Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو ایمان لائے (ایمان والو)
اَنْفِقُوْا
: تم خرچ کرو
مِنْ
: سے
طَيِّبٰتِ
: پاکیزہ
مَا
: جو
كَسَبْتُمْ
: تم کماؤ
وَمِمَّآ
: اور سے۔ جو
اَخْرَجْنَا
: ہم نے نکالا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مِّنَ
: سے
الْاَرْضِ
: زمین
وَلَا
: اور نہ
تَيَمَّمُوا
: ارادہ کرو
الْخَبِيْثَ
: گندی چیز
مِنْهُ
: سے۔ جو
تُنْفِقُوْنَ
: تم خرچ کرتے ہو
وَلَسْتُمْ
: جبکہ تم نہیں ہو
بِاٰخِذِيْهِ
: اس کو لینے والے
اِلَّآ
: مگر
اَنْ
: یہ کہ
تُغْمِضُوْا
: تم چشم پوشی کرو
فِيْهِ
: اس میں
وَاعْلَمُوْٓا
: اور تم جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
غَنِىٌّ
: بےنیاز
حَمِيْدٌ
: خوبیوں والا
اے ایمان والو ! خرچ کرو اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزون کو، اور اس میں سے جو ہم نے نکالا تمہارے لیے زمین میں سے اور مت ارادہ کرو ردی چیز کا کہ اس میں سے خرچ کرو اور تم خود اس کے لینے والے نہیں ہو مگر اس صورت میں کہ چشم پوشی کر جاؤ، اور جان لو کہ بلا شبہ اللہ غنی ہے اور حمید ہے۔
(1) ابن جریر نے حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم “ سے مراد ہے کہ سونے اور چاندی (میں سے خرچ کرو یعنی زکوٰۃ ادا کرو) (اور) لفظ آیت ” ومما اخرجنا لکم من الارض “ سے مراد ہے کہ پھلوں میں سے بھی (زکوٰۃ ادا کرو) ۔ عشر کی ادائیگی کا حکم (3) مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور دار قطنی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ وسق سے کم کھجور میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ (یعنی زکوٰۃ) نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔ اور مسلم شریف میں یوں ہے کہ غلہ اور کھجور میں زکوٰۃ نہیں یہاں تک کہ پانچ وسق کو پہنچ جائیں۔ (4) امام مسلم، ابن ماجہ، اور دار قطنی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اونٹو سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم کھجور میں زکوٰۃ نہیں۔ (5) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو زمین آسمان کے پانی (یعنی بارش) چشمہ کے پانی اور جوہڑ کے پانی سے سیراب کی جائے اس میں عشر (یعنی دسواں حصہ ہے) اور جو کھیت پانی کھینچ کر مثلاً اونٹ کے ذریعہ سیراب ہو اس میں آدھا عشر (یعنی بیسواں حصہ ہے) ۔ (6) مسلم، ابو داؤد، اور دار قطنی نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو زمین نہر کے پانی سے اور چشمے کے پانی سے سیراب کی جائے اس میں عشر (یعنی دسواں حصہ) ہے اور جس کھیت کو کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جائے اس میں آدھا عشر (یعنی بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہے۔ (7) ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کھیت بارش یا چشمہ سے سیراب کیا جائے اس میں عشر ہے اور جو کھیت کنویں سے پانی کھینچ کر پلایا جائے اس میں نصف عشر (یعنی بیسواں حصہ) ہے۔ (8) ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور دار قطنی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہارے لیے معاف کردیا گھوڑے اور غلاموں کی زکوٰۃ سے لیکن تم چاندی کی زکوٰۃ لاؤ ہر چالیس درھموں میں سے ایک درہم ہے اور اس میں پانچ درہم ہیں۔ (9) دار قطنی اور حاکم نے (اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اونٹوں میں اس کی زکوٰۃ ہے اور بیلوں یا گایوں میں اس کی زکوٰۃ ہے اور بکریوں میں اس کی زکوٰۃ ہے اور کپڑے میں اس کی زکوٰۃ ہے۔ (10) ابو داؤد نے خبیب بن سلیمان بن سمرہ سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم کو حکم دیا گیا کہ ہم زکوٰۃ نکالیں (ہر) اس مال میں سے جو تجارت کے لئے ہوتا تھا۔ (11) ابن ماجہ اور دار قطنی نے حضرت ابن عمرو حضرت عائشہ ؓ دونوں سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ہر بیس دینار میں سے آدھا دینار لیتے زکوٰۃ تھے۔ اور چالیس دینار میں سے ایک دینار زکوٰۃ لیتے تھے۔ (12) ابن ابی شیبہ اور دار قطنی نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا پانچ اونٹون سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور چالیس بکریوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور تیس گایوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور بیس مثقال سے کم سونے میں زکوٰۃ نہیں اور دو سو درہم سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور عشر ہے کھجور میں، کشمش میں، گیہوں میں اور جو میں اور جو کھیت بہتے ہوئے پانی سے سینچا جائے اس میں عشر ہے اور جو کھیت ڈول کے ذریعہ سیراب ہو اس میں نصف عشر ہے (یعنی بیسواں حصہ) ۔ (13) ابن ماجہ اور دار قطنی نے عمرو بن شعیب (رح) سے اور کیا وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر ؓ سے ہر قسم کے پتھر۔ موتی۔ نگینہ۔ گھونگا۔ اور زمین کی پیداوار سبزی۔ کھیرا اور ککڑی کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو انہوں نے فرمایا پتھر میں زکوٰۃ نہیں۔ اور سبزیوں میں زکوٰۃ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان پانچ چیزوں پر زکوٰۃ کا حکم فرمایا گیہوں، جو، کھجور، کشمش اور جوار۔ (14) دار قطنی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان چار چیزون میں زکوٰۃ کا حکم فرمایا گیہوں، جو، کشمش اور کھجور۔ (15) ترمذی اور دار قطنی نے معاذ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو سبزیوں (کی زکوٰۃ) کے بارے میں لکھا تو آپ نے فرمایا ان میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (16) دارقطنی اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو زمین بارش اور جوہڑ کے پانی سے سیراب کی جاتی ہے۔ اس میں دسواں حصہ ہے۔ اور جو کھیت پانی کھینچ کر سینچا جائے اس میں نصف عشر ہے اور بلا شبہ کھجور، گیہوں اور غلہ میں زکوٰۃ ہے لیکن کھیرا، ککڑی، تربوز، انار، ساگ، دوسری سبزیاں (میں زکوٰۃ) معاف ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے (زکوٰۃ کو) معاف فرما دیا۔ (17) دار قطنی نے حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سبزیوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں اور نہ عرایا میں صدقہ ہے (عرایا وہ کھجور کے درخت جو مسکینوں کو ھبہ کیے جاتے تھے) اور پانچ وسق سے کم (کھجور) میں کوئی صدقہ نہیں جو بیل یا اونٹ کام کرنے والے ہوں ان میں کوئی زکوٰۃ نہیں، اور گھوڑوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں، صقر بن حبیب (رح) نے فرمایا کہ جہہ سے گھوڑے کا خچر اور غلام مراد ہیں۔ (18) دارقطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمین میں اگنے والی سبزی پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (19) دار قطنی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سبزیوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (20) البزار اور دار قطنی نے طلحہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سبزیوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (21) دارقطنی نے محمد بن عبداللہ حجش ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سبزیوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (22) ابن ابی شیبہ اور دار قطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے معاف کیا صرف تمہارے غلاموں اور گھوڑوں کا صدقہ لیکن تم زکوٰۃ ادا کرو اپنی چاندی اور اپنی کھیتی سے اور اپنے مویشی سے۔ (23) ابو داؤد، ابن ماجہ، دار قطنی اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا ہے) اور معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا غلہ میں سے لے لو اور بکری بکریوں میں سے، اور اونٹ، اونٹوں میں سے، اور گائے گائیوں میں سے۔ (24) مالک، شافعی، بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جانور کا نقصان رائیگاں ہے یعنی اس کی ویت کسی پر لازم نہیں، اور کنویں میں گرنے والے کا نقصان رائیگاں ہے یعنی اس کا کوئی تاوان نہیں، اور کان میں مرنے والے کا نقصان رائیگاں ہے۔ یعنی اس کا کوئی تاوان نہیں اور دفینہ میں پانچواں حصہ ہے۔ (25) ترمذی، ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہر تیس گایوں میں سے ایک سال کا پچھڑا یا بچھڑی اور ہر چالیس گایوں میں ایک مسنۃ یعنی دو برس کا بچھڑا لیا جائے گا جو تیسرے برس میں جا رہا ہو۔ (26) دار قطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کام کرنے والے بیلوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں لیکن ہر تیس گایوں میں ایک سال کا بچھڑا ہے، اور ہر چالیس گایوں میں ایک مسنہ یعنی دو برس کا بچھڑا لیا جائے گا، جو تیسرے برس میں جا رہا ہو۔ شہد میں عشر کی مقدار (27) ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شہد کے ہر دس مشکیزوں میں سے ایک مشکیزہ زکوٰۃ ہے۔ (28) ابو داؤد، ابن ماجہ نے عمروبن شعیب (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے شہد میں سے دسوان حصہ لیا اور ابو داؤد کے الفاظ یوں ہیں، کہ بلال ؓ جو بنو متعان قبیلہ کے ایک فرد ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی کھجوروں کا دسواں حصہ لے کر آئے، اور انہوں نے آپ سے سوال کیا کہ سلبہ وادی آپ میرے لیے محفوظ فرما دیں رسول اللہ ﷺ نے وہ وادی ان کو دے دی، جب عمر بن خطاب ؓ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وھب ؓ نے ان کی طرف اس وادی کے بارے میں لکھا، حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ان کو لکھا کہ اگر وہ تجھے زکوٰۃ دیں جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے کھجوروں کے عشر میں سے تو وادی سلبہ اس کے نام کردو ورنہ یہ بارش کی مکھی ہے جو چاہے کھائے (بارش کی وجہ سے پھل پھول اگتے ہیں اور مکھی ان کا رس چوس کر شہد تیار کرتی ہے۔ اونٹ کی زکوٰۃ کا نصاب (29) الشافعی، بخاری، ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ دار قطنی حاکم اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے انس بن مالک ؓ کو بحرین کی طرف بھیجا اور ان کو یہ احکام لکھ کر دئیے، کہ یہ زکوٰۃ کا فریضہ ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض فرمایا جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم فرمایا تھا۔ سو جو آدمی مسلمان سے اسی حکم کے مطابق زکوٰۃ کا مال طلب کرے اس کو دے دو اور جو اس سے زیادہ کو طلب کرے اس کو نہ دو ۔ پچیس اونٹون سے کم ہر پانچ اونٹون میں ایک بکری ہے، جب پچیس پورے ہوجائیں تو اس میں بنت مخاض ہے (یعنی ایسی اونٹنی جو دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو) یہاں تک کہ پینتیس (35) تک پہنچ جائیں اگر اس میں بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون ہوگا (یعنی وہ اونٹ جو دو برس کا ہو اور تیسرے سال میں لگا ہو) جب تعداد چھتیس ہوجائے تو اس میں وہ اونٹنی جو دو برس مکمل کر کے تیسرے برس میں داخل ہوچکی ہو (زکوٰۃ میں دے دو ) پینتالیس تک یہی (حساب رہے گا) ، جب چھیالیس کو پہنچ جائیں تو اس میں حقہ ہے یعنی تین سال کی اونٹنی ہے جو چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہو، ساٹھ (اونٹوں) تک یہی حساب رہے گا، جب اکسٹھ ہوجائیں تو اس میں ایک جزعہ ہے یعنی پانچ برس والا اونٹ ہے پچھتر تک یہی حساب رہے گا، جب ایک سو بیس سے زیادہ ہوجائیں تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون یعنی دو برس والی اونٹنی ہے اور ہر پچاس میں سے ایک حقۃ یعنی تین سال والا اونٹ ہے۔ جب اونٹون کی عمریں مختلف ہوں صدقات کے فرائض میں جس پر جزعہ یعنی پانی سال والا اونٹ واجب ہوجائے، اور اس کے پاس سال والا نہ ہو، اور اس کے پاس حقہ یعنی تین سال والا ہو تو وہ بھی اس سے قبول کیا جائے گا، اس طرھ ہر ایک کہ اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم جو اس کے لیے آسان ہوں لیے جائیں گے، اور جس پر حقہ یعنی تین سال کا اونٹ واجب ہوجائے اور اس کے پاس تین سال کا اونٹ نہ ہو اور اس کے پاس جزعہ یعنی پانچ برس والی اونٹنی ہو تو اس سے قبول کرلیا جائے گا اور زکوٰۃ وصول کرنے والا اس کو بیس درہم یا دو بکریاں دے گا، اور جس پر بنت لبون یعنی دو برس والا اونٹنی فرج ہو اور اس کے پاس حقہ یعنی تین برس والے اونٹ کے سوا (اور کوئی اونٹ) نہ ہو تو اس سے قبول کرلیا جائے گا زکوٰۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے گا اور جس پر بنت لبون یعنی دو برس والی اونٹنی (واجب) ہو اور اس کے پاس بنت مخاض یعنی ایک برس والی اونٹنی ہو (جو دوسرے سال میں ابھی لگی ہو) تو اس سے (پورے) ایک سال والی اونٹنی اور ساتھ ہی دو بکرین یا بیس درہم بھی لیے جائیں گے اور جس پر بنت مخاض یعنی ایک سال والی اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس مذکر ابن لبون یعنی دو سال والے اونٹ کے سوا اور کوئی نہ ہو تو اس سے وہی قبول کیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز مزید نہیں لی جائے گی، اور جس کے پاس صرف چار (اونٹ) ہو تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی مگر جو اس کا رب (مالک) چاہے تو صدقہ کرسکتا ہے، اور جو بکریان جنگل میں چرتی ہوں، اگر وہ چالیس ہوں تو اس میں ایک بکری ہے ایک سو بیس تک جب وہ ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو اس میں دو بکریاں ہیں یہاں تک کہ دو سو تک پہنچ جائیں جب دو سو سے زائد ہوجائیں تو اس میں تین بکریاں ہیں تین سو تک (یہی حساب رہے گا) جب تین سو سے زائد ہوجائیں تو ہر سو میں ایک بکری رہے گی، بوڑی بکری زکوٰۃ میں نہیں لی جائے گی اور عیب دار بکری بھی زکوٰۃ میں نہیں لی جائے گی، اور نہ (بکریوں کو گابھن کرنے کے لیے) بکری کی زکوٰۃ ہوگی مگر یہ کہ صدقہ دینے والا خود نر پسند کرے اور نہ متفرق جانورون کو جمع کیا جائے گا (زکوٰۃ لینے میں) اور زکوٰۃ سے بچنے کے لیے دو شریکوں کی اکھٹی بکریوں کو جدا نہیں کیا جائے گا اگر مال دو آدمیوں کا ایک جگہ ملا ہوا ہو تو وہ اپنے حصہ کے مطابق ایک دوسرے سے رجوع کریں گے اگر کسی آدمی کی جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس کو نہ پہنچیں تو اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں، مگر جو اس کا مالک ہے (جتنا چاہے دے دے) اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ کا واجب ہوگا اگر کسی کے پاس ایک سو نوے درہم مال ہو تو اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں مگر جو اس کا مالک ہے (جتنا دے دے) ۔ (30) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، ترمذی (اور اس کو حسن کہا ہے) اور حاکم نے زہری کے طریق سے سالم (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ کا نصاب اور اس کا فریضہ لکھا لیکن اس کو اپنے گورنروں کی طرف نہ بھیجا یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے، اور آپ نے اس کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ دیا، ان احکام پر حضرت ابوبکر ؓ پھر حضرت عمر ؓ سے عمل فرمایا، اس میں یہ لکھا تھا پانچ اونٹوں میں ایک بکری ہے، دس میں دو بکریاں ہیں اور پچیس اونٹون میں ایک بنت مخاض یعنی ایک سال کی اونٹنی جو دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، پینتیس (35) تک یہی حساب رہے گا۔ جب اس سے زیادہ ہوجائے تو اس میں ایک بنت لبون یعنی دو سال کی اونٹنی جو تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، پینتالیس تک یہی حساب رہے گا، جب اس سے زیادہ ہوجائے تو اس میں ایک حقہ یعنی تین سال کا اونٹ ہوگا جو چوتھے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ ساٹھ (اونٹوں) تک یہی حساب رہے گا جب اس سے زیادہ ہوجائے تو جزعہ یعنی چار برس والا اونٹ جو پانچویں سال میں داخل ہوچکا ہو، پچھتر تک یہی حساب رہے گا۔ جب اس سے زیادہ ہوجائے تو دو بنت لبون یعنی دو برس والی دو اونٹنیاں ہوں گی جو تیسرے برس میں داخل ہوچکی ہوں، نوے تک یہی حساب رہے گا جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو دو حقے یعنی تین سال والے اونٹ ہوں گے جو چوتھے سال میں داخل ہوچکے ہوں، ایک سو بیس تک یہی حساب رہے گا اگر اونٹ اس سے بھی زیادہ ہوجائیں ہر پچاس میں ایک حقہ یعنی تین سال والا اونٹ ہوگا اور ہر چالیس میں بنت لبون یعنی دو برس والی اونٹنی ہوگی اور چالیس بکریوں میں ایک بکری ہوگی ایک سو بیس تک اگر اس سے ایک بھی زیادہ ہوگئی تو دو سو تک دو بکریاں ہوگی جب اس سے بھی زیادہ ہوجائیں تو ہر سو میں ایک بکری ہوگی، اور اس میں کوئی چیز نہ ہوگی یہاں تک کہ سو تک پہنچ جائیں۔ زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال ایک جگہ اکٹھا ہو وہ جدا جدا نہ کیا جائے اور جو مال جدا جدا ہو وہ اکٹھا نہ کیا جائے جو دو شریکوں پر واجب ہوگا وہ اپنے اپنے حصہ کے مطابق ایک دوسرے سے رجوع کریں گے اور صدقہ میں بوڑھی اور عیب والی چیز نہیں لی جائے گی، زہری (رح) نے فرمایا جب زکوٰۃ وصول کرنے والا آئے تو بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک تہائی گھٹیا بکریاں، ایک تہائی اچھی بکریاں اور ایک تہائی درمیانی درجہ کی بکریا تو وصول کرنے والا درمیان درجہ والی میں سے لے گا۔ مختلف اموال پر زکوٰۃ کا نصاب (31) الحاکم نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا آپ نے یمن والون کی طرف ایک کتاب لکھی جس میں فرائض، سنتوں اور نیتوں کا بیان تھا اور آپ نے یہ کتاب عمرو بن حزم ؓ کو دے کر بھیجا اور انہوں نے یمن والوں پر اس (کتاب) کو پڑھا اور اس کا متن یہ ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد النبی ﷺ کی طرف سے شرحبیل بن عبد کلاں، حرث بن عبد کلاں یغنم بن عبد کلاں قبیلہ زی رعین اور معافر اور ہمدان کی طرف اما بعد تمہاری طرف پیغام رساں آیا ہے اور تم غنیمتوں میں سے ہمیں دو (یعنی پانچواں حصہ) اور جو اللہ تعالیٰ نے مومنین پر فرض کیا ہے دسوان حصہ اس زمین میں جس کو بارش یا سیلاب کا پانی سیراب کرے یا جو جوہڑ وغیرہ سے سیراب ہو یا جب اس کی پیداوار پانچ وسق تک پہنچ جائے۔ رہٹ یا ڈول سے جو زمین سیراب ہو اس میں بیسواں حصہ ہے جب پانچ وسق کو پہنچ جائے۔ جنگل میں چرنے والے ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے یہاں تک کہ چوبیس تک پہنچ جائیں جب چوبیس پر ایک زیادہ ہوجائے تو اس میں ایک بنت مخاض یعنی ایک سال والی اونٹنی جو دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو (دینی ہوگی) اگر بنت مخاض نہ ہو تو مذکر ابن لبون دینا ہوگا یہاں تک کہ پینتیس تک پہنچ جائیں جب پینتیس پر ایک بھی زیادہ ہوجائے تو پینتالیس تک ایک ابن لبون ہے یعنی دو برس والا اونٹ دینا ہوگا اگر پینتالیس پر ایک بھی زیادہ ہوجائے تو اس میں دو ابن لبون ہیں یعنی تین برس والے اونٹ جو مادہ پر چڑھنے کے قابل ہو ساٹھ تک یہی حساب رہے گا گو ایک بھی زیادہ ہوجائے تو پچھتر تک ایک جزعہ یعنی پانچ برس والا اونٹ دینا ہوگا، اگر ایک بھی زیادہ ہوجائے تو اس میں نوے تک دو برس والے دو اونٹ دینے ہوں گے اگر ایک بھی اس سے زیادہ ہوجائے تو اس میں سے ایک سو بیس تک تین برس والے جواب اونٹ دینے ہوں گے جو مادہ پر چڑھنے کے قابل ہو اگر ایک سو بیس پر زائد ہوجائے تو ہر چالیس میں دو برس والی اونٹنی ہوگی اور ہر پچاس میں تین برس والا اونٹ ہوگا۔ ہر تیس گایوں میں بچھڑا یا بچھڑی جو دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو اور ہر چالیس گایوں میں ایک گائے اور ہر چالیس جنگل میں چرنے والی بکریوں میں ایک بکری ہوگی۔ ایک سو بیس تک یہی حساب رہے گا۔ ایک سو بیس پر اگر ایک بھی زائد ہوجائے تو اس میں تین سو تک تین بکریاں ہوں گی، اگر اس سے زیادہ ہوجائیں تو ہر سو میں ایک بکری ہوگی بوڑھی اور کمزور اور عیب دار بکری زکوٰۃ میں نہیں لی جائیں گے اور نہ بکریوں کا نر لیا جائے گا، ہاں اگر مالک دینے پر راضی ہو تو لے لیا جائے گا اور متفرق بکریوں کو صدقہ کے خوف سے اکٹھا نہیں کیا جائے گا اور جو مال ایک جگہ اکٹھا ہو وہ جدا جدا نہیں کیا جائے گا اور زکوٰۃ کے خوف سے دو شریکوں سے جو بطور زکوٰۃ لیا جائے وہ اپنے اپنے حصہ کے مطابق ایک دوسرے سے لے لیں گے۔ اور پانچ اوقیہ چاندی میں پانچ درہم ہیں اگر اس سے زائد ہو تو ہر چالیس درہم میں ایک درہم ہے اور پانچ اوقیہ سے کم میں کوئی چیز نہیں اور ہر چالیس دینار میں ایک دینار ہے۔ محمد ﷺ اور آپ کے اہل بیت کے لیے زکوٰۃ حلال نہیں کیونکہ زکوٰۃ لوگوں کے نفسوں کو پاک کرتی ہے اور یہ مؤمن فقراء کے لیے، اللہ کے راستہ میں جانے والوں کے لیے، مسافر کے لیے ہے۔ اور غلام اور کھیتی پر اور کھیتی کی پیداوار پر زکوٰۃ نہیں ہے جب کہ اس کا عشر ادا کیا گیا ہو اور نہیں ہے زکوٰۃ مسلمان غلام میں اور نہ اس کے گھوڑے میں۔ راوی نے کہا اور کتاب میں یہ بھی تھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے، کسی مومن کو ناحق قتل کرنا جنگ کے دن اللہ کے راستہ سے بھاگ جانا والدین کی نافرمانی کرنا، پاک دامن عورت پر تہمت لگانا، جادو سیکھنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، اور عمرہ چھوٹا حج ہے قرآن مجید میں کو صرف پاکیزہ آدمی ہاتھ لگائے ملکیت سے پہلے کوئی طلاق نہیں، خریدنے سے پہلے کوئی آزاد کرنا نہیں، اور کوئی تم میں سے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جبکہ اس کی ایک طرف ظاہر ہو، اور کوئی تم میں سے اس حال میں نماز نہ پڑھے کہ اس کے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہو اور ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اس حال میں کہ اس کے کندھوں پر کوئی چیز نہ ہو۔ اور کتاب میں یہ بھی تھا جب کوئی کسی مسلمان کو ناحق مار ڈالے تو اس سے قصاص لیا جائے گا، مگر یہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوجائیں (تو پھر قصاص نہ ہوگا) کسی جان کو مار ڈالنے کی دیت سو اونٹ ہے جب پوری ناک کاٹ دی جائے تو کامل دیت دینا ہوگی، زبان کے کاٹنے میں پوری دیت ہے ہونٹوں کے کاٹنے میں پوری دیت ہے اور دونوں خصیتین میں پوری دیت ہے اور ذکر کو کاٹ دینے میں پوری دیت ہے، اگر کمر توڑ دی جائے تو اس میں پوری دیت ہے آنکھیں پھوڑنے میں پوری دیت ہے پاؤں میں آدھی دیت ہے۔ سر کا زخم جو بھیجے کی جھلی تک پہنچ جائے اس میں تہائی دیت ہے اور وہ زخم جو ہڈی کو توڑ دے یا اپنی جگہ سے ہٹا دے اس میں پندرہ اونٹ ہیں، ہاتھ اور پاؤں کی ہر انگلی میں دس اونٹ ہیں ایک دانت میں پانچ اونٹ ہیں، اور وہ زخم جو ہڈی تک پہنچ کر اس کی سفیدی کو کھول دے اس میں بھی پانچ اونٹ ہیں اور عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جائے گا اور سونے والوں پر ہزار دینار دیت ہے۔ (32) ابو داؤد نے حبیب مالک (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عمران بن حصین ؓ سے پوچھا اے ابو نجید ! تم ہم لوگوں کو ایسی احادیث بیان کرتے ہو جس کی اصل ہم قرآن میں نہیں پاتے، حضرت عمر ان ؓ غصہ ہوگئے اور فرمایا کیا تم اس بات کو پاتے ہو کہ چالیس درہم میں ایک درہم ہے اور اتنی بکریوں میں ایک بکری ہے اور اتنی گایوں میں ایک گائے ہے، کیا تم نے قرآن میں یہ بات پائی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ پھر فرمایا تم نے یہ کہاں سے لیا، تم نے اس کو ہم سے لیا اور ہم نے اللہ کے نبی ﷺ سے لیا۔ (33) مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور دار قطنی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فطرہ کی زکوٰۃ (یعنی صدقۃ الفطر) کو فض فرمایا، ایک صاع کھجور ہو یا ایک صاع جو ہوں ہر آزاد اور غلام مسلمان مرد ہو یا عورت۔ صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم (34) ابو داؤد، ابن ماجہ، دار قطنی اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا ہے) حضرت ابن عباس ؓ سے رویت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ الفطر کو فرض فرمایا کہ یہ طہارت ہے روزوں کے لیے لغویات سے، فحش گوئی سے اور مساکین کا رزق ہے جس نے اس کو نماز عید سے پہلے ادا کیا تو اس کی زکوٰۃ قبول ہوگی اور جس نے اس کو نماز کے بعد اد کیا تو یہ صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگی۔ (35) مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور دار قطنی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ جب ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ تھے تو ہم زکوٰۃ الفطر ہر چھوٹے بڑے آزاد یا غلام کی طرف سے نکالا کرتے تھے ایک صاع غلہ یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش میں سے۔ (36) احمد، ابو داؤد اور دار قطنی نے ثعلبہ بن صغیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عید سے دو دن قبل خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ نے صدقہ الفطر کا حکم فرمایا، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو گھر کے ہر فرد کی طرف سے یا ایک صاع گیہوں دو آدمیوں کی طرف سے چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد یا غلام، مرد یا عورت غنی یا فقیر سب کی طرف سے تمہارے غنی کو اللہ پاک فرمادیں گے اور تمہارے فقیر کو اللہ تعالیٰ اور زیادہ عطا فرما دیں گے اس چیز سے جو اس کو دیا۔ (37) احمد، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا ہے) قیس بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے صدقہ الفطر کا حکم فرمایا جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوگیا تو پھر ہم کو (صدقہ فطر کا) حکم نہیں فرمایا اور نہ ہم کو منع فرمایا۔ جب کہ ہم صدقہ الفطر ادا کرتے تھے اور رمضان کا حکم نازل ہونے سے پہلے آپ نے ہم کو عاشوراء کے روزے کا حکم فرمایا تھا، جب رمضان کا حکم نازل ہوگیا تو ہم کو عاشوراء کے روزے کا نہ حکم فرمایا اور نہ منع فرمایا۔ جب کہ ہم یہ روزہ رکھتے تھے۔ (38) دار قطنی نے حضرت ابن عمرو حضرت علی ؓ دونوں سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ الفطر کو چھوٹے پر، بڑے پر، عورت پر، آزاد پر اور غلام پر فرض فرمایا یعنی ان سب لوگوں کی طرف سے جن کی تم کفالت کرتے ہو۔ (39) شافعی نے جعفر بن محمد (رح) سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ فطر کو آزاد پر، غلام پر، مرد پر اور عورت پر فرض فرمایا یعنی ان سب افراد کی طرف سے جن کی تم کفالت کرتے ہو۔ (40) البزار دار قطنی اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا ہے) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بطن مکہ میں ایک آواز لگانے والے کو حکم فرمایا کہ وہ یہ آواز لگائے کہ صدقۃ الفطر حق اور واجب ہے اور مسلمان پر چھوٹا یا بڑا ہو مرد ہو یا عورت ہو آزاد ہو یا غلام ہو شہری ہو یا دیہاتی ہو ایک صاع جو میں سے یا کھجور میں سے۔ (41) دار قطنی اور حاکم نے اس کو صحیح کہا، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ہر انسان (یعنی ہر مسلمان) کو صدقۃ فطر پر ابھارا ایک صاع کھجور میں سے یا ایک صاع جو میں سے یا ایک صاع گیہوں میں سے۔ (42) ابن ابی شیبہ اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا ہے) ہشام بن عروہ (رح) سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنی والدہ اسماء ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صدقۃ الفطر اس مد کے ذریعہ نکالا کرتے تھے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے اہل بیت کو خوراک دیتے تھے اور صاع کے ذریعہ خوراک دیتے تھے اہل مدینہ سب کے سب ایسا ہی کرتے تھے۔ (43) ابو حفص بن شاہین نے فضائل رمضان میں جریر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کا روزہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے اور او پر کو نہیں اٹھتا، مگر صدقۃ الفطر ادا کرنے کے ساتھ۔ ابن شاہین نے کہا یہ حدیث غریب ہے اور جید الاسناد ہے۔ عمر بن عبدالعزیز (رح) کا حکم نامہ (44) مالک اور شافعی نے زریق بن حکیم (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن عبد العزیز (رح) نے ان کی طرف لکھا، جو مسلمان تیرے پاس سے گزریں ان کے تجارت کے مالوں کو دیکھو اور ہر چالیس دینا میں سے ایک دینار لے لو اور جو کم ہوجائے تو اس کے حساب سے لو یہاں تک کہ بیس دینار کو پہنچ جائیں اگر اس سے دینار کا ایک تہائی کم ہوجائے تو اس کو چھوڑ دو اور اس میں کچھ نہ لو۔ (45) دار قطنی نے ابو عمر وبن جماس (رح) سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں چمڑا اور ترکش بیچا کرتا تھا میرے پاس سے عمر بن خطاب ؓ گزرے اور مجھ سے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، میں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین ! وہ تو چمڑے کی شکل میں ہے ؟ آپ ؓ نے فرمایا اس کی قیمت لگا لو اور پھر اس کا صدقہ نکال دو ۔ (46) البزار اور دار قطنی نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو کسی آدمی یا عورت کے پرانے غلاموں میں سے جو کام کرنے والے ہوتے تھے جن کی خریدو فروخت کا ارادہ نہیں ہوتا تھا تو آپ ﷺ ان میں صدقۃ الفطر نہ نکالنے کا حکم فرماتے تھے۔ (47) حاکم نے (اور اس کو صحیح کہا) بلال بن حرث ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معاون قبیلہ کا صدقہ (یعنی زکوٰۃ) کو وصول فرمایا۔ (48) شافعی اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے عنبر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ ایک ایسی چیز ہے جس کو سمندر دھکیل کر باہر لاتا ہے اگر اس میں کچھ فرض ہوتا تو میں خمس (یعنی پانچواں حصہ) ہوتا۔ (49) مالک اور ابن ابی شیبہ نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ زیتون عشری ہے۔ (50) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زیتون میں عشر ہے۔ (51) دار قطنی نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنگل میں چرنے والے ہر گھوڑے میں ایک دینار (زکوٰۃ) ہے۔ (52) مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارقطنی اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ہے کسی مسلمان پر اس کے غلام میں اور نہ اس کے گھوڑے میں صدقہ مگر غلام میں صدقہ فطر ہے۔ لفظ آیت ” واما قولہ تعالیٰ : ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “ (الایۃ) ۔ (53) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ترمذی (اور اس کو صحیح کہا) ابن ماجہ ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم، ابن مردویہ (اور حاکم نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے اپنی مسند میں براء بن عازب ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “ کے بارے میں روایت کیا کہ (یہ آیت) ہم انصار کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہم لوگ کھجوروں والے تھے ایک آدمی اپنی کھجوروں میں سے قلت یا کثرت کے اعتبار سے لیتا تھا اور ایک آدمی ایک خوشہ یا دو خوشے لے آتا تھا اور اس کو مسجد میں لٹکا دیتا تھا صفہ والوں کے لیے کھانا نہیں ہوتا تھا تو ان میں سے جو بھوکا ہوتا تھا وہ خوشہ کے پاس آکر لاٹھی مارتا تو کچی اور پکی کھجوریں گرتی تھیں ان کو وہ کھا لیتا تھا اور بعض لوگ جن کو خیر کے کاموں میں رغبت نہیں ہوتی تھی وہ ایسے خوشے لاتے تھے جن میں نکمی اور بوسیدہ کھجوریں ہوتی تھیں خوشہ ٹوٹ جاتا تو اس کو بھی لٹکا دیتے تھے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذیہ الا ان تغبضوا فیہ “ فرمایا اگر کوئی تم میں سے ایسی ہی (نکمی) کھجور تم کو ہدیہ دے تو تم اس کو نہیں لو گے ہاں مگر چشم پوشی اور حیا کرتے تھے۔ راوی نے کہا کہ ہم میں سے ہر شخص عمدہ اور اچھی کھجور لاتا تھا جو اس کے پاس ہوتی تھی۔ (54) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ ایک آدمی کے دو باغ تھے وہ ان میں سے گھٹیا پھل والا صدقہ اور گھٹیا کھجوریں صدقہ کی کھجوروں میں ملا دیتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان پر عیب لگایا اور ان کو اس سے منع فرمایا۔ (55) عبد بن حمید ابن جریر اور ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ منافقین میں سے کچھ لوگ اپنے پھلوں میں سے ردی مال لے آئے جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم فرمایا، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا۔ لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “۔ زکوٰۃ میں عمدہ مال دینا (56) عبدبن حمید نے جعفر بن عبد اللہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ نے صدقۃ الفطر کا حکم فرمایا تو ایک آدمی ردی کھجور لے آیا، نبی اکرم ﷺ نے اس آدمی کو حکم فرمایا جو کھجوروں کا اندازہ لگاتا تھا کہ ان ردی کھجوروں کو جائز قرار نہ دے (یعنی ان کو قبول نہ کرے) اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم “۔ (57) حاکم نے جعفر بن محمد کے طریق سے ان کے والد سے اور انہوں نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ الفطر کے لیے ایک صاع کھجوروں کا حکم فرمایا تو ایک آدمی ردی کھجوریں لے آیا نبی اکرم ﷺ نے عبد اللہ بن رواحہ سے فرمایا کہ اس کھجور کو قبول نہ کرنا (پھر) اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض “ (الآیۃ) (58) عبد بن حمید، ابوداؤد، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، دار قطنی اور حاکم اور بیہقی نے اپنی سنن میں سہل بن حنیف ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کا حکم فرمایا تو ایک آدمی نکمی کھجور کے خوشے لے آیا، اور اس کو آکر رکھ دیا یا رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو فرمایا یہ کھجور کون لایا ہے ؟ ہر ایک نے اپنی کھجوروں کا ذکر کیا تو (اس پر یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “ اور رسول اللہ ﷺ نے دو رنگی کھجوریں صدقہ کرنے سے منع فرمایا : ایک جعرور اور دوسری لون حبیق (یہ دونوں ردی کھجوریں ہیں جو بدمزہ اور خراب ہوتی ہیں ) ۔ (59) ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور الضیاء نے المختارہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سستا غلہ خریدتے تھے (جو خراب ہوتا تھا) اور وہ صدقہ کردیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم “۔ زکوٰۃ میں گھٹیا چیز نہ دی جائے (60) ابن جریر نے عبیدہ سلمانی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے علی بن ابی طالب ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت فرض زکوٰۃ کے بارے میں نازل ہوئی (ہوا یوں کہ) ایک آدمی نے کھجور کا ارادہ کیا پس کھجور کو کاٹا اور اچھی کھجور ایک طرف رکھ دی جب صدقہ والا آیا تو اس کو ردی کھجور دے دی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ یعنی فرمایا تم میں سے کوئی بھی اس ردی کھجور کو نہیں لے گا یہاں تک کہ اس کے لیے (یعنی لینے والے کے لیے) ظلم کرے گا۔ (61) ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ردی کھجور کے خوشے مدینہ منورہ میں لٹکا دئیے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ اس (ردی کھجور) کا لٹکانا بہت برا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “۔ (62) ابن المنذر نے محمد بن یحییٰ بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ جو انصار میں سے ہیں وہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اپنی قوم سے رسول اللہ ﷺ کے پاس صدقہ کے طور پر مختلف قسم کی ردی کھجوریں لے آیا مثلاً جعرور لینہ، ایارح قضرہ اور امعاء، فارہ اور یہ سب ردی اور گھٹیا کھجوریں معروف ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کو واپس کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں نازل فرمایا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم “ ان کے قول ” حمید “ تک۔ (63) سفیان بن عینیہ اور الفریابی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لوگ ردی اور بیکار کھجور کا صدقہ کرتے تھے تو اس سے منع کردیا گیا اور اچھی کھجور صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا، اور اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “۔ (64) وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی اپنا گھٹیا مال صدقہ کرتا تھا تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “ (65) ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے عوف بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے کہ آپ کے پاس ایک چھڑی بھی تھی، اچانک کھجور کے خوشے مسجد میں لٹکے ہوئے تھے، اس میں ایک خوشہ ردی کھجور کا تھا، آپ نے اس خوشہ کو چھڑی ماری اور فرمایا اس کے مالک کا کیا نقصان ہوتا اگر وہ اس سے اچھی کھجوریں صدقہ کرتا، ان کھجوروں کا مالک قیامت کے دن ردی کھجوریں کھائے گا۔ (66) ابن جریر، ابن المنذر ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انفقوا من طیبت ما کسبتم “ سے مراد ہے اپنے اچھے اور عمدہ مالوں میں سے صدقہ کرو۔ لفظ آیت ” ولستم باخذیہ “ سے مراد ہے اگر تمہارا کسی پر حق ہوتا اور وہ تمہارے پاس تمہارے حق سے گھٹیا چیز لاتا تو تم اس کو اپنی اچھی چیز کے بدلے میں نہ لیتے یہاں تک کہ اس میں کمی کرلیتے تو اسی کو فرمایا لفظ آیت ” الا ان تغمضوا فیہ “ تو کس طرح تم راضی ہوگئے میرے لیے (گھٹیا چیز میں) کہ جس سے تم اپنے لیے راضی نہیں ہوتے اور میرا حق تم پر اچھی اور عمدہ چیز کا ہے تمہارے مالوں میں سے، اور اسی کو فرمایا لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ (آل عمران) آیت 92) ۔ (67) الفریابی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن مغفل ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث “ کے بارے میں روایت کیا کہ مسلمان کی کمائی ناپاک نہیں ہوتی، لیکن تم نہ صدقہ کرو ردی کھجور اور کھوٹے درہم کا کیونکہ اس میں کوئی خیر نہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” الا ان تغمضوا فیہ “ کے بارے میں فرمایا کہ تم ردی چیز اپنے لیے جائز نہیں سمجھتے۔ (68) ابن ماجہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تمموا الخبیث “ سے مراد ہے کہ تم اپنے مال میں سے خبیث چیز کے خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو اور تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات سے بےپرواہ ہے (یعنی اس کو تمہارے صدقات کی کوئی ضرورت نہیں) ۔ (69) الطسنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع ازرق نے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولا تمموا الخبیث “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا نہ ارادہ کرو تم اپنے خراب اناج اور خراب پھلوں کا کہ ان کو صدقہ میں دے دو اگر تم اس کو دو گے تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ عرض کیا کیا عرب اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے اعشی کو نہیں سنا وہ کہتا ہے۔ یممت راحلتی امام محمد ارجو فواضلہ وحسن نداہ ترجمہ : میری سواری نے ارادہ کیا محمد ﷺ کے آگے جانے کا کیونکہ میں امید کرتا ہوں اس کی فضیلت اور ان کی اچھی مجلس کا تیممت قیسا و کم دونہ من الارض من مھمہ ذی شرر ترجمہ : اس نے قیس کا ارادہ کیا اور زمین میں اس کے ورے کتنے جنگل ہیں شروں والے۔ (70) ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبیدہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا یعنی لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “ تو انہوں نے فرمایا یہ حکم زکوٰۃ اور واجب صدقہ کے متعلق ہے لیکن نفلی صدقہ میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کھوٹے درہم کا صدقہ کرے اور وہ درہم کھجور سے بہتر ہے۔ (71) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ لوگ اپنے مالوں میں سے کھجور کی زکوٰۃ دیتے تھے اور وہ لوگ زکوٰۃ میں ردی کھجور دیتے تھے پھر فرمایا اگر ایک شخص دوسرے سے کوئی چیز طلب کرے پھر وہ ایسے ردی چیز واپس کرے تو وہ نہیں لے گا کہ وہ اپنے حق کو اس سے کم لینے والا تصور کرے گا۔ (72) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے تم اپنے قرض خواہوں سے گھٹیا چیز نہیں لیتے اور نہ خریدوفروخت سے لیتے ہو مگر ناپ میں اچھی چیز کی زیادتی کے ساتھ لیتے ہو اور اس بارے میں آیت نازل ہوئی کہ لوگ (ردی) کھجوریں لٹکا دیتے تھے مدینہ منورہ میں (اس لیے فرمایا گیا) ہر وہ چیز جس کو تم خرچ کرو تو اچھی چیز خرچ کرو۔ (73) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “ سے مراد ردی کھجور اور گندم کھائی ہوئی مراد ہے لفظ آیت ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ کے بارے میں فرمایا تم بتاؤ اگر کسی آدمی پر تمہارا حق ہے وہ تم کو درہم دے جس میں کھوٹے بھی ہوں تو تم وہ لو گے اپنے حق سے کمی کرنے والے نہ ہوگے۔ (74) وکیع نے حسن (رح) سے لفظ آیت ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر تم ردی چیز کو پاؤ جو بازار میں بک رہی ہے تم اس کو نہیں لو گے یہاں تک کہ تمہارے لیے قیمت نہ کم نہ کردیا جائے۔ (75) عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر تمہارا کسی آدمی پر حق ہو تو تم حق سے کم پر راضی ہو گے ؟ سو کس طرح تم اپنے ردی مال کے ساتھ اللہ کے لیے راضی ہوتے ہو کہ اس کے ذریعہ تم اس کی طرف چاہتے ہو۔ (76) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ تم ردی مال کو اچھے مال کی قیمت کے ساتھ لینے کے لیے تیار نہیں ہوئے مگر یہ کہ اس میں سے تمہارے لیے قیمت کم کردی جائے۔ (77) ابو داؤد اور طبرانی نے عبد اللہ بن معاویہ فاخری ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تین کام ایسے ہیں جو ان کو انجام دے گا تو اس نے گویا ایمان کا مزہ چکھ لیا اللہ وحدہ کی عبادت کی اور لا الہ الا اللہ کی گواہی دی اور اپنے پسندیدہ مال میں سے زکوٰۃ ادا کی خوش دلی کے ساتھ جو اس پر کشادگی کی وجہ سے واجب ہے اور (زکوٰۃ میں) بوڑھی بکری یا زخمی یا بیمار بکری نہیں دیتا، اور نکما مال بھی نہیں دیتا، لیکن اپنے درمیانی مال میں سے زکوٰۃ دیتا ہے بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑھیا مال کا تم سے سوال نہیں کرتا اور نہ تم کو گھٹیا مال کا حکم کرتا ہے۔ زکوٰۃ میں درمیانے درجہ کا جانور (78) شافعی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ابو سفیان بن عبد اللہ ؓ کو طائف کا گورنر بنایا، اور ان سے فرمایا ان لوگوں سے کہہ دو میں تم سے نہ وہ جانور لوں گا جو دودھ کے لیے گھر میں پالا جاتا ہے اور نہ گابھن جانور کو، اور نہ دودھ دینے والے کو، اور نہ وہ جانور جو گوشت کھانے کے لیے موٹا کیا جاتا ہے اور نہ نر بکری کو (پھر فرمایا) ان سے لے لو ( زکوٰۃ میں) ایک سال سے کم بکری کا بچہ یا وہ بکری یا گائے کا بچہ جو دو برس کا ہو تیسرے سال میں لگا ہو، اور یہ انصاف ہے درمیان ردی اور اچھے مال کے۔ (79) شافعی نے بنو عدی کے بھائی سعر ؓ سے روایت کیا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ہم کو لوگوں کے مالوں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ہے راوی کہتے ہیں کہ میں ان کے لیے گابھن بکری لے آیا جس کو میں نے افضل پایا۔ انہوں نے وہ بکری واپس کردی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم گابھن بکری لینے سے منع فرمایا ہے راوی نے کہا کہ میں نے ان کو ایک درمیانی بکری دی تو انہوں نے اس کو لے لیا۔ (80) احمد ابو داؤد (اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے) ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے والا بنا کر بھیجا میں ایک آدمی کے پاس آیا اس نے میرے لیے اپنے مال کو جمع کیا میں اس میں دو سال والی اونٹنی یا بکری کے علاوہ اور کسی مال کو نہ پایا، میں نے اس سے کہا کیا دو سال والی تیری زکوٰۃ ہوگی ؟ اس نے کہا اس میں نہ تو دودھ ہے نہ یہ گابھن ہے لیکن یہ بڑی موٹی اونٹنی ہے اس کو لے لو۔ میں نے اس سے کہا میں وہ چیز نہیں لوں گا جس کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا اور یہ رسول اللہ ﷺ تیرے قریب ہیں اگر تو چاہے تو اس کو لے آ اور ان کو پیش کر اس نے کہا میں ایسا ہی کروں گا وہ اپنی اونٹنی کو لے کر نکلا یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ان کو یہ بات بتائی، آپ نے اس سے فرمایا اگر تو اپنی خوشی سے دینا چاہے تو اس میں اللہ تعالیٰ تجھ کو اجر دیں گے اور ہم تجھ سے اس کو قبول کرلیں گے (اس نے اونٹنی دے دی) تو آپ نے اس کی طرف سے اونٹنی کو لینے کا حکم فرمایا اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ (81) عبد بن حمید اور ابن المنذر نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ایک پاکیزہ (یعنی حلال) درھم میرے نزدیک (دیگر ایک لاکھ درہم سے زیادہ محبوب ہے میں (یہ آیت) پڑھتا ہوں۔ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم “۔ (82) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انفقوا من طیبت ما کسبتم “ سے مراد ہے حلال (روزی) میں سے۔ (83) عبد بن حمید نے ابن مغفل ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انفقوا من طیبیت ما کسبتم “ سے مراد ہے حلال (کمائی) میں سے۔ (84) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تیمموا الخبیث “ سے حرام مراد ہے۔ (85) بیہقی نے شعب میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں کماتا کوئی آدمی حرام مال پھر اس پر خرچ کرتا ہے پس اس میں اس لیے برکت نہیں دی جائے اور نہیں صدقہ کرتا کہ اس سے قبول کیا جائے اور نہیں چھوڑتا اس کو اپنی پیٹھ پیچھے مگر اس کا یہ ذخیرہ آگ کی طرف ہوتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتے لیکن برائی کو اچھائی سے مٹاتے ہیں بلاشبہ ناپاک چیز ناپاک چیز کو نہیں مٹاتی۔ (86) البزار نے ابن مسعود ؓ سے مرفوع روایت کیا کہ ناپاک چیز کو نہیں مٹاتی لیکن پاکیزہ چیز ناپاک کو مٹا دیتی ہے۔ (87) احمد نے الزہد میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا جو مزدور حلال کماتا ہے اس کا خرچ پاکیزہ ہوتا ہے کیونکہ ناپاک چیز ناپاک کو پاک نہیں کرتی۔ (88) احمد نے الزہد میں ابو درداؓ سے روایت کیا کہ حلال طریقے سے مال کمانا کم ہے جو شخص حرام طریقے سے مال کماتا ہے پھر غلط جگہ پر خرچ کرتا ہے تو یہ ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج دشوار ہے اور جس شخص نے حلال طریقہ سے کمایا پھر اس کو اس کے حق میں رکھا تو یہ اس کے گناہوں کو دھو دے گا جس طرح پانی پتھر سے مٹی کو دھو دیتا ہے۔ (89) ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم ( نے اس کو صحیح کہا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تو زکوٰۃ ادا کردے تو تحقیق تو نے ادا کردیا (اس حق کو) جو تجھ پر تھا اور جس شخص نے حرام ذریعے سے مال کو طلب کیا پھر اس کا صدقہ کیا تو اس کے لیے اس میں اجر نہ ہوگا اور اس کا گناہ اس پر ہوگا۔ (90) الطبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا جس شخص نے پاکیزہ مال کمایا تو اس کی ناپاکی زکوٰۃ کا روکنا ہے اور جس شخص نے حرام مال کمایا تو زکوٰۃ اس کو پاک نہیں کرتی۔ پاکیزہ مال سے حج کرنے کی فضیلت (91) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب حاجی پاکیزہ (یعنی حلال) نفقہ کے ساتھ نکلتا ہے اور اپنا پاؤں رکاب میں رکھ کر کہتا ہے لفظ آیت ” لبیک اللہم لبیک (یعنی حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ میں حاضر ہوں) تو ایک پکارنے والا (فرشتہ) آسمان سے پکارتا ہے تیری حاضری اور تیری عبادت قبول ہے تیرا زاد (یعنی خرچ) حلال ہے تیری سواری حلال ہے اور تیرا حج نیکیوں والا ہے بغیر گناہ کے۔ اور جب حاجی ناپاک (یعنی حرام) نفقہ کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے اور اپنے پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اور کہتا ہے لفظ آیت ” لبیک اللہم لبیک “ تو ایک فرشتہ آسمان سے آواز دیتا ہے تیری کوئی حاضری قبول نہیں اور نہ تیری عبادت قبول ہے تیرا زاد (یعنی توشہ) حرام کا ہے اور تیرا سفر خرچ حرام کا ہے اور تیرا حج گناہوں والا ہے نہ کہ نیکیوں والا۔ (92) اصبہانی نے ترغیب میں اسلم ؓ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے حرام کے مال سے حج کیا اور کہا لفظ آیت ” لبیک اللہم لبیک “ تو اللہ تعالیٰ اس کو فرماتے ہیں نہ تیری حاضری قبول ہے اور نہ تیری عبادت، تیرا حج تجھ پر لوٹا دیا گیا ہے۔ (93) احمد نے ابو بردہ بن نیار ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے افضل کمائی کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا حلال خریدو فروخت اور آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا (یعنی محنت مزدوری کرنا) ۔ (94) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا آدمی کی کوئی سی کمائی پاکیزہ ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کر کے کمائی کرنا اور ہر مقبول خریدو فروخت۔ (95) عبد بن حمید نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنی پاکیزہ کمائی میں سے کھاؤ اور تمہاری اولاد تمہاری بہت ہی پاکیزہ کمائی میں سے ہے سو وہ اور ان کے اموال تمہارے لیے ہے۔ (96) احمد عبد بن حمید نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کا پاکیزہ کھانا وہ ہے جو اپنی کمائی میں سے کھائے، اور اس کی اولاد اس کی کمائی میں سے ہے۔ (97) عبد بن حمید نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ بہت پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی میں سے کھائے اور اس کی اولاد اس کی کمائی میں سے ہے اور بیٹے کے لیے جائز نہیں کہ اپنے والد کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر لے لے اور والد کے لیے جائز ہے کہ اپنے لڑکے کے مال میں سے جو چاہے اس کی بغیر اجازت لے لے۔ (98) عبد بن حمید نے عامر احول ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! ہماری اولاد میں سے ہمارا کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ تمہاری سب سے زیادہ پاک کمائی میں سے ہیں اور ان کے مال تمہارے لیے ہیں۔ (99) عبد بن حمید نے محمد بن منکدر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میرا مال ہے اور عیال نہیں ہیں اور میرے ماں باپ کا مال بھی ہے اور اس کی عیال بھی ہے مگر (پھر بھی) میرا باپ میرا مال لے لیتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ (100) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آدمی اپنے بیٹے کے مال میں سے تو لے سکتا ہے مگر اس کی بیوی (بہو) سے جماع نہیں کرسکتا۔ (101) عبد بن حمید نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ انسان کے لیے اپنے بیٹے کے مال سے لینا حلال ہے۔ (102) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ والد اپنے بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے جو چاہے اور والدہ بھی اسی طرح لے سکتی ہے، اور بیٹے کے لیے جائز نہیں کہ اپنے باپ کے مال میں سے لے لے مگر جو اس کے دل کی خوشی سے ہو۔ (103) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ کسی آدمی کے لیے اپنے بیٹے کے مال میں سے لینا حلال نہیں ہے مگر اتنی مقدار جتنا اسے ضرورت ہو کھانے میں سے پینے میں سے یا لباس میں سے، وہ لے سکتا ہے۔ (104) عبد الرزاق وعبد بن حمید نے زہری (رح) سے روایت کیا کوئی آدمی اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا مگر یہ کہ وہ محتاج ہو تو معروف طریقے سے اپنے اوپر خرچ کرسکتا ہے، بیٹا اپنے باپ کی کفالت کرے جس طرح باپ اپنے بیٹے کی کفالت کرتا ہے اگر وہ خود مال دار ہے تو اپنے بیٹے کے مال سے میں سے لینا جائز نہیں کہ اس کے ذریعے سے اپنا مال بچائے یا اس کو ضائع کرے ایسی چیزوں میں جو حلال نہیں ہیں۔ (105) حسن (رح) سے روایت کیا آدمی اپنے بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے جو چاہے اگر بیٹے کی باندی ہو تو اس سے جماع کرسکتا ہے اگر چاہے۔ قتادہ (رح) نے فرمایا مجھے اچھا نہیں لگا جو کچھ انہوں نے باندی کے بارے میں فرمایا۔ (106) زہری (رح) سے روایت کیا کہ اگر یتیم کی ماں محتاج ہے تو اپنے اوپر اس کے مال میں سے خرچ کرسکتی ہے پوچھا گیا اگر ماں خوشحال ہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ فرمایا اس کے لیے کوئی چیز نہیں (واللہ اعلم) ۔
Top