Dure-Mansoor - Al-Baqara : 192
فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَاِنِ : پھر اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
سو اگر وہ باز آجائیں تو اللہ غفور رحیم ہے۔
(آیت نمبر 185 کا بقیہ حاشیہ) (81) ابن ابی شیبہ، مسلم نے جابر بن سمرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عاشورہ کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرماتے تھے اور اس پر ہم کو آمادہ فرماتے تھے اور آپ اپنی طرف سے اس کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ جب رمضان فرض کیا گیا پھر ہم کو نہ تو (عاشورہ کے روزہ کا) حکم دیا گیا اور نہ ہم کو منع کیا گیا اور نہ ہم کو اس کی ترغیب دی۔ (82) عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ سے مراد ہے کہ جو گھر میں ٹھہرا ہوا ہو۔ (83) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ سے مراد ہے کہ جو شخص شہر میں مقیم ہوتا ہے سفر کی حالت میں اس کو چاہئے کہ روزے رکھے۔ (84) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ سے مراد وہ شخص ہے جو مقیم ہے۔ (85) وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے رمضان کو اس حال میں پایا کہ وہ مقیم تھا پھر اس نے سفر اختیار کرلیا تو اس پر روزے لازم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “۔ (86) سعید بن منصور نے حضرت ابن عمر ؓ سے لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ جس شخص نے رمضان (کے مہینہ) کو اپنے اہل و عیال میں پایا پھر اس نے سفر کا ارادہ کیا تو اس کو چاہئے کہ روزے رکھے۔ (87) دار قطنی نے ضعیف سند کے ساتھ جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے مہینہ کا ایک دن کا روزہ نہ رکھے اپنے گھر پر موجود ہوتے ہوئے اس کو چاہئے کہ ایک اونٹ کی قربانی کرے اگر اس کو نہ پائے تو اس کو چاہئے کہ تیس صاع کھجوروں کے مسکینوں کو کھلائے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر “: (88) ابن جریر نے حسن اور ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ جب مریض کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو وہ روزے نہ رکھے۔ (89) ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنا نماز کی طرح سے ہے جب روزہ نہ رکھا جائے تو قصر کرے۔ اور روزہ رکھے تو پوری نماز پڑھے۔ (پوری نماز پڑھے تو روزہ بھی رکھے) (90) سفیان بن عینیہ، ابن سعد، عبد بن حمید، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر اور بیہقی سنن میں انس بن مالک قشیری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز ساقط کردی ہے اور حمل والی عورت اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی روزہ ساقط کردیا ہے۔ (91) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا (اس میں) آسانی بھی ہے اور تنگی بھی ہے تو اللہ کی طرف سے آسانی کو لے لو۔ (92) امام مالک، شافعی، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ حمزہ سلمی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو نہ رکھ۔ (93) دار قطنی نے حمزہ بن عمروا سلمی ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں کیا مجھ کو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (94) امام احمد نے عبد بن حمید اور مسلم (رح) سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں نقل کیا ہے کہ اگر تو روزہ رکھنا چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر تو نہ رکھنا چاہے تو نہ رکھ۔ (95) عبد بن حمید، دار قطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ہر کام کیا آپ نے (سفر میں) روزہ بھی رکھا اور نہ بھی رکھا اور آپ نے سفر میں نماز پوری پڑھی اور قصر بھی کی۔ (96) خطیب نے کتاب التلخیص میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں رخصت کی آیت نازل ہونے کے بعد بھی نبی اکرم ﷺ نے روزہ رکھا۔ (97) عبد بن حمید نے ابو عیاض ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان میں سفر فرمایا تو لوگوں میں یہ آواز لگائی کہ جو شخص چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ابو عیاض ؓ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم ﷺ نے کیسے کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ نے روزہ رکھا تھا اور آپ اس بات کے زیادہ حق دار تھے۔ (98) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنے والے اور روزہ نہ رکھنے والے کسی پر میں عیب نہیں لگاتا۔ سفر کے دوران روزے رکھنا (99) عبد بن حمید نے سعید بن مسیب اور عامر (رح) سے روایت کیا کہ دونوں حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب رمضان میں سفر کرتے تھے اور روزہ رکھنے والے روزہ رکھتے تھے اور نہ رکھنے والے بھی ہوتے تھے روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے پر اور روزہ رکھنے والے روزہ نہ رکھنے والوں پر عیب نہیں لگاتے تھے۔ (100) امام مالک، شافعی، عبد بن حمید، بکاری، ابو داؤد نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ رمضان میں سفر کیا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہ رکھا (لیکن) روزہ رکھنے والے نے روزہ نہ رکھنے والے پر اور روزہ نہ رکھنے والے نے روزہ رکھنے والے پر عیب نہیں لگایا۔ (101) امام مسلم، ترمذی، نسائی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے رمضان کے مہینہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا ہم میں سے روزہ رکھنے والا بھی تھا اور نہ رکھنے والا بھی تھا روزہ نہ رکھنے والے نے روزہ رکھنے والے پر اور روزہ رکھنے والے نے روزہ نہ رکھنے والے پر کوئی اعتراض نہیں کیا (یعنی کسی نے کسی کو برا نہیں کہا) اور وہ جانتے تھے کہ جس نے طاقت پائی روزہ رکھ لیا یہ بھی اچھا ہے اور جس نے کمزوری پائی اس نے نہ رکھا یہ بھی اچھا ہے۔ (102) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، نسائی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ (103) ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، نسائی، ابن ماجہ، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نے کعب بن عاصم اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی سے نہیں ہے۔ (104) عبد بن حمید نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھوں میرے نزدیک زیادہ پسند ہے اس سے کہ میں روزہ رکھ لوں۔ (105) عبد بن حمید نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر صدقہ فرمایا ہے۔ (106) عبد بن حمید نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ رخصت آسمان سے نازل ہوئی ہے اگر تم چاہو تو اس کو واپس کردو۔ (107) عبد بن حمید نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان میں سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر تو صدقہ کرلے اور وہ واپس کردیا جائے تو تجھ کو غصہ نہیں آئے گا، (اس طرح) یہ بھی صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے۔ (108) نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حضر میں روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ (109) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنے والا سفر میں روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ (110) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا سفر میں روزہ نہ رکھنا ضروری ہے۔ (111) عبد بن حمید نے محرز بن ابی ہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے سفر میں روزہ رکھا جب وہ واپس آئے تو ابوہریرہ ؓ نے روزہ قضا کرنے کا حکم فرمایا۔ (112) عبد بن حمید نے عبد اللہ عامر بن ربیعہ رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے نہیں اس شخص کو جس نے سفر میں روزہ رکھا تھا حکم فرمایا کہ وہ روزہ کو لوٹالے (یعنی دوبارہ رکھ لے) ۔ (113) وکیع، عبد بن حمید نے عامر بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر تجھ پر آسانی ہو تو روزہ رکھ لو اور ایک روایت میں ہے اگر آسانی ہو (اور تکلیف نہ ہو) تو روزہ رکھ لو اور اگر مشکل ہو تو روزہ نہ رکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر “۔ سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے (114) عبد بن حمید، نسائی، ابن جریر نے خیثمہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا روزہ رکھ لے میں نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ لفظ آیت ” فعدۃ من ایام اخر “ (یعنی دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرو) تو انہوں نے جواب دیا یہ آیت ان دنوں نازل ہوئی جب ہم بھوکے سفر کرتے تھے اور سواریوں سے بھوکے ہی اترتے تھے اور آج ہم سیر ہو کر سفر کرتے ہیں اور پیٹ بھر کر (سواریوں سے) اترتے ہیں۔ (115) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص روزہ نہ رکھے یہ رخصت ہے اور جو روزہ رکھ لے یہ افضل ہے۔ (116) عبد بن حمید نے ابراہیم سعید بن جبیر اور مجاہد سے روایت کیا کہ یہ تینوں حضرات سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو روزہ نہ رکھو اور گار چاہو تو روزہ رکھ لو اور روزہ رکھنا افضل ہے۔ (117) عبد بن حمید نے العوام کے طریق سے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں روزہ رکھتے بھی تھے اور نہ بھی رکھتے تھے اور آپ کے اصحاب کو دیکھا گیا کہ وہ روزہ رکھتے تھے اور آپ فرماتے تھے تم لوگ کھاؤ میں (اس حال میں) ہوتا ہوں کہ میرا رب مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے (راوی) عوام نے کہا کہ میں نے مجاہد سے پوچھا اس بارے میں تیری کیا رائے ؟ تو انہوں نے فرمایا رمضان میں روزہ رکھنا افضل ہے غیر رمضان میں روزہ رکھنے سے۔ (118) عبد بن حمید نے ابو البختری کے طریق سے روایت کیا ہے کہ عبیدہ (رح) سے روایت کیا ایک آدمی نے سفر کیا جبکہ اس نے رمضان کے پہلے روزے رکھے تھے تو اس کو چاہئے کہ باقی دنوں میں بھی روزے رکھ لے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ اور بتایا کہ ابن عباس ؓ فرماتے تھے جو شخص چاہے روزہ رکھ لے اور جو شخص چاہے نہ رکھے۔ (119) عبد بن حمید نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ہے کہ میں نے عبیدہ (رح) سے پوچھا کیا میں رمضان میں سفر کروں ؟ انہوں نے فرمایا نہیں۔ سفر میں رمضان کے روزے رکھنا افضل ہے (120) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ جب آدمی رمضان کو پالے تو سفر پر نہ نکلے۔ اگر وہ نکلے اور وہ رمضان کے پہلے روزے رکھ چکا ہے تو اس کو چاہئے کہ سفر میں بھی روزے رکھے کیونکہ رمضان میں اس کی قضا کرنا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے غیر رمضان میں قضا کرنے سے۔ (121) عبد بن حمید نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ جب رمضان آجائے تو کوئی آدمی ہرگز سفر نہ کرے اگر وہ انکار کرے اس بات سے کہ وہ سفر کرے گا تو اس کو چاہئے کہ روزہ رکھے۔ (122) عبد بن حمید نے عبد الرحمن بن قاسم (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم بن محمد (رح) حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے ان کو سلام کیا اور یہ رمضان کا مہینہ تھا حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ عرض کیا عمرہ کا تو انہوں نے فرمایا تو بیٹھا رہا یہاں تک کہ یہ مہینہ داخل ہوگیا (یعنی رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا ہے) لہٰذا اب سفر نہ کر عرض کیا میرے ساتھی اور میرے اہل و عیال (سفر میں) نکل چکے ہیں تو انہوں نے فرمایا اور اگر ہو کے تو ان کو واپس بلالو پھر ٹھہرے رہوں یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ گزر جائے۔ (123) عبد بن حمید نے ام دردہ ؓ سے روایت کیا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھی میرے پاس ایک قاصد آیا اور یہ رمضان کا مہینہ تھا مجھ سے حضرت عائشہ نے فرمایا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا میرے بھائی کا قاصد ہے وہ سفر پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا (گھر سے) نہ نکلو یہاں تک کہ (رمضان کا) مہینہ ختم ہوجائے اگر رمضان کا مہینہ راستے میں آجائے تو میں وہیں قیام کرلوں۔ (124) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رمضان میں آدمی کے سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر چاہے تو روزہ نہ رکھے۔ (125) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان (کے مہینہ) کو قید نہیں بنایا (کہ آدمی گھر میں قید رہے اور سفر نہ کرے) ۔ (126) عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے رمضان کا مہینہ پالیا اس کو سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں پھر اس میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ نہ رکھے۔ (127) عبد بن حمید وأبو داؤد نے سنان بن علمہ بن محبق ھذلی سے وہ اپنے والد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے پاس سواری ہو جو اسے ایسی جگہ میں پہنچاتی ہو جہاں انسان کھانے سے سیر ہوسکتا ہے اور اس کو رمضان آجائے تو روزہ رکھے۔ (128) ابن سعد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریض اور مسافر پر روزہ نہ رکھنے کا صدقہ فرمایا۔ (129) طبرانی نے انس بن مالک سے اور انہوں نے (قبیلہ) لعب میں سے ایک آدمی سے روایت کیا کہ ہم پر رسول اللہ ﷺ کے شہسواروں نے حملہ کیا تو میں آپ کے پاس پہنچا آپ کھانا تناول فرما رہے تھے آپ نے فرمایا بیٹھ جا ہمارے اس کھانے میں سے کھالے۔ میں نے عرج کیا یا رسول اللہ ! میں روزہ دار ہوں آپ ﷺ نے فرمایا بیٹھ جا میں تجھ کو نماز اور روزہ کے بارے میں بتاتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے آدھی نماز معاف کردی ہے اور مسافر سے اور مریض سے اور حاملہ عورت سے روزہ معاف کردیا ہے۔ (130) ابن ابی شیبہ نے عکرمہ (رح) سے لفظ آیت ” فعدۃ من ایام اخر “ کے تحت نقل کیا اگر مسافر چاہے تو حضر میں روزے ملا کر رکھ لے یا متفرق کرکے رکھ لے۔ (131) ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے قضاء رمضان کرکے رکھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فعدۃ من ایام اخر “ یہ دوسرے ایام میں گنتی پوری کرے۔ (132) ابن ابی شیبہ، دار قطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے قضاء رمضان کے بارے میں روایت فرمایا جیسا تو چاہے روزہ رکھ لے ابن عمر ؓ نے فرمایا جیسے تو نے افطار کئے ویسے رکھ۔ (133) امام مالک، وابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رمضان کے مہینہ کی (قضا روزے لگاتار رکھے جو شخص مرض یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکا۔ قضا روزے رکھنا (134) سعید بن منصور اور بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے رمضان کے قضا روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فعدۃ من ایام اخر “ جب گنتی پوری ہو تو پھر متفرق رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (135) ابن ابی شیبہ، دار قطنی، بیہقی نے ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا کہ قضاء رمضان کے روزے متفرق رکھنے کے بارے میں پوثھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم کو روزہ نہ رکھنے کے بارے میں اجازت اس لئے نہیں دی اور وہ اس کے قضا کرنے میں تم پر مشقت ڈالے سو تم گنتی کو پورا کرلو اور جیسے چاہو کرو۔ (136) دار قطنی نے رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا کہ گنتی کو پورا کرو اور جیسے چاہو روزے رکھو۔ (137) ابن ابی شیبہ، دار قطنی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ ان سے قضاء رمضان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا گنتی کو پورا کرو یعنی جیسے چاہو روزے رکھو۔ (138) دار قطنی نے عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ قضاء رمضان کے روزے میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فعدۃ من ایام اخر “۔ (139) امام وکیع، ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے سوال کیا کہ میں رمضان کے روزوں کو کس طرح قضا کروں ؟ انہوں نے فرمایا جیسے تو چاہے روزے رکھ اور گنتی پوری کر لفظ آیت ” فانما یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر “۔ (140) ابن المنذر، دار قطنی، بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ (یہ آیت اسی طرح) نازل ہوئی لفظ آیت ” فعدۃ من ایام اخر متشابعت “ (پھر) ” متشابعات “ (کا لفظ) ختم کردیا گیا بیہقی (رح) نے فرمایا کہ یہ لفظ منسوخ کردیا گیا اس حدیث کو دار قطنی نے صحیح کہا۔ قضاء کے روزے متواتر رکھنا ضروری نہیں (141) دار قطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص پر رمضان کے (قضا) روزے ہوں تو اس کو چاہئے متواتر روزے رکھے اور ان میں متفرق نہ کرے۔ (142) دار قطنی نے عبد اللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے رمضان کے قضا روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا لگاتار روزے رکھے اور اگر جدا جدا کرکے رکھے تو بھی کافی ہوجائیں گے۔ (143) دار قطنی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان کے قضا روزوں کے بارے میں فرمایا اگر چاہو تو متفرق رکھو اور اگر چاہو تو لگاتار رکھو۔ (144) ابن ابی شیبہ، امام دار قطنی نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ سے رمضان تک قضاء روزے متفرق طور پر رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ تیری مرضی ہے مثلا کسی پر قرضہ ہو اور وہ ایک ایک دو یا دو درہم کرکے ادا کرے تو قرضہ ادا نہیں ہوجائے گا ؟ (یقیناً ہوجائے گا) اللہ تعالیٰ زیادہ حق دار ہیں کہ اس کو قبول فرمائیں اور مغفرت بھی فرما دیں۔ (145) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدیکم العسر “ میں ” الیسر “ سے مراد سفر میں روزہ نہ رکھنا ہے اور عسر سے مراد سفر میں روزہ رکھنا ہے۔ (146) ابن مردویہ نے محجن بن ادرع ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا اور آپ نے ایک لمحہ کے لئے اسے دیکھا۔ پھر فرمایا کیا تو نے اس کو دیکھا کہ وہ سچی نماز پڑھ رہا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو اہل مدینہ میں سب سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کو نہ سنا ورنہ تو اس کو ہلاک کر دے گا اور آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کے ساتھ آسانی کا ارادہ فرمایا ہے اور تنگی کا ارادہ نہیں۔ (147) امام احمد نے أعرج ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا بلاشبہ تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسان ہو بلاشبہ تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسان ہے۔ (148) ابن سعد، احمد، ابو یعلی، طبرانی، ابن مردویہ نے عروہ تمیمی ؓ سے روایت کیا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا ہم پر اس (دین) میں کچھ حرج ہے ؟ آپ نے فرمایا اے لوگو ! اللہ کا دین آسان ہے تین دفعہ آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔ (149) البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آسانی پیدا کرو تنگی پیدا نہ کرو، نرمی پیدا کرو اور نفرت نہ دلاؤ۔ (150) امام احمد نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے اس میں نرمی کے ساتھ لوگوں کو داخل کرو۔ (151) البزار نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے اس میں نرمی کے ساتھ داخل کرو تیزی سے دوڑنے والا نہ تو زمین کا سفر طے کرتا ہے۔ (152) احمد نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اسلام نرم اور (مطیع گھوڑے کی طرح ہے اس پر سوار نہیں ہوتا مگر جو نرم طبیعت ہو۔ (153) امام بخاری، نسائی، بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا دین آسان ہے اور ہرگز کوئی دین نہیں آئے گا مگر دین (اسلام) اس پر غالب آجائے گا (ہر کام میں) میانہ روی اختیار کرو اور اللہ کو قرب حاصل کرو اور (لوگوں کو) خوشخبری دو ۔ اور مدد طلب کرو صبح و شام اور رات کے کچھ وقت میں۔ (154) امام طیالسی، احمد، بیہقی نے بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم آپ کے ساتھ اکٹھے چلتے رہے اچانک ایک آدمی ہمارے سامنے نماز پڑھ رہا تھا (اور) کثرت سے رکوع اور سجدے کر رہا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو اس کو ریا کار خیال کرتا ہے میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا تم اپنے اوپر اعتدال کا راستہ لازم کرلو سو جو شخص اس دین پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے یہ دین اس پر غالب آجاتا ہے۔ دین میں داخل ہونے کی ترغیب (155) بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے پس اس میں لوگوں کو نرمی کے ساتھ داخل کرو اور اس کے بندوں کی طرف اللہ کی عبادت کو ناپسندیدہ نہ بنا دو کیونکہ تیز دوڑنے والا نہ سفر طے کرتا ہے اور نہ سواری کو باقی رکھتا ہے۔ (156) بیہقی نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے سو اس میں لوگوں کو نرمی کے ساتھ داخل کرو اور اپنے رب کی عبادت کو اپنی ذات کے نزدیک مبغوض نہ بنادو کیونکہ تیز دوڑنے والا نہ سفر طے کرتا ہے اور نہ سواری کو باقی رکھتا ہے۔ پس اس آدمی کی طرح عمل نہ کر جو خیال کرتا ہے کہ وہ کبھی نہیں مرے گا تو ڈرجا ایسا ڈرنا کہ تو (اس بات کا) خوف کرتا ہو کہ توکل مرجائے گا۔ (157) طبرانی اور بیہقی نے سہل بن ابی امام (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی جانوں پر سختی نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنی جانوں پر سختی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے اور ان کے باقی لوگوں کو تم گرجا گھروں اور نصاری کے عبادت خانوں میں پاؤں گے۔ (158) بیہقی نے معبد جہنی (رح) کے طریق سے بعض صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم افضل ہے عمل سے۔ بہترین اعمال درمیانی درجہ کے ہیں اللہ کا دین سختی اور غلو کے درمیان ہے۔ نیکی دو چیزوں کے درمیان ہے اس کو نہیں پاتا ہے مگر اللہ کی مدد سے اور بہت برا چلنا تیز چلنا ہے۔ (159) ابن عبید اور بیہقی نے اسحاق بن سوید (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ بن مطرف نے بتکلف عبادت کی تو اس کو مطرف نے کہا اے عبد اللہ ! علم افضل ہے عمل سے اور نیکی دو چیزوں کے درمیان ہے اور بہترین کام درمیانی درجہ کے ہیں اور بہت برا چلنا، تیز چلنا ہے۔ (160) ابو عبید اور بیہقی نے تمیم داری (رح) سے روایت کیا کہ اپنے دین میں سے اپنے لئے کچھ حاصل کرلو اور اپنی ذات میں سے اپنے دین کچھ حاصل کرلو یہاں تک کہ تیرے ذریعہ (اللہ کا) حکم قائم رہے (ایسی) عبادت پر جس کی تو طاقت رکھتا ہے۔ (161) بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو یہ پسند فرماتے ہیں کہ تو اس کی رخصت پر عمل کرے جیسے وہ پسند کرتا ہے کہ تو اس کے فرائض پر عمل کرے۔ ّ (162) البزار و الطبرانی وابن حبان نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتے ہیں کہ تو اس کی رخصت پر عمل کرے۔ جیسے وہ پسند فرماتا ہے کہ تو اس کے فرائض پر عمل کرے۔ (163) احمد، البزار، ابن خزیمہ، ابن حبان، طبرانی فی الاوسط اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتے ہیں کہ اس کی رخصت پر عمل کرے۔ جس طرح وہ ناپسند کرتا ہے کہ تو اس کی نافرمانی کرے۔ (164) بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا اللہ تعالیٰ کو کون سا دین پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سیدھا اور آسان ہو (یعنی دین اسلام) ۔ (165) الطبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہیں کرتا اس کو عرفات کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہوگا۔ (166) الطبرانی نے عبد اللہ بن یزید بن ادیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے ابو درداء، واثلہ بن اسقع ابو امامہ اور انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ ان کی رخصت کو قبول کیا جائے جیسے بندہ اپنے رب کی مغفرت کو پسند کرتا ہے۔ (167) احمد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میری ٹھوڑی کو اپنے کندھے پر رکھا تاکہ میں حبشی لوگوں کا کھیل دیکھ لوں یہاں تک کہ میں دیکھتے دیکھتے تھک گئی اور ان کے (دیکھنے سے ہٹ گئی) اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ اس دن آپ ﷺ نے فرمایا یہود جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) یعنی میں سیدھا اور آسان دین دیکر بھیجا گیا ہوں۔ (168) ترمذی نے نوارد الاصول میں حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ کا دین غلو سے نیچے اور کوتاہی سے بلند ہے۔ (169) عبد الرزاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ طعن نہ کرو اس شخص پر جس نے سفر میں روزہ رکھا اور جس نے نہیں رکھا اور اس میں سے اپنے لئے آسانی اختیار کر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر “۔ (170) عبد الرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ تجھ پر لازم ہے کہ آسانی کو اختیار کر کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف آسانی کا ادارہ فرماتے ہیں۔ (171) ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے لفظ آیت ” ولتکملوا العدۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے رمضان (کے روزوں) کی تعداد پوری کرو۔ پورے مہینے کے روزے فرض ہیں (172) ابو داؤد، نسائی، ابن المنذر، دار قطنی نے اپنی سنن میں حضرت حذیقہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینہ سے پہلے روزے نہ رکھو یہاں تک کہ تم چاند دیکھ لو یا تیس دن پورے کرلو پھر روزے رکھو یہاں تک کہ عید کا چاند دیکھ لو یا تیس دن پورے کرلو۔ (173) امام ابو داؤد، ترمذی، نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینے سے پہلے ایک یا دو روزے نہ رکھو مگر یہ کہ کوئی ایسا دن آجائے جس میں تم نفلی روزہ پہلے رکھتے ہو۔ اور روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند کو دیکھ لو پھر روزے رکھو اگر اس کے آگے بادل حائل ہوجائے تو تیس کی گنتی پوری کرلو پھر عید کرو۔ (174) بخاری، مسلم اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چاند دیکھ کر افطار کرو اگر مطلع ابر آلود ہوجائے تو گنتی پوری کرلو اور دوسرے لفظ میں یوں ہے تیس کی گنتی پوری کرلو۔ (175) دار قطنی نے رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے لئے شعبان کی گنتی پوری کرو اور مہینے کو ایک روزہ کے ساتھ بھی آگے نہ بڑھاؤ۔ جب تم (رمضان کا چاند) دیکھ لو تو روزے رکھو اور جب تم (شوال کا چاند) دیکھ لوتو افطار کرو اگر تم پر بادل چھا جائے تو تیس دونوں کی گنتی پوری کرکے پھر افطار کرلو۔ بلاشبہ مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور آپ نے تیسری مرتبہ میں اپنے انگوٹھے کو بند فرما لیا۔ (176) دار قطنی نے عبد الرحمن بن زید بن خطاب (رح) سے روایت کیا ہم نے نبی اکرم ﷺ کے صحابہ سے صحبت اختیار کی تو انہوں نے ہم سے یہ بیان فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اگر تم پر بادل چھا جائیں تو تیس دن شمار کرو اگر دو انصاف والے گواہی دیدیں تو روزے رکھو اور افطار کرو اور قربانی کرو۔ (177) دار قطنی نے ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان کے تیس روزے پورے کرنے کے لئے صبح کو روزہ رکھا پھر دو دیہاتی آئے اور انہوں نے لا الہ الا اللہ کے ساتھ گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا تھا تو آپ نے سب کو (روزہ) افطار کرنے کا حکم فرما دیا۔ (178) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولتکملوا العدۃ “ سے مراد ہے کہ مریض اور مسافر نے جو روزے نہیں رکھے تھے ان کی گتنی پوری کرلیں۔ (179) ابن المنذر نے ابن ابی حاتم اور مروزی (رح) سے روایت کیا کہ وہ عیدین کی کتاب میں زید بن اسلم ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ لفظ آیت ” ولتکبروا اللہ علی ما ھدکم “ سے مراد ہے کہ تم لوگ عید الفطر کے دن تکبیریں کہو۔ (180) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مسلمانوں پر حق ہے کہ جب وہ شوال کا چاند دیکھیں تو وہ اللہ کی بڑائی بیان کریں (یعنی تکبیریں کہیں) یہاں تک کہ اپنی عید سے فارغ ہوجائیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ولتکبروا العدۃ ولتکبروا اللہ “۔ (181) طبرانی نے معجم صغیر میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی عیدوں کو تکبیروں کے ساتھ مزین کرو۔ (182) المروزی، دار قطنی، بیہقی نے سنن میں ابو عبد الرحمن سلمی ؓ سے روایت کیا کہ (ہم لوگ) عید الفطر میں عید الاضحی سے زیادہ تکبیروں میں شدت کرتے تھے۔ (183) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں زہری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ (اپنے گھر سے) عید الفطر کے دن (جب عید کی نماز کے لئے) تشریف لے جاتے تھے تو (راستہ میں) تکبیر پڑھتے جاتے تھے یہاں تک کہ عید گاہ میں پہنچ جاتے نماز ادا فرما لیتے جب آپ نماز ادا فرما لیتے تھے تکبیر ختم فرما دیتے۔ (184) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت نافع بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اونچی آواز سے تہلیل اور تکبیر کہتے ہوئے عیدین کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔ (185) ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ سنت طریقہ میں سے ہے کہ عید کے دن تکبیر کہی جائے۔ (186) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، المروزی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ یوں تکبیر کہا کرتے تھے ” اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ وللہ اکبر وللہ الحمد “۔ (187) ابن ابی شیبہ، المروزی، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ یوں تکبیر کہا کرتے تھے ” اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر واجل علی ما ھدانا “ (یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا ہے، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے لئے سب تعریفیں ہیں، اللہ تعالیٰ سے سب سے بڑا ہے اور طاقتور ہے۔ (188) امام بیہقی نے ابو عثمان نہدی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عثمان ؓ ہم کو تکبیر سکھایا کرتے تھے : اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا اللہم انت الاعلی وأجل من ان یکون بک صاحبۃ أو یکون لک ولد أو یکون لک شریک فی الملک أو تکون لک ولی من الذل وکبرہ تکبیرا اللہم اغفرلنا اللہم ارحمنا ترجمہ : اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ بڑا ہے، بہت بڑا ہے، اے اللہ ! تو سب سے اعلیٰ طاقتور ہے اس بات سے کہ تیری بیوی ہو، اس سے بات سے کہ تیرا لڑکا ہو، اس بات سے کہ تیرے ملک میں تیرا کوئی شریک ہو، یا اس بات سے کہ تیرا کوئی مددگار ہو پھسلنے سے (یعنی تو ان سب چیزوں سے پاک ہے) اور اس کی بڑائی بیان کرو تکبیر کہتے ہوئے۔ اے اللہ ! ہماری مغفرت فرما اور ہم پر رحم فرما۔
Top