Dure-Mansoor - Al-Waaqia : 96
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَسَبِّحْ : پس تسبیح کیجیے بِاسْمِ : نام کی رَبِّكَ الْعَظِيْمِ : اپنے رب عظیم کے
سو اپنے عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح کیجیے
رکوع اور سجدہ کی تسبییح 42۔ سعید بن منصور واحمد وابوداوٗد وابن ماجہ وابن حبان والحاکم وصححہ وابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی سنن میں عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت ” فسبح باسم ربک العظیم “ نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا اس کو اپنے رکوع میں کرلو۔ اور جب آیت ” سبح اسم ربک الاعلی “ نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا اس کو اپنے سجدوں میں کرلو۔ 43۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ہم اپنے رکوع میں کیا کہیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری جو سورة واقعہ کے آخر میں ہے (یعنی) آیت ” فسبح باسم ربک العظیم “ تو آپ نے ہم کو حکم فرمایا کہ ہم تین مرتبہ آیت ” سبحان ربی العظیم “ کہیں ابن مردویہ (رح) نے کہا۔ محمد بن عبداللہ ابراہیم الشافعی نے بیان کیں اور ہم کو حسین بن عبداللہ بن یزید (رح) نے خبر دی اور ہم کو محمد ابن عبداللہ بن سابور نے خبردی ( اور ہم کو الحکم بن ظہیر (رح) نے سعدی (رح) سے خبردی اور انہوں نے ابومالک (رح) سے روایت کیا یا ابو صالح (رح) سے (اور) انہوں نے ابن عباس ؓ سے بیان فرمایا کہ آیت ” اذا وقعت الواقعہ “ سے مراد ہے کہ قیامت کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں جس نے اسے دنیا میں جھٹلایا۔ تو وہ آخرت میں اسے نہیں جھٹلا سکے گا۔ جو وہ واقع ہوگی۔ آیت ” خافضۃ رافعۃ “ فرمایا (قیامت) پست کرنے والی ہے آپ فرماتے ہیں اس نے آواز پست کی اور کانوں کو سنوا دی۔ اور آواز بلند کی تو دور تک سنوادی لہٰذا اس میں قریب اور دور سب برابر ہیں۔ (پھر) فرمایا اس نے کوئی قوموں کو پست کردیا حالانکہ وہ دنیا میں اونچے تھے۔ اور کئی قوموں کو بلند کردیا یہاں تک کہ اعلیٰ علیین میں پہنچا دیا آیت ” اذا رجت الارض رجا “ (جب زمین میں سخت زلزلہ آئے گا) یقنی زلزلہ آیت ” وبست الجبال بسا “ (اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہوجائیں گے) آیت ” فکانت ہباء منبثا “ (پھر وہ پراگندہ غبار ہوجائیں گے) حکم اور سدی رحمہما اللہ نے فرمایا کہ اس فتنہ و فساد میں چوپاؤں کا وہ فتنہ بھی ہے جو غبار اڑائے گا آیت ” وکنتم ازواجا ثلثۃ “ (اور تم تین قسم کے ہوجاؤ گے) یعنی قیامت کے دن بندے تین قسموں پر ہوں گے آیت ” فاصحب المیمنۃ ما اصحب المیمنۃ “ (اور دائیں طرف والے کیسے اچھے ہوں گے دائیں طرف والے) اور یہی جمہور اہل جنت کی جماعت ہے آیت ” واصحب المشئمۃ ما اصحب المشئمۃ “ (اور بائیں طرف والے وہ کیسے برے ہوں گے بائیں طرف والے) اور یہ بائیں ہاتھ والے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کیا ان کا حصہ برا حال ہے اور کیا تیار کیا گیا ہے ان کے لیے آیت ” والسبقون السبقون “ ) اور جو اعلیٰ درجہ کے ہوں گے وہ تو اعلیٰ درجے کے ہوں گے) اور وہ ہوں گے مثل نبیوں کے صدیقین کے اور شہداء کے (نیک) اعمال کی وجہ سے پہلے اور پچھلے لوگوں میں سے آیت ” اولئک المقربون “ (یہی لوگ اللہ کے مقرب ہیں) وہ لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں گے۔ رحمن کے گھر سے جنت کے بطنان سے اور اس کا بطنان اس کا وسط ہے جنات النعیم میں سے آیت ” ثلۃ من الاولین، وقلیل من الاٰخرین، علی سررموضونۃ “ (ان کا ایک گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے ہوں گے۔ وہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر بیٹھے ہوں گے) آیت ” الموضونۃ “ سے مراد وہ پلنگ ہے جو سونے سے بنایا جائے اور اسے جواہر اور یاقوت سے آراستہ کیا جائے۔ آیت ” متکئین علیہا متقبلین “ (اس پر تکیہ لگائے ہوئے آمنے سامنے ہوں گے) ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کی گدی (یعنی پشت کو) نہیں دیکھے گا۔ فرماتے ہوئے وہ حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے ہوں گے۔ آیت ” یطوف علیہم ولدان مخلدون “ (ان کے پاس ایسے لڑکے آتے جاتے رہیں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے) اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں پیدا فرمائیں گے۔ جیسے حور عین کو (پیدا فرمایا) وہ نہ مریں گے نہ وہ بوڑھے ہوں گے اور نہ کمزور ہوں گے آیت ’ ’ باکواب واباریق “ یعنی ایسے آبخورے جن کے پکڑنے کے لیے دستے نہیں ہوں گے۔ جیسے عام پانی پینے کے پیالے اور اباریق وہ ہیں جن کی ٹونٹی بھی ہو اور اس کا اگلا حصہ تنگ ہو یعنی لوٹا آیت ” وک اس من معین “ (اور جاری رہنے والی شراب سے بھرے ہوئے جام) یعنی شراب سے بھرے ہوئے جام اور کوئی جام کاس نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ اس میں شراب نہ ہو۔ اگر اس میں شراب نہ ہو تو وہ برتن ہے۔ اور معین سے مراد ہے چھلکنے والی شراب آیت ” لا یصدعون عنہا “ (اس سے سردرد نہیں ہوگا) یعنی شراب سے آیت ” ولا ینزفون “ یعنی ان کی عقلیں ختم ہوں گی آیت ” وفاکہۃ ممایتخیرون “ اور ان کے پسندیدہ میوے ان چیزوں میں سے جس کو چاہیں گے۔ کہتے ہیں۔ ان کے پاس ایک پرندہ آئے گا یہاں تک کہ وہ (دسترخوان پر) واقع ہوجائے گا۔ اور اپنے پروں کو پھیلا دے گا۔ وہ لوگ اس میں سے کھائیں گے۔ جتنی ان کو خواہش ہوگی وہ پکا ہوا ہوگا اور آگ نے اس کو نہ پکایا ہوگا۔ یہاں تک کہ جب وہ لوگ خوب سیر ہوجائیں گے (پھر) وہ پرندہ اڑ کر چلا جائے گا جیسے وہ تھا آیت ” وحور عین “ میں حور سے مراد ہے سفید اور آیت ” عین “ سے مراد ہے بڑی آنکھوں والی۔ آیت ” کا مثال اللؤلوؤ المکنون “ (گوری گوری بڑی آنکھوں والی عورتیں) موتی کی سفیدی کی طرح جن کو ہاتھوں نے نہیں چھوا ہو (اور نہ ہی حوادث زمانہ کا ان پر گزر ہو) (گویا) وہ چھپے ہوئے ہیں سپیوں میں۔ پھر فرمایا آیت ” جزاء بما کانوا یعملون۔ لایسمعون فیہا لغوا “ (یہ بدلہ ہوگا جو انہوں نے عمل کیے اور وہ اس میں کسی بیہودہ بات کو نہ سنیں گے) لغو کہتے ہیں قسم اٹھانے کو (جیسے) لا واللہ، بلی واللہ آیت ” ولا تأثیما “ یعنی وہ نہیں مریں گے آیت ” الا قیلا سلما سلما “ (ہر طرف سے سلام کی آواز آئے گی) یعنی ان کی طرف سے بھی سلام ہوگا اور ان پر بھی سلام ہوگا کہ ان کا بعض، بعض کو سلام کرے گا۔ فرمایا کہ یہ لوگ مقربین ہوں گے پھر فرمایا آیت ” واصحب الیمین، ما اصحب الیمین “ اور جو کچھ ان کے لیے تیار کیا گیا ہے آیت ” فی سدر مخضود “ (بیری بےخار والی) اور مخضود سے مراد ہے پھلوں سے لدی ہوئی جس میں کانٹا نہ ہوگا آیت ” وطلح منضود۔ وظل ممدود “ (اور کیلے تہ بہ تہ اور لمبے سائے) فرمایا کہ جنت کا سایہ ختم نہیں ہوگا، ہمیشہ ان پر رہے گا آیت ” وماء مسکوب “ (اور جاری پانی) جو اوپر سے انڈیلا جارہا ہو آیت ” وفا کہۃ کثیرۃ لا مقطوعۃ ولا ممنوعۃ “ (اور کثیر خوش مزہ پھل ہوں گے جو نہ ختم ہوں گے اور نہ ان کی روک ٹوک ہوگی) یعنی وہ پھل کسی وقت ختم نہیں ہوں گے اور کسی وقت وہ دنیا کے پھلوں کی طرح آئیں گے اور ان سے روکا نہی جائے گا جیسے دنیا میں قیمت کے بغیر روک دیا جاتا ہے (یعنی وہاں مفت ملیں گے) آیت ” وفرش مرفوعۃ “ (اور اونچے اونچے فرش ہوں گے) یعنی بعض کے اوپر بعض پھر فرمایا آیت ” ان انشأنہن انشاء “ (ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر بنایا) یعنی جنت والی یہ عورتیں جو (دنیا میں) بوڑھی تھیں ان کی آنکھیں کیچڑ (یعنی میل کچی والی) تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی پیدائش میں پیدا فرمایا آیت ” فجعلنہن ابکارا “ (ان کو کنواریاں بنادیا) یعنی کنوریاں آیت ” عربااترابا “ (محبوبہ اور ہم عمر) ” العرب “ سے مراد ہے ہے اپنے خاوندوں سے محبت کرنے والیاں ” والاتراب “ یعنی آپس میں ایک دوسرے کی ہم عمر عورتیں آیت ” لاصحب الیمین۔ ثلۃ من الاولین۔ وثلۃ من الاٰخرین “ (دائیں طرف والوں کے لیے ان کا ایک بڑا گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور ایک بڑا گروہ پچھلے لوگوں میں سے ہوگا) یعنی ایک جماعت پہلے لوگوں میں سے اور ایک جماعت پچھلے لوگوں میں سے آیت ” واصحب الشمال ما اصحب الشمال “ (اور جو بائیں طرف والے ہیں وہ بائیں طرف والے کیسے برے ہیں) یعنی کیا برا حال ہوگا ان کا اور اس کا جو ان کے لیے تیار کیا گیا آیت ” فی سموم “ (وہ آگ میں ہوں گے) یعنی جہنم کی آگ کی گرمی آیت ” وحمیم “ (اور کھولتے ہوئے پانی میں) یعنی وہ جاری پانی جو سخت ترین گرم ہو کر اس کے اوپر کسی گرمی کا تصور نہ ہو آیت ” وظل من یحموم “ (اور دھویں کے سائے میں ہوں گے) یعنی جہنم کے دھویں میں آیت ” لابارد ولا کریم “ (جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ فرحت بخش) ” آیت انہم کانوا قبل ذلک مترفین “ (اس سے پہلے وہ دنیا میں بڑی خوشحالی سے رہتے تھے) جبروظلم کرنے والے مشرکین آیت ” وکانوا یصرون “ (اور وہ اصرار کیا کرتے تھے) یعنی وہ قائم تھے آیت ” علی الحنث العظیم “ (بڑی بھاری گناہوں پر) یعنی بڑے گناہوں پر اور وہ شرک ہے آیت ” وکانوا یقولون ائذا متنا وکنا ترابا وعظاما “ (اور کہتے تھے کہ جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے) سے لے کر آیت ” اواٰباء نا الاولون “ تک (کیا ہم اور ہمارے پہلے آباء و اجداد زندہ ہو کر اٹھائے جائیں گے) یعنی فرمادیجیے اے محمد ﷺ بلاشبہ اگلوں اور پچھلوں کو سب کو جمع کیا جائے گا آیت ” الی میقات یوم معلوم “ ایک معلوم دن کی طرف۔ یعنی قیامت کا دن آیت ” ثم انکم ایہا الضالون المکذبون “ پھر تم اے گمراہو ! یعنی شرک کرنے والے اور جھٹلانے والے آیت لاٰکلون من شجر من زقوم۔ تم کھاؤ گے زقوم کے درخت سے یعنی جب وہ اس میں سے کھالیں گے تو وہ سرسبز ہوجائیں گے۔ اور زقوم ایک درخت ہے۔ آیت فمالؤن منہا البطون۔ اور اس سے پیٹوں کو بھریں گے یعنی زقوم سے اپنے پیٹوں کو بھریں گے۔ آیت فشربون علیہ من الحمیم۔ پھر اس پر کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ یعنی زقوم پر کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ آیت فشربون علیہ من الحمیم۔ پینا بھی پیاسے اونٹوں جیسا۔ الحمیم سے مراد ریت کہ اگر اس پر ہمیشہ بارش ہو تو اس میں جمع شدہ پانی دکھلائی نہ دے۔ آیت ہذا نزلہم یوم الدین۔ قیامت کے دن یہ ان کی دعوت ہوگی۔ یعنی یہ اکرام ہوگا حساب کے دن۔ آیت نحن خلقنکم فلولا تصدقون۔ ہم نے ہی پہلی بار پیدا کیا پھر دوبارہ پیدا کرنے کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔ یعنی تم کیوں تصدیق نہیں کرتے آیت افرء یتم ما تمنون۔ بتلاؤ تم جو عورتوں کے رحم میں نطفہ ٹپکاتے ہو۔ یہ آدمی کا پانی ہے یعنی منی آیت ائن تم تخلقونہ ام نحن الخلقون۔ اس کو تم آدمی بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں۔ آیت نحن قدرنا بینکم الموت۔ ہم نے تمہارے درمیان موت کو ٹھہرارکھا ہے۔ یعنی جلدی میں یا تاخیر میں آیت وما نحن بمسبوقین علی ان نبدل امثالکم۔ اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری جگہ اور تم جیسے آدمی پیدا کردیں۔ یعنی تم کو لے جائیں اور تمہارے علاوہ دوسروں کو لے آئیں۔ آیت وننشئکم فی مالا تعلمون۔ اور تم کو ایسی صورت میں پیدا کردیں جس کو تم جانتے بھی نہ ہو یعنی ہم تم کو پیدا کردیں اس صورت میں جو تم نہیں جانتے۔ اگر ہم چاہیں تو تم کو بندر کی صورت میں پیدا کردیں اور گر ہم چاہیں تو تم کو سور کی صورت میں پیدا کردیں آیت ولقد علمتم النشأۃ الاولی فلولا تذکرون۔ اور تم کو اول پیدائش کا علم ہے پھر تم کیوں نہیں سمجھتے۔ یعنی کیوں تم نصیحت حاصل نہیں کرتے پھر فرمایا آیت افرء یتم ماتحرثون۔ پھر یہ بتاؤ کہ کچھ تم بولتے ہو۔ یعنی جو تم کھیتی کرتے ہو آیت ءانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون۔ یا ہم اس کو اگاتے ہیں کیا ہم اس کو نہیں اگاتے یا تم اگاتے ہو۔ آیت لونشاء لجعلنہ حطاما فظلتم تفکہوں۔ اگر ہم چاہیں تو اس کو چورا چورا کردیں پھر تم متعجب ہو کر رہ جاؤ۔ یعنی تم ندامت محسوس کرتے ہو آیت انا لمغرمون۔ ہم پر تاوان پڑگیا۔ بیشک ہم قرض کے بوجھ کے نیچے دب گئے۔ آیت بل نحن محرومون۔ افرء یتم الماء الذی تشربون ءانتم انزلتموہ من المزن۔ بلکہ ہم محروم ہو کر رہ گئے تم بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو اس کو بادل سے تم برساتے ہو المزن سے مراد بادل ہے آیت ام نحن المنزلون۔ لونشاء جعلنہ اجاجا یا ہم برسانے والے ہیں چاہیں تو اس کو کڑوا کر ڈالیں۔ اجاجا سے مراد ہے کڑوا اور کھاری۔ آیت فلولا تشکرون۔ سو تم شکر کیوں نہیں کرتے۔ آیت افرء یتم النار التی تورون۔ یہ بتاؤ جس آگ کو تم سلگاتے ہو۔ یعنی جسے تم سلگاتے ہو۔ آیت ءانتم انشأتم کیا تم نے پیدا کیا یعنی تم پیدا کیا آیت شجرتہا ام نحن المنشؤن۔ اس کے درخت کو یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں۔ یہ آگ عناب کے سوا ہر درخت سے پیدا ہوتی ہے اور پتھر میں بھی ہوتی ہے آیت نحن جعلناہا تذکرۃ۔ ہم نے اس کی یاد دہانی کی۔ یعنی اس کے ذریعہ آخرت کی بڑی آگ کو یاد کیا جاتا ہے۔ آیت ومتاعا للمقوین۔ اور مسافروں کے لیے فائدے کی شیء بنایا۔ اور مسافر وہ ہے جو آگ کو نہیں پاتا پس وہ اپنا چقماق نکالتا ہے اور اپنی آگ روشن کرلیتا ہے تو یہ آگ اس کے لیے فائدے کی چیز ہے آیت فسبح باسم ربک العظیم اور اپنے بڑے رب کے نام کی تسبیح بیان کیجیے۔ یعنی اپنے بڑے رب کی نماز پڑھیے جو بڑی عظمت والا ہے آیت فلا اقسم بمواقع النجوم۔ سو میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے چھپنے کی۔ علبہ بن اسود یا نافع بن الحکم، ابن عباس ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا اے ابن عباس ؓ کہ میں نے کتاب اللہ میں سے کچھ آیات پڑھتا ہوں اور میں ڈرتا ہوں کہ کوئی بیرونی چیز اس میں داخل ہوچکی ہے ابن عباس ؓ نے فرمایا ایسا کیوں ہے ؟ تو انہوں نے کہا میں اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنتا ہوں آیت انا انزلنہ فی لیلۃ القدر۔ کہ ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں نازل فرمای اور فرماتے ہیں آیت انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ اناکنا منذرین۔ (الدخان آیت 2) کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا اور ہم ہی ڈرانے والے ہیں اور دوسری آیت میں فرماتے ہیں آیت شہر رمضان الذی انزل فیہ القرٰن (البقرہ : آیت 185) رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ حالانکہ قرآن تو سب مہینوں میں نازل ہوا ہے مثلاشوال وغیرہ ابن عباس ؓ نے فرمایا : ہلاکت ہے تیرے لیے بلاشبہ سارا قرآن نازل ہوا آسمان سے لیلۃ القدر میں آسمان دنیا کی طرف پھر جبرئیل (علیہ السلام) اس کو لے کر نازل ہوئے ایک رات میں اور وہ مبارک لیلۃ مبارکہ ہے۔ اور وہ رمضان کا مہینہ تھا پھر اس کو لے کر محمد ﷺ پر نازل ہوتے رہے بیس سال کے عرصہ میں کبھی ایک آیت کبھی دو آیتیں اور کبھی اس سے زیادہ۔ اسی کو فرمایا آیت لا اقسم یعنی میں قسم کھاتا ہوں۔ آیت بموقع النجوم۔ ستاروں کے چھپنے کی۔ آیت وانہ لقسم اور قسم سے مراد قسم ہے اور فرمایا آیت لایمسہ الا المطہرون۔ اس کو بجز پاک سہتیوں کے یعنی فرشتوں کے اور کوئی نہیں چھوتا اور اس سے مراد سفرہ ہیں اور سفرہ سے مراد کراما کاتبین ہیں۔ پھر فرمایا آیت تنزیل من رب العالمین۔ یہ رب العالمین کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔ آیت افبہذا الحدیث انتم مدھنون۔ سو کیا تم اس کلام کو سرسری بات سمجھتے ہو۔ یعنی اہل شرک تم منہ پھیرتے رہو گے اور تم نے یہی اپنا نصیب بنالیا ہے کہ ابنب عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے گرمی میں سفر فرمایا تو لوگوں کو سخت پیاس لگی یہاں تک کہ قریب تھا کہ ان کی گردنیں پیاس سے کٹ جائیں گی۔ یہ بات آپ سے ذکر کی گئی اور صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! اگر آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمادیں کہ ہم کو بارش کا پانی پلادے۔ آپ نے فرمایا شاید کہ میں دعا کروں اللہ تعالیٰ سے وہ تم کو پانی پلادے اور تم یہ کہو کہ یہ فلاں فلاں ستارے کے سبب بارش ہوئی تو صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ ستاروں کا زمانہ نہیں ہے ستاروں کا زمانہ گزر چکا۔ چناچہ آپ نے برتن میں پانی منگوایا اس سے وضو فرمایا پھر دو رکعت نماز پڑھی پھر اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی ہوائیں چلیں اور بادل جمع ہوگئے پھر انہوں نے بارش برسائی یہاں تک کہ وادی بہنے لگی صحابہ ؓ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنے جانوروں کو پلایا۔ پھر نبی ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے اور وہ وادی میں سے اپنا پیالہ بھر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ فلاں فلاں ستارہ آج صبح گرا ہے حضرت عباس ؓ نے فرمایا تو یہ آیت وتجعلون رزقکم انکم تکذبون فلولا اذا بلغت الحلقوم نازل ہوئی۔ فرماتے ہیں جب سانس حلق تک پہنچ جائے۔ آیت وانتم حینئذ تنظرون اور تم اس وقت تکا کرتے ہو آیت ونح ناقرب الیہ منکم اور ہم اس وقت اس مرتے آدمی سے تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اس سے مراد فرشتے ہیں آیت ولکن لا تبصرون۔ لیکن تم سمجھتے نہیں ہو۔ یعنی تم فرشتوں کو نہیں دیکھتے۔ آیت فلولا۔ فرمایا یہ ہلا کے معنی میں ہے یعنی کیوں نہیں۔ آیت ان کنتم غیر مدینین۔ اگر تمہارا حساب و کتاب ہونے وال انہیں یعنی اگر تمہارا محاسبہ نہیں ہے آیت ” ترجعونہا “ یعنی تم روح کو لوٹادیتے اگر ایسا کرسکتے ہو تو کرلو۔ آیت ان کنتم صدقین، فاما ان کان من المقربین۔ اگر تم سچے ہو پھر جو شخص مقرب لوگوں میں سے ہوگا۔ یعنی وہ انبیاء، صدیقین اور شہداء کی طرح ہو اعمال کی وجہ سے۔ آیت فروح سے مراد فرحت اور سرور ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ہے آیت ولا تیئسوا من روح اللہ (یوسف : 87) اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ آیت وریحان، یعنی رزق۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مومن کی بدن سے روح نہیں نکلتی یہاں تک کہ وہ اپنی موت سے پہلے جنت کا پھل کھالیتا ہے آیت وجنۃ نعیم۔ اور آرام کی جنت ہے۔ یعنی اس کے لیے جنت اور آخرت لازم کردی گئی۔ آیت واما ان کان من اصحب الیمین۔ واما ان کان من المکذبین الضالین۔ تو امن وامان ہے دائیں طرف والوں کو اور جو شخص تکذیب کرنے والے گمراہوں میں سے ہوگا۔ اور وہ مشرکین ہیں آیت فنزل من حمیم تو کھولتے ہوئے پانی سے اس کی دعوت ہوگی۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ کوئی کافر دنیا میں اپنے گھر سے نہیں نکلے گا یہاں تک کہ اس کو کھولتے ہوئے پانی کا گلاس پلایا جائے گا آیت وتصلیۃ جحیم۔ اور دوزخ میں اس کا داخلہ ہوگا۔ یعنی آخرت میں آیت ان ہذا لہو حق الیقین۔ (بےشک جو کچھ مذکور ہوا یقینی بات ہے) یعنی یہ بات جو ہم نے آپ پر بیان کی وہی سچی اور یقینی بات ہے جو سچا قرآن بیان کر رہا ہے۔ آیت فسبح باسم ربک العظیم۔ واللہ اعلم۔
Top