاصل ہوتی تو ان کو یہ شریعت نہ پہنچتی۔ (15) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک بعضھم ببعض کے بارے میں فرمایا کہ غریب لوگ جو نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو بڑے لوگوں نے کہا کہ ہم آپ پر ایمان لائیں گے (لیکن) جب ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے تو یہ لوگ ہم سے پیچھے ہوجائیں اور ان کو چاہئے کہ یہ لوگ ہمارے پیچھے نماز پڑھیں۔ (16) امام فریابی، عبد بن حمید، مسدد نے مسند میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ماہان ؓ سے روایت کیا کہ ایک قوم نبی ﷺ کے پاس آئی اور انہوں نے کہا ہم لوگ بڑے گناہوں کو پہنچے ہیں۔ آپ نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا۔ تو یہ لوگ لوٹ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت اتاری) لفظ آیت واذا جاءک الذین یومنون بایتنا (الایہ) آپ نے ان کو بلوایا اور ان پر ان آیات کو پڑھا۔ (17) امام ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت سلم علیکم کے بارے میں خبر دی گئی کہ جب لوگ نبی ﷺ پر داخل ہوتے تھے تو آپ ﷺ پہلے انہیں فرماتے لفظ آیت سلم علیکم اور جب آپ ان سے ملاقات کرتے تو اسی طرح فرماتے۔ (18) امام عبد الرزاق، ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت وکذلک نفصل الایت یعنی ہم اس طرح آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔ (19) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ولتستبین سبیل المجرمین سے مراد ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو ان لوگوں کے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ قولہ تعالیٰ : لفظ آیت قد ضللت اذا وما انا من المھتدین (20) امام ابن ابی شیبہ، بخاری، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور ابن ابی حاتم نے ھزیل بن شرجیل (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابو موسیٰ اور سلمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے بیٹی، بیٹے کی بیٹی اور بہن کے حصوں کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا بیٹی کے لئے آدھا اور بہن کے لئے آدھا اور کہا تو عبد اللہ کے پاس جا کر پوچھ لے۔ عنقریب وہ بھی ہمارے موافقت کریں گے۔ وہ آدمی عبد اللہ ؓ کے پاس آیا اور اس کی بتایا تو انہوں نے فرمایا لفظ آیت قد ضللت اذا وما انا من المھتدین اور میں اس بارے میں ضرور فیصلہ کروں گا رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق (پھر فرمایا) بیٹی کے لئے آدھا اور بیٹے کی بیٹی کے لئے چھٹا اور باقی بہن کے لئے۔
Top