Dure-Mansoor - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور آپ یوں کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل چلا گیا بلاشبہ باطل جانے ہی والا ہے
1:۔ ابن ابی شیبہ بخاری مسلم ترمذی نسائی ابن جریر ابن منذر اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے اردگرد ساٹھ بت تھے آپ نے ان کو ایک لکڑی کے ساتھ چبھونا شروع کیا جو آپ کے ہاتھ میں تھی اور فرماتے جاتے تھے (آیت) وقل جآء الحق وزھق الباطل، ان الباطل کان زھوقا “ (الاسراء : 81) (آیت) ” جآء الحق وما یبدئ الباطل وما یعید “ (سبا آیت 29) 2:۔ ابن ابی شیبہ، ابویعلی، ابن منذر نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم فرمایا تو چہروں کے بل اوندھے منہ گرپڑے آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) وقل جآء الحق وزھق الباطل، ان الباطل کان زھوقا “ 3:۔ طبرانی نے صغیر میں ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فتح کے دن مکہ میں داخل ہوئے اور کعب میں تین سو ساٹھ بت تھے ابلیس نے ان کے پاوں کو تانبے کی زنجیروں سے باندھ رکھے تھے آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی آپ ہر بت کی طرف اشارہ فرماتے تو وہ اپنے چہرے کے بل گرپڑتا اور آپ ﷺ یہ آیت پڑھ رہے تھے (آیت) وقل جآء الحق وزھق الباطل، ان الباطل کان زھوقا “۔ 4:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان الباطل کان زھوقا “ میں زھوقا سے مراد جانے والا۔ جاء الحق کی تفسیر : عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقل جآء الحق “ یعنی قرآن (آیت) ” وزھق الباطل “ یعنی وہ ہلاک ہوگیا اور وہ شیطان ہے اور فرمایا (آیت) ” وننزل من القرآن ما ھو شفآء ورحمۃ “ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن بنا دیا (آیت) ” شفآء ورحمۃ للمومنین “ مومنین کے لئے شفاء اور رحمت جب مومن اس کو سنتا ہے تو اس سے نفع حاصل کرتا ہے اسے یاد کرتا ہے اور دل میں محفوظ کرتا ہے (آیت) ” ولا یزید الظلمین الا خسارا “ (یعنی کافر لوگ) نہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں اور نہ اس کو یاد کرتے ہیں اور نہ دل میں جگہ دیتے ہیں۔ 6:۔ ابن عساکر اویس قرنی (رح) سے روایت کیا کہ جو اس قرآن کے ساتھ بیٹھتا ہے اور پھر کھڑا ہوتا ہے تو اس میں کچھ زیادتی یا کمی ہوتی ہے یہ فیصلہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو ہوچکا ہے اور فرمایا (آیت) ” شفآء ورحمۃ للمومنین ‘ ولا یزید الظلمین الا خسارا “۔
Top