Dure-Mansoor - Al-Baqara : 245
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً١ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ١۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
مَنْ : کون ذَا : وہ الَّذِيْ : جو کہ يُقْرِضُ : قرض دے اللّٰهَ : اللہ قَرْضًا : قرض حَسَنًا : اچھا فَيُضٰعِفَهٗ : پس وہ اسے بڑھا دے لَهٗٓ : اس کے لیے اَضْعَافًا : کئی گنا كَثِيْرَةً : زیادہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَقْبِضُ : تنگی کرتا ہے وَيَبْصُۜطُ : اور فراخی کرتا ہے وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے
کون ہے جو قرض دے اللہ کو قرض حسن، پھر اللہ اس کے لئے اضافہ دے چند در چند بہت سے اضافے فرما کر، اور اللہ تنگی فرماتا ہے اور کشادہ فرماتا ہے، اور اس کی طرف لوٹا دئیے جاؤ گے
(1) سعید بن منصور، ابن سعد، البزار، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں طبرانی اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ “ نازل ہوئی تو ابو الدحداح انصاری ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض لینے کا ارادہ فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اے ابو الدحداح۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اپنا ہاتھ دیجئے۔ آپ نے اپنا ہاتھ مبارک دے دیا تو اس نے کہا میں اپنے رب کو اپنا باغ قرض دیتا ہوں اور وہ باغ بھی جس میں چھ سو کھجوروں کے درخت ہیں اور اس میں ام الدحداح بھی ہے اور اس کے بچے بھی (رہتے ہیں) ابو الدحداح ؓ آئے اور آواز لگائی اے دحداح کی ماں اس نے کہا لبیک میں حاضر ہوں کیا کہتے ہو ؟ پھر کہا یہاں سے نکل جاؤ میں (یہ باغ) اپنے رب عزوجل کو قرضہ دے چکا ہوں۔ (2) عبد الرزاق و ابن جریر نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا “ نازل ہوئی تو ابو الدحداح ؓ نبی اکرم ﷺ کی خدمت عالی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ بتائیے کیا ہمارا رب ہم سے قرضہ مانگ رہے ہیں۔ ان مالوں میں سے جو انہوں نے ہم کو عطا فرمائے ہیں۔ میرے دو باغ ہیں ایک عالیہ میں اور دوسرا سافلہ میں۔ اور ان میں سے جو بہتر ہے صدقہ کرتا ہوں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ابن وحداح کے لئے جنت میں ایسے کھجور ہیں جن سے پھل آسانی سے توڑا جاسکتا ہے۔ امام طبرانی نے الاوسط بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمر بن خطاب ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ (3) ابن مردویہ نے، زہد بن اسلم سے انہوں نے عطاء بن یسار کے طریق سے اور انہوں نے الاعرج سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا “ نازل ہوئی تو ابن الدحداح ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو باغ ہیں ان میں سے ایک سافلہ میں ہے اور دوسرا عالیہ میں ہے۔ ان میں سے ایک کو میں نے اپنے رب کے لئے قرض دے دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ سے قرض کو قبول کرلیا ہے۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے بھی باغ ان یتیموں کو عطا فرما دیا جو ان کی پرورش میں تھے۔ اور نبی اکرم ﷺ دعا فرماتے تھے اے میرے رب ابن الدحداح ؓ کے لئے جنت میں کھجور کے ایسے باغ ہوں کہ ان کے گچھے لٹکے ہوئے ہوں جن سے پھل آسانی سے توڑا جاسکے۔ (4) ابن سعد نے یحییٰ بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” فمن ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ “ نازل ہوئی تو کثیر اللہ تعالیٰ کے نزدیک لاکھ دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کو دو لاکھ نیکیوں تک بڑھا دیتے ہیں۔ (5) ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان نے اپنی صحیح میں، ابن مردویہ، بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل “ (البقرہ 265) آخر تک نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے میرے رب میری امت کے لئے اور زیادہ کیجئے تو پھر (یہ آیت) نازل ہوئی ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ “ پھر آپ نے فرمایا اے میرے رب میری امت کے لئے اور زیادہ کیجئے تو (یہ آیت) نازل ہوئی ” انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب “ (الزمر آیت 10) (6) ابن المنذر نے سفیان ؓ سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) نازل ہوئی ” فمن جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا “ (انعام آیت 160) تو آپ ﷺ نے فرمایا اے میرے رب میری امت کے لئے اور زیادہ کیجئے تو (یہ آیت) نازل ہوئی۔ ” مثل الذی ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل “ پھر آپ نے فرمایا اے میرے رب میری امت کے لئے اور زیادہ کیجئے۔ تو (یہ آیت) نازل ہوئی۔ ” انام یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب “ (الآیہ) ۔ (7) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم ؓ سے ” قرضا حسنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا۔ قرضہ حسنہ کی ایک اور مثال (8) ابن ابنی شیبہ، ابن ابی حاتم نے ابو سفیان سے ابو الحیان (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وہ مسائل کو یہ کہتے ہوئے سنتے لفظ آیت ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا “ تو فرماتے سبحان اللہ، الحمدللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر (کہنا) ہے یہ قرض حسن ہے۔ (9) ابن ابی حاتم نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا کہ میں نے ایک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو آدمی ایک مرتبہ ” قل ھو اللہ احد “ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک کروڑ کمرے موتی اور یاقوت کے جنت میں بنا دیں گے۔ کیا میں اس کی تصدیق کروں ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! کیا تو اس سے تعجب کرتا ہے اور وہ دو کروڑ اور تین کروڑ بیشمار نیکیاں عطا فرماتا ہے۔ پھر پڑھا لفظ آیت ” فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ “ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک کثیر وہ تعداد ہے جو گنی نہ جاسکے۔ (10) ابو الشیخ نے العظمہ میں، بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر فرشتہ کہتا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کو آج کے دن قرض دے گا۔ کل کے دن (یعنی قیامت کے دن) بدلہ دیا جائے گا اور دوسرے دروازہ پر فرشتہ آواز لگاتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ عنایت فرما اور روکنے والے کے مال کو تلف کو اور دوسرے دروازہ کا فرشتہ آواز لگاتا ہے اے لوگو ! اپنے رب کی طرف آجاؤ وہ مال جو تھوڑا ہو اور کافی ہوجائے گا وہ بہتر ہے اس مال سے جو بہت ہو اور (خدا کی یاد سے) غافل کر دے۔ اور (اس طرح) دوسرے دروازے کا فرشتہ آواز لگاتا ہے اے آدم کے بیٹے ! موت کے لئے جنو۔ اور عمارتیں بناؤ ویران ہونے کے لئے۔ (11) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیۂ وسلم نے فرمایا اور آپ اس حدیث کو اپنے رب عزوجل سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں اے آدم کے بیٹے اپنے خزانے میں سے میرے پاس امانت رکھ دو اور میں تجھے پورا پورا واپس کردوں گا جبکہ تو اس کا زیادہ محتاج ہوگا۔ وأما قولہ تعالیٰ : واللہ یقبض ویبصط، والیہ ترجعون : (12) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” واللہ یقبض “ سے مراد ہے کہ اللہ صدقہ کو روکتے ہیں ” ویبصط “ یعنی اس کا بدلہ عطا فرماتے ہیں (اور) ” والیہ ترجعون “ یعنی ان کو مٹی سے پیدا فرمایا اور مٹی میں واپس لوٹا دے گا۔ (13) احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر، بیہقی نے اپنی سنن میں انس ؓ سے روایت کیا کہ قیمت مہنگی ہوگئی تو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے لئے قیمت مقرر فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیمت مقرر فرمانے والے ہیں اور تنگی کرنے والا کشادگی کرنے والا اور رزق دینے والا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے (اس حال میں) ملاقات کروں کہ تم میں سے کوئی بھی مجھ سے خون اور مال کے ظلم کا مقابلہ کرنے والا نہ ہوگا۔ قیمت بڑھانا گھٹانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے (14) ابو داؤد اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ (ہر چیز کی) قیمت مقرر کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا بلکہ میں دعا کرتا ہوں پھر آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ قیمت (مقرر کر دیجئے) آپ نے فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ قیمت کو نیچے کرتے ہیں اور اونچا کرتے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ تم میں سے کسی کے لئے میرے اوپر ظلم کا دھبہ نہ ہوگا۔ (15) البزار نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ کہا گیا یا رسول اللہ ہمارے لئے قیمت مقرر فرما دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا قیمت کا مہنگا اور سستا ہوجانا اللہ کے ہاتھ میں ہے میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کوئی بھی ایسا نہ ہو جو مجھ سے ایسے ظلم کا مطالبہ کرنے والانہ ہوگا جو میں نے کرلیا۔ (16) ابن جریر نے ابن زیاد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کون آدمی اس کے راستہ میں قتال کرتا ہے اور کون قتال کرنے کی طاقت نہیں پاتا۔ اور اس آدمی کے بارے میں بھی جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قتال نہیں کرتا طاقت پاتے ہوئے بھی (پھر) ان لوگوں کو قرضی کی طرف بلایا اور فرمایا لفظ آیت ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ واللہ یقبض ویبصط “ فرمایا تم پر (رزق کو) کشادہ کرتا ہے اور تو جنگ میں نکلنے سے بھاری ہوجاتا ہے کہ تو اس کا ارادہ بھی نہیں کرتا ہے اور تو اس سے رک جاتا ہے حالانکہ اس کا دل خوش ہوتا ہے نکلنے سے اور تو اس کو قوت دے اپنے مال سے جو تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو تیرے لئے بھی (اس جہاد میں) حصہ ہوگا۔
Top