Dure-Mansoor - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور ان لوگوں نے کہا کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں۔
قریش کا اجتماعی طور پر آپ ﷺ سے گفتگو : 1:۔ ابن جریر، ابن اسحاق، ابن منذر اور ابن ابی حاتم ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوسفیان بن حرب اور قبیلہ عبدالدار کا ایک آدمی (بقول بغوی نضر بن حارث) اور ابو البختری جو بنو اسد کے بھائی ہیں۔ اسود بن المطلب، زمعہ بن اسود، ولید بن مغیرہ، ابوجہل بن ہشام، عبداللہ بن ابی امیہ، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، نبیہ بن حجاج، منبہ بن حجاج اور ان کے ساتھ کچھ لوگ سب کے سب غروب آفتاب کے بعد کعبہ کی پشت کے پاس جمع ہوئے اور باہم مشورہ کیا کہ کسی کو محمد ﷺ کے پاس بھیج کر ان کو بلواؤ اور ان سے بات چیت کرو اور جھگڑا طے کرلو تاکہ اتمام حجت ہوجائے اور (پھر تم جو کچھ کرو) تم کو معذور سمجھا جائے چناچہ ایک شخص کو بھیج کر یہ پیغام کہلایا کہ تمہاری قوم کے سردار تم سے گفتگو کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں آکر بات چیت کرلو رسول اللہ ﷺ کو خیال ہوا کہ لوگوں کی رائے میں کوئی نئ تبدیلی ہوگئی آپ تو دل وجان سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کو ہدایت ہوجائے پیام ملتے ہی فورا چلے آئے جب آکر بیٹھ گئے تو حاضرین نے کہا محمد ﷺ ہم نے آدمی بھیج کر تم کو اس غرض سے بلوایا ہے کہ تمہارے متعلق ہم حجت تمام کردیں کوئی عربی شخص آج تک اپنی قوم پر وہ مشکلات نہیں لایا جو تم اپنی قوم پر لائے ہو تم نے اسلاف کو گالیاں دیں ان کے مذہب کو برا بھلا کہا جماعت میں پھوٹ ڈال دی کوئی ایسی قبیح بات باقی نہیں جو تم نے اپنے اور ہمارے درمیان پیدا نہ کردی ہو اگر اس چیز (قرآن اور اسلام) کو پیدا کرنے سے تمہارا مقصد حصول زر ہے تو ہم آپس میں چندہ کرکے تم کو اتنا مال دینے کو تیار ہیں کہ تم سب سے زیادہ دولت مند ہوجاؤ اور اگر تم عزت کے طلبگار ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بنالیں گے اور اگر حکومت چاہتے ہو تو اپنا حاکم بھی تم کو قرار دے سکتے ہیں اور اگر کوئی جن تم پر مسلط ہوگیا ہے جو یہ کلام تم کو بتاتا ہے اور تم اس کو نہیں لوٹا سکتے تو ہم تمہارے علاج کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں (کسی کاہن یا عامل کو روپیہ دے کر اس کا اتارا کرا دیں گے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جتنی باتیں تم نے کہیں ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ میں یہ قرآن پیش کرکے نہ زر کا طبگار ہوں نہ عزت وسیادت کا نہ حکومت واقتدار کا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور مجھے ایک کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا کہ (ماننے والوں کو جنت کی) خوشخبری دے دوں اور (نہ ماننے والوں کو دوزخ سے) ڈراوں اب میں اللہ کا پیام پہنچا چکا اور تم کو نصیحت کرچکا اگر مان لوگے تو یہ دنیا اور آخرت میں تمہاری خوشی نصیبی ہوگی رد کردوگے تو میں اللہ کے حکم پر صبر کروں گا اور منتظر رہوں گا کہ اللہ میرا اور تمہارا کیا فیصلہ کرتا ہے کہنے لگے محمد جو کچھ ہم نے پیش کیا اگر تم کو وہ قبول نہیں تو (اپنی پیغمبری کا ثبوت پیش کرو) تم واقف ہو ہماری یہ بستی بہت تنگ ہے (ہر طرف سے پہاڑ گھیرے ہوئے ہیں ہم اس کو کسی طرف نہیں بڑھا سکتے) اور ہمارے پاس مال بھی سب (یعنی اہل شام ویمن) سے کم ہے اور ہماری زندگی بھی بہت زیادہ دکھی ہے پس تم اپنے رب سے درخواست کرکے ان پہاڑوں کو جنہوں نے ہماری بستی کو تنگ کر رکھا ہے یہاں سے ہٹوا دو کہ ہمارا یہ شہر پھیل جائے اور شام و عراق کی طرح (ہمارے ملک میں بھی) ہمارے لئے دریا بہادو اور یہ بھی اپنے رب سے کرا دو کہ ہمارے آباؤ و اجداد اور زندہ ہوجائیں جن میں قصی بن کلاب (قریش کا مورث اعلی) بھی ضرور ہو وہ بڑا سچا آدمی تھا پھر ان سب سے دریافت کریں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ سچ ہے یا جھوٹ اگر وہ تمہاری تصدیق کردیں گے تو ہم بھی تم کو سچا مان لیں گے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اس لئے نہیں بھیجا گیا جو پیام مجھے دے بھیجا گیا تھا وہ میں نے تم کو پہنچا دیا ہے اگر مان لوگے تو دنیاوآخرت میں یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی قبول نہ کروگے تو میں اللہ کے حکم کے انتظار میں صبر کروں گا کہنے لگے اچھا اگر تم یہ نہیں کرسکتے تو اپنے رب سے کہہ کر اتنا ہی کرادو کہ وہ تمہاری تصدیق کرنے کے لئے ایک فرشتے کو بھیج دے اور تم کو کچھ باغ اور سونے چاندی کے خزانے دے دے کہ جس تکلیف (اور افلاس) میں ہم تم کو دیکھ رہے ہیں اس سے تم بےغم ہوجاؤ تم بازاروں میں کھڑے ہو کر ہماری طرح روزی کی جستجو میں لگے رہتے ہو پھر اس کی فکر تم کو نہ رہے حضور ﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے اس لئے نہیں بھیجا مجھے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے کہنے لگے اچھا تو ہمارے لئے آسمان کو ہی گرا دو کیونکہ تمہارا یہ دعوی ہے کہ تمہارا رب اگر چاہے تو ایسا کرسکتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا یہ اختیار اللہ کو ہے اگر وہ تمہارے ساتھ ایسا کرنا چاہے گا تو کردے گا ایک شخص بولا ہم تو تمہاری بات اس وقت تک نہ مانیں گے جب تک اللہ کو اور فرشتوں کو تم ہمارے سامنے لا کر شہادت نہ دلوا دو یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا لڑکا عبداللہ بن ابی امیہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور (راستہ) میں کہنے لگا محمد تمہاری قوم نے چند باتیں تمہارے سامنے رکھیں اور تم نے کسی بات کو قبول نہیں کیا پھر انہوں نے چند باتیں طلب کیں جن سے معلوم ہوجاتا کہ اللہ کے ہاں تمہارا خصوصی مرتبہ ہے آپ نے ان کو بھی نہ مانا پھر انہوں نے آپ سے کہا کہ جس عذاب سے تو ڈرا رہے ہو وہ جلدلے آؤ آپ نے ایسا بھی نہ کیا اب بخدا میں تمہاری اس بات کا صرف اس وقت ہی یقین کرسکوں گا کہ تم میری نظر کے سامنے سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جاؤ پھر میرے سامنے وہاں سے ایک کھلی ہوئی کتاب لے کر آجاؤ اور تمہارے ساتھ چار فرشتے بھی آئیں جو تمہاری تصدیق کریں اور میرا تو خیال ہے کہ اگر تم ایسا کر بھی گذرو گے تب بھی میں تمہاری تصدیق نہ کرسکوں پھر وہ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر واپس چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ غمگین ہو کر اپنے گھر کو لوٹ آئے اس امید کے ختم ہونے پر جو اپنی قوم سے ان کو تھی جب ان کو دعوت دی اور جب دیکھا خاص کر ان کی تابعداری کرنے والوں کو (تو ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے) اور اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں قرآن نازل فرمادیا جو عبداللہ بن ابی امیہ نے آپ کو کہا تھا (آیت) ” وقالولن نومن لک “ سے لے کر ” بشرارسولا “ تک اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول (آیت) ” لن نومن بالرحمن “ کے متعلق بھی یہ نازل فرما دیا (آیت) ” کذلک ارسلنک فی امۃ قدخلت “ (الآیۃ) (الرعد آیت : 30) اور اس کے متعلق بھی قرآن اتارا جو آپ سے آپ کی قوم نے اپنے لئے مطالبات کئے تھے کہ پہاڑ چلائے جائیں اور پہاڑ یہاں سے ہٹائے جائیں انہوں نے اپنے مردوں کو زندہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس کے متعلق بھی قرآن نازک فرمایا (آیت) ” ولوان قرانا سیرت بہ الجبال “ الایۃ (الرعد آیت 31) 2:۔ سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقالولن نومن لک “ (یہ آیت) ام سلمہ کے بھائی کے بارے میں نازل ہوئی (جن کا نام تھا) عبداللہ بن ابی امیہ ؓ ۔ 3:۔ ابن جریر نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حتی تفجرلنا “ میں تفجر کو تخفیف کے ساتھ پڑھا۔ 4:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” تفجرلنا من الارض ینبوعا “ یعنی ہمارے اس شہر میں (چشمے جاری ہوجائیں) 5:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ینبوعا “ سے مراد ہے چشمے۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الینبوع “ سے مراد ہے وہ پانی جو چشمے سے جاری ہو۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اوتکون لک جنۃ من نخیل وعنب “ سے مراد ہے زمین اور جائداد۔ 8:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اوتسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا “ میں کسفا سے مراد ہے ٹکڑا (آسمان سے ) ۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اوتاتی باللہ والملئکۃ قبیلا “ میں قبیلا سے مراد ہے عیانا یعنی سامنے۔ 10:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویکون لک بیت من زخرف “ سے مراد ہے سونا۔ 11:۔ ابوعبید نے فضائل میں عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن انباری نے مصاحف میں اور ابونعیم نے حلیہ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں نہیں جانتا کہ زخرف کیا ہے یہاں تک کہ میں نے اس کو سنا عبداللہ کی قرأت میں (آیت) ” اویکون لک بیت من زخرف “ پھر انہوں نے فرمایا اس سے مراد سونا ہے۔ 12:۔ عبدبن حمید نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الزخرف “ سے مراد ہے سونا۔ 13:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حتی تنزل علینا کتبا نقروہ “ کا مطلب یہ ہے کہ رب العالمین کی طرف سے صحیفہ آئے کہ فلاں بن فلاں کی طرف یعنی ہم میں سے ہر شخص کے پاس صبح کو ایک (لکھا ہوا) صحیفہ رکھا ہو جس کو وہ پڑھ لے۔
Top