Dure-Mansoor - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ، اگر تم ایمان والے ہو،
(1) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا “ عباس بن عبد المطلب اور بنو صغیر کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی زمانہ جاہلیت میں دونوں سود (کے کاروبار) میں شریک تھے یہ دونوں قبیلہ ثقیف کے لوگوں کو سود پر ادھار دیتے تھے ثقیف سے مراد بنو عمر وبن عمیر ہیں (جب) اسلام آیا تو ان دونوں کا سود پر دیا ہوا مال بہت زیادہ مال تھا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتار دی لفظ آیت ” وذروا ما بقی “ یعنی چھوڑدو جو زمانہ جاہلیت کا بچا ہوا ہے لفظ آیت ” من الربوا “ یعنی سود میں سے۔ (2) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا وذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مؤمنین “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ قبیلہ ثقیف والوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس بات پر صلح کی کہ جن لوگوں نے ان کو سود دینا ہے وہ انہیں ملے گا اور جن لوگوں کا ان پر سود ہے وہ ختم ہوجائے گا جب مکہ فتح ہوا تو عتاب بن اسید ؓ کو مکہ کا امیر بنایا گیا اس وقت بنو عمرو بن عوف بنو صغیرہ سے سود لیتے تھے اور بنو صغیرہ ان کو زمانہ جاہلیت میں سود دیتے تھے جب اسلام کا دور آیا تو بنو عمرو بن عمیر کی بنی مغیرہ پر بہت زیادہ رقم تھی تو بنو عمرو نے اپنے سود کا مطالبہ کیا بنو صغیرہ نے اسلام (کے زمانہ) میں ان کو سود دینے سے انکار کردیا یہ معاملہ عتاب بن اسید ؓ کی طرف لے جایا گیا عتاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف لکھا تو (اس پر) نازل ہوا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا سے ولا تظلمون “ تک۔ رسول اللہ ﷺ نے عتاب کی طرف (یہ آیتیں) لکھ کر بھیجیں۔ اور فرمایا اگر وہ لوگ (اللہ کے حکم پر) راضی ہوجائیں (تو ٹھیک ہے) ورنہ ان کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔ (3) عبد بن حمید، اور ابن جریر نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” وذروا ما بقی من الربوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں آپس میں سود کا لین دین ہوتا تھا۔ جب وہ لوگ اسلام لے آئے تو ان کو ان کے اصل مال لینے کا حکم دیا گیا۔ (4) آدم، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم، اور بیہقی نے اپنی سنن میں مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا “ کے بارے میں آپس میں سود کا لین دین ہوتا تھا۔ جب وہ لوگ اسلام لے آئے تو ان کو ان کے اصل مال لینے کا حکم دیا گیا۔ (5) مالک اور بیہقی نے اپنی سنن میں زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں سود یوں ہوتا تھا کہ ایک آدمی کا حق دوسرے آدمی پر ایک مدت مقرر تک ہوتا تھا جب حق ادا کرنے کا وقت آجاتا تھا تو وہ مقروض سے کہتا تھا قرضہ ادا کرو گے یا بڑھاؤ گے ؟ اگر وہ ادا کردیتا تھا تو اس کو لے لیتا تھا ورنہ اس کے حق میں زیادتی کردیتا تھا اور اس کی مدت بھی بڑھا دیتا تھا۔ (6) ابو نعیم نے المعرفۃ میں بہت ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت قبیلہ ثقیف کے چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں یہ افراد بھی تھے مسعود اور ربیعہ اور حبیب اور عبد یا لیل اور یہ بنو عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی تھے اور قریش میں سے بنو المغیرہ کے متعلق نازل ہوئی۔ (7) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت بنو عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی کے افراد مسعود بن عمرو بن عبد یا لیل ابن عمرو۔ ربیعہ بن عمرو اور حبیب بن عمرو کے بارے میں نازل ہوئی یہ سب بھائی تھے اور وہ طلب کرنے والوں میں سے تھے۔ اور مطلوب بنو صغیرہ کے لوگ تھے جو بنو مخزوم میں سے تھے۔ بنو صغیرہ زمانہ جاہلیت میں سود پر قرضہ لیا کرتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے ثقیف والوں سے صلح فرمالی اور انہوں نے اپنا سود بنو صغیرہ والوں سے طلب کیا۔ اور وہ بہت بڑا مال تھا بنو صغیرہ والوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم زمانہ اسلام میں سود نہیں دیں گے اللہ اور اس کے رسول نے مسلمانوں پر سود کو ختم فرما دیا ہے وہ اپنا معاملہ معاذ بن جبل ؓ کے پاس لے گئے اور بعض نے کہا عتاب بن اسید ؓ کے پاس لے گئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف لکھا کہ بنو عمرو اور عمیر کے بیٹوں نے اپنا سود بنو صغیرہ سے طلب کیا ہے (اس پر یہ آیت) اللہ تعالیٰ نے اتاری لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مؤمنین “ تو رسول اللہ ﷺ نے (یہ آیت) معاذ بن جبل ؓ کو لکھ بھیجی۔ کہ ان پر یہ آیت پیش کرو اگر وہ مان لیں تو ان کے لیے ان کے اصل مال ہیں۔ اگر وہ انکار کریں تو ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ ہے۔ سود خور کے خلاف جہاد کرنا امام مسلم پر لازم ہے (8) ابن جریر ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فاذنوا بحرب “ کے بارے میں روایت کہ جو آدمی سود لینے پر قائم رہے اور اس سے نہ ہٹے تو مسلمانوں کے امام پر یہ واجب ہے کہ وہ اس کو روکے اگر وہ رک جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی گردن ماردے اور لفظ آیت ” لا تظلمون “ سے مراد ہے کہ تم سود لے کر (لوگوں پر) ظلم نہ کرو اور ” ولا تظلمون “ سے مراد ہے کہ تمہارے اصل مالوں میں کمی نہ کی جائے گی۔ (9) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قیامت کے دن سود کھانے والوں سے کہا جائے گا جنگ کے لیے اپنا ہتھیار لے لے۔ (10) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذنوا بحرب “ سے مراد ہے (قیامت کے دن) جنگ کا یقین کرلو۔ (11) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذنوا بحرب “ سے مراد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو قتل کی دھمکی دی۔ (12) ابو داؤد اور ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے اپنی سنن میں عمرو بن احوص ؓ سے روایت کیا جو حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ نے فرمایا خبردار زمانہ جاہلیت والا ہر سود ختم کردیا گیا (اب) تمہارے لیے اصل مال ہیں نہ تم (کسی پر) ظلم کرو اور نہ تم پر ظل کیا جائے گا۔ پہلا سود جو ختم کردیا گیا وہ حضرت عباس ؓ کا سود ہے (13) ابن منذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” وان تبتم فلکم رءوس اموالکم “ ربیعہ بن عمرو اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ (14) مسلم اور بیہقی نے جابر عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، اس کے گواہوں پر اس کے لکھنے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا وہ (گناہ میں) سب برابر ہیں۔ (15) عبد الرزاق اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس آدمیوں پر لعنت کی ہے سود کھانے والا، کھلانے والا، اس پر گواہی دینے والا لکھنے والا، گود نے اور گدوانے والی عورت، صدقہ کو روکنے والا اور حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا۔ (16) البیہقی نے ام درداء ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب کل (یعنی قیامت کے دن) کون بہشت میں ٹھہرے گا اور کون تیرے عرش کا سایہ حاصل کرے گا جس دن تیرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ ! یہ وہ لوگ ہوں گے کہ ان کی آنکھیں زنا نہیں دیکھتی ہیں اور وہ اپنے اپنے مالوں میں سود طلب نہیں کرتے اور اپنے احکام میں رشوت نہیں لیتے ان کے لیے خوشخبری ہے اور اچھا ٹھکانہ ہے۔ (17) مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن حبان اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر کھلانے والے پر اس پر گواہی دینے والوں پر اور سود لکھنے والوں پر۔ (18) بخاری اور ابو داؤد نے ابو جحیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی گود نے اور گدوانے والی عورت پر سود کھانے والے پر کھلانے والے پر اور کتے کی قیمت (لینے) سے منع فرمایا اور بدکاری کی کمائی سے (منع فرمایا) اور تصویر بنانے والوں پر بھی لعنت فرمائی۔ سود خود ملعون ہے (19) احمد، ابو یعلی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ سود کھانے والا کھلانے والا اس پر گواہی دینے والا اور اس کو لکھنے والا جبکہ وہ جانتے ہوں اور خوبصورتی کے لیے گودنے والی اور گدوانے والی عورت صدقہ (یعنی زکوٰہ) دینے سے ٹال مٹول کرنے والا اور وہ دیہاتی جو ہجرت کے بعد مرتد ہوجائے (یہ سب لوگ) قیامت کے دن محمد ﷺ کی زبان پر لعنت کیے جائیں گے۔ (20) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چار آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر حق ہے ان کو جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا مزا چکھائے گا ہمیشہ شراب پینے والا سود کھانے والا اور ناحق یتیم کا مال کھانے والا اور والدین کی نافرمانی کرنے والا۔ (21) الطبرانی نے عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک درہم جو آدمی سود میں سے پاتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام میں (33) بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔ (22) احمد طبرانی نے عبد اللہ بن حنظلہ (غسیل الملائکہ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سود کا ایک درہم جو آدمی جانتے ہوئے کھاتا ہے وہ چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔ (23) الطبرانی نے الاوسط میں براء بن عازب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سود کے بہتر دروازے ہیں اس کا ادنی گناہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے اور سب سے بڑا سود کسی دوسرے کی ناحق عزت بگاڑنا ہے۔ (24) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھل کو پکنے سے خریدنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود غالب ہوجائے تو انہوں نے اپنی جانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو حلال کرلیا۔ زنا اور سود کا وبال (25) ابو یعلی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس قوم میں زنا اور سود عام ہوجائے تو انہوں نے اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے لئے حلال کرلیا۔ (26) احمد نے عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس قوم میں سود غالب ہوجائے تو ان پر قحط آجاتا ہے اور جس قوم میں رشوت غالب ہوجائے تو وہ رعب (یعنی خوف) میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ (27) الطبرانی نے قاسم بن عبد الواراق (رح) سے رورایت کیا ہے کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ کو بازار میں دیکھا وہ فرما رہے تھے اے سنارو ! تم کو خوشخبری ہو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ تجھ کو جنت کی خوشخبری دے آپ ہم کو کس چیز کے ساتھ خوشخبری دے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سناروں کو آگ کی خوشخبری دے دو ۔ (28) ابو داؤد اور ابن ماجہ بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ضرور ضرور آئے گا لوگوں پر ایسا زمانہ کہ سود کھانے سے کوئی بھی نہیں بچے گا جو شخص اس کو نہیں کھائے گا تو اس کو دھواں تو ضرور پہنچے گا۔ (29) مالک، شافعی، عبد الرزاق، عبید بن حمید، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے مالک بن اوس بن حدثان (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ (رح) سے سونے کو چاندی سے بدلنا چاہا تو طلحہ (رح) نے فرمایا مجھے مہلت دو یہاں تک کہ ہمارے پاس ہمارا خازن الغابہ (جگہ کا نام) سے آجائے اس بات کو حضرت عمر ؓ سے سن لیا تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم ! تو اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ اس سے اپنا سونا چاندی پورا کرلو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سونا کا چاندی سے تبادلہ سود ہے مگر جب ہاتھوں ہاتھ ہو، گیہوں کے بدلہ میں گیہوں سود ہے مگر دست بدست ہو اور جو کے بدلہ میں جو سود ہے مگر دست بدست ہو۔ (30) عبد بن حمید، مسلم، نسائی اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سونے کے بدلہ میں سونا برابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو چاندی کے بدلہ میں چاندی برابرسرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو اور کھجور کے بدلہ میں کھجور برابر سرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو اور جو کے بدلہ میں جو برابر سرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو اور نمک کے بدلہ نمک برابر سرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو۔ جس شخص نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا لینے والا اور دینے والا دونوں (گناہ میں) برابر ہیں۔ (31) مالک، شافعی، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہ بیچو سونے کو سونے کے بدلہ میں مگر برابر ہو اور بعض کی بعض پر زیادتی نہ کرے اور نہ بیچو چاندی کو چاندی کے بدلہ مگر برابر برابر اور بعض کی بعض پر زیادتی نہ کرے اور نہ بیچو غالب کو نقد کے بدلے میں۔ (32) شافعی، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ بیہقی نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہ بیچو سونے کو سونے کے بدلہ میں، چاندی کو چاندی کے بدلہ میں، گیہوں کو گیہوں کے بدلہ میں، جو کو جو کے بدلہ میں، کھجور کو کھجور کے بدلہ میں، نمک کو نمک کے بدلہ میں مگر برابر سرابر نقد اور ہاتھ در ہاتھ جس طرح تم چاہو کمی بیشی کے ساتھ بیچو جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا وہ سود میں مبتلا ہوا۔ (33) مالک، مسلم اور بیہقی نے حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہ بیچو تم ایک دینار کو دو دینار کے بدلہ میں اور ایک درہم کو دو درہم کے بدلہ میں۔ (34) مالک نے نسائی اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک دینار ایک دینار کے بدلہ میں ہونا چاہیے ان دونوں کے درمیان زیادتی نہ ہو اور ایک درہم ایک درہم کے بدلہ میں ہونا چاہیے ان کے درمیان زیادتی نہ ہو۔ (35) مسلم اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ایک دینار ایک دینار کے بدلہ میں ایک درہم ایک درہم کے بدلہ میں برابر وزن کے ساتھ ہو ان کے درمیان زیادتی نہ ہو اور نقد کو ادھار کے بدلے میں نہ بیچا جائے گا (36) بخاری، مسلم، نسائی، بیہقی نے ابو المنال (رح) سے روایت کیا کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم ؓ دونوں حضرات سے بیع صرف (یعنی سونے چاندی کی خریدوفروخت) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تاجر تھے تو ہم نے آپ سے بیع صرف کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا جو اس میں سے ہاتھ در ہاتھ ہو اور اس میں کوئی حرج نہیں اور جو اس میں سے ادھار ہو تو وہ جائز نہیں۔ (37) مالک، شافعی، ابو داؤد، ترمذی اور (اس کو صحیح کہا) نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے سعد بن وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے تازہ پکی ہوئی کھجور کو خشک کھجور (یعنی چھواروں) کے بدلہ میں خریدنے کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا کیا تازہ کھجور کم ہوجاتی ہے جب سوکھ جاتی ہے صحابہ نے عرض کیا ہاں تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ (38) البزار نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا سونا سونے کے بدلہ میں اور چاندی چاندی کے بدلہ میں برابر سرابر ہو زیادہ دینے والا اور زیادہ طلب کرنے والا دونوں آگ میں ہوں گے۔ (39) البزار نے ابوبکر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے دو ماہ پہلے بیع صرف (یعنی سونے چاندی کی خریدو فروخت) سے منع فرمایا۔
Top