Dure-Mansoor - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ : اور خوشخبری دو جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ : اور انہوں نے عمل کئے نیک اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لئے جَنَّاتٍ : باغات تَجْرِیْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهَارُ : نہریں كُلَّمَا : جب بھی رُزِقُوْا : کھانے کو دیا جائے گا مِنْهَا : اس سے مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ : سے۔ کوئی پھل رِزْقًا : رزق قَالُوْا : وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِیْ : یہ وہ جو کہ رُزِقْنَا : ہمیں کھانے کو دیا گیا مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَأُتُوْا : حالانکہ انہیں دیا گیا ہے بِهٖ : اس سے مُتَشَابِهًا : ملتا جلتا وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِیْهَا : اس میں اَزْوَاجٌ : بیویاں مُطَهَّرَةٌ : پاکیزہ وَهُمْ : اور وہ فِیْهَا : اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور بشارت دیجئے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے کہ بلاشبہ ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گے جب کبھی بھی ان کو ان باغوں میں سے کوئی پھل بطور غذا کے دیا جائے گا تو کہیں گے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے دیا گیا، اور ان کو ہم شکل پھل دئیے جائیں گے اور ان کے لئے ان باغوں میں بیویاں ہوں گی جو پاکیزہ بنائی ہوئی ہیں، اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے
(1) امام ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنۃ میں البزار، ابن ابی حاتم، ابن حیان، ابن ابی داؤد اور بیہقی دونوں نے البعث میں ابو الشیخ نے العظمہ میں اور ابن مردویہ نے امسامہ بن زید ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ! خبردار کیا کوئی جنت کے لئے تیار ہے بلاشبہ جنت کے لئے کوئی خطرہ نہیں رب کعبہ کی قسم یہ (جنت) نور ہے چمکئتا ہوا اور مہکتی ہوئی خوشبو اور مضبوط محل اور بہتی ہوئی نہر ہے اور پکے ہوئے پھل اور بہت ہی حسین اور جمیل بیوی اور بہت سے لباس اور جگہیں ہیں ہمیشہ رہنے کی جس میں میوے ہیں اور سلامتی کا گھر ہے اور ہرے بھرے پھل، خیر اور نعمت ہے۔ اونچی خوشگوار جگہوں میں صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے فرمایا کہ کہو، انشاء اللہ تو صحابہ ؓ نے کہا ان شاء اللہ۔ (2) امام احمد، عبد بن حمید نے اپنی سند میں ترمذی اور ابن حسان نے اپنی صحیح میں بیہقی نے البعث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم کو جنت کے بارے میں بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا (اس کی ایک) اینت سونے کی اور (ایک) اینٹ چاندی کی ہے اس کی کنکریاں موتی اور یاقوت ہیں اس کی لپائی کستوری کی ہے، اور اس کی مٹی زعفران ہے۔ اور جو شخص اس میں داخل ہوگا خوشحال رہے گا ناامید نہ ہوگا۔ ہمیشہ رہے گا اور نہیں مرے گا۔ اس کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے اور اس کی جوانی ختم نہیں ہوگی۔ جنت میں سونے چاندی کی اینٹیں (3) امام ابن شیبہ، ابن ابی الدنیا اور الطبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے جنت کے بارے میں پوچھا گیا وہ کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا جو شخص جنت میں داخل ہوگا ہمیشہ زندہ رہے گا موت نہیں آئے گا اور خوشہ رہے گا کبھی مایوس نہ ہوگا۔ اس کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے اس کی جوانی ختم نہیں ہوگی (پھر) پوچھا گیا یا رسول اللہ ! اس کی عمارت کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا (ایک) اینٹ سونے کی ہے اور دوسری چاندی کی ہے (اور) اس کی لپائی عمدہ کستوری سے ہے۔ اور اس کی کنکریاں موتی اور یاقوت ہیں اور اس کی مٹی زعفران ہے۔ (4) حضرت البزار اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کی دیوار سونے اور چاندی کی اینٹ کی ہوگی ان کی دھونیاں عود کی ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ اس کی مٹی زعفران کی ہوگی اور اس کی خوشبو کستوری کی ہوگی۔ (5) ابن المبارک نے الزہد میں، ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنۃ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جنت کی دیوار ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی ہوگی۔ اس کے ذرے موتی اور یاقوت کے ہوں گے اور اس کی کنکریاں موتی کی ہوں گی۔ اور اس کی مٹی زعفران کی ہوگی۔ (6) امام ابن ابی الدنیا نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت کی زمین سفید ہے اس کا صحن کافور کی چٹانیں ہیں اس کے اردگرد کستوری کے ٹیلے ہیں ریت کے ٹیلوں کی طرح۔ اس میں بہتی ہوئی نہریں ہیں اس میں پہلے اور پیچھے جنت والے سب لوگوں کو جمع کیا جائے گا۔ جو ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے۔ (پھر) اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کی ہوا بھیجے گا جو ان پر کستوری کی خوشبو بکھیرے گی۔ آدمی اپنی بیوی کی طرف لوٹے گا تو اس کا حسن اور خوشبو زیادہ ہوچکی ہوگی تو وہ کہے گا تو میرے پاس سے گیا تو میں تجھ پر تعجب کرنے والی تھی (تیری خوبصورتی پر) اور اب تو میں سخت تعجب کرنے والی ہوں (تیری خوبصورتی پر) ۔ (7) امام ابو نعیم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جنت کی زمین چاندی کی ہے۔ (8) امام البزار، الطبرانی، ابن مردویہ اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے اردگرد دیوار بنائی جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک اینٹ چاندی کی ہے پھر اس میں نہریں نکال دیں، اور اس میں درخت لگا دئیے جب فرشتے اس کی خوبصورتی اور اس کی رونق کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں تو زیادہ پاکیزہ ہے بادشاہوں کی منزلوں سے۔ (9) امام ابن ابی شبیہ، احمد اور مسلم نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ابن صائد ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے جنت کی مٹی کے بارے میں پوثھا تو آپ نے فرمایا مکہ کے سفید موتی (کی طرح) خالص کستوری کی ہے۔ (10) ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنۃ میں ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو زمیل (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ جنت کی زمین کسی چیز کی ہے ؟ انہوں نے فرمایا (جنت کی زمین) سفید مرمر چاندی سے ہے گویا کہ وہ (سفیدی میں) شیشہ ہے۔ پھر پوچھا اس کی روشنی کیسی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیا تو نے دیکھا ہے سورج کے طلوع ہونے کے وقت جو کیفیت ہوتی ہے (اسی طرح) اسی کی روشنی ہے۔ مگر یہ کہ اس میں موسم نہایت معتدل ہے نہ گرمی ہے اور نہ سردی ہے۔ (پھر) پوچھا اس کی نہریں کیسی ہیں کیا وہ نالیوں میں چلتی ہیں فرمایا نہیں بلکہ وہ چلتی ہیں زمین کی سطح پر نہ ادھر پھیلتی ہیں اور نہ ادھر۔ (پھر) پوچھا اس کے جوڑے (یعنی لباس) کیسے ہوں گے ؟ انہوں نے فرمایا اس میں ایک درخت ہوگا جس کے انار کے پھل ہوں گے جب اللہ کا ولی کپڑا (پہننے کا ارادہ کرے گا تو اس کی ٹہنیاں اس کی طرف جھک کر آئیں گی اور اس میں سے ستر جوڑے نکل آئیں گے جو مختلف رنگ کے ہوں گے پھر وہ اپنی پہلی کیفیت پر لوٹ جائے گا۔ (11) امام طبرانی نے حضرت عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت عدن کو پیدا فرمایا اور اس میں پھل لگائے اور اس میں نہریں نکالیں پھر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا بات کر وہ کہنے لگی لفظ آیت ” قد افلح المؤمنون “ کا میاب ہوگئے ایمان والے پھر (اللہ پاک نے) فرمایا مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ہے تیرے اندر کوئی بخیل تیرے قریب نہیں ہوگا۔ (12) البزار نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت عدن کو سفید پیدا فرمایا۔ (13) امام احمد، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہے۔ (14) امام احمد، بخاری اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کی گمان کی مقدار اس جگہ ہے جن پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔ (15) امام ابن ابی شیبہ، اور ہناد بن السری نے الزہد میں اور ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک بالشت جگہ جنت میں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہے۔ (16) امام ترمذی اور ابن ابی الدنیا نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر جنت کی نعمتوں میں سے ناخن سے بھی تھوڑی کوئی چیز ظاہر ہوجائے تو آسمان اور زمین کے کناروں کے درمیان جو کچھ ہے اس کو مزین کر دے۔ اہل جنت میں سے ایک آدمی (آج دنیا میں) جھانک لے اور اس کے کنگن ظاہر ہوجائیں تو (اس کے سامنے) سور کی روشنی ختم ہوجائے جیسے سورج ستاروں کی روشنی کو ختم کردیتا ہے۔ (17) امام بخاری نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ حارثہ ؓ بدر کے دن شہید کر دئیے گئے ان کی ماں آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! تحقیق میں جان لیتی حارثہ کی منزل کو ؟ جنت میں اگر وہ جنت میں ہیں تو میں صبر کرتی ہوں اور اگر اس کے علاوہ (دوسری جگہ) میں ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں، آپ نے فرمایا وہ ایک جنت میں نہیں ہے کئی جنتوں میں ہے اور وہ فردوس اعلیٰ میں ہے۔ جنت کا خریدار بنتا ہے (18) امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس کو حسن کہا، اور حاتم نے روایت کیا ہے اور انہوں نے اسے صحیح کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو ڈرتا ہے وہ رات کے آخری حصہ میں چل دے اور جو رات کے آخری حصہ میں چلے گا وہ منزل کو پہنچ جائے گا۔ خبردار بلاشبہ اللہ کا سامان بہت مہنگا ہے (یعنی جنت) ۔ (19) امام حاکم نے ابی کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو ڈرے وہ رات کے آخری حصہ میں چل دے اور جو رات کے آخری حصہ میں چلے گا وہ منزل کو پہنچ جائے گا۔ خبردار بلاشبہ اللہ کا سامان بہت مہنگا ہے۔ خبردار بلاشبہ اللہ کا سامان جنت ہے۔ کانپنے والی آگئی (پھر) اس کے پیچھے آنے والی پیچھے آئے گی (یعنی پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا تو زمین کانپ جائے گی اور پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا) موت آرہی ہے اپنے خوفناک منظر کے ساتھ جو اس کے اندر ہے۔ (20) امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد ﷺ پر کتاب اتاری بلاشبہ اہل جنت کا حسن اور خوبصورتی زیادہ ہوتی جائے گی جیسے دنیا میں بدصورتی اور بڑھاپا زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ واما قولہ تعالیٰ ! لفظ آیت ” تجری من تحتھا الانھر “۔ (21) امام ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تجری من تحتھا الانھر “ اس کے نیچے اس کی نہریں بہتی ہوں گی۔ (22) امام ابن ابی حاتم، ابن حبان، طبرانی، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے البعث میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کی نہریں کستوری کے پہاڑوں کے نیچے سے پھوٹتی ہیں۔ (23) امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ ابن حبان نے التفسیر میں بیہقی نے البعث میں حضر ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جنت کی نہریں کستوری کے پاڑ سے پھوٹتی ہیں۔ (24) احمد اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سبحان، حیحان، فرات اور نیل یہ سب جنت کی نہروں میں سے ہیں۔ (25) امام احمد، عبد بن حمید نے اپنی سند میں نسائی، ابو یعلی، بیہقی نے الدلائل میں الضیاء والمقدسی نے الجنۃ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جنت میں ایک نہر ہے جس کو بیدخ کہا جاتا ہے۔ اس پر یاقوت کے قبے ہیں۔ اس کے نیچے اگنے والی لڑکیاں ہوں گی اہل جنت سے کہیں گے ہم کو بیدخ کی طرف لے چلو۔ وہ وہاں پہنچیں گے اور ان لڑکیوں سے مصافحہ کریں گے۔ ان میں سے کسی آدمی کو کوئی لڑکی پسند آئے گی تو وہ اس کی کلائی سے پکڑے گا تو وہ اس کے پیچھے چلی جائیگی اور اس کی جگہ دوسری اگ آئے گی (یعنی دوسری لڑکی پیدا ہوجائے گی) ۔ (26) امام احمد، عبد بن حمید نے اپنی سند میں نسائی، ابو یعلی، بیہقی نے الدلائل میں الضیاء المقدسی نے صفۃ الجنۃ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اچھا خواب پسند فرماتے تھے۔ آپ کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں نے نیند میں دیکھا گویا کہ میں (گھر سے) نکالی گئی اور جنت میں داخل کردی گئی۔ پھر میں نے ایک دھماکہ خیز آواز سنی کہ اس کے لئے جنت ہے۔ اچانک فلاں اور فلاں کے ساتھ تھی یہاں تک کہ میں نے بارہ آدمی گن دئیے جن کو رسول اللہ ﷺ ایک جنگی مہم پر اس سے پہلے بھیج چکے تھے۔ ان کو اس حال میں لایا گیا کہ ان پر سیاہی مائل خاکستری کپڑے تھے اور ان کی رگوں سے خون بہہ رہا تھا ان سے کہا گیا کہ ان کو نہر بیدخ کی طرف لے جاؤ ان کو اس میں غوطہ دو پھر ان کو نکالا گیا تو ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح (چمک رہے) تھے۔ سونے کی کرسیاں لائی گئیں جن پر ان کو بٹھایا گیا۔ سونے کا ایک تھال لایا گیا جن میں تازہ پھل تھے۔ انہوں نے اس میں سے جتنا چاہا کھایا پھر ان پھلوں کو ادھر ادھر کرتے اور جتنا چاہا پھلوں کو بھی کھایا۔ پھر ایک خوشخبری دینے والا آیا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! ایسا ایسا ہوا اور فلاں فلاں (صحابی) شہید ہوگئے یہاں تک کہ انہوں نے بارہ آدمیوں کو گنا۔ آپ نے فرمایا اس عورت کو میرے پاس لاؤ وہ عورت آئی آپ نے فرمایا اپنے خواب کو اس آدمی پر بیان کر (یہ سن کر اس آدمی نے) کہا ایسا ہی ہے جیسا اس عورت نے کہا فلاں فلاں شہید ہوگئے۔ جنت کی ایک نہر کا ذکر (27) امام بیہقی نے البعث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جنت میں ایک نہر ہے جنت کی لمبائی (کے برابر) جس کے کناروں پر کنواری لڑکیاں آمنے سامنے کھڑی اچھی آوازوں کے ساتھ گا رہی ہوں گی جس کو ساری مخلوق سنے گی یہاں تک کہ وہ خیال کریں گے کہ جنت میں اس جیسی لذت کہیں نہیں ہے ہم نے عرض کیا اے ابوہریرہ وہ گانا کیا ہوگا ؟ انہوں نے فرمایا انشاء اللہ تسبیح، تقدیس اور رب کی ثناء ہوگی۔ (28) امام احمد بن حنبل نے الزہد میں دار قطنی نے المفتاح میں معتمر بن سلیمان (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ جنت میں ایک نہر ہے جو کنواری لڑکیاں اگاتی ہے۔ (29) امام ابن عساکر نے تاریخ میں حضرت انس سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ جنت میں ایک نہر ہے جس کو ریان کہا جاتا ہے اس پر مرجان ایک شہر ہے اس کے ستر ہزار سونے اور چاندی کے دروازے ہیں (اور یہ حامل قرآن کے لئے) ہے۔ (30) امام ابن المابرک، ابن ابی شیبہ، ہناد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور بیہقی نے البعث میں حضرت انس مسروق (رح) سے روایت کیا ہے کہ جنت کی نہریں بغیر نالیوں کے بہہ رہی ہیں اور جنت کی کھجور تنے سے لے کر شاخوں تک پھلوں سے لدی ہوگی اور اس کے پھل مٹکوں کی طرح ہیں جب پھل کو توڑیں گے تو اس کی جگہ دوسرا پیدا ہوجائے گا۔ اور خوشے بارہ ہاتھ (لمبے) ہوں گے۔ (31) امام ابن مردویہ، ابو نعیم، الضیاء المقدسی میں دونوں نے صفۃ الجنۃ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم گمان کرتے ہو جنت کی نہریں زمین کی نالیوں میں بہتی ہوں گی نہیں۔ اللہ کی قسم وہ زمین کی سطح پر بہتی ہوں گی اس کے کناروں پر موتی کے خیمے ہوں گے اور اس کی مٹی اذفر کستوری کی ہوگی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ذفر کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا جس میں کسی اور چیز کی آمیزش نہ ہو۔ (یعنی خالص کستوری) (32) ابن ابی الدنیا، الضیاء اور ابن مردویہ نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت کی نہریں جنت عدن میں سے اکٹھی ہیں۔ پھر بعد میں کئی نہروں میں متفرق ہوجاتی ہیں۔ واما قولہ تعالیٰ ! ” کلما رزقوا منھا “ الآیۃ جنتی پھل دنیوی پھلوں کے مشابہ (33) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ ؓ سے روایت کیا لفظ آیت ” کلما رزقوا منھا من ثمرۃ رزقا “ سے مراد ہے (یعنی جب) جنت میں پھل دئیے جائیں گے تو اس کی طرف دیکھ کر کہیں گے کہ یہ وہی رزق (یعنی پھل) ہیں جو ہم کو اس سے پہلے دنیا میں دئیے گئے تھے اور جو پھل دئیے جائیں گے وہ دیکھنے میں اور رنگ میں دنیا کے پھل کے مشابہ ہوں گے (لیکن) ذائقہ میں مشابہ نہ ہوں گے۔ (34) امام عبد بن حمید نے علی زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کلما رزقوا منھا من ثمرۃ رزقا، قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل “ سے مراد ہے کہ وہ کہیں گے کہ جنت میں آنے سے پہلے دنیا کے پھلوں میں سے ہمیں ایسا پھل دیا گیا تھا۔ (35) امام عبد بن حمید، ابن الانباری نے کتاب الاضداد میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ھذا الذی رزقنا من قبل “ یعنی دنیا میں ” واتوا بہ متشابھا “ یعنی دینا کے پھلوں کے مشابہ ہوں گے سوائے اس کے جنت کے پھل بہت پاکیزہ اور عمدہ ہو ؓ گے۔ (36) امام مسدو، ہناد نے الزہد میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ دنیا میں جنت کی چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں مگر صرف ان کے نام ہیں۔ (لیکن جنت کے پھلوں کا ذائقہ اور لذت اور ہوگی) ۔ (37) امام دیلمی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شادی کے کھانے میں ایک مثقال جنت کی خوشبو کا ہوتا ہے۔ (38) عبعد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ھذا الذی رزقنا من قبل “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لوگ پوچھتے ہیں دنیا کی چیزوں کو آخرت کی چیزوں سے کیا مشابہت ہے، فرمایا ہر صنف میں سے ایک مثل ہے۔ (39) امام عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ھذا الذی رزقنا من قبل “ من من قبل سے ان کا کہنا یہ ہے کہ (یہ پھل) ان کے مثل ہیں جو کل تھے (دنیا میں) ۔ (40) ابن جریر نے یحییٰ بن کثیر (رح) سے روایت کیا کہ ان میں سے ایک آدمی کو ایک پیالہ دیا جائے گا وہ اس میں سے کھائے گا پھر دوسرا دیا جائے گا تو وہ کہے گا کہ یہ (اسی کے مشابہ) ہے جو اس سے پہلے ہم کو دیا گیا۔ فرشتہ کہے گا ہر ایک کا رنگ ایک ہے مگر ذائقہ مختلف ہے۔ (41) وکیع، عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” واتوابہ متشابھا “ سے مراد ہے یعنی رنگ میں ایک جیسے ہوں گے اور ذائقے میں مختلف ہوں گے جیسے لکڑیاں کھیرے (کہ ان دونوں کے رنگ ایک ہیں مگر ذائقہ مختلف ہیں) ۔ (42) امام عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتوابہ متشابھا “ سے مراد ہے کہ جنت کے پھل عمدہ اور بہترین ہوں گے، ان میں کوئی خراب نہیں ہوگا۔ (43) امام عبد حمید، ابن جریر نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتوابہ متشابھا “ سے مراد ہے کہ جنت میں تمام پھل عمدہ اور بعض بعض کے مشابہ ہوگا (لیکن) کوئی اس میں خراب نہ ہوگا۔ کیا تم نے دنیا کے پھلوں کو نہیں دیکھا کہ کس طرح بعض خراب ہوتے ہیں۔ (44) امام بزار اور طبرانی نے حضرت ثوبان رضٰ اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اہل جنت میں سے (جب) کوئی آدمی پھل توڑے گا تو اس کی جگہ اسی کی مثل دوسرا پھل لگ جائے گا۔ (45) ابن عساکر اپنی تاریخ میں ابن حیوۃ نے خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان رحمہم اللہ سے روایت کیا اس درمیان کہ میں ارض جزیرہ میں سفر کر رہا تھا اچانک میں چند راہبوں اور علماء کے پاس سے گزرا میں نے سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا میں نے کہا تم لوگوں کا کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا ہم اس گرجا کے راہب کے پاس (جانے کا) ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم ہر سال یہاں آتے ہیں اور وہ ہم کو آئندہ سال ہونے والے وا قعات کے بارے میں خبر دیتا ہے میں نے کہا میں اس راہب کے پاس جاتا ہوں اور ضرور دیکھوں گا جو کچھ اس کے پاس ہے میری مراد یہ تھی کہ اس کے پاس کوئی کتابیں ہیں۔ میں اس کے پاس آیا اور وہ اپنے عبادت خانہ کے دروازہ پر کھڑا تھا۔ میں نے سلام کیا تو اس کا جواب دیا پھر کہنے لگا تو کن لوگوں میں سے ہے میں نے کہا مسلمانوں میں سے، اس نے کہا کیا امت محمد ﷺ میں سے ؟ میں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا ان کے علماء میں سے یا ان کے جہلاء میں سے، میں نے کہا میں نہ ان کے علماء میں سے ہوں اور نہ ان کے جہلا میں سے۔ اس (راہب) نے کہا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل کئے جاؤ گے اور اس کے کھانے میں سے کھاؤ سے اور اس کے پینے میں سے پیو گے۔ اور تم نہ پیشاب کرو گے اور نہ پاخانہ کرو گے۔ میں نے کہا، ہم یہ بات کہتے ہیں اور یہ اسی طرح سے ہے اس نے کہا اگر اس کی کوئی مثال دنیا میں ہو تو مجھے بتاؤ کہ وہ کیا ہے میں نے کہا اس کی مثال دودھ پینے والے بچے کی سی ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو ماں کے پیٹ میں رزق دیتے ہیں وہ نہ پیشاب کرتا ہے اور نہ پاخانہ کرتا ہے۔ (یہ سن کر) اس کے چہرہ کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا۔ کیا تو نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ میں ان کے علماء میں سے نہیں ہوں۔ میں نے کہا میں نے تجھ سے جھوٹ نہیں بولا۔ پھر وہ کہنے لگا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل کئے جاؤ گے اور اس کے کھانے میں سے کھاؤ گے اور اس کے پینے میں سے پیو گے اور اس میں نے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ میں نے کہا ہم یہ بات کہتے ہیں اور یہ اسی طرح سے ہے۔ اس نے کہا اگر اس کی مثال ثنیا میں ہے تو مجھے بتاؤ وہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس کی مثال دنیا میں حکمت کی مثال کی طرح ہے۔ اگر اس میں سے ساری مخلوق جان لیتی ہے تو اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوتی۔ اس کے چہرہ کا رنگ بدل گیا پھر کہنے لگا کیا تو نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ میں ان کے علماء میں سے نہیں ہوں میں نے کہا میں نے تجھ سے جھوٹ بولا میں ان کے علماء میں سے نہیں ہوں اور نہ ان کے جہلا میں سے ہوں۔ (46) امام حاکم اور ابن مردویہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لفظ آیت ” ولہم فیہا ازواج مطھرۃ “ سے مراد ہے جنت والوں کی بیویاں حیض سے، پاخانہ سے، ناک کی رینٹ سے اور تھوک سے پاک ہوں گئیں۔ (47) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولہم فیہا ازواج مطھرۃ “ سے مراد ہے کہ جنت والوں کی بیویاں گندگی سے اور ہر تکلیف دینے والی چیز سے پاک ہوں گے۔ (48) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولہم فیہا ازواج مطھرۃ “ سے مراد ہے کہ جنت والوں کی بیویوں کو نہ حیض آئے گا، نہ پیشاب پاخانہ آئے گا اور نہ ناک کی رینٹ آئے گی۔ (49) وکیع، عبد الرزاق اور ہناد نے الزہد میں، عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولہم فیہا ازواج مطھرۃ “ سے مراد ہے (کہ وہ بیویاں پاک ہوں گی) حیض سے، پاخانہ سے، پیشاب سے، ناک کی رینٹ سے، بلغم سے، تھوک سے، منی سے اور بچہ پیدا کرنے سے۔ (50) امام وکیع اور ہناد نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولہم فیہا ازواج مطھرۃ “ سے مراد ہے (کہ وہ عورتیں پاک ہوں گی) نہ ان کو حیض آئے گا، نہ ان کو منی آئے گی، نہ ان کو بچہ پیدا ہوگا، وہ نہ پاخانہ کریں گی، نہ وہ پیشاب کریں گی اور نہ تھوکیں گی۔ (51) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولہم فیہا ازواج مطھرۃ “ سے مراد ہے کہ پاک کر دے گا ان کو اللہ تعالیٰ ہر پیشاب سے، اور پاخانہ سے اور گندگی سے اور گناہ سے۔ (52) امام ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ابن ماجہ اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پہلی جماعت داخل ہوگی جنت میں تو ان کی صورتیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی وہ اس میں نہ تھوکیں گے نہ ناک کی رینٹ نکالیں گے اور نہ پاخانہ کریں گے ان کے برتن اور کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی۔ ان کی دھونیاں عود کی ہوں گی اور ان کی کنکریاں کستوری کی ہوگی۔ ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی۔ حسن کی وجہ سے ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے پیچھے سے دیکھا جائے گا۔ آپس میں کوئی اختلاف نہ ہوگا۔ نہ آپس میں بغض ہوگا۔ ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے صبح اور شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ چودہوں کے چاند جیسے چہرے (53) امام ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس روایت کا صحیح کہا ہے اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پہلی جماعت جنت میں داخل ہوگی تو ان کے چہرے چودہوں رات کے چاند کی طرح ہوں گے۔ اور دوسرے (جماعت کے چہرے) آسمان میں چمکتے ہوئے ستارہ سے بھی خوبصورت ہوں گے ان میں سے ہر ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں گی۔ ہر ایک بیوی کے ستر جوڑے ہوں گے۔ جوڑوں کے پیچھے ان کی پنڈلیوں کا گودا نظر آئے گا۔ (54) امام احمد اور ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اہل جنت میں سے ادنیٰ درجے کے جنتی کے اسی ہزار خادم ہوں گے اور بہتر (72) بیویاں ہوں گی۔ اور اس کی رہائش گاہ کا قبہ موتی یا یاقوت اور زبرجد کا ہوگا (اتنا طویل) جیسے جابیہ اور صنعاء کے درمیان (فاصلہ) ہے۔ (55) امام احمد، مسلم، بخاری اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام آپس میں تذکرہ کر رہے تھے کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں ؟ انہوں نے فرمایا کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جنت میں ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی، اور ستر جوڑے کے پیچھے ان کی پنڈلیوں کا گودا نظر آئے گا اور جنت میں کوئی کنوارہ نہ ہوگا۔ (56) ترمذی اور البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں ہر بندے کی ستر بیویوں سے شادی کی جائے گی۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ ﷺ وہ اس کی طاقت رکھے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کو ستر مردوں کی طاقت دی جائے گی۔ (57) ابن السکن نے المعرفہ میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حاطب بن ابی بلتہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مؤمن کی جنت میں بہتر عورتوں سے شادی کی جائے گی۔ ستر آخرت کی عورتیں ہوں گی اور دو دنیا کی عورتیں ہوں گی۔ (58) امام ابن ماجہ اور ابن عدی نے الکامل میں بیہقی نے البعث میں حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائیں تو اس کی بہتر بیویوں سے شادی فرمائیں گے دو حورعین میں سے ہوں گی اور ستر اہل جنت کی میراث میں سے ہوں گی ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہوگی مگر اس کے لئے فرج ہوگی خواہش کرنے والی اور اس کے مرد کے لئے ذکر ہوگا جو نہ مڑے گا (یعنی دوہرا نہ ہوگا) ۔ (59) امام احمد نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اہل جنت میں سے ادنیٰ جنتی کا وہ مقام ہوگا جس کے سات درجات ہوں گے اور وہ چھٹے (درجہ) پر ہوگا اور اوپر اس کے ساتواں ہوگا اور اس کے لئے تین خادم ہوں گے۔ ہر دن اس کے لئے صبح شام تین سو پیالے سونے کے لائیں گے۔ ہر ایک پیالہ میں ایسا رنگ ہوگا جو دوسرے میں نہ ہوگا۔ اور جس طرح اول اس کا لذیذ ہوگا اسی طرح اس کا آخر بھی لذیذ ہوگا۔ اور وہ کہے گا اے میرے رب اگر آپ مجھے اجازت فرمائیں تو میں یہ (کھانا) اہل جنت کو کھلاؤں اور ان کو پلاؤں میرے پاس اس میں سے کوئی چیز بھی کم نہ ہو۔ اور اس کے لئے بہتر بیویاں ہوں گی حورعین میں سے، اور ان میں سے ہر ایک اپنے بیٹھنے کے لئے زمین کے ایک میل کے بقدر جگہ لے گی۔ (60) امام بیہقی نے البعث میں ابو عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اہل جنت میں سے ہر آدمی کی شادی کی جائے گی چار ہزار کنواری عورتوں سے، آٹھ ہزار بیوہ عورتوں سے، اور ایک سو چوروں سے، ہر ساتویں دن وہ اکٹھی ہوں گی، اور وہ ایسی خوبصورت آواز کے ساتھ کہیں گی کہ اس کی مثل کسی مخلوق نے ایسا نہیں سنا ہوگا۔ (وہ کہیں گی) ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں، ہم کبھی ہلاک نہ ہوں گی۔ ہم نرم و نازل ہیں ہم کبھی سخت مزاج نہ ہوں گے۔ ہم ہمیشہ راضٰ رہنے والیاں ہیں ہم کبھی ناراض نہ ہوں گی۔ ہم اپنے مقام پر ٹھہرنے والیاں ہیں ہم یہاں سے کوچ نہیں کریں گی۔ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو ہمارے لئے ہے اور ہم اس کے لئے ہیں۔ (61) امام احمد اور بخاری نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک صبح اور ایک شام اللہ تعالیٰ کے راستے میں (صرف کرنا) دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سے بہتر ہے۔ اور کمان کی مقدار (کی جگہ) جنت میں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہے۔ اور اگر اہل جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے تو زمین و آسمان کے درمیان جو چیزیں ہیں روشن ہوجائیں۔ اور جو کچھ ان کے درمیان ہے خوشبو سے بھر جائیں۔ اور اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہے۔ (62) امام ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنۃ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اہل جنت کی عورتوں میں سے اگر کوئی عورت سات سمندروں میں تھوک دے تو یہ سمندر شہد سے زیادہ میٹھے ہوجائیں۔ (63) امام احمد نے الزہد میں حضرت ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے تو سازی زمین میں کستوری کی خوشبو سے بھر جائے۔ (64) ابن ابی شیبہ اور ہناد بن السری نے کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت اپنی ہتھیلی کو ظاہر کر دے تو آسمان اور زمین کا درمیان روشن ہوجائے۔ جنتی مرد کی قوت سو آدمیوں کے برابر (65) امام ابن ابی شیبہ، احمد اور ہناد بن السری الزہد میں، نسائی، عبد بن حمید نے اپنی مسند میں ابن المنذر اور ابن ابی حاتم ؓ سے روایت کیا ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا اے ابو قاسم (یہ حضور ﷺ کی کنیت ہے) کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ جنت والے کھائیں گے اور پئیں گے۔ آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ بلاشبہ (اہل جنت میں سے) ہر ایک آدمی کو تم جیسے سو آدمیوں کی قوت دی جائے گی۔ کھانے میں، پینے میں، جماع میں اور شہوت میں۔ اس نے کہا اگر وہ کھائے گا اور پیئے گا تو اس کو حاجت (بھی) ہوگی اور جنت پاک ہے اس میں گندگی تکلیف دینے والی چیز نہیں ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کی حاجت پسینہ (کی شکل میں) ہوگی جو کستوری کی خوشبو کی طرح بہہ جائے گی۔ جب پسینہ نکل جائے گا تو اس کا پیٹ اس (گندگی) کو غائب کر دے گا۔ (66) امام ابو یعلی، طبرانی، ابن عدی نے کامل میں اور بیہقی نے البعث میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا جنت والے نکاح کریں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! خوب خوب نکاح کریں گے۔ نہ منی ختم ہوگی اور نہ خواہش۔ (67) امام بزار، الطبرانی اور الخطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہم جنت میں اپنی عورتوں کی طرف پہنچیں گے آپ نے فرمایا بلاشبہ مرد ایک دن میں سو کنواری عورتوں کی طرف پہنچے گا (یعنی ان سے جماع کرے گا) ۔ (68) امام ابو یعلی اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ پوچھا گیا یا رسول اللہ ! کیا ہم جنت میں اپنی عورتوں سے اپنی حاجت پوری کریں گے جیسا کہ دنیا میں ان سے اپنی خواہش پوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے بلاشبہ ایک آدمی ایک صبح میں سو کنواری عورتوں سے اپنی خواہش پوری کرے گا۔ (69) ابن ابی حاتم اور الطبرانی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کیا جنت والے نکاح کریں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ایسی فرج کے ساتھ جو نہیں اکتائے گی اور ایسے ذکر کے ساتھ جو نہیں مڑے گا (جماع سے) اور ایسی شہوت کے ساتھ جو نہ ختم ہوگی (اور تم) پے در پے جماع کرو گے۔ (70) امام عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا اور البزار نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کیا جنت والے اپنی بیویوں کو چھوئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ایسے ذکر کے ساتھ جو نہیں اکتائے گا اور ایسی فرج کے ساتھ جو نہیں روکے گی اور ایسی شہوت کے ساتھ جو ختم نہیں ہوگی۔ (71) الحرث بن ابی اسامہ اور ابن ابی حاتم نے سلیم بن عامر اور ھیثم طائی ؓ سے رایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے جنت میں عورتوں سے جماع کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا ہاں ایسی فرج کے ساتھ جو خواہش کرنے والی ہوگی اور ایسے ذکر کے ساتھ جو نہیں اکتائے گا۔ اور بلاشبہ ایک شخص جنت میں چالیس سال کی مقدار اپنا تکیہ لگا کر بیٹھا رہے گا۔ اس سے نہ گھومے گا اور نہ ہی اس سے اکتائے گا۔ اس میں ہر وہ چیز اس کے پاس آئے گی جو اس کے طبیعت چاہے گی۔ اور (جس سے) اس کی آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی۔ (72) امام بیہقی نے البعث میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں خارجہ عذری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے تبوک میں ایک آدمی کو (یہ پوچھتے ہوئے) سنا کہ یا رسول اللہ ! کیا جنت والے (عورتوں سے) جماع کریں گے ؟ (آپ ﷺ نے فرمایا ان میں سے ایک آدمی کو ایک دن میں (جماع کے لئے) اتنی قوت دی جائے گی جو تم میں سے ستر آدمیوں (کی قوت) سے زیادہ ہوگی۔ (73) امام طبرانی نے زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ پیشاب اور جنابت (کا پانی) ایک پسینہ ہوگا جو ان کے سر کے بالوں سے لے کر ان کے قدموں تک بہے گا کستوری کی خوشبو کے ساتھ۔ (74) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ جنت میں منی اور موت نہیں ہے اور تم ضرور ان سے خوب خوب لگوگے (یعنی متواتر جماع کرو گے) ۔ جنت میں موت نہیں (75) امام عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے طاؤس (رح) سے رایت کیا کہ جنت والے عورتوں سے نکاح کریں گے (اور) بچے نہیں جنیں گے۔ جنت میں منی اور موت نہیں ہے۔ (76) امام عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے عطاء خراسانی (رح) سے بھی اسی طرح کی روایت کیا ہے۔ (77) امام وکیع، عبد الرزاق، ہناد، ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ جنت میں جماع ہوگا جو تو چاہے گا اور اولاد نہیں ہوگی۔ پھر فرمایا جب (جنتی آدمی) متوجہ ہوگا اور ایک نظر سے (اپنی بیوی کو) دیکھے گا تو اس کو شہوت پیدا ہوگی۔ پھر دوسری دفعہ دیکھے گا تو دوسری شہور پیدا ہوگی۔ (78) الضیاء المقدسی نے صفۃ الجنۃ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جنت میں جماع کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ہاں (عورتوں سے جماع ہوگا) اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ متواتر جماع ہوگا۔ جب ایک مرتبہ جماع سے فارغ ہوگا تو عورت پھر پاک اور کنواری ہوجائے گی۔ (79) امام بزار اور طبرانی نے الصغیر میں اور ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب جنت والے اپنی عورتوں سے جماع کریں گے تو دوبارہ ان کے پاس آئیں گے تو وہ کنواری ہوجائیں گی۔ (80) عبد بن حمید، احمد بن حنبل نے زوائد الزہد میں اور ابن المنذر نے عبد اللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ مؤمن جب اپنی بیوی سے (جماع کا) ارادہ کرے گا تو اس کو کنواری پائے گا۔ (81) امام ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جنت والوں میں سے مرد کی لمبائی نوے میل ہوگی اور عورت کی لمبائی تیس میل ہوگی اور اس کے بیٹھنے کی جگہ ساٹھ ہاتھ لمبی اور ساٹھ ہاتھ چوڑی یعنی ایک بیگہ (کے برابر) ہوگی اور مرد کی شہوت عورت کے جسم سے ستر سال تک جاری رہے گی اور وہ لذت کو پائے گی۔ (82) احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے البعث میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی عورت دنیا میں اپنے خاوند کو تکلیف دیتی ہے تو حورعین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے اللہ تعالیٰ تجھے غارت کرے وہ تیرے پاس مہمان ہے قریب ہے کہ تجھ سے جدا ہو کر ہماری طرف آنے والا ہے۔ اما قولہ تعالیٰ ! ” وہم فیہا خلدون “۔ (83) امام ابن اسحاق، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وہم فیہا خلدون “ سے مراد ہے یعنی وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کو خبر دی جائے گی کہ نیکی (کا ثواب) اور برائی (یعنی کفر) کا (عذاب) قائم رہنے والا ہے یعنی ہمیشہ ہوگا وہ اس کے لئے ختم نہیں ہوگا۔ (84) امام احمد اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وہم فیہا خلدون “ سے مراد ہے یعنی وہ نہیں مریں گے (ہمیشہ رہیں گے) ۔ (85) الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس (رح) و سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ارزق نے ان سے پوچھا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ اس قول لفظ آیت ” وہم فیہا خلدون “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا وہ اس میں (اتنا) ٹھہریں گے کہ اس سے کبھی بھی نہ نکالے جائیں گے انہوں نے عرض کیا کیا عرب لوگ اس معنی کو جانتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! کیا تو نے عدی بن زید کا قول نہیں سنا : فہل من خالد اما ہلکنا وہل بالموت یا للناس عار ترجمہ : کیا ہمیشہ رہیں گے یا ہلاک ہوجائیں گے۔ اے لوگو ! کیا موت سے بھاگنا ہے۔ (86) امام عبد بن حمید، بخاری، مسلم اور ابن مردویہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو ان کے درمیان ایک آواز لگانے والا کھڑے ہو کر (کہے گا) اے دوزخ والو ! (اب) موت نہیں آئے گی اور اے جنت والو ! اب موت نہیں آئے گی ہر ایک اس میں ہمیشہ رہے گا جو جہاں ہے۔ (87) امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت والوں سے کہا جائے گا ہمیشہ رہو گے (اب) موت نہیں آئے گی۔ موت کو ذبح کیا جائے گا (88) امام عبد بن حمید، ابن ماجہ، حاکم انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے اور ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا موت کو چت کبرے مینڈے کی صورت میں لایا جائے گا اور اس کو ہل صراط پر کھڑا کیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا اے جنت والو ! وہ دیکھیں گے خوف کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اس بات سے کہ کہیں ان کو اس جگہ سے نکال نہ دیا جائے ان سے پوچھا جائے گا کیا تم اس کو جناتے ہو ؟ وہ کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر کہا جائے گا اے دوزخ والو ! وہ متوجہ ہوں گے خوش ہوتے ہوئے کہ ان کو اس (دوزخ) سے نکالا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم اس کو جانتے ہو ؟ وہ کہیں گے ہاں ! یہ موت ہے پھر اس (موت) کے لئے حکم دیا جائے گا اور اس کو پل صراط پر ذبح کردیا جائے گا۔ (اس کے بعد) دونوں فریقین (یعنی جتنی اور دوزخی) سے کہا جائے گا جس جس جگہ تم ہو اس میں ہمیشہ رہو گے۔ اس میں کبھی موت نہیں آئے گی۔ (89) امام طبرانی اور حاکم نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کی طرف بھیجا جب وہ وہاں پہنچے تو فرمایا اے لوگو ! میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں تمہاری طرف۔ بلاشبہ اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف (وہاں کا داخلہ) ہمیشہ کے لئے ہوگا بغیر موت کے۔ اور وہاں کا ٹھہرنا بغیر سفر کے (ہمیشہ) ہے (اور) ایسے جسموں میں رہنا ہے جن کو موت نہیں آئے گی۔ (90) امام طبرانی، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر دوزخ والوں کو یہ کہا جائے کہ تم دوزخ میں دنیا کی کنکریوں کی تعداد کے برابر ہوگے تو وہ اس سے خوش ہوجائیں۔ اور اگر جنت والوں سے یہ کہا جائے کہ تم (دنیا کی) کنکریوں کی تعداد کے برابر جنت میں رہو گے تو وہ غمگین ہوجائیں۔ لیکن ان کے لئے ہمیشہ رہنا بنا دیا گیا۔
Top