Dure-Mansoor - An-Nisaa : 92
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا١ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ١٘ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مسلمان کے لیے اَنْ يَّقْتُلَ : کہ وہ قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان اِلَّا خَطَئًا : مگر غلطی سے وَمَنْ : اور جو قَتَلَ : قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان خَطَئًا : غلطی سے فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کرے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَّدِيَةٌ : اور خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ : اس کے وارثوں کو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّصَّدَّقُوْا : وہ معاف کردیں فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو مِنْ : سے قَوْمٍ عَدُوٍّ : دشمن قوم لَّكُمْ : تمہاری وَھُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : مسلمان فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کردے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو مِنْ قَوْمٍ : ایسی قوم سے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ فَدِيَةٌ : تو خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖ : اس کے وارثوں کو وَتَحْرِيْرُ : اور آزاد کرنا رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان فَمَنْ : سو جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھے شَهْرَيْنِ : دو ماہ مُتَتَابِعَيْنِ : لگاتار تَوْبَةً : توبہ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور کسی مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر خطا کے طور پر اور جو شخص کسی مومن کو بطور خطا قتل کردے تو اس پر واجب ہے کہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور اس کے خاندان والوں کو دیت ادا کرے۔ الایہ کہ وہ لوگ معاف کردیں، اور اگر وہ مقتول ایسی قوم میں سے جو تمہارے مخالف ہیں اور وہ شخص خودم مومن ہے تو ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے، اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو تو دیت بھی واجب ہے جو اس کے خاندان والوں کو سپرد کردی جائے اور ایک مومن غلام آزاد کرنا بھی واجب ہے، پھر جس شخص کو غلام نہ ملے تو وہ لگاتار دو ماہ کے روزے رکھے بطریق توبہ کے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوئی ہے اور اللہ حلم والا اور حکمت والا ہے۔
(1) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو عہد لیا ہے مومنوں سے کسی کے یہ لائق نہیں (کہ اس عہد کی خلاف ورزی کرے) ۔ (2) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ سے مراد ہے کہ کوئی مومن کسی مومن کو قتل نہ کرے۔ (3) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ حرث بن یزید بن نبی ثہ جو بنو عامر بن لوئی میں سے تھے عیاش بن ابی ربیعہ کو اذیتیں دیا کرتا تھا ابو جہل کے ساتھ مل کر پھر یہ ہجرت کرتے ہوئے نبی ﷺ کی طرف نکلے حرۃ میں ان کی عیاش سے ملاقات ہوگئی اس نے ان پر تلوار اٹھائی اور وہ گمان کرتا تھا کہ حرث کافر ہے پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور ان کو (سارے واقعہ) کی خبر دی تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ آپ نے اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی پھر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کھڑا ہوجا اور غلام آزاد کر۔ (4) عبد بن حمد وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ کے بارے میں روایت کیا کہ عیاش بن ابی ربیعہ نے ایک مومن آدمی کو قتل کردیا وہ اور ابو جہل عیاش کو اذیتیں دیا کرتے تھے عیاش ابو جہل کا ماں شریک بھائی تھا اور عیاش نے یہ خیال کیا یہ آدمی کافر ہے جیسا کہ وہ پہلے تھا اور عیاش نے مومن ہو کر نبی ﷺ کی طرف ہجرت کی تھی ابو جہل کے اس پاس آیا اور وہ اس کا ماں شریک بھائی تھا اور اس نے کہا تیری ماں تجھ کو قسم دیتی ہے اپنے رحم کی اور اپنے حق کی کہ تو اس کی طرف لوٹ آ اور وہ (یعنی اس کی ماں) امیمہ بنت مخرمہ بھی وہ اس کے ساتھ آیا تو ابوجہل نے اس کو باندھ دیا یہاں تک کہ اس کو مکہ لے آیا جب کفار نے اس کو دیکھا تو وہ لوگ کفر میں تھے اور فتنہ میں اور زیادہ ہوگئے اور کہنے لگے ابو جہل اس بات پر قادر ہے محمد ﷺ سے جو وہ چاہے کہ اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیتا ہے اور ان کو باندھ دیتا ہے۔ (5) ابن جریر وابن المنذر نے سدی (رح) سے لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی یہ مسلمان ہوئے اور نبی ﷺ کی طرف ہجرت کرلی اور عیاش ؓ ابو جہل اور حارث بن ہشام کے ماں شریک بھائی تھے اور یہ اپنی والدہ کو بہت محبوب تھے جب یہ نبی ﷺ سے مل گئے تو یہ بات اس کی والدہ پر بہت شاق گزری اس نے قسم کھالی کہ وہ اپنے گھر کی چھت کا سایہ نہیں لے گی (یعنی کمرے میں داخل نہ ہوگی) یہاں تک کہ اس کو دیکھ نہ لے ابو جہل اور حارث مدینہ منورہ آئے اور عیاش کو اس کی ماں کے بارے میں بتایا اور عیا ش سے مطالبہ کیا کہ وہ ان دونوں کے ساتھ مکہ مکرمہ لوٹ جائے تاکہ اس کی والدہ اس کی طرف دیکھ لے اور وہ دونوں اس کو مدینہ منورہ واپس آنے سے نہ روکیں گے اور ان دونوں نے اس سے پکا وعدہ کیا ہم اس کا راستہ چھوڑ دیں گے اور کچھ نہیں کہیں گے جب اس کی ماں اس کو دیکھ لے گی عیاش ان دونوں کے ساتھ چلے یہاں تک کہ جب مدینہ سے باہر نکلے تو اس پر حملہ کردیا اور اس کی مشکیں باندھ دیں اور سو کے قریب کوڑے بھی لگائے اور بنو کنانہ کے ایک آدمی نے ان دونوں کی مدد کی عیاش نے قسم اٹھائی کہ وہ جب بھی قادر ہوئے اس کنانی کو ضرور قتل کردیں گے یہ دونوں ان کو مکہ لے آئے اور برابر قید میں رہے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو فتح فرمایا عیاش باہر نکلے اور اس کنانی کو ملے وہ اسلام لا چکا تھا عیاش کو اس کنانی کے اسلام لانے کا علم نہیں تھا (اس لئے) عیاش نے اس کو قتل کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ یعنی وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ مومن ہے (اور فرمایا) ” ومن قتل مؤمنا خطئا فتحریر رقبۃ مؤمنۃ ودیۃ مسلمۃ الی اھلہ الا ان یصدقوا “ اور یصدقوا کا مطلب یہ ہے کہ وہ دیت کو چھوڑ دیں۔ (6) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کہ عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی ؓ نے قسم اٹھائی تھی کہ وہ حارث بن یزید مولی بنی عامر کو اس بات کا علم نہ تھا وہ اس کو مدینہ منورہ میں ملا اور اس کو قتل کردیا اور اس کا یہ قتل خطا کا تھا۔ (7) ابن المنذر والبیہقی نے اپنی سنن میں عبد الرحمن بن قاسم کے طریق سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حارث بن زید نبی ﷺ کا سخت دشمن تھا وہ اسلام کے ارادہ سے مکہ آیا۔ عیاش کو اس کا پتہ نہ چلا عیاش بن ابی ربیعہ اس سے ملا اور اس کو قتل کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “۔ (8) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت ایسے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جس کو ابو درداء نے قتل کردیا تھا وہ ایک لشکر میں تھے کہ ابو درداء ایک گھاٹی سے واپس آئے جہاں ان کو کوئی حاجت تھی وہاں ایک قوم میں سے ایک آدمی کو پایا جس کے پاس بکریاں تھیں انہوں نے اس پر تلوار اٹھائی اس نے کہا ” لا الہ الا اللہ “ مگر انہوں نے اس کو قتل کردیا اس کی بکریاں لے کر قوم (یعنی صحابہ) کے پاس آئے پھر اپنے میں کوئی بات پائی تو نبی ﷺ کے پاس آئے اور ان کو یہ بات بتائی رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تو نے اس کا سینہ کیوں نہیں چیز لیا۔ عرض کیا میرے لئے یہ ممکن نہ تھا اگر میں ایسا کرتا بھی یا رسول اللہ ! تو کون پاتا یا پانی آپ نے فرمایا اس نے اپنی زبان سے تجھ کو بتایا مگر تو نے تصدیق نہیں کی عرض کی یا رسول اللہ ! میرا کیا بنے گا آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کا کیا کرو گے۔ عرض کیا میرا کیا بنے گا یا رسول اللہ آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کا کیا کروگے۔ یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ یہ دن میرے اسلام لانے کا پہلا دن ہوتا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی یعنی ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ سے لے کر حتی کہ یہاں تک پہنچے ” الا ان یصدقوا “ سے مراد ہے مگر وہ دیت نہ لیں۔ (9) الرویانی وابو منذہ اور ابو نعیم (بھی ان کے ساتھ ہے) نے المعرفہ میں بکر بن حارثہ جہنی ؓ سے روایت کیا کہ میں ایک چھوٹے لشکر میں تھا جو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا ہم نے اور مشرکوں نے (آپس میں) قتال کیا مشرکین میں سے ایک آدمی پر میں نے تلوار اٹھائی اس نے مجھ سے اسلام کا اظہار کر کے پناہ مانگی لیکن میں نے اس کو قتل کردیا یہ بات نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ سخت غصہ ہوئے اور مجھے دور کردیا اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ (الآیہ) آپ پھر مجھ سے راضی ہوگئے اور مجھے قریب بٹھایا۔ (10) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فتحریر رقبۃ مؤمنۃ “ یعنی رقبہ مومنہ سے مراد ایسا غلام ہے جو ایمان کی سمجھ رکھتا ہو اس نے روزے رکھے ہوں اور اس نے نمازیں پڑھیں ہوں قرآن مجید میں جہاں بھی رقبہ کا ذکر آیا ہے اور اس کے لئے مومنہ کا ذکر نہیں کیا تو اس میں بچہ اور بڑا آزاد کرنا جائز ہے بشرطیکہ اپاہج نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے اس قول میں (یعنی) لفظ آیت ” ودیۃ مسلمۃ الی اھلہ الا ان یصدقوا “ میں مسلمان پر دیت لازم ہے مگر یہ مقتول کے ورثاء اس میں تخفیف کردیں۔ (11) عبد الرزاق وعبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ابی کی قرات میں یوں ہے ” فتحریر رقبہ مؤمنۃ “ اور اس میں بچہ کو آزاد کرنا جائز نہیں۔ ایمان کی ظاہری علامت کافی ہے (12) عبد بن حمید وابو داؤد والبیہقی نے اپنی سنن میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس ایک سیاہ باندی کو لایا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ پر ایک باندی مومنہ آزاد کرنا فرض ہے آپ نے اس باندی سے فرمایا اللہ کہا ہے۔ اس نے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا پھر آپ نے اس سے فرمایا میں کون ہوں ؟ اس نے کہا رسول اللہ ﷺ اور آسمان کی طرف اشارہ کیا یعنی آپ رسول اللہ ہیں آپ نے فرمایا اس کو آزاد کر دے یہ مومنہ ہے۔ (13) عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میرے ذمہ ایک مومنہ باندی آزاد کرنا ہے اور میرے پاس ایک سیاہ باندی ہے آپ نے فرمایا اس کو لے آ۔ (جب وہ آئی) تو آپ نے اس سے فرمایا کیا تو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں کہنے لگی ہاں ! آپ نے فرمایا اس کو آزاد کر دو (یہ مومنہ ہے) ۔ (14) عبد الرزاق واحمد وعبد بن حمید نے انصار کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ وہ ایک سیاہ باندی کو لے آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے ذمہ ایک مومنہ باندی آزاد کرنا ہے آپ اس کو دیکھیں اگر یہ مومنہ ہے تو میں اس کو آزاد کر دوں رسول اللہ ﷺ نے اس باندی سے فرمایا کیا تو لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتی ہے اس نے کہا ہاں پھر فرمایا کیا تو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا پھر فرمایا کیا تو موت کے بعد اٹھنے پر ایمان لاتی ہے اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اس کو آزاد کر دو یہ مومنہ ہے۔ (15) الطیالسی ومسلم وابو داؤد و نسائی والبیہقی نے الاسماء والصفات میں معاویہ بن حکم سلمی ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنی باندی کو تھپڑ مارا رسول اللہ ﷺ کو اس بات کی خبر دی گئی یہ چیز آپ پر بڑی شاق گزری میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اس کو آزاد نہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس کو میرے پاس لے آؤ میں اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آیا آپ نے اس سے پوچھا اللہ تعالیٰ کہا ہے ؟ اس نے کہا آسمان میں پھر پوچھا میں کون ہوں ؟ اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے فرمایا یہ مومنہ ہے اس کو آزاد کر دو ۔ (16) ابن ابی حاتم نے ابن شہاب سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ودیۃ مسلمۃ “ کے بارے میں ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت سو اونٹ مقرر فرمائی۔ (17) احمد وابو داؤد و ترمذی و نسائی وابن ماجہ وابن المنذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قتل کی خطا کی دیت میں بیس بنت مخاص اور بیس ابن مخاص اور بیس بنت لبون اور بیس جذعہ اور بیس حقہ مقرر فرمایا۔ (18) ابو داؤد وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے بارہ ہزار درہم دیت مقرر فرمائی۔ (19) ابن المنذر نے ابوبکر بن عمرو بن حزم (رح) سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے یمن والوں کی طرف ایک خط لکھا جس میں فرائض اور سنن اور دیات لکھی گئی تھیں اور اس کے ساتھ عمر و بن حزم کو بھیجا اور اس میں یہ تھا کہ جن کے پاس دینار ہوں ان پر ہزار دینا دیت ہے۔ دیت کی تفصیل (20) ابو داؤد نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ اونٹ والوں پر سو اونٹ گائے والوں پر دو سو گائیں بکری والوں پر دو ہزار بکریاں کپڑے والوں پر دو ہزار (کپڑوں کے) جوڑے اور گندم والوں پر کچھ ہے جس کو محمد بن اسحاق نے یاد نہیں رکھا۔ (21) ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ودیۃ مسلمۃ “ سے مراد ہے پوری دیت۔ (22) ابن ابی حاتم نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ ” مسلمۃ الی اھلہ “ سے پوری دیت مراد ہے۔ (23) ابن المنذر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مسلمۃ الی اھلہ “ یعنی (دیت) دی جائے ” الا ان یصدقوا “ مگر یہ کہ مقتول کے ورثاء اس کو معاف کردیں۔ (24) عبد بن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” مسلمۃ الی اھلہ “ یعنی دیت مقتول کے ورثاء کو دی جاتی ہے لفظ آیت ” الا ان یصدقوا “ مگر یہ کہ مقتول کے ورثاء صدقہ کردیں پس وہ معاف کردیں یا درگزر کریں۔ (25) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” ودیۃ مسلمۃ “ یعنی قاتل کا قبلہ مقتول کے ورثاء کو دیت دے ” الا ان یصدقوا “ یعنی اگر اولیاء مقتول دیت کو قاتل کے ورثاء پر صدقہ کردیں تو ان کے لئے یہ بہتر ہے لیکن غلام آزاد کرنا تو وہ قاتل پر واجب ہے اس کے مال میں سے۔ (26) ابن جریر نے بکر بن الشر ور (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابی کی قرات میں یوں ہے ” الا ان یصدقوا “۔ (27) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر نے ابراہیم نخعی (رح) سے لفظ آیت ” ودیۃ مسلمۃ الی اھلہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ مسلمان کے وارث مسلمان بنیں لفظ آیت ” فان کان من قوم عدولکم وھو مؤمن “ فرمایا کہ اس میں مقتول سے مراد مومن جس کی قوم مشرک ہو اور ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان معاہدہ ہو اور وہ قتل کردیا گیا تو اس کی میراث مسلمانوں کے لئے ہے اور اس کی دیت اس کی قوم کے لئے ہوگی کیونکہ انہوں نے اس کی طرف دیت ادا کی ہے۔ (28) ابن جریر وابن المنذر نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فان کان من قوم عدو لکم وھو مؤمن “ یعنی اگر مومن مقتول حربی ہو اور مومن ہو اس کو کسی نے خطا قتل کردیا تو اس کے قاتل ہونے پر لازم ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے یعنی اگر مقتول کافر تھا جس کا تمہارے ساتھ معاہدہ ہے اور اس کو قتل کردیا گیا تو اس کے قاتل پر دیت ہے جو وہ سپرد کرے گا مقتول کے ورثاء کو اور ایک غلام بھی آزاد کرنا لازم ہے۔ (29) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان کان من قوم عدولکم وھو مؤمن “ سے مراد ہے کہ مقتول مومن جو دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو وہ لوگ ہنستے ہیں ایک لشکر کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے تو وہ بھاگ جاتے ہیں اور مومن وہیں ٹھہرا رہتا ہے اور قتل کردیا جاتا ہے تو اس میں ایک غلام آزاد کرنا لازم ہے۔ (30) ابن جریر والبیہقی نے اپنی سنن میں عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فان کان من قوم عدو لکم وھو مؤمن “ سے مراد ہے کہ مقتول مومن ہو اور اس کی قوم کافر ہو تو اس کی دیت قاتل پر لازم نہ ہوگی لیکن ایک غلام کا آزاد کرنا لازم ہے۔ (31) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے عطا بن السائب کے طریق سے ابو عیاض (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی آیا اور مسلمان ہوتا پھر وہ اپنی قوم کے پاس چلا جاتا جو کہ مشرک ہوتی وہ ان کے درمیان ٹھہر جاتا نبی ﷺ کے لشکر پر حملہ کرتے تو ان کے درمیان وہ (مسلمان) آدمی بھی قتل ہوجاتا اس پر (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” فان کان من قوم عدو لکم وھو مؤمن فتحریر رقبہ مؤمنۃ “ اور اس کے لئے کوئی دیت نہیں۔ کسی عہد والے شخص کو قتل کرنا حرام ہے (32) ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم و طبرانی اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے اپنی سنن میں عطاء بن السائب کے طریق سے ابو یحییٰ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان کان من قوم عدو لکم وھو مؤمن “ سے مراد ہے کہ آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور مسلمان ہوجاتا پھر وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ جاتا وہ ان میں رہتا حالانکہ وہ لوگ مشرک تھے مسلمانوں نے ایک جنگ میں اس کو خطا قتل کردیا پس غلام آزاد کرے گا وہ شخص جس نے اس کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ” وان کان من قوم بینکم وبینہم میثاق “ یعنی وہ آدمی معاہد تھا اور اس کی قوم بھی معاہدہ میں شامل تھی تو ان کی طرف دیت سپرد کی جائے گی اور وہ شخص غلام آزاد کرے گا جس نے اس کو قتل کیا۔ (33) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان کان من قوم عدو لکم وھو مؤمن “ (یہ آیت) مرداس بن عمرو کے بارے میں نازل ہوئی وہ مسلمان تھا اور اس کی قوم اہل حرب میں سے کافر تھی تو اس کو اسامہ بن زیدنے خطا قتل کردیا پھر فرمایا لفظ آیت ” فتحریر رقبۃ مؤمنۃ “ کہ ان کے لئے دیت نہ ہوگی کیونکہ وہ اہل حرب میں سے تھے۔ (34) ابن المنذر نے جریر بن عبد اللہ بجلی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص (مسلمان ہو کر) مشرکین کے ساتھ مقیم رہا تو وہ ذمہ سے بری ہے۔ (35) ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کان من قوم بینکم وبینہم میثاق “ سے مراد ہے کہ وہ معاہدہ میں شامل ہو مگر مومن نہ ہو۔ (36) ابن جریر وابن المنذر نے جابر بن زید ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کان من قوم بینکم وبینہم میثاق “ سے مراد ہے کہ وہ مقتول مومن ہو۔ (37) ابن جریر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کان من قوم بینکم وبینہم میثاق “ یعنی مقتول کافر ہوا اور تمہارا اور اس قوم کا معاہدہ ہو۔ (38) ابن جریر وابن المنذر والبیہقی نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وان کان من قوم بینکم وبینہم میثاق “ سے عہد مراد ہے۔ (39) ابن ابی حاتم نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کان من قوم بینکم وبینہم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ “ کے بارے میں ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ معاہد کی دیت مسلمان کی دیت کی طرح ہے پھر بعد میں کم کردی گئی۔ اور اس کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی کردی گئی اور اللہ تعالیٰ نے معاہد کی دیت اس کے اہل و عیال کو دینے کا حکم فرمایا اور اس کے ساتھ ایک مومن غلام آزاد کیا جائے۔ (40) ابو داؤد نے عمرو بن شعب (رح) سے اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم تھی اور اہل کتاب کی دیت اس دن مسلمانوں کی دیت سے آدھی تھی یہ معاملہ اسی طرح رہا یہاں تک کہ حضرت عمر خلیفہ ہوئے وہ خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو فرمایا اونٹ مہنگے ہوگئے تو حضرت عمر نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار چاندی والے پر بارہ ہزار درہم اور گائے والوں پر دو سو گائیں اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں اور جوڑے والوں پر دو سو جوڑے اور اہل ذمہ کی دیت میں اضافہ نہ فرمایا ان کو اسی حال میں چھوڑ دیا گیا۔ معاہد کو قتل کرنے والے پر جنت حرام ہے (41) ابن ابی شیبہ و نسائی وحاکم نے (اس کو صحیح کہا) ابو بکرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جنت کی خوشبو سو سال کے فاصلے سے پائی جائے گی اور کوئی بندہ کسی معاہد آدمی کو قتل کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیں گے اور اس کی خوشبو کو بھی کہ وہ اس کو نہیں پا سکے گا۔ (42) ابن ابی شیبہ و بخاری وابن ماجہ اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اہل ذمہ میں سے کسی کو قتل کردیا وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا اگرچہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے پائی گئی جائے گی۔ (43) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے کسی معاہد کو قتل کیا کہ جسے اللہ کی اور رسول اللہ ﷺ کی حفاظت حاصل تھی تو اس نے اللہ کے ذمہ کو توڑا وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا اگرچہ اس کی خوشبو ستر سال کے فاصلہ پر پائی جائے۔ (44) شافعی وعبد الرزاق وابن ابی شیبہ وابن جریر نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن الخطاب ؓ نے فرمایا اہل کتاب کی دیت چار ہزار درہم ہے اور مجوسی کی دیت آٹھ سو درہم ہے۔ (45) ابن جریر نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ خطایہ ہے کہ وہ ایک چیز کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کا وار کسی اور چیز کو لگ جاتا ہے۔ (46) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین “ یعنی جو شخص کسی مومن کے قتل خطا میں غلام کو نہیں پاتا تو وہ دو ماہ کے لگاتار روزے رکھے اور فرمایا یہ آیت عیاش بن ابی ربیعہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک مومن کا خطا قتل کردیا تھا۔ (47) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” فمن لم یجد “ سے مراد ہے کہ جس شخص نے غلام آزاد کرنے کو نہ پایا تو دو ماہ کے اندر روزے رکھے۔ (48) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ” فمن لم یجد فصیام شھرین “ سے مراد ہے کہ روزہ اس کے لئے ہے جو غلام کو نہ پائے اور دیت واجب ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (49) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا جو سورة نساء میں ہے یعنی لفظ آیت ” فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین “ کی دو ماہ کے روزے صرف غلام آزاد کرنے کے مقابلہ میں ہیں یا دیت اور غلام آزاد کرنے کے مقابلہ میں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جو شخص نہ پائے تو دیت اور غلام دونوں کے مقابلے میں ہیں۔ قتل کا کفارہ دو ماہ کے مسلسل روزے (50) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ان سے دو ماہ کے لگاتار روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان میں روزہ افطار کرے اور نہ ان میں انقطاع کرے اگر اس نے بیماری یا عذر کے بغیر ایسا کیا تو سارے روزے دوبارہ رکھے اور اگر اس نے کسی بیماری یا عذر کی وجہ سے ایسا کیا تو اس میں سے باقی روزے رکھے اگر وہ ماجائے اور روزے نہ رکھے تو ان روزوں کے مقابلہ میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ہر مسکین کو ایک مددے۔ (51) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ دو ماہ کے لگاتار روزوں کی شرط اللہ تعالیٰ کی جانب سے سختی کے لئے ہے پھر فرمایا یہ قتل خطا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تشدید ہے۔ (52) سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” توبۃ من اللہ “ سے مراد ہے کہ یہ معافی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آیت کے لئے جبکہ قتل خطا میں کفارہ اور دیت کو رکھ دیا گیا لفظ آیت ” وکان اللہ علیما حکیما “ یعنی اللہ تعالیٰ کفار کے حکم کو جاننے والا ہے جس نے خطا قتل کیا پھر عہد اور معاہدہ کی وجہ سے مشرکین عرب کی دیت منسوخ کردی گئی اسے سورة براۃ کی اس آیت ” فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم “ نے منسوخ کردیا اور نبی ﷺ نے فرمایا دو دینوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے۔
Top