Dure-Mansoor - Al-Baqara : 194
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ : حرمت والا مہینہ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ : بدلہ حرمت والا مہینہ وَ : اور الْحُرُمٰتُ : حرمتیں قِصَاصٌ : قصاص فَمَنِ : پس جس اعْتَدٰى : زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر فَاعْتَدُوْا : تو تم زیادتی کرو عَلَيْهِ : اس پر بِمِثْلِ : جیسی مَا : جو اعْتَدٰى : اس نے زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ المتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں
حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینہ کے عوض اور حرمتیں معاوضہ کی چیزیں ہیں، سو جو شخص تم پر کوئی زیادتی کرے تو اس پر اتنی ہی زیادتری کرو جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین کرو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے
(1) امام بکاری نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کو کس چیز نے اس بات پر آمادہ کیا کہ ایک سال حج کرو اور ایک سال عمرہ اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد چھوڑ دو اور آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کتنی رغبت دلائی ہے انہوں نے فرمایا اے میرے بھائی کے بیٹے اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ ایمان لانا اللہ پر اور اس کے رسول پر پانچ نمازیں (پڑھنا) رمضان کے روزے رکھنا زکوٰۃ ادا کرنا اور بیت اللہ کا حج کرنا اس شخص نے کہا کیا آپ نے نہیں سنا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا لفظ آیت ” وان طایفتن من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما “ (الحجرات آیت 9) (اور) لفظ آیت ” وقتلوہم حتی لاتکون فتنۃ “ (پھر) فرمایا ہم نے رسول اللہ ﷺ میں (ایسا ہی) کیا (اس وقت) اسلام تھوڑا تھا اور ایک آدمی اپنے دین کے بارے میں آزمائش میں مبتلا کیا جاتا تھا تو لوگ اسے قتل کردیتے یا اسے عذاب دیتے۔ یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا اب کوئی فتنہ نہیں رہا۔ (2) ابن ابی حاتم نے ابو ظبیان (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی حضرت سعد ؓ کے پاس آیا اور کہا کیا آپ قتال کے لئے نہیں نکلے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے حضرت سعد ؓ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قتال کرچکا یہاں تک کہ فتنہ نہیں رہا لیکن تو اور ذوالبطین یہ چاہتے ہو کہ میں قتال کروں یہاں تک کہ (دوبارہ) فتنہ ہوجائے۔ (3) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے چھٹے سال میں عمرہ کا سفر فرمایا اور مشرکوں نے آپ کو (مکہ شہر میں) داخل ہونے اور بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا اور آپ کو آپ کے ساتھ مسلمانوں کو ذوالقعد میں روک دیا جو رحمت والا مہینہ تھا یہاں تک کہ آپس میں اگلے سال (مکہ شہر) میں داخل ہونے کا فیصلہ ہوا پھر آپ اور آپ کے ساتھ مسلمانوں میں سے اگلے سال (معاہدہ کے مطابق مکہ شہر میں) داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کو بیان فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص “۔ (4) الواحدی نے الکلبی سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ اس وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت اللہ سے روک دئیے گئے پھر مشرکوں نے آپ سے اس بات پر صلح کرلی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کے لئے آئیں گے جب آئندہ سال آیا تو آپ نے اور آپ کے صحابہ نے عمر قضا کی تیاری کی اور اس بات کا خوف بھی تھا کہ قریش اس وعدہ کو پورا نہ کریں گے اور ان کو مسجد حرام سے روک دیں گے۔ اور ان سے قتال کریں گے اور صحابہ کرام ؓ نے حرمت والے مہینہ میں اس سے قتال کرنے کو ناپسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر (یہ آیت) اتاریں۔ احرام سے نکلنے کا طریقہ حلق یا قصر ہے (5) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب نے ذوالقعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا اور ان کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے یہاں تک کہ جب یہ لوگ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکوں نے ان کو روک دیا تو رسول اللہ ﷺ نے (آئندہ سال) لوٹ کر آنے پر ان سے صلح کرلی (اور یہ طے پایا) کہ آئندہ سال آپ لوگ آئیں دن مکہ مکر مہ میں رہیں اور آپ کے ساتھ مکہ والوں میں سے کوئی نہیں جائے گا (یہ معاہدہ طے ہوجانے کے بعد) رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب نے حدیبیہ میں اپنے جانوروں کو ذبح کردیا اور بالوں کا حلق یا قصر کرالیا جب آئندہ سال آیا تو آپ اپنے صحابہ کے ساتھ (دوبارہ) تشریف لائے اور ذوالقعدہ میں مکہ میں داخ (رح) ہوگئے۔ (سب نے) عمرہ ادا کیا اور (معاہدہ کے مطابق) تین دن (مکہ میں) قیام فرمایا اور مشرکین اس بات پر فخر کرتے تھے جب انہوں نے ان کو (گزشتہ سال) حدیبیہ میں روک دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں وہی مہینہ عطا فرمایا اور آپ کو مکہ میں داخل فرما دیا اسی مہینہ میں جس میں انہوں نے آپ کو روک دیا تھا اور فرمایا لفظ آیت ” الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص “۔ (6) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص “ کے بارے میں روایت کیا کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ کو حدیبیہ کے دن ذوالقعدہ میں بلد حرام سے روک دینے پر فخر کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے آئندہ سال آپ کو مکہ میں داخل فرما دیا آپ نے اپنا عمرہ قضا کیا اور حدیبیہ کے موقع پر جو وہ حائل ہوتے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کے بدلہ آئندہ سال دے دیا۔ (7) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب ذوالقعدہ میں عمرہ کے لئے تشریف لائے اور ان کے ساتھ قربانی کے جانور تھے یہاں تک کہ جب یہ لوگ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکوں نے ان کو روک دیا تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے (اس بات پر) صلح کرلی کہ اس سال واپس چلے جائیں گے یہاں تک کہ آئندہ سال عمرہ کریں گے اور تین رات مکہ مکرمہ میں رہیں گے اور ہتھیار لے کر مکہ داخل نہ ہوں گے۔ اور اہل مکہ میں کوئی بھی آپ کے ساتھ (باہر) نہ نکلے گگا (معاہدہ کے بعد) سب نے قربانی کے جانور حدیبیہ ہی میں ذبح کر دئیے اور حلق یا قصر بھی کروایا یہاں تک کہ جب آئندہ سال آی اتو نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب ذوالقعدہ میں پھر عمرہ کے لئے تشریف لائے یہاں تک کہ (معاہدہ کے مطابق) مکہ میں داخل ہوئے اور تین راتیں رہے اور مشرکین نے اس بات پر فکر کیا جب انہوں نے حدیبیہ کے دن آپ کو واپس لوٹا دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس سال کے بدلے آئندہ سال ذوالقعدہ میں آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی سعادت عطا فرمائی۔ جس میں انہوں نے واپس لوٹا دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص “۔ (8) ابن جریر اور النحاس نے الناسخ میں روایت کیا کہ میں نے عطا (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیبیہ کا دن تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو بیت الحرام سے روک دیا گیا جب کہ آپ نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا (پھر) رسول اللہ ﷺ آئندہ سال عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہوئے پس شہر حرام میں عمرہ پہلے شہر الحرام کے عمرہ کا بدل ہے۔ عمرۃ والقضاء کا تذکرہ (9) بیہقی نے دلائل میں عروہ اور ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ حدیبیہ کے سال کے (بعد) آئندہ سال (ہجرت کے) ساتویں سال ذوالقعد میں عمرہ کا احرام باندھ کر (مدینہ منورہ سے) نکلے۔ اور یہ وہ مہینہ تھا جس میں مشرکوں نے آپ کو مسجد حرام سے روک دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمرہ کے بارے میں نازل فرمایا لفظ آیت ” الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص “ رسول اللہ نے اس حرمت والے مہینہ میں عمرہ ادا فرمایا جس میں آپ کو روک دیا گیا تھا۔ (10) أبو داؤد نے الناسخ میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے (ان آیات) لفظ آیت ” فمن عتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما عتدی علیکم “ (اور) ” وجزوا سیءۃ سیءۃ مثلہا “ (شوری آیت 40) ” ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ما علیہم من سبیل “ (شوری آیت 41) (اور) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ “ (سورۃ النحل آیت 67) کے بارے میں روایت کیا کہ یہ تمام آیات مکہ میں نازل ہوئیں۔ اور مسلمان ان دنوں تھوڑے تھے اور ان کو ایسی طاقت حاصل نہ تھی جو مشرکین کو مغلوب کرسکتے اور مشرکین ان (مسلمانوں) کو گالیاں دیتے تھے اور تکلیف پہنچاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ جو شخص ان سے بدلہ لینا چاہے تو اتنا ہی بدلہ لے جتنا اس کو تکلیف دی گئی یا صبر کرے یا معاف کر دے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے سلطان بنا کر آپ کو عزت عطا فرمائی (یعنی قوت عطا فرمائی) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ اپنے مظالم اپنے سلطان (یعنی رسول اللہ ﷺ کی طرف لے جائیں اور اہل جاہلیت کی طرف بعض، بعض پر زیادتی نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطنا “ (الآیہ) یعنی سلطان اس (مظلوم) کی مدد کرے گا یہاں تک کہ وہ ظالم سے انصاف لے کر دے گا اور جس شخص نے بادشاہ کے علاوہ اپنی ذات کا بدلہ خود ہی لے لیا تو گناہ گار ہے اور زیادتی کرنے والا ہے اور وہ جاہلیت کے عمل کی طرح عمل کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر راضی نہ ہوا۔ (11) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ “ سے مراد ہے کہ ان (مشرکوں) سے قتال کرو اس حرمت والے مہینہ اور اس حرمت والے شہر میں جیسا کہ وہ تم سے قتال کر رہے ہیں۔ حرمت والے مہینے کا احترام (12) امام احمد، ابن جریر، النحاس نے الناسخ میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ حرمت والے مہینہ میں (دشمن سے) جنگ نہیں کرتے تھے مگر جب جنگ کی جاتی تھی تو پھر آپ بھی جنگ کرتے تھے (پھر) جب حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ ٹھہر جاتے (یعنی جنگ ختم فرما دیتے) یہاں تک کہ وہ مہینے گزر جاتے۔
Top