Dure-Mansoor - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور چاہئے کہ وہ لوگ ڈریں جو اپنے پیچھے ضعیف بچوں کو چھوڑ جاتے اور ان پر خوف ہوتا سو یہ لوگ اللہ سے ڈریں اور ٹھیک بات کریں
(1) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولیخش الذین لو ترکوا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ حکم اس آدمی کے بارے میں ہے جو ایک آدمی کے پاس اس کی موت کے وقت حاضر ہوا تو اس نے مریض کو ایسی وصیت کرتے ہوئے سنا جو اس کے وارثوں کو نقصان دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کو حکم فرمایا جس نے اس کو سنا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور وصیت کرنے والے کی صحیح بات کی طرف رہنمائی کرے اور چاہیے کہ وہ دیکھے اپنے وارثوں کو اور جب اسے اپنے وارثوں کے ضائع ہونے کا ڈر ہو تو جو وہ اپنے وارثوں کے لیے پسند کرتا ہے تو ان کے لیے بھی وہی پسند کرے۔ (2) ابن جریر وابن ابی حاتم و بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ آدمی جس کی موت کا وقت قریب ہے تو اسے کہا جاتا ہے اپنے مال میں سے صدقہ کرو غلام آزاد کرو اور مال میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں دو ان لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا گیا یعنی اگر تم میں سے کوئی مریض کے پاس حاضر ہو موت کے وقت تو اس کو حکم نہ کرے کہ وہ خرچ کرے اپنے مال میں سے یا غلام آزاد کرے یا صدقہ کرے یا اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرے لیکن اس کو حکم کرے کہ وہ اپنے مال کو بیان کرے اور جو اس پر قرضہ ہے (اس کو بھی بیان کرے) اور وصیت کرے اپنے مال میں سے ان رشتہ داروں کے لیے جن کو میراث نہیں ملتی ان کے لیے وصیت کرے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب وہ مرجائے اور اس کی چھوٹی اولاد ہو تو ان کو بغیر مال کے چھوڑ دے اور وہ لوگوں پر بوجھ بن جائیں اور تمہیں یہ لائق نہیں کہ تم ایسے کام کا حکم کر جاؤ کہ جس سے تمہارے گھر کے لوگ اور تمہاری اولاد راضی نہ ہو لیکن ان کو اس بارے میں حق بات کہو۔ (3) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ایک آدمی کو موت آتی ہے اس حال میں کہ اس کی چھوٹی کمزور اولاد ہے کہ ان پر وہ ڈرتا ہے غریبی سے اور ضائع ہونے سے اور اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ اس کے بعد ان کے ساتھ وہ لوگ اچھا سلوک نہیں کریں گے جو ان کے ساتھ (پڑوسی) ملے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر وہ والی بنے اس کی کمزور اور یتیم اولاد کا اس کو چاہیے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کا مال نہ کھائے فضول خرچی سے اور جلدی کرتے ہوئے کہیں وہ بڑے نہ ہوجائیں (پہلے ہی ان کا مال نبٹا دو ) ۔ (4) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جب کوئی آدمی موت کے قریب ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ فلاں کے لیے وصیت کر فلاں کے لیے وصیت کر اور ایسا کر اور ایسا کر یہاں تک ورثاء کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولیخش الذین لو ترکوا من خلفہم ذریۃ ضعفا خافوا علیہم “ تو فرمایا چاہیے کہ وہ لوگ دیکھیں میت کے ورثاء کو جیسا کہ وہ دیکھتا ہے اپنے ورثاء کو (اور) چاہیے کہ وہ ڈریں اللہ تعالیٰ سے اور چاہیے کہ وہ اس کو حکم کریں انصاف اور حق کے ساتھ۔ (5) سعید بن منصور وآدم والبیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جب کوئی آدمی وصیت کے وقت حاضر ہو تو اس کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اپنے مال کے لیے وصیت کر بیشک اللہ تعالیٰ تیری اولاد کو رزق دینے والا ہے لیکن اس کو یہ کہنا چاہیے اپنے لئے آگے بھیج اور اپنی اولاد کے لیے بھی چھوڑ دجاؤ یہ ٹھیک بات ہے بلاشبہ جو آدمی اس بات کا حکم کرتا ہے وہ ڈرتا ہے اپنے اوپر محتاج سے۔ (6) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولیخش الذین لو ترکوا من خلفہم “ یعنی ان کی موت کے بعد چھوڑ جائیں ” ذریۃ ضعفا “ یعنی ایسے عاجز جن کے پاس وقت گذرنے کا کوئی حیلہ نہ ہو لفظ آیت ” خافوا علیہم “ یعنی میت کی ضعیف اولاد کے بارے میں ڈریں جس طرح انہیں اپنے بارے میں خوف ہے لفظ آیت ” فلیتقوا اللہ ولیقولوا “ یعنی ڈریں میت کی اولاد کے بارے میں ان کے پاس بیٹھیں ” قولا سدیدا “ یعنی انصاف کریں اس کی میت میں اور زیادتی نہ کریں۔ (7) ابن جریر نے شیبانی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے مسلمہ بن عبدالمالک کے دنوں میں اور ہم میں ابن محدیر اور ابن الدیلمی اور ھانی بن کلثوم رحمۃ اللہ علیہم بھی موجود تھے ہم آپس میں تذکرہ کر رہے تھے جو آخر زمانہ میں ہوگا میں ان باتوں سے تنگ پڑگیا جو میں نے سنیں میں ابن الدیلمی (رح) سے کہا اے ابو بشر میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میری کبھی اولاد نہ ہو اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارا اور کہا اے میرے بھتیجے ! ایسا نہ کر کوئی روح ایسی نہیں ہے کہ جس کے نکالنے کا اللہ نے فیصلہ کردیا کہ وہ کسی آدمی کی پشت سے نکلے تو وہ ضرور نکلے گی (ان شاء اللہ) اگرچہ آدمی انکار کرے پھر انہوں نے کہا کیا میں تم کو ایسا کام نہ بتاؤں کہ اگر تو اس کو پائے گا تو اللہ تعالیٰ تجھ کو اس سے نجات دیں گے اگر تو اپنے بعد اولاد چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں گے میں نے کہا کیوں نہیں تو پھر آپ ﷺ نے مجھ پر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ولیخش الذین لو ترکوا من خلفہم ذریۃ ضعفا “۔ (8) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو ان ضعیفوں کے بارے میں یعنی یتیم عورت کے بارے میں یتیم بنایا اس کے لیے وصیت کی اس کو مبتلا کیا اور دوسروں کو بھی اس میں مبتلا کیا۔
Top