Dure-Mansoor - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
اور ہم اسے ان کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، لیکن اکثر لوگ ناشکری کے بغیر نہیں رہتے
1۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ آتی ” ولقد صرفنہ بینہم “ سے مراد ہے بارش جو کبھی اس زمین کو سیراب کرتی ہے اور دوسری کی سیرابی روک دیتی ہے۔ آیت ” لیذکرو، فابی اکثر الناس الا کفورا “ عکرمہ نے کہا کہ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ کافروں کی ناشکری سے مراد ہے کہ انہوں نے کہا ستاروں کے باعث ہم پر بارش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سورة واقعہ میں فرمایا۔ آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “۔ 2۔ ابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولقد صرفنہ بینہم سے مراد ہے بارش ایک زمین میں اتاری جاتی ہے اور دوسری میں نہیں اتاری جاتی آیت ” فابی اکثر الناس الا کفورا “ اس میں کافروں کی ناشکری سے مراد یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر اس ستارے کی وجہ سے بارش نازل کی گئی۔ 3۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولقد صرفنہ بینہم “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رزق کو اپنے بندوں کے درمیان تقسیم فرمادیا ہے اور ان کے درمیان اس کو پھیلا دیا ہے اور فرمایا ہم کو ذکر کیا گیا کہ ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے کسی سال بھی بارش دوسرے سال کی نسبت کم نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بندوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں قتادہ (رح) نے فرمایا کہ ایک زمین انسان کو رزق دیتی اور دوسری زمین اسے محروم رکھتی ہے۔ 4۔ عبد بن حمید وابن جریر اوابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ والبیہقی فی سننہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک سال بارش کم نہیں ہوتی دوسرے سال سے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو پھیر دیتے ہیں جہاں چاہتے ہیں پھر یہ آیت ” ولقد صرفنہ بینہم لیذکروا۔ الایۃ 5۔ خرائطی نے مکارم الاخلاق میں ابن مسعود ؓ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ 6۔ ابن ابی حاتم نے عمر مولی غفرہ (رح) سے روایت کیا کہ جبرئیل (علیہ السلام) بھی جنازوں کی جگہ میں تھے نبی ﷺ نے ان سے فرمایا اے جبرئیل میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں بادلوں کے معاملے کو جان لوں جبرئیل نے فرمایا یہ بادلوں کا فرشتہ ہے آپ اس سے پوچھیے آپ نے اس سے پوچھا تو فرشتے نے کہا ہمارے پاس مہر لگے ہوئے پیغام آتے ہیں کہ فلاں فلاں شہر کو اتنے قطرات سے سیراب کردو۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں یہ روایت مرسل ہے۔ 7۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے عطاء خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولق صرفنہ بینہم سے مراد ہے قرآن کیا تم اللہ تعالیٰ کے اس قول میں غور فکر نہیں کرتے آیت ” ولو شئنا لبعثنا فی کل قریۃ نذیر “ 8۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آیت ” وجاہدہم بہ “ سے قرآن مراد ہے۔ 9۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وجاہدہم بہ جہادا کبیرا “ سے مراد ہے آیت ” واغلظ علیہم “ (التوب آیت 53) کہ ان پر سختی کیجئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ کھارے اور میٹھے پانی کا دریا ساتھ ساتھ
Top