Dure-Mansoor - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگو ! کھاؤ ان چیزوں میں سے جو زمین میں حلال پاکیزہ ہیں اور مت چلو شیطان کے قدموں کے۔ بیشک وہ تمہارے لئے کھلا ہوا دشمن ہے
(1) ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت نبی اکرم ﷺ کے پاس تلاوت کی گئی لفظ آیت ” یایھا الذین کلوا مما فی الارض حللا طیبا “ سعد بن ابی وقاص ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے مستجاب الدعا بنا دے۔ آپ نے فرمایا اے سعد ! اپنے کھانے کو حلال کرلے تو مستجاب الدعا ہوجاؤ گے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے آدمی جب حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس سے چالیس دن کی عبادت قبول نہیں کی جاتیں اور جو گوشت حرام اور سود سے پیدا ہوتا ہے وہ دوزخ کی آگ کا زیادہ مستحق ہے۔ (2) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تتبعوا خطوت الشیطن “ سے اس کا عمل مراد ہے یعنی شیطان کے عمل کی تابعداری نہ کرو۔ (3) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو کام قرآن کے مخالف ہے تو وہ لفظ آیت ” خطوت الشیطن میں سے ہے۔ (4) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تتبعوا خطوت الشیطن “ سے مراد ہے اس کے قدم (کہ شیطان کے قدموں پر نہ چلو) ۔ (5) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا انہوں نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تتبعوا خطوت الشیطن “ سے مراد ہے شیطان کے وسوسوں کی اتباع نہ کرو۔ (6) ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خطوت الشیطن “ سے مراد ہے شیطان کے آراستہ کئے ہوئے کاموں کی پیروی نہ کرو۔ (7) ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کی نافرمانی لفظ آیت ” خطوت الشیطن “ میں سے ہے۔ (8) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ غصہ (کی حالت) میں جو قسم ہو یا نذر ہو وہ خطوات الشیطان میں سے ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ حلال چیز کو حرام کرنے کی قسم توڑنا واجب ہے (9) عبد بن حمید، عبد الرزاق، سعید بن منصور، ابن ابی حاتم، طبرانی اور حاکم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس سفید انگور اور نمک لایا گیا انہوں نے کھانا شروع کیا ایک شخص علیحدہ بیٹھا تھا ابن مسعود نے اس سے فرمایا اپنے ساتھی کو بھی دے دو اس نے کہا میں نہیں کھاتا فرمایا کیا تم روزے سے ہو ؟ کہا نہیں فرمایا پھر کیا بات ہے (کیوں نہیں کھاتے ہو) اس نے کہا میں نے انگور کھانے کو (اپنے اوپر) ہمیشہ کے لئے حرام کرلیا ہے ابن مسعود ؓ نے فرمایا یہ حرام کرنا لفظ آیت ” خطوت الشیطن “ میں سے ہے اس کو کھالو اور اپنی قسم کا کفارہ دو ۔ (10) عبد بن حمید، ابو الشیخ نے أبو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تتبعوا خطوت الشیطن “ سے مراد ہے گناہوں کی نذریں ماننا۔ (11) عبد بن حمید نے عیسیٰ بن عبد الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی حسن ؓ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا کہ میں بھی ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے آپ سے پوچھا میں نے قسم کھائی ہے کہ میں ایسا ایسا نہ کروں تو مجھ پر گھٹنوں کے بل چل کر حج کرنا لازم ہے آپ نے فرمایا خطوات الشیطان میں سے ہے تو سواری پر حج کر اور اپنی قسم کا کفارہ دے۔ (12) عبد بن حمید نے عثمان بن غیاث (رح) سے روایت کیا کہ میں نے جابر بن زید ؓ سے روایت کیا کہ اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے نذر مانی تھی کہ وہ اپنی ناک میں سونے کا ایک حلقہ ڈالے گا حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ یہ خطوات الشیطان میں سے ہے وہ آدمی ہمیشہ گناہ گار رہے گا اس کو چاہئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دے۔ (13) ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ شیطان کو شیطان اس لئے کہا جاتا ہے کہ کیونکہ ہنگامہ اور شرارت کو پسند کرتا ہے۔ (14) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انما یامرکم بالسوء والفحشاء “ سے مراد ہے گناہ اور والفحشاہ سے مراد ہے زنا (اور) لفظ آیت ” وان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون “ سے مراد ہے کہ وہ بحائر، سوائب، وصائل اور حوامی کو حرام قرار دیتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام قرار دیا ہے۔ بحائر : بحیرہ کی جمع ہے جو اونٹنی پانچ مرتبہ بیاہ چکی تھی اس کا کان چیر کر آزاد چھوڑ دیتے تھے۔ سوائب : سائبہ کی جمع ہے منت پر چھوڑتے ہوئے سانڈ اونٹ کا کہا جاتا ہے۔ وصائل : وصلۃ کی جمع ہے وہ اونٹنی ہوتی تھی جس کے پہلے گاب میں نر اور دوسرے گاب میں مادہ پیدا ہوتی تھی اگر تیسرے گاب میں بھی مادہ ہوتی تو بتوں کے نام پر اس کو آزاد چھوڑ دیتے تھے۔ حوامی : حام کی جمع ہے اس سے مراد وہ نر اونٹ ہے جس کے تخم سے دس بچے پیدا ہو چکتے تھے تو اس کو بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے تھے۔
Top