Dure-Mansoor - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو عاجزی کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور جب ان سے جہالت والے بات کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا سلام ہے
عبادالرحمن کے اوصاف 1۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وعباد الرحمن “ سے مراد ہے ایمان والے آیت ’ ’ الذین یمشود علی الارض ھونا “ یعنی وہ زمین پر چلتے ہیں اطاعت پاکدامنی اور تواضع کے ساتھ۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” یمشون علی الارض ھونا “ سے مراد ہیں علماء اور حکماء لوگ کہ وہ زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں۔ 3۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ھونا “ یہ سریانی زبان کا لفظ ہے۔ 4۔ ابن ابی حاتم نے ابو عمران جونی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ھونا “ سریانی زبان میں بردبار لوگوں کو کہتے ہیں۔ ابن ابی حاتم نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ ” ھونا “ سے مراد ہے بردبار لوگ سریانی زبان میں۔ 6۔ عبدالرزاق والفریابی و سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی فی شعب الایمان مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا “ سے مراد ہے کہ رحمن کے بندے وقار اور مسکنت کے ساتھ چلتے ہیں آیت ” واذا خاطبہم الجہلون قالوا سلاما “ جب جاہل لوگ ان سے مخابط ہوتے ہیں جواب میں ٹھیک بات کرتے ہیں۔ عبد بن حمید نے عکرمہ سے اسی طرح روایت کیا۔ 7۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” یمشون علی الارض ھونا “ کہ وہ زمین پر سختی سے نہیں چلتے۔ 8۔ ابو نعیم نے حلیہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چلنے میں تیزی کرنا مومن کے وقار کو ختم کردیتا ہے حدیث موضوع ہے ذخیرۃ الحفاظ۔ 9۔ الخرائطی فی مکارم الاخلاق فضیل بن عیاض (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” الذین یمشون علی الارض ھونا “ ‘ سے مراد ہے سکون اور وقار کے ساتھ آیت ” واذا خاطبہم الجہلون قالوا سلما “ اگر ان کے ساتھ جہالت کی جائے تو وہ حلم سے پیش آتے ہیں اگر ان کے ساتھ برا سلوک کیا جائے تو وہ اچھا سلوک کرتے ہیں اگر ان کو محروم رکھا جائے تو وہ عطا کرتے ہیں اگر ان سے تعلق توڑا جائے تو وہ تعلق کو جوڑتے ہیں۔ 10۔ الآمدی فی شرح دیوان الاعشی اپنی سند کے ساتھ عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک جوان کو چلنے میں اکڑتے ہوئے دیکھا فرمایا اکڑ کر چلنے کو ناپسند کیا گیا ہے مگر اللہ کے راستے میں اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے اور فرمایا آیت ” وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا “ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر۔ 11۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” الذین یمشون علی الارض ھونا “ یعنی وہ تواضع اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لیے آیت ” واذا خاطبہم الجہلون قالوا سلما “ کہ وہ جہالت نہیں کرتے جہالت کرنے والون کے ساتھ۔ 12۔ ابو نعیم نے حلیہ میں محمد بن علی باقر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو گالی دی نبی ﷺ کی موجودگی میں وہ آدمی جس کو گالی دی گئی اس نے کہنا شروع کیا کہ تجھ پر سلام ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک فرشتہ تم دونوں کے درمیان ہے جو تیری طرف سے جواب دے جب بھی وہ تجھ کو گالی دیتا ہے تو یہ اس گالی دینے والے سے کہتا ہے تو ایسا ہے۔ اور تو اس کا مستحق زیادہ ہے جب تو نے اس سے کہا علیک السلام تو فرشتہ کہتا ہے نہیں بلکہ تو اس کا زیادہ مستحق ہے۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت واذا خاطبہم الجہلون یعنی بیوقوف لوگ آیت ” قالوا سلما “ یعنی وہ اچھا جواب دیتے ہیں آیت ” والذین یبیتون لربہم سجدا وقیاما “ یعنی وہ لوگ اللہ کے لیے رات کو نماز پڑھتے ہیں۔ 15۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر والبیہقی فی شعب الایمان حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” یمشون علی الارض ھونا “ یعنی وہ لوگ زمین پر چلتے ہیں بردبار اور متواضع ہو کر اور کسی سے جہالت نہیں کرتے اگرچہ ان کے ساتھ کوئی جاہل جہالت کرتے۔ یہ ان کا دن ہوتا ہے جب وہ لوگوں کے درمیان رہتے ہیں آیت ” والذین یبیتون لربہم سجدا وقیامات اور یہ ان کی رات ہوتی ہے جب وہ اپنے رب اور اپنے درمیان خلوت میں ہوتے ہیں۔ حرام چیزوں سے اجتناب کرنا بھی عبادت ہے 16۔ عبد بن حمید نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ کہا جاتا ہے اے ابن آدم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے بچ تو عبادت گزار بن جائے گا اور اگر تو راضی ہوجائے اس چیز کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کردی ہے تو مالدار ہوجائے گا اور اگر تو اچھا سلوک کرے ان لوگوں سے جو تیرے پاس رہے تو مسلمان بن جائے گا اور ایسا ہی معمالہ کر لوگوں سے جس کو تو پسند کرتا ہے کہ وہ تجھ سے ایسا ہی معاملہ کریں تو انصاف کرنے والا بن جائے گا زیادہ ہنسنے سے بچ کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے کچھ لوگ تھے جو زیادہ مال جمع کرتے اور مضبوط عمارتیں بناتے اور لمبی امیدیں رکھتے تھے وہ آج کہاں ہیں ان کی جمعیتیں ہلاک ہوگئیں ان کے عمل دھوکہ بن گئے اور ان کی رہنے کی جگہیں قبریں بن گئیں۔ ابن آدم بلاشبہ تو اپنے عمل کے بدلے رہن رکھا ہوا ہے۔ اور تو اپنی اجل کے پورا ہونے پر اپنے رب کے سامنے پیش کیا جائے گا لے لے ان چیزوں میں جو تیرے ہاتھوں میں ہیں آنے والے دنوں کے لیے جو موت کے بعد آنے والے ہیں وہ تیرے لیے خیر لائے گا اے ابن آدم ! روند دے زمین کو اپنے قدموں کے ساتھ کیونکہ یہ تیری قبر کے قریب ہے بلاشبہ تو برابر اپنی عمر کو ختم کرنے میں لگا ہوا ہے جب سے تو اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا ہے اے ابن آدم لوگوں سے میل جول رکھ مگر ان سے جدا رہ اپنے بدن کے ساتھ ان سے میل جول رکھے اور اپنے دل اور اپنے عمل سے ان سے علیحدہ رہ اے ابن آدم ! تو پسند کرتا ہے کہ تیری نیکیوں کا ذکر کیا جائے اور تو ناپسند کرتا ہے تیری برائیوں کا ذکر کیا جائے اور تو گمان پر غصہ ہوجاتا ہے اور تو قائم رہتا ہے یقین پر یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ایمان والوں کے پاس جب یہ دعوت اللہ کی طرف سے آتی ہے تو وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں تو ان کے دل ان کے بدن اور ان کی آنکھیں اس کے سامنے جھک جاتی ہیں اللہ کی قسم ! جب تو ان کو دیکھے گا تو ان کو ایسی قوم خیال کرے گا گویا وہ آنکھ کا دیکھنا ہے اللہ کی قسم ! وہ نہیں ہیں جھگڑنے والے اور باطل والے لیکن ان کے پاس اللہ کی طرف سے حکم آیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اللہ تعالیٰ نے ان کی قرآن مجید میں اچھی تعریف کرتے ہوئے فرمایا آیت ” وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا “ حسن ؓ نے فرمایا کہ عرب کے کلام میں ” ھون “ نرمی سکینہ اور وقار کو کہتے ہیں آیت ” واذا خاطبہم الجہلون قالوا سلما “ یعنی وہ بربار ہوتے ہیں جہالت نہیں کرتے اور اگر کوئی ان کے ساتھ جہالت کرتا ہے تو وہ حلم کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ دن کے وقت اللہ کے بندوں کی صحبت میں ہوتے ہیں جس کے بارے میں تم بھی سنتے ہو۔ پھر ان کی رات کو بہترین رات بتاتے ہوئے فرمایا آیت ” والذین یبیتون لربہم سجدا وقیاما “ وہ اللہ کے لیے اپنے قدموں پر کھڑے رہتے ہیں اور اپنے چہروں بچھاتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدہ کرتے ہوئے ان کے آنسو ان کے رخساروں پر جاری ہوتے ہیں پنے رب سے ڈرتے ہوئے حسن نے فرمایا اس کے حکم کی بجاآوری کے لیے وہ اپنی راتوں کا جاگتے ہیں اور اس کے حکم کی بجاآوری کے لیے اپنے دنوں میں ڈرتے ہیں کہ کہیں حکم عدولی نہ ہوجائے آیت ” والذین یقولون ربنا الصرف عنا عذاب جہنم ان عذابھا کان غراما “ ہر وہ مصیبت جو ابن آدم کو پہنچتی ہے اور ہمیشہ نہیں رہتی تو وہ اس پر مصیبت نہیں ہوتی غراما اسے کہتے ہیں جو زمین و آسمان کے قائم رہنے تک موجود رہتی ہے۔ پھر فرمایا قوم نے سچی بات کہی اللہ قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں انہوں نے کام کیے اور آرزوئیں نہیں باندھیں سو تم ان آرزؤں سے بچوں اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا بلاشبہ الہ تعالیٰ نے کبھی بھی آرزو کے بدلے میں دنیا آخرت میں خیر عطا نہیں کیا وہ کہا کرتے تھے کاش ایسی نصیحت ہوتی جو دلوں کی زندگی کے موافق ہوتی۔ 17۔ عبد بن حمید نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آیت ” ان عذابہا کان غراما “ سے مراد ہے ہمیشہ کا عذاب۔ 18۔ الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے نافع بن ارزق (رح) نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” ان عذابھا کان غراما “ سے کیا مراد ہے تو فرمایا اس سے مراد ہے لازم رہنے والا سخت جیسے قرض خواہ مقروض کے ساتھ ساتھ رہتا ہے پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کی اتونے بشر بن ابی حازم کا قول نہیں سنا ہے۔ آیت ویوم الفسار ویوم الفجار کانا عذابا وکانا غراما ترجمہ : یوم الفسار اور یوم الفجار کے دن کہ یہ دونوں دن عذاب کے دن تھے اور یہ دونوں لازم تھے۔ 19۔ ابن الانباری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع ارزق نے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” کان غراما “ کے بارے میں بتائیے کہ غراما کیا چیز ہے انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے حد درحہ حریص اس میں شاعر نے کہا وما اکلۃ ان تلتہا بغنیمۃ ولا جو عۃ ان جعتہا بغرام ترجمہ : وہ کھانا نہیں اگر میں اسے غنیمت کے بدلے میں کھاؤں اور وہ بھوک نہیں اگر میں اسے پسندیدہ چیز کے بدلے میں پاؤں۔ 20۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ان عذابھا کان غراما “ سے مراد ہے یقینی بات ہے کہ لوگ جان چکے ہیں کہ ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑدیتا ہے مگر جہنم جہنمی کو نہیں چھوڑے گی۔ 21۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا “ سے مراد وہ مومن ہیں جو اسراف نہیں کرتے اگر اسراف کریں تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں پڑجائیں اور وہ کنجوسی بھی نہیں کرتے ہیں اگر ایسا کریں گے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو پامال کریں گے۔ 23۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا آیت ” ولم یقتروا “ یاء کے نصب اور تاء کے رفع کے ساتھ۔ 24۔ عبد بن حمید نے قادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا “ میں اسراف سے مراد ہے اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اوراقتار سے مراد ہے اللہ کے حق کو روکنا اور فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لوٹا دیا ہے تمہارے لیے لوٹنے کی جگہ بنائی ہے سو تم تو اللہ تعالیٰ کی پناہ کی طرف لوٹ جاؤ خرچ کرنے والے کے بارے میں فرمایا آیت ” یا ایہا الذین آیمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا “ (الاحزاب) یعنی تم سچی اور انصاف والی بات کہو اور مومنین کے لیے فرمایا آیت ” قل للمومنین یغضوا من ابصارھہم “ (النور آیت 30) یعنی ان چیزوں سے آنکھیں بند رکھو جو ان کے لیے حلال نہیں اور سننے کے بارے میں فرمایا آیت ” فبشر عبا۔ ، الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ “ ‘ (الزمر آیت 18) یعنی وہ اچھے طریقے سے اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ 25۔ ابن ابی حاتم نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لم یسرفوا ولم یقتروا “ سے مراد ہے کہ وہ باطل یعنی حرام کاموں میں خرچ نہیں کرتے اور نہ اس کو حق سے روکتے ہیں (یعنی صحیح جگہ خرچ کرنے سے بخل نہیں کرتے) ۔ 26 ابن جریر وابن ابی حاتم نے یزید بن ابی حبیب (رح) سیر وایت کیا کہ آیت ’ ’ والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا “ سے مراد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں جو کھانا محض اس لیے نہیں کھاتے تھے کہ وہ اس سے لذت حاصل کریں کپڑے اس لیے نہیں پنتے تے کہ جس کے ذریعہ وہ خوبصورتی کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے دل ایک ہی دل کی مانند تھے یعنی ایک ہی دل کی طرح جڑے ہوئے تھے ) ۔ 27۔ ابن ابی حاتم نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” بین ذلک قواما “ سے مراد ہے انصاف۔ 28۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے عمر مولی غفرہ (رح) سے روایت کیا کہ ” القوام “ سے مراد ہے کہ تو ناحق خرچ نہ کرے اور اس حق کو نہ روکے جو تیرے اوپر لازم ہے۔ 29۔ عبد بن حمید وابن جریر نے وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وکان بین ذلک قواما “ سے مراد ہے مالوں کا کچھ حصہ۔ 30۔ ابن جریر نے یزید بن مرہ جعفی (رح) نے فرمایا کہ علم عمل سے بہتر ہے اور نیکی دو برائیوں کے درمیان ہے یعنی جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں اور بہترین کام درمیانہ ہے۔ 13۔ عبدالرزاق نے حسن (رح) سے آیت ” لم یسرفوا ولم یقتروا “ کے بارے میں فرمایا کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ فضول خرچی کے لیے کافی ہے کہ آدمی ایک چیز کی خواہش کرے اس کو خریدے اور کھائے۔ 32۔ احمد نے ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا آدمی کی سمجھداری میں سے یہ ہے کہ اپنی معیشت میں میانہ روی اختیار کرے۔
Top