Dure-Mansoor - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور ایک ایک بیوی کو دوسری بیوی کی جگہ بدلنا چاہو اور تم ان میں سے ایک کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی نہ لو۔ کیا تم اس کو واپس لو گے بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کا ارتکاب کر کے
(1) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان اردتم استبدال زوج مکان زوج “ سے مراد ہے اگر تو ناپسند کرے اپنی عورت کو اور اس کے علاوہ دوسری عورت کو پسند کرے تو اس کو طلاق دے دے اور اس سے شادی کرلے۔ اور اس کو مہر دے دے اگرچہ بڑا مال ہو۔ (2) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان اردتم استبدال زوج مکان زوج “ سے مراد ہے کہ ایک عورت کو طلاق اور دوسری سے نکاح پھر مطلقہ کے مال میں سے وہ مرد کے لئے کوئی چیز حلال نہیں اگرچہ بہت مال ہو۔ (3) ابن جریر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” اوتیتم احدہن قنطارا “ سے مراد ہے دو ہزار۔ (4) سعید بن منصور وابو یعلی نے جید سند کے طریق کے ساتھ مسروق (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ سے منبر پر سوار ہوئے پھر فرمایا اے لوگو ! کیا وجہ ہے تم عورتوں کے مہر بہت زیادہ مقرر کرتے ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ایسے تھے کہ وہ چار سو درہم یا اس سے کم مہر مقرر کرتے تھے اور اگر مہر کی زیادتی اللہ کے نزدیک تقویٰ ہوتی یا عزت کی چیز ہوتی تو تم اس سے سبقت نہ لے جاتے میں کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتا جو اپنے بیوی کا مہر چار سو درہم سے زیادہ رکھتے تھے۔ پھر آپ منبر سے نیچے اترے۔ تو ایک عورت آئی قریش میں سے کہا اے امیر المؤمنین ! کیا آپ نے منع کیا لوگوں کو کہ نہ زیادہ کریں عورتوں کے مہروں میں سے چار سو درہم پر انہوں نے فرمایا ہاں وہ عورت کہنے لگی کیا آپ نے نہیں سنا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ لفظ آیت ” واتیتم احدہن قنطارا “ (اور تم نے بہت بڑا مال دیا ہو۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ اے اللہ ! میں آپ کی بخشش کا امیدوار ہوں تمام لوگ عمر سے زیادہ جاننے والے ہیں پھر آپ لوٹے اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا اے لوگو بیشک میں نے تم کو منع کیا تھا کہ عورتوں کے مہر چار سو درہم سے زیادہ نہ کرو۔ پس جو شخص اپنے مال میں سے بطور مہر کے جتنا دینا چاہے دے دے۔ (5) عبد الرزاق وابن المنذر نے ابو عبد الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا نہ غلو کرو عورتوں کے مہروں میں ایک عورت نے کہا اے عمر تجھے یہ حق حاصل نہیں ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ لفظ آیت ” واتیتم احدہن قنطارا “ کہ تم عورتوں کو سونے کا خزانہ دو ۔ اور اسی طرح وہ ابن مسعود ؓ کی قرات میں ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا ایک عورت نے عمر سے جھگڑا کیا اور وہ عمر پر غالب آگئی۔ زیادہ مہر مقرر کرنا مناسب نہیں (6) زبیر بن بکار نے موفقیات میں عبد اللہ بن مصعب ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تم عورتوں کے مہروں کو چالیس اوقیہ سے زیادہ نہ کرو جس نے زیادہ کیا میں اس زیادتی کو بیت المال میں ڈال دوں گا۔ ایک عورت نے کہا آپ کو یہ حق حاصل نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کس لئے ؟ اس عورت نے کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واتیتم احدہن قنطارا “ (یہ سن کر) حضرت عمر ؓ نے فرمایا عورت نے ٹھیک کہا اور مرد نے غلطی کی۔ (7) سعید بن منصور وعبد بن حمید نے بکر بن عبد اللہ المزنی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں اس ارادہ سے نکلا کہ میں تم کو مہر کی کثرت سے منع کروں گا مگر کتاب اللہ کی یہ آیت ” واتیتم احدہن قنطارا “ میرے سامنے آگئی (تو میں رک گیا) ۔ (8) عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” بھتانا “ کا معنی ہے ” واثما “ یعنی گناہ۔ (9) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” مبینا “ کا معنی ہے واضح۔ (10) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ نے فرمایا ” افضی “ سے مراد ہے جماع لیکن اللہ تعالیٰ نے کنایہ فرمایا۔ (11) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) وسلم سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقد افضی بعضکم الی بعض “ سے مراد ہے عورتوں سے جماع کرنا۔ (12) ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واخذن منکم میثاقا غلیظا “ سے مراد ہے ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ (اچھی طریقے سے روکنا یا اچھے طریقے سے آزاد کردینا) ۔ (13) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” میثاقا غلیظا “ سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے مردوں سے لیا یعنی روک لینا اچھی طرح سے یا چھوڑ دینا اچھی طرح سے اور فرمایا کہ یہ عہد لیا جاتا تھا نکاح کے وقت لفظ آیت ” اللہ علیک لتمسکن بمعروف او لتسرحن باحسان “ یعنی اللہ کی قسم تم پر لازم ہے کہ تم کو چاہئے کہ روک لو (عورتوں) کو اچھی طرح سے یا چاہئے کہ تم ان کو چھو ڑدو (یعنی طلاق دے دو ) اچھی طرح سے۔ (14) ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ جب کوئی نکاح پڑھاتے تھے تو یوں فرماتے تھے میں تیرا نکاح کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ساتھ کہ لفظ آیت ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ (15) ابن ابی شیبہ نے عوف (رح) سے روایت کیا کہ انس بن مالک ؓ جب اپنی بیٹی یا بعض گھر والوں کی عورتوں کا نکاح کرتے تھے تو اس کے شوہر سے یوں فرماتے ہیں تجھ سے نکاح کرتا ہوں۔ اس بات پر کہ تو اس کو اپنے پاس رکھے گا اچھے طریقے سے یا اس کو چھوڑ دے گا اچھی طریقے سے۔ (16) ابن ابی شیبہ نے حبیب بن ابی ثابت (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ جب کوئی نکاح پڑھاتے تو یوں فرماتے میں شرط لگاتا ہوں اس بات کی کہ لفظ آیت ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “۔ (17) ابن ابی شیبہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واخذن منکم میثاقا غلیظا “ سے مراد ہے ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ کہ روکو تو اچھے طریقے سے یا چھوڑ دو تو اچھے طریقے سے۔ (18) ابن ابی شیبہ نے یحییٰ بن المنذر (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ (19) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واخذن منکم میثاقا غلیظا “ سے مراد ہے عقد نکاح لیا اور فرمایا تحقیق میں نے تیرا نکاح کردیا۔ (20) ابن ابی شیبہ نے عکرمہ (رح) اور مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واخذن منکم میثاقا غلیظا “ سے مراد ہے کہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور تم نے ان کی شرم گاہوں کو اور اللہ کے کلام کے ساتھ حلال کیا ہے۔ (21) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واخذن منکم میثاقا غلیظا “ سے مراد ہے کہ یہ آدمی کا قول ہے کہ میں نے تیری ملک میں دیا۔ (22) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” میثاقا غلیظا “ سے مراد ہے نکاح کا کلمہ (نکاح کے الفاظ) کہ ذریعہ ان کی شرم گاہیں مردوں پر حلال ہوتی ہیں۔ (23) ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ ” میثاقا غلیظا “ سے مراد ہے سخت وعدہ۔ (24) ابن جریر نے بکیر (رح) سے روایت کیا کہ ان سے خلع کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ہم اس سے کوئی چیز لے سکتے ہیں فرمایا نہیں پھر یہ الفاظ پڑھے۔ لفظ آیت ” واخذن منکم میثاقا غلیظا “ (کہ تم سے سخت وعدہ لیا گیا تھا) ۔ (25) ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ پھر اس کے بعد رخصت دے دی گئی اور فرمایا لفظ آیت ” فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ “ (البقرہ آیت 229) کہ اس آیت نے اس سابقہ حکم کو منسوخ کردیا۔
Top