Dure-Mansoor - Al-Baqara : 126
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اجْعَلْ : بنا هٰذَا بَلَدًا : اس شہر کو اٰمِنًا : امن والا وَارْزُقْ : روزی دے اَهْلَهُ ۔ مِنَ الثَّمَرَاتِ : اس کے رہنے والے۔ پھلوں کی مَنْ اٰمَنَ : جو ایمان لائے مِنْهُمْ : ان میں سے بِاللہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور آخرت کے دن قَالَ : فرمایا وَمَنْ کَفَرَ : اور جس نے کفر کیا فَأُمَتِّعُهُ : اس کو نفع دوں گا قَلِيلًا ۔ ثُمَّ : تھوڑا سا۔ پھر اَضْطَرُّهُ : اس کو مجبور کروں گا اِلٰى : طرف عَذَابِ : عذاب النَّارِ : دوزخ وَبِئْسَ : اور وہ بری جگہ ہے الْمَصِيرُ : لوٹنے کی
اور جب کہا ابراہیم نے اے میرے رب بنا دے اس شہر کو امن والا اور رزق دے یہاں کے رہنے والوں کو پھلوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اللہ پر اور یوم آخرت پر، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جو شخص کفر اختیار کرے گا سو میں اسے تھوڑا سا نفع پہنچاؤں گا۔ پھر اسے دوزخ کے عذاب کی طرف جبرا پہنچاؤں گا اور وہ بری جگہ ہے۔
(1) احمد، مسلم، نسائی، ابن جریر نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ منورہ کو دونوں پتھر کے کناروں کے درمیان حرم بناتا ہوں نہ اس میں شکار کیا جائے گا نہ اس کے کانٹے دار درختوں کو کاٹا جائیگا۔ (2) مسلم، ابن جریر نے رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ منورہ کو اس کے دو پتھریلے کناروں کے درمیان حرم بناتا ہوں۔ (3) احمد نے ابو قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا پھر آپ نے سعد کی زمین میں ایک ٹیلہ پر سقیاء کے گھروں کے پاس نماز پڑھی پھر فرمایا اے اللہ ! بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) تیرے خلیل، تیرے بندے اور تیرے نبی نے اہل مکہ کے لیے دعا کی تھی۔ اور میں محمد تیرا بندہ اور تیرا رسول ہوں (اور) آپ سے مدینہ والوں کے لیے اسی طرح دعا کرتا ہوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں آپ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کے صاع میں ان کے مد میں اور ان کے پھلوں میں برکت عطا فرما دیں۔ اے اللہ ! ہمارے لئے مدینہ منورہ کو اس طرح محبوب بنا دے جس طرح مکہ مکرمہ کو آپ نے ہمارے لئے محبوب بنایا تھا اور جو اس میں بیماری ہے اسے ہم سے دور ڈال دے۔ اے اللہ ! بلاشبہ میں نے حرم بنایا ہے دونوں پتھریلے ٹیلوں کے درمیان جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان پر آپ نے حرم شریف کو حرم قرار دیا ہے۔ حرم مدینہ منورہ کا تذکرہ (4) امام بخاری اور مسلم نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف دیکھا اور یہ دعا فرمائی اے اللہ ! بلاشبہ میں ہر اس علاقہ کو حرم بناتا ہوں جو ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو بنایا تھا اے اللہ 1 اہل مدینہ کے مد میں اور ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔ (5) امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ ! بلاشبہ ابراہیم تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں انہوں نے آپ سے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لیے دعا کرتا ہوں اسی طرح جس برح انہوں نے مکہ کے لیے دعا کی تھی اور اس کے ساتھ اس کے مثل اور بھی دعا کرتا ہوں۔ (6) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ ! بلاشبہ تیرے بندے اور تیرے خلیل نے مکہ والوں کے لیے برکت کی دعا کی تھی اور میں محمد تیرا بندہ اور رسول ہوں اور میں آپ سے مدینہ والوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ان کے صاع اور مد میں ایسی برکت عطا فرما جس طرح آپ نے مکہ والوں کے لیے برکت عطا فرمائی اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں مزید ڈال دیجئے۔ (7) امام احمد، بخاری اور مسلم نے عبد اللہ بن زید بن عاصم المازنی ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی اور میں نے مدینہ منورہ کو حرم بنایا جیسے ابراہیم نے مکہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ کے مد اور اس کے صاع کے لیے ایسی دعا کرتا ہوں جیسی ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ (8) امام بخاری اور الجندی نے فضائل مکہ میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ ! بلاشبہ ابراہیم تیرے بندے، تیرے نبی ہیں انہوں نے مکہ والوں کے لیے دعا کی اور میں مدینہ والوں کے لیے ایسی دعا کرتا ہوں جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ والوں کے لیے دعا کی تھی۔ (9) امام احمد، بخاری اور مسلم نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ جو برکت آپ نے مکہ مکرمہ میں کی ہے اس سے دوگنی برکت مدینہ منورہ میں کر دیجئے۔ (10) الازرقی نے مکہ کی تاریخ میں اور الجندی نے محمد بن اسود (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے حرم کی علامات نصب فرمائیں ان کی جگہوں کی طرف جبرائیل (علیہ السلام) نے اشارہ کیا تھا۔ (11) الجندی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ مکہ مکرمہ کے حرم کی طرح آسمان میں بھی ایک حرم ہے۔ (12) الازرقی، طبرانی اور بیہقی نے الشعب میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے چھ آدمیوں پر لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ کی کتاب میں زیادتی کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو جھٹلانے والا اور ایسا غائب شخص جو اس کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے جس کو اللہ نے عزت دی اور اس کو عزت دینے کی کوشش کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا اور میرے طریقے کو چھوڑنے والا۔ اور میری اولاد پر اس چیز کو حلال جاننے والا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا اور اللہ کے حرام کو حلال سمجھنے والا۔ (13) امام بخاری (رح) نے بغیر سند کے اور ابن ماجہ نے صفیہ شیبہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے فتح مکہ کے دن نبی اکرم ﷺ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا اے لوگو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حرم مکہ کو آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے دن سے ہی حرام قرار دیا ہے اور یہ قیامت کے دن تک حرام رہے گا اس کا نہ درخت کاٹا جائے گا نہ اس کے شکار کو ڈرایا جائے گا اور نہ اس کی گری ہوئی چیز کو اٹھایا جائے مگر اس کے لئے جو اس کا اعلان کرے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا سوائے اذخر (گھاس) کے کیونکہ وہ گھروں اور قبور کے لیے ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوائے اذخر کے (یعنی اذخر کو کاٹ سکتا ہے) ۔ (14) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور الارزقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے آسمان، زمین، سورج اور چاند کی پیدائش کے دن سے ہی حرام قرار دیا۔ اور ان دونوں پہاڑوں ابو قیس اور جبل نور کو رکھا۔ سو وہ حرام ہے اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت کے دن تک اور مجھ سے پہلے اس میں کسی ایک کے لیے بھی قتال حلال نہیں ہوا۔ اور میرے بعد بھی کسی کے لیے قتال حلال نہیں ہوگا۔ اور میرے لئے بھی حلال نہیں ہوا مگر دن کے کچھ وقت کے لیے۔ سو وہ حرام ہے اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت کے دن تک نہ اس کا کانٹا توڑا جائے اور نہ اس کے درخت کو کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو بگایا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز کو نہ اٹھایا جائے مگر جو اس کے لئے جو اس کا اعلان کرائے حضرت عباس ؓ نے فرمایا مگر اذخر کا استثنی فرما دیں بیشک وہ ہمارے لوہار اور ہمارے گھروں کے لئے ہے (یعنی کام آتی ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوائے اذخر کے (یعنی) اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت فرما دی۔ (15) احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر مکہ کو فتح فرمایا تو آپ نے اس میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی۔ پھر فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں کو مکہ سے روکا اور اس پر اپنے رسول اور ایمان والوں کو غلبہ عطا فرمایا میرے لئے دن میں کچھ وقت کے لیے (قتال) حلال کیا گیا مگر اب وہ قیامت کے دن تک کے لیے حرام ہے۔ اس کے درختوں کو نہ کاٹا جائے اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے حرم کی گری ہوئی چیز کو نہ اٹھایا جائے۔ مگر اعلان کرنے والے کے لئے اٹھانا جائز ہے جس کا کوئی عزیز قتل کیا گیا ہو تو اس کو وہ باتوں میں سے جو بھی معلوم ہو ایک بات کرنے کا اختیار ہوگا چاہے فدیہ لے لے چاہے قصاص لے لے۔ اہل یمن میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا جس کو ابو شاہ کہا جاتا تھا اس نے عرض کیا یارسول اللہ میرے لئے (یہ باتیں) لکھ دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا أبو شاہ کے لیے لکھ دو ۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ اذخر گھاس کا استثناء فرما دیں (یعنی اس کے کاٹنے کی اجازت دیجئے) کیونکہ وہ ہماری قبروں کے لیے اور ہمارے گھروں کے لیے ہے (یعنی استعمال ہوتی ہے) اذخر کا استثنی فرما دیا۔ (16) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حرم کو اللہ تعالیٰ نے حرم بنایا ہے۔ نہیں حلال ہے اس کے گھروں کا بیچنا اور اس کے مکانوں کو کرایہ پر دینا۔ (17) الازرقی نے تاریخ مکہ میں زہری (رح) سے اس آیت لفظ آیت ” رب اجعل ھذا بلدا امنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ لوگوں نے مکہ مکرمہ کو حرم نہیں بنایا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو حرم بنایا ہے سو وہ قیامت تک حرام ہے اور بلاشبہ لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ آدمی ہے جو حرم میں قتل کرے اور وہ آدمی جو اپنے قاتل کے علاوہ کسی غیر کو قتل کرے اور وہ آدمی جو زمانہ جاہلیت کی دشمنی اور کینہ پر عمل کرے۔ (18) الازرقی نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بتایا گیا کہ بلاشبہ حرم عرش تک برابر حرام ہے۔ (19) الازرقی نے قتادہ (رح) سے روایت کہا کہ یہ حرم حرم ہے اللہ تعالیٰ نے ساتویں اور ساتوں زمینوں سے مقرر فرمایا ہے اور بلاشبہ یہ گھر چودہ گھروں میں سے چوتھا ہے (کیونکہ) ہر آسمان میں گھر ہے اور ہر زمین میں گھر ہے۔ اگر (یہ گھر) گرجائیں تو ایک دوسرے پر ہی گریں گے۔ بیت المعمور اور بیت اللہ (20) الازرقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ یہ گھر (یعنی بیت اللہ) بیت المعمور کے بالمقابل ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ساتوں آسمان تک جگہ ہے یا نیچے ساتویں زمین تک جگہ ہے سب کا سب حرم ہے۔ (21) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بیت المعمور جو آسمان میں ہے اس کو صراح کہا جاتا ہے۔ اور وہ کعبہ کی بنیاد پر ہے (یعنی کعبہ شریک کی سیدھ میں ہے) ہر دن ستر ہزار فرشتے اس کا عمرہ کرتے ہیں جن کو پہلے کبھی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا ہوتا اور ساتویں آسمان کے لیے حرم ہے جو حرم کے بالمقابل ہے۔ (22) ابن سعد اور الارزقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے حرم کی علامت ابراہیم (علیہ السلام) نے نصب فرمائیں جو جبریل (علیہ السلام) نے ان کو دکھائی تھی جب مکہ شریف کے فتح کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ نے تمیم بن اسعد خزاعی ؓ کو بھیجا تو انہوں نے وہ علامات جو مٹ چکے تھے اس کو دوبارہ بنا دیا۔ (23) الازرقی نے حسین بن قاسم (رح) سے روایت کیا کہ میں نے بعض اہل علم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدم (علیہ السلام) نے اپنی جان پر شیطان سے خوف محسوس کیا تو انہوں نے اللہ کی پناہ مانگی (اس پر) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو بھیجا جنہوں نے مکہ شریف کو ہر جانب سے گھیر لیا اور اس کے اردگرد کھڑے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس (جگہ) کو حرم بنا دیا جہاں تک فرشتے (کھڑے) تھے۔ اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے ہمارے رب ہم کو اپنے مناسک دکھائیے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے ان کو ساتھ لے گئے اور ان کو مناسک دکھائے اور ان کو حرم کی حدود پر کھڑا کردیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) پتھر رکھ کر نشان لگاتے گئے اور ان پر مٹی ڈال دی جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کی حدود سمجھائیں راوی نے کہا کہ میں یہ بھی سنا کہ اسماعیل (علیہ السلام) کی بکریاں حرم شریف کے اندر چرا کرتی تھیں اس سے بار نہیں نکلتی تھیں جب کسی جانب میں سے اس کی انتہا کو پہنچ جاتی تھیں تو پھر حرم (کی حد) میں لوٹ آتی تھیں۔ (24) الازرقی نے عبدی اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے حرم کی علامات نصب کیں جو انہیں جبرائیل (علیہ السلام) نے دکھائی تھیں وہ پتھر اپنی جگہ پر رہے یہاں تک کہ قصی آئے انہوں نے دوبارہ پتھر لگوائے پھر وہ پتھر (اپنی جگہ پر) لگے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو انہوں نے تمیم بن اسد خزاعی ؓ کو فتح مکہ کے سال بھیجا اور نئے پتھر لگوائے۔ (25) البزار اور طبرانی نے محمد بن اسود بن خلف (رح) سے روایت کیا تو وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ حدود حرم کے نئے پتھر نصب کرتے۔ بیت اللہ میں گناہ سے بچنا (26) الازرقی نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ اے لوگو ! بلاشبہ یہ (اللہ کا) گھر اپنے رب سے متصل ہے وہ تم سے سوال کرنے والا ہے خبردار جن چیزوں کے بارے میں وہ تم سے سوال کرنے والا ہے ان میں غور وفکر کرو۔ خبردار اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جب تم میں سے کوئی اس (گھر) کا رہنے والا ہو اور تم اس میں خون نہ بہاؤ اور تم اس میں سے کسی کی چغلی کے ساتھ نہ چلو۔ (27) البزار نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ قریش کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے اور وہ لوگ کعبہ شریف کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا ان اعمال کی طرف نظر کرو جو تم اس (جگہ) میں کر رہے ہو اس لئے کہ (ان اعمال کے بارے میں) تم سے پوچھا جائے گا تم سے پوچھا جائے گا۔ تمہارے اعمال کے بارے میں (تم کو) بتلایا جائے گا۔ اور (اللہ تعالیٰ کو) یاد کرو کیونکہ اس میں رہنے والا شخص سود نہیں کھاتا اور چغل خوری نہیں کرتا۔ (28) الازرقی نے أبو نجیح (رح) سے روایت کیا کہ طوفان اور سیلاب کے زمانہ میں حرم شریف میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نہیں کھاتی تھیں۔ (29) ابن ابی الدنیا نے ذم الملا ہی میں جویریہ بنت اسماء رحمہما اللہ سے روایت کیا اور وہ اپنے چچا سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ (ایک مرتبہ) میں نے ایک قوم کے ساتھ حج کیا ہم ایک منزل پر اترے ہمارے ساتھ ایک عورت تھی وہ نیند سے بیدار ہوئی اور ایک سانپ اس کے اوپر تھا جو اس کو کچھ بھی تکلیف نہ دیتا تھا۔ یہاں تک کہ ہم حرم کی حدود میں داخل ہوگئے تو وہ سانپ چلا ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے اور ہم نے اپنے (حج کے احکام) پورے کئے اور وہاں سے چل دئیے۔ جب ہم وہاں پہنچے جہاں سانپ عورت کا طوق بن گیا اور یہ وہی جگہ تھی جس میں ہم اترے تھے وہ عورت سو گئی پھر جاگی تو وہ سانپ اس پر لیٹا ہوا تھا پھر سانپ نے پھنکار ماری وادی سانپوں سے بھر گئی۔ انہوں نے اس عورت کو نوچا یہاں تک کہ اس کی ہڈیاں باقی رہ گئیں میں نے اس عورت کی لونڈی سے پوچھا کہ افسوس ہے تجھ پر تو اس عورت کے بارے میں ہم کو بتا۔ اس نے کہا میں نے تین مرتبہ بدکاری کی ہر مرتبہ اس نے بچہ کو جنم دیا جب بچہ پیدا ہوتا تو وہ تنور کو جلا کر اس میں بچہ کو ڈال دیتی۔ (30) الازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا جس نے کسی مسلمان کو اللہ کے حرم سے نکال دیا بغیر کسی وجہ کے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ سے نکال دیا۔ (31) ابن ابی شیبہ، الازرقی نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک لونڈی مکہ مکرمہ میں آئی جب وہ ذی طوی کے مقام پر پہنچی تو اس نے اپنی جوتیوں کو اتار دیا حرم شریف کی تعظیم کرتے ہوئے۔ (32) ابو نعیم نے الحلیہ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک لاکھ آدمیوں نے حج کیا جب وہ حرم شریف کی حدود میں پہنچے تو انہوں نے جوتیاں اتار دیں اور ننگے پاؤں حرم میں داخل ہوئے۔ (33) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انبیاء (علیہم السلام) جب حرم شریف کی علامات پر آتے تھے تو اپنی جوتیاں اتار دیتے تھے۔ (34) الازرقی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ (عیسیٰ (علیہ السلام) کے) حواریوں نے حج کیا جب وہ حرم شریف میں داخل ہوئے تو حرم شریف کی تعظیم کرتے ہوئے پیدا چلے۔ (35) الازرقی نے عبد الرحمن بن باسط ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف چلنے کا ارادہ کیا تو آپ نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور مسجد شریف کے درمیان میں کھڑے ہو کر بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ سے زیادہ محبوب گھر زمین پر نہیں بنایا اور تجھ سے زیادہ محبوب شہر اس کے نزدیک زمین میں نہیں ہے۔ میں تجھ سے بےرغبت ہو کر نہیں نکل رہا لیکن کافروں نے مجھ کو نکال دیا ہے۔ مکہ اللہ کا محبوب شہر ہے (36) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے نکل رہے تھے تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں نکالا جا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تو سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ عزت والا شہر ہے اللہ کے نزدیک اگر تیرے رہنے والوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا تو میں نہ نکلتا۔ (37) ترمذی، امام حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے فرمایا تو شہروں میں کتنا ہی پاکیزہ اور کتنا ہی محبوب شہر ہے تو میرے نزدیک اگر تیری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ (کسی جگہ) سکونت اختیار نہ کرتا۔ (38) ابن سعد، احمد، ترمذی (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ اور الازرقی اور الجندی نے عبد اللہ بن عدی بن حمراء ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ ایک اونٹنی پر سوار تھے اور مقام حرورہ پر کھڑے ہو کر مکہ مکرمہ کے بارے میں فرما رہے تھے اللہ کی قسم ! تو اللہ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کی محبوب ترین زمین ہے۔ اگر تجھ سے مجھ کو نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا۔ (39) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مکہ مکرمہ میں ایک قبیلہ تھا جن کو عمالیق کہا جاتا تھا یہ لوگ بڑے عزت والے اور مالدار تھے اور تعداد میں بھی بہت تھے ان کے پاس گھوڑے، اونٹ اور چوپائے کثرت سے تھے وہ مکہ اور اس کے اردگرد مقام اور مر، نعمان میں چرتے تھے ان کی معیشت فراخ تھی۔ اور ان کی وادیاں سرسبز و شاداب تھیں۔ ان کی زمین بڑی زرخیر تھی۔ اور ان کے کانٹے دار درخت گنجان تھے۔ وہ لوگ خوشحال زندگی میں تھے (لیکن) وہ برابر بدکاری، اسراف سر عام گناہ کرنا اور غریبوں پر ظلم و ستم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہاں تکہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ساری نعمتیں ان سے چھین لیں پھر (اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک لی اور ان پر قحط کو مسلط کرکے جان و مال کو کم کردیا اور وہ مکہ مکرمہ میں پانی بیچتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مکہ مکرمہ سے ناکل دیا اس چیز کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کردی یہاں تک کہ وہ حرم شریف سے نکل کر اس کے اردگرد رہنے لگے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے پیچھے قحط سالی کو لگا دیا ان کے سامنے (بالکل) بند ہوگئی (پھر) ان پر مزید قحط سال مسلط کردی۔ یہاں تک کہ اپنے آباء جیسی غریب زندگی گزارنے لگے۔ حمیر قبلیہ کی مسافر قوم تھی جب یہ لوگ یمن کے شہروں میں داخل ہوئے تو متفرق ہو کر ہلاک ہوگئے اللہ تعالیٰ نے حرم شریف میں ان کے بعد جرھم (قوم) کو بدل دیا (یعنی ان کو آباد کردیا) وہ حرم شریف کے رہنے والے تھے یہاں تک کہ یہ لوگ بھی اس میں سرکشی کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے حق میں کوتاہی کی تو اللہ تعالیٰ نے سب کو ہلاک فرما دیا۔ (40) ابن ابی شیبہ نے ابن سابط (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں جب موسم (یعنی حج) کا موقع آتا تو سب لوگ (شہر سے) باہر نکل جاتے تھے (یہاں تک کہ) کوئی بھی (شہر) مکہ میں باقی نہ رہتا تھا۔ مگر (ایک دفعہ) ایک چور شہر میں پیچھے رہ گیا۔ اس نے سونے کے ٹکڑے (کو چرانے) کا ارادہ کیا پھر وہ کعبہ میں داخل ہوا تاکہ وہ سونے کا ٹکڑا اٹھالے جب اس نے اپنے سر کو بیت اللہ کے سوراخ میں داخل کیا (تو پھنس گیا) انہوں نے اس کے سر کو بیت اللہ کے اندر اور اس کی سرین کو باہر دیکھا۔ انہوں نے اس کو (نکال کر) کتوں کے آگے ڈال دیا اور بیت اللہ کے سوراخ کو بند کردیا۔ بیت اللہ کی حرمت کا لحاظ کرنا ضروری ہے (41) الازرقی اور طبرانی نے حویطب بن عبد العزی (رح) سے روایت کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں کعبہ شریف کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ایک عورت اپنے شوہر سے بھاگ کر کعبہ کی پناہ لینے آئی اس کا شوہر آیا اور نے (اس کو مارنے کے لیے) اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اس کا ہاتھ خشک ہوگیا (اور) فرماتے ہیں کہ میں نے اس آدمی کو زمانہ اسلام میں دیکھا کہ اس کا ہاتھ شل تھا۔ (42) الازرقی نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ حطیم جو رکن، مقام، زم زم اور حجر اسود کے درمیان ہے کہ ایک مرد اسلف اور ایک عورت نائلہ کعبہ شریف میں داخل ہوئے۔ مرد نے عورت کا بوسہ لیا تو دونوں پتھروں میں مسخ کر دئیے گئے۔ لوگوں نے دونوں کو کعبہ (کے اندر) سے نکالا اور ایک کو زم زم کی جگہ پر نصب کردیا اور دوسرے کو کعبہ کے سامنے نصب کردیا تاکہ لوگ ان دونوں سے عبرت حاصل کریں اور ایسے گناہ کے ارتکاب سے رک جائیں اس جگہ کو حطیم کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ یہاں قسمیں اٹھوانے کے لیے جمع ہوتے تھے اور اس میں مظلوم کی بددعا ظالم کے حق میں قبول کی جاتی ہے بہت تھوڑا ایسا ہوا ہے کہ یہاں پر کسی ظالم پر بددعا کی ہو اور وہ ہلاک نہ ہوا ہے۔ اور تھوڑا ایسا ہوا ہے کہ یہاں کسی گناہ کی قسم اٹھائی ہو اور اس پر سزا میں جلدی نہ کی گئی ہو۔ اس وجہ سے لوگ آپس میں ظلم کرنے سے بچتے ہیں اور یہاں قسمیں اٹھانے سے ڈرتے تھے یہ اس طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے معاملہ کو قیامت کے دن تک مؤخر کردیا۔ (43) الازرقی نے ایوب بن موسیٰ (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت تھی اس کے ساتھ چچ کا چھوٹا بیٹھا تھا۔ جس کے لئے وہ عورت محنت مزدوری کرکے روزی لاتی تھی ایک دن اس عورت نے اپنے بچے سے کہا اے میرے بیٹے میں تجھ سے غائب ہوجاؤں گی اور میں اس بات سے ڈرتی ہوں کہ ایک ظالم تجھ پر ظلم کرے گا۔ میرے بعد اگر تیرے پاس ظالم آئے تو بلاشبہ مکہ مکرمہ میں اللہ کا ایک ایسا گھر ہے کہ کوئی گھر بھی اس کے مشابہ نہیں اور مفاسد اس کے قریب نہیں آتے اور اس پر غلاف ڈالے ہوئے ہیں جس دن کوئی تجھ پر ظلم کرے گا وہ عذاب ڈالے ہوئے ہیں جس دن کوئی ظالم تجھ پر ظالم کرے گا تو وہ عذاب دیا جائے گا اور اس کا یاک رب ہے جو تیری (فریاد) کو سنے گا اور اسی نے کہا کہ ایک آدمی اس کے پاس آیا اس کو اپنا غلام بنا لیا۔ لڑکے نے جب بیت اللہ کو دیکھا تو اس صفت کو پہچان گیا وہ سواری سے نیچے اتر آیا یہاں تک کہ بیت اللہ کے ساتھ چمٹ گیا اس کا مالک آیا اور اس کو پکڑنے کے لیے اپنے ہاتھ کو بڑھایا زمانہ جاہلیت میں اس نے فتوی لیا اس کو یہ فتوی دیا گیا کہ یہ ہاتھ کے بدلہ میں ایک اونٹ قربان کر اس نے ایسا ہی کیا اس کے ہاتھ ٹھیک ہوگئے تو اس نے غلام کا راستہ چھوڑ دیا اور اس کو آزاد کردیا صبح سویرے۔ (44) الازرقی نے عبد اللہ بن ربیعہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی بنی کنانہ اور ہذیل میں سے زمانہ جاہلیت میں اپنے چچا کے بیٹے پر ظلم و ستم کرتا تھا اس نے اسے اللہ کی اور اپنی قرابت کے واسطے دئیے مگر اس نے انکار کردیا اور ظلم کرتا رہا وہ حرم شریف میں چلا گیا اور کہنے لگا اے اللہ ! میں آپ سے فلاں چچا کے بیٹے کے بارے میں ایسی بددعا کرتا ہوں جیسے ایک مجبور حال آدمی پوری آپ زاری کے ساتھ دعا کرتا ہے کہ اس کو ایسی بیماری میں مبتلا کر دے جس کی دوا نہ ہو۔ راوی نے کہا (یہ دعا کرکے) وہ لڑکا واپس آیا تو اس کے چچا کا بیٹا پیٹ کی بیماری میں مبتلا تھا اور اس کا پیٹ مشکیزہ کی طرح پھولتا گیا یہاں تک کہ پھٹ گیا (راوی حدیث) عبد المطلب نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے یہ واقعہ بیان کیا انہوں نے فرمایا کہ میں نے اس آدمی کو دیکھا تھا جو اپنے چچا کے لڑکے کے لیے اندھے ہونے کی بددعا کر رہا تھا پھر میں نے اس کو بھی دیکھا کہ اندھے کو پکڑ کر لایا جاتا تھا۔ (45) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے الشعب میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اے مکہ والو ! اس اپنے حرم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیا تم جانتے ہو کہ تم سے پہلے اس حرم میں کون لوگ رہتے تھے بنو فلاں اس میں رہتے تھے انہوں نے اس کی حرمت کو پامال کیا۔ تو وہ ہلاک کر دئیے گئے اور بنو فلاں رہتے تھے انہوں نے بھی اس کی حرمت کو حلال کرلیا وہ بھی ہلاک کر دئیے گئے یہاں تک کہ انہوں نے امت سے خاندان شمار کئے جیسا اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر فرمایا اللہ کی قسم کسی اور جگہ دس گناہ کرنا میرے نزدیک اس میں ایک گناہ کرنے سے بہتر ہے۔ (46) الجندی نے طاؤس سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اگر کوئی گناہ کرتے تھے تو فورا پکڑے جاتے تھے۔ اور قریب ہے پھر وہی جلدی سزا کا حکم لوٹ آئے۔ (47) الازریق، الجندی اور ابن خزیمہ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ قریش مکہ سے فرمایا کہ تم سے پہلے اس گھر کے والی طسم تھے انہوں نے اس کے حق کو حقیر جانا۔ (یعنی اس کے حق کو ادا نہ کیا) اور اس کی حرمت کو پامال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا پھر ان کے بعد جرھم (قبیلہ) کے لوگ والی بنے انہوں نے بھی اس کے حق کو حقیر جانا اور اس کی حرمت کو پامال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی ہلاک کردیا تم لوگ اس کی اہانت نہ کرو۔ اور اس کی حرمت کی تعظیم نہ کرو۔ (48) الازرقی اور الجندی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ کسی اور جگہ ستر گناہ کرنا مکہ میں ایک گناہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (49) الجندی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جس طرح مکہ مکرمہ میں نیکیاں دوگنی کی جاتی ہیں (یعنی ہر نیکی پر دو گنا اجر ملتا ہے) اسی طرح برائیاں بھی دوگنی کی جاتی ہیں (یعنی ہر برائی پر دو گنا ملتا ہے) (50) الازرقی نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک غلطی سو غلطیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک نیکی بھی (سو نیکیوں کے برابر) ہے۔ (51) ابوبکر الواسطی نے بیت المقدس کے فضائل میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مکہ مکرمہ ایسا شہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت بیان فرمائی اس کی حرمت کو بہت بلند فرما دیا۔ مکہ کو پیدا کیا گیا اور اسے ہزار سال زمین کی تخلیق سے پہلے فرشتوں کے ساتھ گھیر دیا۔ اور مدینہ منورہ بیت المقدس کے ساتھ ملایا پھر ساری زمین کو ایک ہی بار ہزار سال کے بعد پیدا فرمایا : وأما قولہ تعالیٰ : وارزق اہلہ من الثمرات (52) الازرقی نے محمد بن منکدر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حرم شریف کو رکھا تو طائت کو فلسطین سے (یہاں) منتقل فرمایا۔ (53) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے محمد بن مسلم طائفی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے حرم شریف کے لیے یہ دعا فرمائی لفظ آیت ” وارزق اہلہ من الثمرات “ تو اللہ تعالیٰ نے طائف کو فلسطین سے یہاں منتقل فرما دیا۔ (54) ابن ابی حاتم، الازرقی نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی وجہ سے شام کی بستیوں میں سے ایک بستی کو طائف کے مقام پر منتقل فرما دیا۔ طائف کی زمین ملک شام کی ہے (55) الازرقی نے سعید بن المسیب بن یسار رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ میں نے نافع بن جبیر بن مطعم ؓ کی بعض اولاد سے یہ سنا وہ اس بات کو ذکر کرتے تھے کہ انہوں نے سنا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کے لیے دعا فرمائی کہ ان کے رہنے والوں کو پھلوں میں سے رزق عطا فرمائیں تو اللہ تعالیٰ نے طائف کی زمین کو شام سے منتقل فرمایا اور اس کو حرم کے رزق کے لیے یہاں رکھ دیا۔ (56) الازرقی نے محمد بن منکدر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حرم شریف کو رکھا تو طائف کو سلفطین سے (یہاں) منتقل فرمایا۔ (53) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے محمد بن مسلم طائفی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے حرم شریف کے لیے یہ دعا فرمائی لفظ آیت ” وارزق اہلہ من الثمرات “ تو اللہ تعالیٰ نے طائف کو فلسطین سے یہاں منتقل فرما دیا۔ (54) ابن ابی حاتم، الازرقی نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی وجہ سے شام کی بستیوں میں سے ایک بستی کو طائف کے مقام پر منتقل فرما دیا۔ طائف کی زمین ملک شام کی ہے (55) الازرقی نے سعید بن المسیب بن یسار رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ میں نے نافع بن جبیر بن مطعم ؓ کی بعض اولاد سے یہ سنا وہ اس بات کو ذکر کرتے تھے کہ انہوں نے سنا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کے لیے دعا فرمائی کہ ان کے رہنے والوں کو پھلوں میں سے رزق عطا فرمائیں تو اللہ تعالیٰ نے طائف کی زمین کو شام سے منتقل فرمایا اور اس کو حرم کے رزق کے لیے یہاں رکھ دیا۔ (56) الالرزقی نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف مؤمنین کے لیے دعا فرمائی اور کفار کے لیے کوئی دعا نہ فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ومن کفر فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب النار، وبئس المصیر “۔ (57) سفیان بن عینیہ نے مجاہد (رح) سے روایت کی کہ اس آیت لفظ آیت ” وارزق اہلہ من الثمرات من امن “ میں ابراہیم (علیہ السلام) نے اس لوگوں کے لیے رزق کو طلب فرمایا جو اللہ پر اور دن آخرت پر ایمان لے آئے (مگر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص کفر کرے گا میں اس کو بھی رزق دوں گا۔ (58) ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” من امن منھم باللہ “ میں ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں ایمان والوں کو خاص فرمایا تھا تمام لوگوں کے لیے آپ نے سوال نہیں کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ومن کفر “ یعنی میں کافروں کو بھی رزق دوں گا جس طرح ایمان والوں کو رزق دوں گا (فرمایا) میں نے ہی مخلوق کو پیدا کیا تاکہ ان کو رزق دوں (اسی کو فرمایا) لفظ آیت ” فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب النار “ پھر ابن عباس ؓ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” کلا نمد ھؤلاء “ (سورۃ اسراء آیت 20) (59) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ؤبو العالیہ سے روایت کی ہے کہ ابی بن کعب ؓ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” ومن کفر “ یہ رب تعالیٰ کے قول میں سے ہے اسی لئے فرمایا لفظ آیت ” ومن کفر فامتعہ قلیلا “ اور ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ جو شخص کفر کرے اس کو تھوڑا سا نفع دیجئے (راوی حدیث أبو العالیہ فرماتے ہیں۔ اسی لئے میں نے کہا کہ ابن عباس ؓ نے اس کو یوں پڑھا لفظ آیت ” فامتعہ “ امر کے صیغہ کے ساتھ اسی وجہ سے انہوں نے فرمایا کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے۔
Top