Dure-Mansoor - Al-An'aam : 140
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِ١ؕ قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠   ۧ
قَدْ خَسِرَ : البتہ گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے قَتَلُوْٓا : انہوں نے قتل کیا اَوْلَادَهُمْ : اپنی اولاد سَفَهًۢا : بیوقوفی سے بِغَيْرِ عِلْمٍ : بیخبر ی (نادانی سے) وَّحَرَّمُوْا : اور حرام ٹھہرا لیا مَا : جو رَزَقَهُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ افْتِرَآءً : جھوٹ باندھتے ہوئے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَدْ ضَلُّوْا : یقیناً وہ گمراہ ہوئے وَمَا كَانُوْا : اور وہ نہ تھے مُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
بیشک وہ لوگ خسارے میں پڑگئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بےوقوفی سے بغیر علم کے قتل کیا اور اللہ نے انہیں جو رزق عطا فرمایا اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے اسے حرام قرار دے دیا بیشک وہ لوگ گمراہ ہوئے اور وہ ہدایت پر چلنے والے نہیں ہیں۔
(1) امام بخاری، عبد بن حمید اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تجھے خوشی ہو کہ تو عرب کے جاہلوں کو تعلیم دے۔ تو سورة انعام میں سے ایک سو تیس آیات سے اوپر والی آیات پڑھائیں ان میں سے یہ بھی ہے لفظ آیت قد خسر الذین قتلوا اولادھم سفھا سے لے کر لفظ آیت وما کانوا مھتدینتک۔ (2) امام ابن منذر اور ابو الشیخ نے عکرمہ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت قد خسر الذین قتلوا اولادھم سفھا بغیر علم کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو زندہ درگور کردیتے تھے قبیلہ مضر اور ربیعہ میں سے ایک آدمی اپنی بیوی پر یہ شرط لگاتا تھا کہ تو زندہ درگور کردوگی لڑکی ہو تو۔ اور دوسرے (یعنی لڑکے کو) زندہ چھوڑ دوگی۔ جب لڑکی پیدا ہوتی کہ جس کو کل زندہ درگور ہونا ہوتا تو وہ صبح شام کے وقت اپنی بیوی کے پاس آتا ہے۔ اور کہتا تو مجھ پر میری ماں کی طرح سے ہے اگر میں تیری طرف لوٹ کر آؤں تو نے اس کو زندہ درگور نہ کیا۔ تو اس کی بیوی اس کو اپنی عورتوں کے پاس بھیج دیتی۔ وہ اس کے لئے گڑھا کھودتیں اور اس کو اپنے درمیان باری باری لیتیں پس اس طرح جب وہ اسے آنے جانے کے قابل دیکھتیں تو اس کو اس گھڑے میں دھنسا دیتیں اور اس پر مٹی کو برابر کردیتیں۔ (3) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت قد خسر الذین قتلوا اولادھم سفھا بغیر علم کے بارے میں فرمایا کہ جاہلیت میں یہ رواج تھا۔ ان میں کئی ایک اپنی بیٹی کو قتل کردیتے تھے ندامت اور فاقہ کے خوف سے اور غذا دیتے تھے اپنے کتے کو اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ما رزقھم اللہ یعنی انہوں نے حرام بنا لیا بحیرہ سائبہ وصیلہ اور حامی کو نافذ کرتے ہوئے شیطان کے فیصلے کو مانتے ہوئے اور انہوں نے حصے مقرر کر رکھے تھے اپنے مواشی اور اپنے کھیتوں کے بارے میں اور یہ شیطان کی طرف سے تھا اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتے ہوئے۔ (4) امام ابو الشیخ نے ابو رزین سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا لفظ آیت قد ضلوا قبل ذلک وما کانوا مھتدین
Top