Dure-Mansoor - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
عنقریب کہیں گے بیوقوف لوگ کس چیز نے پھیر دیا ان کو ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے، آپ فرما دیجئے اللہ ہی کے لیے مشرق اور مغرب ہے، وہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے سیدھے راستہ کی طرف۔
(1) ابن سعد، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ) الناسخ میں) ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن حبان اور بیہقی نے سنن میں براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو انصار میں سے اپنے ننہیال کے ہاں قیام کیا اور آپ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ اور آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ ہمارا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہوجائے اور آپ نے اس (بیت اللہ) کی طرف سب سے پہلے عصر کی نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی نماز پڑھی اور ان میں سے ایک آدمی جس نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی دوسری مسجد والوں پر گزرا جبکہ وہ رکوع کی حالت میں تھے تو اس (آدمی) نے کہا کہ میں اللہ کی قسم کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے۔ وہ لوگ نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے۔ پھر ان کو یہ پریشانی ہوئی (اور کہنے لگے) کہ جو آدمی پہلے قبلہ پر تھے (نماز پڑھتے ہوئے) اس قبلہ کی طرف گھومنے سے پہلے اور وہ وہ لوگ جو شہید کر دئیے گئے (ان کا کیا بنے گا) ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم ان کے بارے میں کیا کہیں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم ان اللہ بالناس لروؤف رحیم “ (بقرہ آیت 143) ۔ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف رخ کا حکم (2) امام ابن اسحاق، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے حضرت براء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور اللہ کے حکم کے انتظار میں اکثر آسمان کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضھا فول وجھک شطر المسجد الحرام “ (اس آیت کے اترنے کے بعد) مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے جو شخص بیت اللہ کی طرف رخ کرنے سے پہلے مرگیا یا ہماری ان نمازوں کا کیا بنے گا جو ہم نے بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم “ لوگوں میں سے کچھ بیوقوفوں نے کہا اور وہ اہل کتاب ہیں کس چیز نے ان کو قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ پہلے تھے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” سیقول السفھاء من الناس “ سے لے کر آخری آیت تک۔ (3) امام ترمذی، نسائی، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، دار قطنی اور بیہقی نے حضرت براء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ مہینہ نماز پڑھی اور آپ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کو پسند فرماتے تھے اور آپ اپنے سر مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” قد نری تقلب وجھک۔۔ “ (الآیہ) (اس پر) آپ نے کعبہ کی طرف اپنا رخ فرما لیا لوگوں میں سے نادان یعنی یہود نے کہا کس چیز نے ان لوگوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ پہلے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” قل للہ المشرق والمغرب، یھدی من یشاء الی صراط مستقیم “۔ (4) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے اور النحاس نے الناسخ میں اور امام بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے قرآن مجید میں قبلہ کا منسوخ ہونا نازل ہوا اور یہ اس وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو وہاں زیادہ تر یہودی رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم فرمایا تو یہودی خوش ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دس سے کچھ اور مہینے بیت المقدس کی طرف رخ فرمایا اور آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے قبلہ کو (یعنی بیت اللہ کو) پسند فرماتے تھے اور آپ پر اللہ تعالیٰ نے (یہ حکم) نازل فرمایا لفظ آیت ” قد نری تقلب وجھک، الی قولہ فولوا وجوہکم شطرہ “ یعنی اس کی طرف (رخ کرلیجئے) تو اس پر یہودی شک کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ان لوگوں کو کس چیز نے ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر یہ لوگ تھے ؟ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” قل للہ المشرق والمغرب، یھدی من یشاء الی صراط مستقیم “۔ (5) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد (الناسخ میں) النحاس اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھیں۔ اس حال میں کہ کعبہ شریف بھی آپ کے آگے ہوتا تھا اور مدینہ منورہ تشریف لے جانے کے بعد بھی آپ نے سولہ مہینے تک (بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی) پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کعبہ شریف کی طرف پھیر دیا۔ (6) ابو داؤد نے الناسخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے قرآن مجید میں قبلہ شریف کا حکم منسوخ ہوا۔ کیونکہ محمد ﷺ بیت المقدس چٹان کی طرف رخ کرتے تھے (نماز میں) اور یہ یہود کا بھی قبلہ تھا۔ آپ نے سترہ مہینے اس کی طرف رخ فرمایا تاکہ یہودی ایمان لے آئیں آپ کا اتباع کرلیں اور تاکہ عرب کے ان پڑھ لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیں (پھر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” قل للہ المشرق والمغرب فاینما تولوا فثم وجہ اللہ “ اور فرمایا لفظ آیت ” قد نری تقلب وجھک فی السماء “ (الآیہ) ابن جریر نے عکرمہ (رح) مرسلا روایت کیا۔ بیت اللہ کا قبلہ بنائے جانے کی خواہش (7) ابو داؤد نے الناسخ میں أبو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس کی طرف نظر فرمائی اور جبرائیل سے فرمایا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہود کے قبلہ کے علاوہ (دوسرے) قبلہ کی طرف پھیر دے۔ جبرائیل نے ان سے فرمایا کہ میں بھی آپ کی طرح ایک بندہ ہوں اور میں کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتا سوائے اس کے جو میں حکم کیا جاتا ہوں۔ اپنے رب سے دعا کریں اور اسی سے سوال کریں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی نظر آسمان کی طرف لگائے رکھتے تھے اس امید میں کہ جبرائیل (علیہ السلام) وہ حکم لے کر آئیں گے جو میں نے سوال کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ لفظ آیت ” قد نری تقلب وجھک فی السماء “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ آسمان کی طرف نظر لگائے رکھتے ہیں اس حکم کے بارے میں جس کا آپ سوال کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فول وجھک شطر المسجد الحرام “ فرمایا اپنے چہرہ کو نماز میں مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے۔ لفظ آیت ” وحیثما کنتم “ یعنی زمین میں (آپ جہاں بھی ہوں) ” فولوا وجوہکم “ یعنی نماز میں (اپنا چہرہ پھیر لیں) ” شطرہ “ یعنی کعبہ کی طرف روایت مرسل ہے۔ (8) ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قبلہ شام سے کعبہ کی طرف رجب میں تبدیل ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ منورہ میں تشریف آوری کو سترہ مہینے گزر چکے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس (یہودیوں کے بڑے لوگ) رفاعہ بن قیس، قروم بن عمرو، کعب بن اشرف، نافع بن ابی نافع، حجاج بن عمرو، حلیف، کعب بن اشرف، ربیع بن ابی الحقیق، کنانہ بن أبی الحقیق آئے کہنے لگے اے محمد ! کس بات نے آپ کو اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر آپ پہلے تھے اور آپ گمان کرتے ہیں کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور اس کے دین پر ہیں۔ اپنے قبلہ کی طرف لوٹ آئے جس پر آپ (پہلے) تھے تو ہم آپ کا اتباع کریں گے اور آپ کی تصدیق کریں گے حالانکہ وہ لوگ آپ کو اپنے دین سے ہٹانا چاہتے تھے (اتباع کرنا نہیں چاہتے تھے) اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” سیقول السفھاء من الناس “ إلی قولہ : ” الا لنعلم من یتبع الرسول من ینقلب علی عقبیہ “ پھر فرمایا لفظ آیت ” وان کانت لکبیرۃ الا علی الذین ھدی اللہ “ یعنی یہ حکم اگرچہ بہت بھاری ہے لیکن ان لوگوں پر نہیں جن کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھیں لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم “ یعنی تمہاری نماز پہلے قبلہ کی طرف اور تمہارا تصدیق کرنا اپنے نبی کا اور (پھر) خاص کر تمہارا اتباع کرنا دوسرے قبلہ کی طرف کسی چیز کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں فرمائے گا اور ان تمام چیزوں کا اجر عطا فرمائے گا۔ لفظ آیت ” ان اللہ بالناس لرؤوف الرحیم الی قولہ فلا تکونن من الممترین “ تک۔ (9) امام وکیع، عبد بن حمید، ابو داؤد (الناسخ میں) نسائی، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت براء ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” سیقول السفھاء من الناس “ سے مراد یہود ہیں۔ (10) امام ابو داؤد نے الناسخ میں مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن مجید میں پہلا نسخ قبلہ کا ہے۔ پھر پہلی نماز کا۔ (11) امام طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ بیت المقدس کی طرف سولہ مہینے تک نماز پڑھتے رہے پھر بعد میں قبلہ بدل گیا۔ مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ سال قبلہ بیت المقدس رہا (12) امام بیہقی نے دلائل میں زہری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے مکہ مکرمہ سے نکلنے کے سولہویں مہینے کے شروع میں رجب (کے مہینے) میں مسجد حرام کی طرف قبلہ کو پھیر دیا گیا اور رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے اپنے چہرہ کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے (یہ حکم) نازل فرما دیا کہ اپنے چہرہ کو مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” سیقول السفھاء من الناس “ تو بیوقوف لوگ یعنی یہود نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ کو اپنے شہر کی طرف اور اپنے باپ کے گھر کی طرف منسوب ہونا اچھا لگا ہے اور ان کو کیا ہوا کہ کبھی ایک طرف رخ کرتے ہیں اور کبھی دوسری طرف رخ کرتے ہیں اور صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو ہم میں سے مرگئے اور وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور مشرکین خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ پر قبلہ کا معاملہ مشتبہ ہوگیا اور قریب ہے کہ وہ تمہارے دین پر آجائے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل فرمایا۔ (13) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے مسجد حرام کی طرف رخ فرمایا اس بارے میں لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور وہ لوگ مختلف نظریات رکھتے تھے منافقوں نے کہا ان کو کیا ہوا کہ یہ لوگ ایک زمانہ تک ایک قبلہ پر تھے پھر اس کو چھوڑ دیا اور دوسری طرف رخ پھیرلیا اور مسلمانوں نے کہا کہ کاش ہم اپنے بھائیوں کے بارے میں جان لیتے کہ جو مرگئے اور وہ بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھتے تھے۔ کہا اللہ تعالیٰ نے ان کی نمازیں قبول فرمالی ہیں یا نہیں ؟ اور یہودیوں نے کہا کہ محمد ﷺ کو اپنے باپ کے شہر اور اپنی پیدائش کی جگہ کی طرف شوق ہوگیا ہے (اس لئے قبلہ اسی طرف بدل لیا) اگر وہ ہمارے قبلہ پر ثابت قدم رہتا تو ہم امید کرسکتے تھے کہ وہ ہمارا ساتھی ہے جس کا ہم انتظار کر رہے تھے اور مکہ کے مشرکین سے کہا کہ محمد ﷺ پر اپنا دین خلط ملط (یعنی مشکوک) ہوگیا اس لئے تمہارے قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور اس بات کو اس نے جان لیا ہے کہ تم اس سے زیادہ ہدایت والے ہو اور عنقریب تمہارے دین میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں نازل فرمایا لفظ آیت ” سیقول السفھاء من الناس “ سے لے کر ” الا علی الذین ھدی اللہ “ تک۔ دوسرے دو گروہوں کے بارے میں اس کے بعد والی آیات کو نازل فرمایا۔ (14) امام مالک، ابو داؤد (الناسخ میں) ، ابن جریر اور بیہقی نے دلائل میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ آنے کے بعد سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ پھر قبلہ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا بدر (کی لڑائی) سے دو ماہ پہلے۔ (15) ابن عدی اور بیہقی نے السنن اور دلائل میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ آنے کے بعد سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی پھر مسجد حرام کی طرف پھیر دئیے گئے بدر (کی لڑائی) سے دو ماہ پہلے۔ (16) امام أبو داؤد نے الناسخ میں سعید بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ ربیع الاول کے مہینے سے لے کر جماد الآخر تک۔ (17) ابن جریر نے سعید بن مسیب (رح) نے فرمایا کہ انصار نے نبی اکرم ﷺ کو مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے تین حج تک قبلہ اول کی طرف نماز پڑھی اور نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ آنے کے بعد سولہ مہینے قبلہ اول کی طرف نماز پڑھی۔ (18) ابن جریر نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ آنے کے بعد سولہ مہینے قبلہ اول کی طرف نماز پڑھی۔ (19) ابن جریر نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے میدنہ منورہ آنے کے بعد تیرہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ (20) البزار اور ابن جریر نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے نو یا دس مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ اس درمیان کہ آپ مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے اور بیت المقدس کی طرف دورکعتیں پڑھ چکے تھے کہ آپ نے اپنے چہرہ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا بیوقوف لوگ کہنے لگے کہ کس بات نے ان کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر پہلے وہ تھے۔ (21) امام بخاری نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے علاوہ کوئی اور باقی نہیں ہے جس نے دو قبلوں کی طرف نماز پڑھی ہو۔ (22) ابو داؤد (الناسخ میں) ابو یعلی اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے جب یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” فول وجھک شطر المسجد الحرام “۔ بنوسلمہ کے پاس سے ایک آدمی گزرا اور اس نے ان کو آواز دی اور وہ لوگ فجر کی نماز کے رکوع میں تھے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہے تھے۔ خبردار قبلہ کعبہ کی طرف تبدیل ہوچکا ہے دو مرتبہ اس نے کہا (یہ آواز سن کر) وہ لوگ رکوع ہی کی حالت میں کعبہ کی طرف پھرگئے۔ (23) امام مالک، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ابو داؤد نے (الناسخ میں) اور نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے ایک آنے والا آیا اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر اس رات قرآن نازل ہوا ہے۔ اور ان کو حکم کیا گیا ہے کہ کعبہ کا استقبال کریں اس لئے تم بھی اس کا استقبال کرو (پہلے) ان کے چہرے شام کی طرف تھے پھر وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے۔ تحویل قبلہ کے موقع پر امتحان (24) زبیر بن بکار نے اخبار مدینہ میں عثمان بن عبد الرحمن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے تو قبلہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے انتظار میں رہتے تھے اور رسول اللہ ﷺ اہل کتاب کے کاموں میں سے بعض ایسے کام کرلیتے تھے جن کا آپ کو نہ حکم دیا گیا تھا اور نہ اس سے منع کیا گیا تھا۔ اس درمیان کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مسجد میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے دو رکعتیں پڑھ چکے تھے اچانک جبرائیل نازل ہوئے اور ان کو بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا اشارہ فرمایا اور جبرائیل (علیہ السلام) نے بھی بیت اللہ کی طرف نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” قد نری تقلب وجھک فی السماء، فلنولینک قبلۃ ترضھا، فول وجھک شطر المسجد الحرام، وحیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ “۔ ” وان الذین اوتوا الکتب لیعلمون انہ الحق من ربھم، وما اللہ بغافل عما یعملون “ تو منافقوں نے اس پر کہا کہ محمد ﷺ کو اپنی سرزمین (یعنی مکہ) اور اپنی قوم (یعنی قریش) کی طرف شوق ہوگیا ہے (اس لئے اس طرف رخ کرلیا ہے) اور مشرکین نے کہا کہ محمد ﷺ نے ارادہ کیا کہ ہم کو اپنا قبلہ اور وسیلہ بنا دیں اور اس بات کو اس نے جان لیا کہ ہمارا دین زیادہ ہدایت والا ہے ان کے دین سے اور یہودیوں نے مؤمنین سے کہا تم لوگ مکہ کی طرف کیوں پھرگئے اور تم نے اس قبلہ کو چھوڑ دیا جو موسیٰ ، یعقوب اور سب انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ تھا۔ اللہ کی قسم ! تم فتنہ میں مبتلا کئے گئے ہو اور ایمان والوں نے کہا کہ ہمارے اور ان کے قبلہ کا ایک حکم ہے یا نہیں ؟ تو اس پر اللہ جل شانہ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” سیقول السفھاء من الناس ما ولہم عن قبلتھم التی کانوا علیہا “ الی قولہ ” ایمانکم، ان اللہ بالناس لرؤوف رحیم “ تک۔ (25) عبد بن حمید اور ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ قبلہ (کے بدلنے) میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) آزمائش تھی انصار نے کعبہ کی طرف دو سال نماز پڑھی نبی اکرم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے اور نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کعبہ بیت الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں لوگوں نے کہا کس چیز نے ان کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جن پر پہلے وہ تھے اس آدمی کو (یعنی نبی اکرم ﷺ کو اپنی پیدائش کی جگہ کا شوق ہوگیا (اس لئے اس کی طرف رخ کرلیا اللہ جل شانہ نے فرمایا لفظ آیت ” علیہا، قل للہ المشرق والمغرب “ اور لوگوں میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ قبلہ بیت الحرام کی طرف پھیر دیا گیا اور ہمارے ان اعمال کا کیا بنے گا جو ہم نے قبلہ اول کی طرف کئے گئے تھے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم “ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتے ہیں جس چیز سے چاہیں اپنے حکم میں سے ایک حکم کے بعد دوسرے حکم سے تاکہ وہ جان لیں کہ کون اس کی اطاعت کرنے والا ہے ان میں سے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے اور ان میں سے ہر ایک مقبول ہے اور کسی درجات میں ایمان باللہ، اخلاص اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے میں۔ (26) ابن سعد، ابن ابی شیبہ نے عمارہ بن اوس انصاری ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے عشاء کی دو نمازیں (یعنی مغرب اور عشاء) میں سے ایک نماز پڑھ رہے تھے ابھی ہم نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آدمی نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوئے آواز دی کہ نماز کعبہ کی طرف واجب ہوگئی ہے تو ہمارے امام نے کعبہ کی طرف رخ پھیرلیا اور (ان کے ساتھ) عورتوں اور بچوں نے بھی۔ (27) ابن ابی شیبہ اور البزار نے أنس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا منادی آیا کہ قبلہ بیت اللہ کی طرف پھیر دیا گیا ہے امام دو رکعتیں پڑھا چکا تھا تو سب لوگ گھوم گئے اور باقی دو رکعتیں کعبہ کی طرف ادا کیں۔ (28) ابن سعد نے محمد بن عبد اللہ بن جحش ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو قبلوں کی طرف نماز پڑھی۔ بیت اللہ کی طرف قبلہ پھیر دیا گیا اور ہم ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ کعبہ کی طرف پھرگئے اور ہم آپ کے ساتھ پھرگئے۔ (29) ابن ابی حاتم نے أبو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یھدی من یشاء الی صراط مستقیم “ سے مراد ہے کہ ان کو شہادت اور گمراہیوں اور فتنہ سے نکلنے کی جگہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (30) امام احمد اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل کتاب ہمارے ساتھ کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا ہم جمعہ (کے دن) پر حسد کرتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہدایت دی اور وہ اس سے بھٹک گئے اور اس قبلہ پر (حسد کرتے ہیں) جس کی اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہدایت دی اور وہ اسے گم کر بیٹھے اور جو ہم امام کے پیچھے آمین کہتے ہیں اس پر بھی وہ ہم سے حسد کرتے ہیں۔ (31) امام طبرانی نے عثمان بن حنیف ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے آنے سے پہلے لوگوں کو صرف اللہ پر ایمان لانے کے قول کی طرف اور بغیر عمل کے (صرف) اس کی تصدیق کے بارے میں بلاتے تھے۔ اور بیت المقدس کی طرف تھا۔ منہ کرنے کی طرف دعوت دیتے تھے۔ جب ہماری طرف ہجرت فرمائی (یعنی مدینہ منورہ کی طرف) اور فرائض نازل ہوئے تو مدینہ کو منسوخ کردیا اور بیت الحرام نے بیت المقدس کو منسوخ کردیا تو ایمان قول اور عمل دونوں پر مشتمل ہوگیا۔ (32) البزار اور طبرانی نے عمرو بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ مدینہ منورہ آنے کے بعد ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی پھر قبلہ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔
Top