Dure-Mansoor - Al-Baqara : 173
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : در حقیقت حَرَّمَ : حرام کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةَ : مردار وَالدَّمَ : اور خون وَلَحْمَ : اور گوشت الْخِنْزِيْرِ : سور وَمَآ : اور جو اُهِلَّ : پکارا گیا بِهٖ : اس پر لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے غَيْرَ بَاغٍ : نہ سرکشی کرنے والا وَّلَا : اور نہ عَادٍ : حد سے بڑھنے والا فَلَا : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا ہے
اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جانور حرام کئے ہیں جن کے ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو۔ سو جو شخص مجبوری میں ڈال دیا جائے اس حال میں کہ باغی نہ ہو، اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ غفور ہے رحیم ہے
حرام جانوروں کا بیان (1) امام احمد، ابن ماجہ، دار قطنی، حاکم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے لئے دو مروے اور دو خون حلال کر دئیے گئے مچھلی اور ٹڈی جگر اور تلی۔ (2) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما اہل “ سے مراد ہے ” ماذبح “ (جو غیر اللہ کے لئے ذبح کیا گیا ہو) ۔ (3) ابن جریر نے حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما اہل بہ لغیر اللہ “ سے مراد ہے جو طواغیت کے لئے ذبح کیا گیا۔ (4) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما اہل “ سے مراد ہے جو غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جائے۔ (5) ابن ابی حاتم نے أبو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما اہل بہ لغیر اللہ “ سے مراد ہے جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ (6) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فمن اضطر “ سے مراد ہے یعنی جو حرام چیز کے استعمال پر مجبور ہو لفظ آیت ” غیر باغ ولا عاد “ یعنی جو اس (حرام کردہ) چیز میں سے کھائے اور وہ مجبور ہو تو کوئی حرج نہیں اور جس نے اس (حرام کردہ) چیز کو کھالیا اور وہ مجبور نہیں ہے تو وہ باغی ہے اور حد سے تجاوز کرنے والا ہے۔ (7) ابن ابی حاتم اور ابن المنذر سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” غیر باغ “ سے مراد ہے کہ مردار کے کھانے میں حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو۔ مجبور شخص کے لئے رخصت (8) سفیان بن عینیہ، آدم بن ایاس، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور بیہقی نے المعرفہ میں اور السنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” غیر باغ ولا عاد “ سے مراد ہے کہ نہ بغاوت کرنے والا مسلمانوں پر اور نہ ہو ان پر زیادتی کرنے والا جو شخص نکلا اس حال میں کہ وہ قطع رحمی کرتے ہوئے یا ڈاکہ مارتے ہوئے یا زمین میں فساد کرتے ہوئے یا جماعت (مسلمین سے) اور آئمہ سے جدا ہوتے ہوئے یا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے (گھر سے) نکلا ہو پھر وہ مردارر (کھانے) پر مجبور ہوجائے تو اس کے لئے حلال نہیں۔ (9) ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن اضطر غیر باغ ولا عاد “ سے مراد ہے کہ جو شخص ڈاکہ مارنے کا عادی ہو اس کے لئے رخصت نہیں لفظ آیت ” فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ “ یعنی اسکے کھانے میں (کوئی گناہ نہیں) جب اس کی طرف مجبور ہوجائے لفظ آیت ” ان اللہ غفور “ یعنی جس نے مجبوری کی حالت میں حرام کھایا (تو اللہ تعالیٰ ) اس کو بخشنے والے ہیں ” رحیم “ یعنی وہ اس بندے پر رحم کرنے والا ہے جب اس نے حالت مجبوری میں حرام کو حلال کردیا۔ (10) امام وکیع نے ابراہیم اور شعبی سے روایت کیا کہ جب مردار کی طرف مجبور ہوجائے تو اس میں سے اتنی مقدار کو کھالے جو اس کو کھڑا کر دے (یعنی چلنے کے قابل ہوجائے) ۔ (11) امام وکیع، عبد بن حمید، ابو الشیخ نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص مردار (بہتا ہوا) خون اور سور کے گوشت کی طرف مجبور ہوجائے اور اس کو گند سمجھتے ہوئے چھوڑ دے اور نہ کھائے نہ پیئے پھر (اس حال میں) مرجائے تو دوزخ میں داخل ہوگا۔ (12) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن اضطر غیر باغ ولا عاد “ سے مراد ہے جو مجبور ہو اور کھانے میں حد سے بڑھنے والا نہ ہو اور حلال سے حرام تک تجاوز کرنے والا نہ ہو تو تھوڑی سی مقدار حرام لے سکتا ہے۔
Top