Dure-Mansoor - An-Nisaa : 123
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
نہ تمہاری آرزوؤں پر مدار ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر، جو شخص برا عمل کرے کا اس کا بدلہ دیا جائے گا اور نہ پائے گا اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار
(1) سعید بن منصور و عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ عرب والوں نے کہا نہ ہم اٹھائے جائیں گے اور نہ ہم سے حساب بھی لیا جائے اور یہود و نصاری نے کہا لفظ آیت ” وقالوا لن یدخل لجنۃ الا من کان ھودا او نصری “ (البقرۃ آیت 111) (اور) ” لن تمسنا النار الا ایاما معدودۃ “ (البقرۃ آیت 80) تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لیس بمانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سوءا یجزبہ “ (2) سعید بن منصور و ابن جریر و ابن المنذر نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ مسلمانوں میں اور اہل کتاب میں باہم گفتگو ہوئی مسلمانوں نے کہا ہم تم سے زیادہ ہدیت والے ہیں اہل کتاب نے کہا ہم تم سے زیادہ ہدایت والے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب “ تو مسلمان ان پر غالب آگئے اس آیت کے ساتھ ” ومن یعمل من الصلحت من ذکر اوانثی وھو مؤمن “ (3) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ نصاری اور اہل اسلام نے آپس میں فخر کیا اور ان لوگوں نے کہا کہ ہم تم سے افضل ہیں اور ان لوگوں نے کہا ہم تم سے افضل ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب “ (4) عبد بن حمید و ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ مسلمان اور اہل کتاب نے آپس میں فخر کیا اہل کتاب نے کہا ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے ہیں اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے اور ہم اللہ کے نزدیک تم سے زیادہ قریب ہیں مسلمانوں نے کہا ہم اللہ کے نزدیک تم سے زیادہ قریب ہیں ہمارے نبی نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں اور ہماری کتاب تمام کتابوں پر غالب ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب “ سے لے کر ” ومن احسن دینا “ تک (الآیہ) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دلیل کو دوسرے ادیان کی دلیل پر غالب قرار دیا۔ (5) ابن جریر و ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ یہود و نصاری سے ملے یہود نے مسلمانوں سے کہا ہم تم سے بہتر ہیں ہمارا دین تمہارے سے پہلے ہے ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے ہیں اور ہم دین ابراہیم پر ہیں اور ہرگز جنت میں یہدویوں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا اور نصاری نے بھی اسی طرح کہا مسلمانوں نے کہا ہماری کتاب تمہاری کتاب کے بعد ہے ہمارے نبی تمہارے نبی کے طعد ہیں ہمارا دین تمہارے دین کے بعد ہے اور تم کو حکم دیا گیا ہے کہ تم ہمارے تابعداری کرو اور تم اپنے دین کو چھوڑ دو ہم تم سے بہتر ہیں ہم ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے دین پر ہیں اور ہرگز جنت میں داخل نہی ہوگا مگر جو ہمارے دین پر ہوگا اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے قول کو رد کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سواءا یجزبہ “ پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو ان پر فضیلت عطا فرمائی اور فرمایا لفظ آیت ” ومن احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن واتبع ملۃ ابراہیم حنیفا “ (النساء آیت 109) (6) ابن جریر نے عبیدہ بن سلیمان کے طریق سے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ دین والوں نے آپس میں جھگڑا کیا تورات والوں نے کہا ہماری کتاب پہلی کتاب ہے اور اس سے بہتر ہے اور ہمارے نبی سب نبیوں میں بہتر ہیں انجیل والوں نے بھی اسی طرح کہا اسلام والوں نے کہا کوئی دین نہیں سوائے اسلام کے ہماری کتاب نے ہر کتاب کو منسوخ کردیا اور ہمارے نبی سب نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں اور ہم کو حکم دیا گیا کہ ہم اپنی کتاب پر عمل کریں اور تمہاری کتاب کے ساتھ ایمان لائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سوءا فجزبہ “ پھر دین والوں میں سے اختیار کردیا اور اہل فضل کو فضیلت دیتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” ومن احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن “ (7) ابن جریر و ابن المنذر نے جویبر کے طریق سے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ دین والوں نے آپ میں فخر کیا یہود نے کہا ہماری کتاب بہترین کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ عزت والی ہے اور ہمارے نبی زیادہ عزت والے ہیں اللہ کے ہاں جو موسیٰ ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تنہائی میں ملاقات کی اور ہم کلامی کا شرف حاصل کیا۔ نصاری نے کہا عیسیٰ آخری نبی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کو تورات اور انجیل بھی دی اور اگر ان کو محمد ﷺ پالیتے تو ان کی تابعداری کرتے ہمارا دین تمام ادیان سے بہترین ہے۔ اور مجوس اور عرب کے کافروں نے بھی کہا کہ ہمارا دین تمام دینوں سے قدیمی اور بہترین دین ہے۔ مسلمانوں نے کہا محمد رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء کو ختم کرنے والے ہیں اور رسولوں کے سردار ہیں اور قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی آخری کتاب ہے اور وہ تمام کتب کی امیر ہے اور اسلام سب دینوں سے بہتر ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیار عطا فرمایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سوءا یجزبہ “ یعنی یہودی نصاری مجوسی اور عرب کے کفار کی پہلی جزا دی جائے گی اللہ کے مقابلہ میں کوئی ولی اور مددگار نہیں پائیں گے پھر اسلام کو ہر دین پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” ومن احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ “ (8) ابن جریر نے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تورات والوں نے کہا ہماری کتاب بہتر کتاب ہے جو تمہاری کتاب سے پہلے نازل ہوئی اور ہمارے نبی نبیوں میں سب سے بہتر ہیں۔ انجیل والوں نے بھی اسی طرح کہا اسلام والوں نے کہا ہماری کتاب نے ہر کتاب کو منسوخ کردیا اور ہمارے نبی سب نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں اور تم کو اور ہم کو حکم دیا گیا کہ ہم تمہاری کتاب پر ایمان لے آئیں اور ہم اپنی کتاب پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” الیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سوءا یجزبہ “ اور سب دین والوں میں اختیار دیا اور فرمایا لفظ آیت ” ومن احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ “ (9) عبد بن حمید و ابن جریر و ابن المنذر و ابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ تورات والے انجیل والے اور ایمان والے (اکٹھے) بیٹھے ان لوگوں نے کہا ہم تم سے افضل ہیں دوسروں نے کہا ہم افضل ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر فیصلہ فرما دیا لفظ آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سوءا یجزبہ “ پھر اہل دین کو اللہ تعالیٰ نے خاص کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” ومن یعمل من الصلحت من ذکر او انثی “ (النساء آیت 124) (10) ابن جریر ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد قریش اور کعب بن اشرف ہیں۔ (11) ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایمان آراستہ ہونے اور آرزؤیں کرنے کا نام نہیں بیشک ایمان وہ ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور عمل اس کی تصدیق کرے۔ (12) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہود و نصاری نے کہا کہ ہمارے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا تو قریش نے کہا ہم نہیں اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سوءا یجزبہ “ اور سوء سے مراد شرک ہے۔ (13) احمد و ہناد و عبد بن حمید و الحکیم الترمذی وابن جریر و ابو یعلی و ابن المنذر وابن حبان و ابن السنی نے عمل الیوم والیلۃ میں اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) و بیہقی نے شعب الایمان میں الضیاد نے المختارہ میں ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب من یعمل سواء یجزبہ “ کے بعد بچاؤ کی کیا صورت ہوگی کیونکہ ہر برائی کی ہم سزا دئیے جائیں گے نبی ﷺ نے فرمایا اے بو بکر اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بخش دیا ہے کیا تم کو تکلیف نہیں پہنچی کیا تو بیمار نہیں ہوتا کیا تو غمگین نہیں ہوتا کیا تم کو مصیبت نہیں آتی عرض کیا کیوں نہیں فرمایا یہ وہی ہے جس کا تم کو بدلہ دیا جا رہا ہے۔ (14) احمد و البزار و ابن مردویہ والخطیب نے المتفیق والمتفرق میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ابوبکر کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کو دنیا میں سزا دی جاتی ہے۔ (15) ابن سعید والترمذی الحاکم والبزار وابن المنذر والحاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ عبد اللہ بن زبیر کے پاس سے گزرے اور وہ سولی پر لٹکائے گئے تھے تو فرمایا اے ابو حبیب اللہ تجھ پر رحم فرمائے میں نے تیرے باپ زبیر سے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص غلطی کرتا ہے تو اس کو دنیا میں بدلہ دے دیا جاتا ہے۔ صدیق اکبر ؓ پر خوف طاری ہونا (16) عبد بن حمید و ترمذی و ابن المنذر نے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی ﷺ کے پاس تھا یہ آیت نازل ہوئی ” من یعمل سوءا یجزبہ، ولا یجدلہ من دون اللہ ولیا ولا نصیرا “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابوبکر میں تجھے وہ آیت نہ سناؤ جو مجھ پر نازل ہوئی میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ تو آپ نے وہ آیت مجھ پر پڑھ کر سنائی میں کچھ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میں نے محسوس کیا کہ میری پشت میں جوڑ ہل گیا ہے جس کی وجہ سے میں لیٹ گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا ہوا تجھ کو اے ابوبکر میں نے عرض کیا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہم میں سے کون سا ایسا شخص ہے جو گناہ نہیں کرتا کیا ہم کو ہر گناہ کا بدلہ دیا جائے گا جو ہم نے کئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر تم کو اور تیرے مومن ساتھیوں کو اس دنیا میں بدلہ دیا جائے گا۔ جب تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو گے تو تمہارے لئے کوئی گناہ نہ ہوگا لیکن دوسرے (کافر لوگ) ان کے گناہوں کو جمع کیا جاتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن ان کو بدلہ دیا جائے گا۔ (17) ابن جریر نے ابوبکر سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ نازل ہوئی تو ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ جو ہم عمل کرتے ہیں اس کی سزا دی جائے گی آپ نے فرمایا اے ابوبکر ! کیا تم کو یہ تکلیف نہیں پہنچی ؟ پس یہی تو کفارہ ہے۔ (18) سعید بن منصور وھناد وابن جریر وابو نعیم نے الحلیہ میں وابن مردویہ نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکر نے فرمایا یارسول اللہ ! یہ آیت کتنی سخت ہے ؟ ” ومن یعمل سوءا یجزبہ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مصائب امراض اور غم کا دنیا میں پہنچنا ان اعمال کا بدلہ ہے۔ دنیاوی تکالیف مؤمن کے گناہوں کا کفارہ ہے (19) سعید بن منصور و احمد و بخاری نے اپنی تاریخ میں و ابو یعلی و ابن جریر و بیہقی نے شعب الایمان میں (صحیح سند کے ساتھ) مائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اس آیت ” ومن یعمل سوءا یجزبہ “ کو پڑھا اور کہا کہ ہم پر اس کام کا بدلہ دئیے جائیں گے جو ہم نے کئے تو اس وقت ہم ہلاک ہوجائیں گے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا ہاں ! مؤمن کو ان تکلیفوں کے ذریعہ دنیا ہی میں سزا دی جاتی ہے جو اس کی جان میں اور اس کے جسم میں پہنچتی ہیں۔ (20) ابوداؤد و ابن جریر و ابن ابی حاتم و ابن مردویہ و بیہقی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بلاشبہ میں قرآن مجید میں سب سے زیادہ سخت آیت کو جانتی ہوں۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ وہ کیا ہے ؟ میں نے کہا لفظ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ آپ نے فرمایا بندہ کو کوئی (دنیا میں) تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ کوئی صدمہ اس کو ہوتا ہے (یہی سزا ہے ان برے اعمال کی اے عائشہ ! جس سے حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوگیا اور جس کو محاسہ ہوا اس کو عذاب دیا گیا میں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتے لفظ آیت ” فسوف یحاسب حسابا یسیرا “ آپ نے فرمایا یہ تو پیشی ہے اے عائشہ ! جس سے حساب لیا گیا اس آیت سے ہے لفظ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ پھر فرمایا بلاشبہ مؤمن کو ہر چیز پر اجر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ موت کے وقت جو آدمی خزاٹے لیتا ہے (اس پر بھی اجر ملتا ہے) (21) احمد نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کسی بندے کے گناہ بہت ہوجائیں اور اس کے لئے کوئی چیز نہ ہو تو جس سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ اس کو غم میں مبتلا فرما دیتے ہیں تاکہ یہ غم اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے۔ (22) ابن راھویہ (نے اپنی سند میں) وعبد بن حمید وابن جریر اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور ابو المھلب (رح) سے روایت کیا کہ میں نے کوچ کیا حضرت عائشہ ؓ کی طرف اس آیت کی تفسیر جاننے کے لئے یعنی لفظ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ تو انہوں نے فرمایا دنیا میں جو تم کو مصیبت پہنچتی ہیں یہی اس کا بدلہ ہے۔ (23) سعید بن منصور و ابن ابی شیبہ و مسلم و ترمذی و نسائی و ابن جریر و ابن المنذر وابن مردویہ البیہقی نے اپنی سنن میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ آیت بہت بھاری ہوئی ان کو مصیبت پہنچی جو اللہ نے چاہا رسول اللہ ﷺ کے پاس بات کی شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا (یہ کام میں) میانہ روی اور اعتدال اختیار کرو اور اللہ کے نزدیکی چاہو اس لئے کہ تکلیف جو مسلمان کو پہنچی ہے وہ اس کے لئے کفارہ ہے یہاں تک کہ ایک کانٹا جو اس کو لگ جاتا ہے اس کے لئے کفارہ ہے اور کوئی آیت جو اس کو پہنچی ہے (اس کے لئے کفارہ ہے) اور ابن مردویہ کے نزدیک یہ الفاظ ہیں ہم روتے ہیں اور غمگین ہوتے ہیں (یہ بھی کفارہ ہے) اور ہم نے کہا یا رسول اللہ اس آیت نے ہمارا کچھ نہیں چھوڑا آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ یہ تمہارے لئے نازل ہوئی لیکن خوش ہوجاؤ اللہ کے نزدیک چاہو اور اعتدال اختیار کرو تم میں سے جس کو دنیا میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی خطاؤں کو مٹا دیتے ہیں یہاں تک کہ جو کانٹا لگ جاتا ہے تم میں سے کسی کو اس کے پاؤں میں تو اس سے بھی اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (24) ابن ابی شیبہ و احمد و بخاری و مسلم نے ابوہریرہ اور ابو سعید ؓ دونوں سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کوئی چیز مؤمن بندہ کو پہنچتی ہے بیماری سے تھکن سے اور غم سے یہاں تک کہ وہ فکر جو اس کو رنجیدہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔ (25) احمد و مسعود و ابن ابی الدنیا نے الکفارات میں و ابو یعلی و ابن حبان و طبرانی نے الاوسط میں و حاکم (نے اس کو صھیح کہا) اور بیہقی نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ان امراض کے بارے میں آپ بتائیں جو امراض لگ جاتے ہیں ان کا بدلہ بھی ہم کو ملتا ہے آپ نے فرمایا یہ گناہوں کو مٹانے والے ہیں میرے باپ نے کہا اگرچہ وہ مصیبت تھوڑی ہو فرمایا کانٹا بھی لگ جائے یا اس سے اوپر کوئی تکلیف پہنچ جائے تو (یہ سب گناہوں کو مٹا دینے والے ہیں) (26) ابن راھویہ نے اپنی سند میں محمد بن منتشر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی کتاب میں اس آیت سے سخت میں کوئی آیت نہیں جانتا حضرت عمر ؓ جھکے اس کو ایک درمار کر فرمایا کیا ہے مجھ کو تجھے اس کے کھوج لگانے میں کیا غرض وہ چلا گیا جب اگلا دن آیا یہاں تک کہ کل حضرت عمر ؓ نے اس سے فرمایا وہ آیت کونسی ہے جس کا تو نے کل ذکر کیا تھا اس نے کہا لفظ آیت ” من یعمل سوءا تجزبہ “ کہ ہم میں سے کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کی سزا پائے گا عمر نے فرمایا ہم ٹھہرے رہے جب نازل ہوئی وہ چیز کہ جس کی وجہ سے ہم کو نہ کھانا نفع دیتا تھا اور نہ پینا یہاں تک کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور رخصت دیتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” ومن یعمل سوءا او بظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما۔ “ (27) الطیالسی و احمد و ترمذی (نے اس کو حسن کہا) اور بیہقی نے امیہ بنت عبد اللہ رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا یعنی ” من یعمل سوءا تجزبہ “ تو انہوں نے فرمایا تو نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا کہ اس سے پہلے کسی نے مجھ سے سوال نہیں کیا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا اے عائشہ ! یہ اللہ کا عقد ہے بندے سے اس چیز کے بدلہ میں جو اس کو بخار یا غم اور آفت پہنچتی ہے (تو اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے یہاں تک کہ کوئی سامان جو اس نے اپنی آستین میں رکھ لیا تھا پھر اس کو گم کردیا اور اس کی وجہ سے اس کو گھبراہٹ ہوئی پھر اس کو اپنی بغل کے نیچے پالیا (تو یہ گھبراہٹ بھی کفارہ ہوگی یہاں تک کہ ان مصیبتوں اور پریشانیوں کی وجہ سے بندہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے سرخ سونا بٹھی سے نکلتا ہے۔ (28) عبد بن حمید و ابن ابی الدنیا و ابن جریر و بیہقی نے زیاد بن ربیع (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن بن کعب ؓ سے کہا اللہ کی کتاب میں ایک ایسی آیت ہے جس نے مجھے غم میں ڈال دیا انہوں نے پوچھا وہ کونسی ہے میں نے کہا لفظ آیت ” ومن یعمل سوءا یجزبہ “ فرمایا میں تجھ کو اپنے سے زیادہ سمجھدار سمجھتا تھا بلاشبہ مؤمن کو جو مصیبت پہنچتی ہے ٹھوکر کھا کر گرپڑتا ہے اور رگ پھڑکتی ہے اور جو چیونٹی کاٹنا ہوتا ہے وہ کسی گناہ کا بدلہ ہوتا ہے اور اکثر گناہ اس میں سے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں یہاں تک کہ بچھو وغیرہ کا کاٹنا اور کسی چیز کا انسان کو پھونک مارنا (یہ بھی کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس وجہ سے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے) (29) ہناد و ابو نعیم نے الحلیہ میں ابراہیم بن مرہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی میرے والد کے پاس آیا اور کہا اے ابو المنذر (یہ ان کی کنیت ہے) ایک آیت اللہ کی کتاب میں ایسی ہے جس نے مجھے غم میں ڈال دیا فرمایا کونسی آیت ہے ؟ کہا (یہ ہے) ” من یعمل سوءا یجزبہ “ تو انہوں نے فرمایا لیکن مؤمن بندہ جب اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہ ہوگا۔ (30) ابن جریر نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ نازل ہوئی تو ابوبکر نے فرمایا میری کمر تو ٹوٹنے لگی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اد سے مراد وہ مصیبتیں ہیں جو دنیا میں مؤمن بندوں پر آتی ہیں۔ (31) ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابن عمر ان سے غمگین ہو کر ملے اور اس آیت کے بارے میں پوچھا لفظ آیت ” لیس بامانیکم ولا امانی اہل الکتب، من یعمل سوءا یجزبہ “ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ تمہارے لئے نہیں یہ مشرکین کے لئے ہے وہ قریش ہوں یا اہل کتاب۔ (32) ابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ سے مراد ہے کہ جو شخص شرک کرے گا اس کو سزا ملے گی اور شرک ہی برا کام ہے (اور فرمایا) لفظ آیت ” ولا یجد لہ من دون اللہ ولیا ولا نصیرا “ مگر یہ کہ اپنی موت سے پہلے تو بہ کرلے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمالیں گے۔ (33) سعید بن منصور و ابن ابی شیبہ وھناد والحکیم الترمذی اور بیہقی نے حسن (رح) سے لفظ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ اس کے لئے ہے جس کو اللہ تعالیٰ ذلیل و رسوا کرنے کا ارادہ فرمائیں اور جس کو اللہ تعالیٰ عزت دینے کا ارادہ فرمائیں گے اس کے گناہوں سے درگزر فرمائیں گے اور وہ جنتی لوگوں میں سے ہے۔ اور یہ سچا وعدہ ہے جو تم وعدہ دئیے جاتے ہو۔ (34) البیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک درخت کے پاس تشریف لائے اس کو حرکت دی تو اس کے پتے گرے جو اللہ تعالیٰ نے چاہے پھر فرمایا کہ یہ پریشانیاں اور مصیبتیں بنی آدم سے اتنی تیزی سے گناہوں کو گرادیتی ہے جتنی تیزی سے میں نے اس درخت سے پتے گرائے ہیں۔ (35) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا مؤمن مرد اور مؤمن عورت کی جان میں اس کی اولاد میں اور اس کے مال میں برابر مصیبت لگی رہتی ہے یہاں تک کہ جب وہ (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس پر کوئی گناہ باقی نہ ہوگا۔ (36) احمد نے سائب بن خلاد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی چیز (یعنی مصیبت) مؤمن کو پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا اس کو لگ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور اس سے ایک گناہ مٹا دیتے ہیں۔ (37) احمد و بخاری و مسلم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی مصیبت جو کسی مسلمان کو پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں یہاں تک کہ جو کانٹا اس کو لگ جاتا ہے (اس کے بدلہ میں بھی اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتے ہیں) (38) ابن ابی شیبہ و احمد و مسلم و الحکیم الترمذی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی کانٹا اور اس سے بڑھ کو کوئی تکلیف مؤمن کو پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کا درجہ بلند فرما دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ اس کی ایک خطا کو معاف کردیتے ہیں۔ (39) احمد نے عائشہ ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ کو درد کی تکلیف ہوگئی اور آپ اس کی شکایت کرنے لگے اور آپ اپنے بستر پر پہلو بدلنے لگے رائشہ نے فرمایا کہ اگر ہمارے بعض میں سے کسی کو یہ تکلیف ہوئی تو آپ اس پر ناراض ہوتے مگر نبی ﷺ نے فرمایا نیک لوگوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے بلاشبہ مؤمن کو کسی کانٹے سے بھی تکلیف پہنچتی ہے یا اس سے زیادہ مگر یہ کہ اس سے گناہ مٹ جاتا ہے اور اس کے ذریعہ اس کا درجہ بلند کردیا جاتا ہے۔ (40) احمد و بخاری و مسلم و ترمذی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مؤمن کو کوئی تھکن بیماری اور کوئی پریشانی کوئی غم اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا اس کو لگ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔ مؤمن کو ہر مصیبت پر اجر ملتا ہے (41) احمد وھناد نے الزھد میں اکٹھے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ مسلمان ہر چیز میں اجر دیا جاتا ہے حتی کہ بیماری میں اور تسمہ کے ٹوٹنے میں اور وہ سامان جو اس کی آستین میں تھا اس کو گم کردیا اور وہ گھبرایا پھر اس کو اپنی بغل سے پالیا (کہ اس پر بھی ان کو اجر ملے گا) ۔ (42) ابن ابی شیبہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کن لوگوں کو زیادہ مصیبتیں پہنچتی ہیں آپ نے فرمایا نبیوں کو پھر ان کے بعد جو افضل ہیں لوگوں میں سے بندہ برابر مصیبتوں میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ (43) ابن ابی شیبہ و احمد و بیہقی نے معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی تکلیف دینے والی چیز مؤمن کو بدن میں پہنچتی ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔ (44) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مؤمن کا درد سر یا جو کانٹا اس کو لگ جاتا ہے یا کوئی چیز جو اس کو تکلیف دیتی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ درجہ بلند فرما دیں گے اور اس کے بدلہ میں اس کے گناہوں کو مٹا دیں گے۔ (45) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے بریدہ اسلمی سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمانوں میں سے کسی آدمی کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف یہاں تک کہ آپ نے کانٹے کا بھی ذکر فرمایا مگر اسے دو فائدوں میں سے ایک فائدہ ہوتا ہے یا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں میں کوئی گناہ معاف کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی شان نہیں تھی کہ اس کے بدلہ میں بخشے یا بندے کو ایسی کرامت نصیب فرمائے اللہ تعالیٰ اسے شرف سے نوازنے والا نہیں تھا مگر اس جیسے عمل سے۔ (46) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ درد کے لئے کوئی اجر نہیں لکھا جاتا بلاشبہ اجر تو عمل میں ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ خطاؤں کو مٹا دیتے ہیں۔ (47) ابن سعد و بیہقی نے عبد اللہ بن ایاس بن ابی فاطمہ (رح) سے اور اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون تم میں سے اس بات کو محبوب رکھتا ہے کہ وہ صحت مند ہے اور بیمار نہ ہو صحابہ نے عرض کیا ہم سب چاہتے ہیں یا رسول اللہ ! پھر فرمایا کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم گم شدہ گدھے کی طرح ہوجاؤ اور دوسرے لفظ میں لفظ الصیالہ ہے کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم تکلیفوں والے اور کفارات والے ہوجاؤ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ مؤمن بندہ کو آزماتے ہیں اور اس کو آزماتے ہیں اس کی عزت دینے کے لئے۔ بلاشبہ کسی بندہ کا ایک درجہ جنت میں ہوتا ہے کوئی شئی اس کے عمل میں اس کو (اس درجہ تک) نہیں پہنچا سکتی یہاں تک کہ وہ مصیبت میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ وہ اس درجہ تک پہنچ جائے۔ (48) احمد و ابن ابی الدنیا و بیہقی نے محمد بن خالد اسلمی (رح) سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے دراد اصحابی تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب اللہ کی طرف سے بندے کے لئے ایک گھر چھوٹ جائے کہ اس کے عمل اس کو نہ پہنچا سکتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم میں کوئی بیماری پیدا فرما دیتا ہے۔ یا اس کے مال میں یا اس کی اولاد میں آزمائش ڈال دیتا ہے۔ پھر بندہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ جو اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ (49) بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ہر آدمی کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک گھر ہے اور وہ اس میں اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ سکتا تو برابر اللہ تعالیٰ اس کو کسی تکلیف میں مبتلا فرما دیتے ہیں جو وہ اس کو ناپسند کرتا ہے یہاں تکہ کہ وہ اس گھر تک پہنچ جاتا ہے۔ مصیبت پر صبر کے بدلہ میں اونچا مقام (50) بیہقی نے احمد بن ابو الحواری (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابو سلیمان (رح) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی عبادت گاہ میں تھا پھر دوسری بار اس سے گزرے تو (دیکھا) کہ درندوں نے اس کے گوشت کو چیر پھاڑ دیا تھا اور اس کا سر ایک طرف پڑا تھا، ران دوسری طرف پڑی تھی جگر ایک طرف پڑا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب ! جو تیری اطاعت کرتا ہے آپ نے اس کو اس طرح پر مبتلا کردیا اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی یا موسیٰ ! اس نے مجھ سے ایسے مقام کا سوال کیا تھا جہاں تک کہ وہ عمل سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔ پھر میں نے اسے اس آزمائش میں مبتلا کردیا تاکہ اس کو اس مقام تک پہنچا دوں۔ (51) بیہقی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مؤمن کی رگ زخمی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہ کو معاف کردیتے ہیں اور اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے۔ (52) بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو بیماری کے ذریعہ آزماتا ہے یہاں تک کہ اس کے سب گناہ مٹا دیتے ہیں۔ (53) بیہقی نے عبد اللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں درد سر ہوگیا پھر اس نے ثواب کی امید رکھی تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ گناہ بخش دیتا ہے۔ (54) ابن ابی الدنیا وا لبیہقی نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان مرد کو لگانا درد اور اندرونی بخار سفید چاندی کی طرح کردیتا ہے۔ (55) ابن ابی الدنیا و البیہقی نے خضر کے بھائی عامر (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ میں محارب کی زمین میں تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں بڑے اور چھوٹے جھنڈے ہیں، میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ صحابہ ؓ نے کہا یہ رسول اللہ ﷺ ہیں میں آپ کی طرف بیٹھ گیا اور آپ ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے تھے کہ ان کے لئے ایک چادر بچھائی گئی تھی اور ان کے اردگرد صحابہ تھے بیماریوں کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا بلاشبہ مؤمن بندہ کو جب کوئی بیماری لگتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو شفا عطا فرماتے ہیں تو بیماری اس کے گزرے ہوئے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور باقی ماندہ زندگی کے لئے نصیحت ہوتی ہے۔ اور منافق جب بیمار ہوتا ہے اور عافیت پاتا ہے تو وہ اس اونٹ کی مانند ہوتا ہے جس کو اس کے مالک نے باندھ دیا ہو پھر اس کو چھوڑ دیا ہو۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کو کس لئے باندھا گیا اور کس لئے چھوڑا گیا اس آدمی نے کہا بیماریاں کیا ہیں ؟ یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کیا تو کبھی بیمار نہیں ہوا اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا ہم سے کھڑا ہوجاؤ یعنی یہاں سے چلا جا۔ تو ہم میں سے نہیں ہے۔ (56) البیہقی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ کسی مرض کی وجہ سے گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے پاکیزہ اٹھاتا ہے۔ بیماری سے گناہ معاف ہوتے ہیں (57) ابن ابی الدنیا والبیہقی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کی طرف وحی فرماتے ہیں اے میرے فرشتو ! جب میں اپنے بندے کو اپنی قیود میں سے ایک قید میں لیا ہے اگر میں اس کو قبض کرلوں گا (یعنی اس کو موت دوں گا) تو میں اس کو بخش دوں گا اور اگر میں اس کو عافیت دوں گا تو اس کا جسم بخشا ہوا ہوگا کہ کوئی گناہ اس کے لئے (باقی) نہیں ہوگا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ البتہ تم میں سے کسی کو مصیبت کے ساتھ آزماتے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں جس طرح تم اپنے سونے کو آگ میں ڈالتے ہو ان میں سے کچھ تو آگ سے یوں نکلتے ہیں جیسے خالص سونا یہ وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سارے گناہوں سے نجات عطا فرما دی ہے ان میں سے کوئی آزمائش سے یوں نکلتا ہے جو اس سونے کی طرح ہوتا ہے جو خالص سونے سے کم درجہ میں ہو یہ وہ شخص ہے جو بعض (اللہ کے احکام میں) شک کرتا ہے اور بعض ان میں سے وہ ہے جو نکلتا ہے مانند کالے سونے کے یہ وہ ہے جس کو فتنہ میں ڈالا گیا (یعنی عذاب میں ڈالا گیا) (58) ابن ابی الدنیا و البیہقی نے بشیر بن عبد اللہ بن ابی ایوب انصاری (رح) سے انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار میں سے ایک آدمی کی عیادت فرمائی اس پر آپ جھکے اور اس سے (اس کا حال) پوچھا تو اس نے کہا اے اللہ کے نبی ! میں نے سات راتوں سے نیند نہیں کی اور نہ میرے پاس کوئی آیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے میرے بھائی صبر کر، اے میرے بھائی صبر کر تو اپنے گناہوں سے (ایسے ہی) نکلے گا جیسے تو اس میں داخل ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امراض کی ساعات لے جاتی ہیں گناہوں کی ساعات کو۔ (59) ابن ابی الدنیا والبیہقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تکلیف کی ساعتیں لے جاتی ہیں گناہوں کی ساعتوں کو (یعنی تکلیفوں سے گناہ مٹ جاتے ہیں) (60) البیہقی نے حکم بن عتبہ سے مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ جب بندہ کے گناہ بہت ہوجاتے ہیں اور اس کا کوئی عمل ایسا نہیں ہوتا جو اس کے گناہوں کو مٹا دے تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی غم میں مبتلا کردیتے ہیں جس کے ذریعہ اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ (61) ابن عدی والبیہقی نے (اس کو جعیف کہا) ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو آزمائش اور دکھ سے آزماتا ہے یہاں تک کہ اسے صاف چاندی کی طرح چھوڑتا ہے۔ (62) البیہقی نے المسیب بن رافع (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ مسلمان مرد لوگوں میں اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا کہا گیا اے ابوبکر یہ کس طرح سے ہے تو انہوں نے فرمایا تکلیفوں اور پتھر اور کانٹے کا لگ جانا اور تسمے کا ٹوٹ جانا (ان سب تکلیفوں سے گناہ مٹ جاتے ہیں) (63) احمد نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دردسر اور اندر کا بخار برابر مؤمن کے ساتھ لگے رہتے ہیں اگر اس کے گناہ احد کے برابر ہوں تو (یہ تکلیفیں) ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کسی گناہ کو نہیں چھوڑتیں (یہاں تک کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے) (64) احمد نے یزید بن اسد ؓ سے روایت کیا کہ وہ نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا مریض کی خطائیں اس طرح سے گر جاتی ہیں جیسے درخت کے پتے گرجاتے ہیں۔ (65) ابن ابی شیبہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ وہ رات خوش نہیں لگتی (بلکہ) میں اس میں بیمار ہوجاؤں یہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔ بیماری کی حالت میں رات اجر کی رات ہے (66) ابن ابی شیبہ نے عیاض بن غفیف (رح) سے روایت کیا کہ ہم ابو عبیدہ بن جراح ؓ کے پاس ان کی عیادت کے لئے گئے ان کا چہرہ دیوار کی طرف تھا اور ان کی بیوی ان کے سر کے پاس بیٹھی ہوئی تھی میں نے کہا ابو عبیدہ نے کیسے رات گزاری ان کی بیوی نے کہا اجر کے ساتھ رات گزاری وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں نے اجر کے ساتھ رات نہیں گزاری جس کو اللہ تعالیٰ کسی جسمانی آزمائش میں مبتلا فرما دیں تو اس کے گناہوں کو ختم کرنے کا باعث ہے۔ (67) ابن ابی شیبہ نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ مؤمن کو جب اللہ تعالیٰ کسی مصیبت میں مبتلا فرماتے ہیں تو پھر اس کو عافیت دیتے ہیں تو وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور باقی زندگی میں اس کی رضا مندی کو طلب کرنے والا ہوتا ہے اور تاجر کو جب اللہ تعالیٰ کسی مصیبت میں مبتلا فرماتے ہیں پھر اس کو عافیت دیتے ہیں تو وہ اونٹ کی طرح ہوتا ہے جس کو اس کے گھر والوں نے باندھ دیا ہوں وہ نہیں جانتا کیوں کہ اس کو باندھا گیا پھر جب انہوں نے اس کو چھوڑا تو وہ نہیں جانتا کیونکہ اس کو چھوڑا گیا۔ (68) ابن ابی شیبہ نے عمار ؓ سے روایت کیا کہ وہ ایک دیہاتی کے پاس تھے درد کا ذکر کیا گیا عمار نے فرمایا تجھے کبھی ایسی تکلیف نہیں ہوئی اس نے کہا عمار نے کہا تو ہم میں سے نہیں ہے جو بندہ کسی تکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے تو اس کی خطائیں گر جاتی ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے گرجاتے ہیں اور کافر کو مبتلا کیا جاتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی طرح ہے جو باندھ دیا گیا ہو وہ نہیں جانتا کہ کسی لئے باندھا گیا پھر اس کو چھوڑ دیا گیا تو وہ نہیں جانتا کس لئے اس کو چھوڑا گیا۔ (69) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ میں لفظ سوء کا معنی شرک ہے۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ (70) ابن جریر و ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” من یعمل سوءا یجزبہ “ سے مراد کافر ہے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ہل یجزی الا الکفور “ (سبا آیت 17)
Top