Dure-Mansoor - Al-Israa : 76
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : قریب تھا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ : کہ تمہیں پھسلا ہی دیں مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین (مکہ) لِيُخْرِجُوْكَ : تاکہ وہ تمہیں نکال دیں مِنْهَا : یہاں سے وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا يَلْبَثُوْنَ : وہ نہ ٹھہرپاتے خِلٰفَكَ : تمہارے پیچھے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا
اور یہ لوگ اس سرزمین سے آپ کے قدم ہی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں اور ایسا ہوجاتا تو آپ کے بعد یہ بھی بہت کم ٹھہرنے پاتے۔
1:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین نے نبی کریم ﷺ کے کہا انبیاء (علیہم السلام) شام میں ٹھہرا کرتے تھے آپ مدینہ میں کیوں رہتے ہیں اور آپ ﷺ مدینہ منورہ سے روانگی کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات (آیت) ” وان کادوا لیستفزونک “ نازل فرمائیں۔ 2:۔ ابن جریر نے حضرمی (رح) سے روایت کیا کہ ان کو یہ خبر پہنچی کہ بعض یہودیوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہا کہ انبیاء (علیہم السلام) سرزمین شام کی سرزمین ہے اور یہ (یعنی مدینہ) انبیاء کی سرزمین نہیں ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” وان کادوا لیستفزونک “۔ فتنہ میں مبتلا کرنے کی کوشش سے متعلق ایک روایت : 3:۔ ابن ابی حاتم بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے عبدالرحمن بن غنم (رح) سے روایت کیا کہ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو شام چلے جاؤ کیونکہ شام محشر کی زمین ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کی زمین ہے رسول اللہ ﷺ نے انکی بات مان لی جو انہوں نے کہا اور آپ ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر شام جانے کا ارادہ فرمایا جب تبوک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورة بنی اسرائیل کی یہ آیات نازل فرمائیں۔ (آیت) ” وان کادوا لیستفزونک من الارض “ سے لے کر ” تحویلا “ تک اور آپ کو مدینہ منورہ لوٹنے کا حکم فرمایا اور فرمایا اس میں تیرے لئے زندگی ہے اور اس میں تیرا مرنا ہے اور اس میں تیرا دوبارہ اٹھنا ہے جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا اپنے رب سے سوال کیجئے کیونکہ ہر نبی مانگنے والا ہوتا ہے پوچھا گیا مجھ کو کیا حکم دیا گیا کہ میں اپنے رب سے سوال کروں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ دعا مانگئے۔ (آیت ) ’ وقل رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطنا نصیرا “ اور یہ آیتیں آپ پر نازل ہوئیں تبوک سے واپسی پر۔ 4:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان کادوا لیستفزونک من الارض “ سے مراد ہے کہ مکہ والوں نے نبی کریم ﷺ کو مکہ سے نکالنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے اس کے بعد ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بدر کے دن ہلاک کردیا اور وہ اس کے بعد تھوڑے (دنوں) ہی رہ سکے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بدر کے دن ہلاک کردیا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے کہ رسولوں کے ساتھ جب بھی انکی قوموں نے اس قسم کی حرکتیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا۔ 5:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذا لایلبثون خلف الاقلیلا “ میں قلیل سے مراد ہے ان کا جنگ بدر میں پکڑا جانا اور یہ تھوڑا عرصہ تھا اور اس بعد کا عرصہ کثیر تھا۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے سدی ؓ سے روایت کیا کہ قلیل سے مراد اٹھارہ مہینے کا عرصہ ہے۔ 7:۔ عبدالرزاق، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم اور ابن مردویہ نے کئی طرق سے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ” دلوک الشمس “ سے مراد ہے سورج کا غروب ہونا ہے عرب کہتے ہیں جب سورج غروب ہوجائے (آیت) ” لدلوک الشمس “ (کہ سورج غروب ہوگیا) 8:۔ ابن ابی شیبہ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی ؓ سے روایت کیا کہ اس کے دلوک سے مراد ہے اس کا غروب۔ 9:۔ ابن مردویہ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ (آیت) ” اقم الصلوۃ لدلوک الشمس “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے زوال شمس مراد ہے۔ 10:۔ بزار، ابوالشیخ، ابن مردویہ اور دیلمی نے سند ضعیف کے ساتھ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لدلوک الشمس “ سے اس کا زوال مراد ہے۔ 11:۔ عبدالرزاق نے ابن عمر سے روایت کیا کہ (آیت) ” لدلوک الشمس “ سے مراد ہے کہ سورج کا جھکنا آدھے دن کے بعد۔ س 12:۔ سعید بن منصور اور ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” دلوکھا “ سے مراد ہے اس کا زوال ہونا۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے۔۔ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لدلوک الشمس “ سے مراد ہے جب سایہ ہٹ جائے۔ 14:۔ ابن جریرنے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) (آیت) ” لدلوک الشمس “ یعنی جب سورج ڈھل گیا تشریف لائے اور مجھ کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ 15:۔ ابن جریر نے ابوبرزہ اسلمی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا پھر یہ آیت پڑھی (آیت) ” اقم الصلوۃ لدلوک الشمس “ 16:۔ ابن سعد ابن ابی شیبہ اور ابن مردویہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں اپنے سردار قیس بن سائب کی قیادت اور راہنمائی کرتا تھا وہ مجھ سے پوچھتے تھے کیا سورج ڈھل چکا ہے جب میں کہتا ہوں تو وہ ظہر کی نماز پڑھتے۔ 17:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ سورج ڈھلنے کے وقت ظہر کی نماز پڑھتے تھے۔ 18۔ طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الی غسق الیل “ سے مراد ہے عشاء کی نماز۔ 19:۔ ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الی غسق الیل “ سے مراد ہے رات اور اس کے اندھیرے کا اکٹھا ہونا۔ 20:۔ ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” غسق الیل “ سے مراد ہے رات کا ظاہر ہونا۔ 21:۔ ابن انباری نے وقف میں حضرت ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” الی غسق الیل “ کے بارے میں کہ مجھے بتائیے کہ غسق کیا ہے ؟ فرمایا رات کا داخل ہونا اپنی تاریکی کے ساتھ زھیر بن ابی سلمہ نے اس کے بارے میں فرمایا : ظلت تجوب یداھا وھی لا ھبۃ حتی اذا جنح الاضلام فی الغسق۔ ترجمہ : اس نے اپنے ہاتھوں کو کاٹا جبکہ وہ پیاسی نہ تھی حتی کہ رات کی تاریکی میں داخل ہوگئی۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لدلوک الشمس “ سے مراد ہے مائل ہونا (آیت) ” الی الغسق الیل “ سے مراد ہے سورج کا غروب ہونا۔ 23:۔ عبدالرزاق نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لدلوک الشمس “ سے مراد ہے سورج کا زائل ہونا آسمان کے بطن سے (آیت) ” الی الغسق الیل “ سے مراد ہے سورج کا غروب ہونا۔ (واللہ اعلم) 24:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقران الفجر “ سے مراد ہے صبح کی نماز۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقران الفجر “ سے مراد ہے فجر کی نماز۔ 26:۔ عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان قرآن الفجر کان مشہودا “ کہ اس (وقت) میں فرشتے اور جن حاضر ہوتے ہیں۔ 27:۔ احمد ترمذی نسائی، ابن ماجہ ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم حاکم ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں (ترمذی اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان قرآن الفجر کان مشہودا “ سے مراد ہے کہ صبح کی نماز کے وقت میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ 28:۔ عبدالرزاق، بخاری، مسلم، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں پھر ابوہریرہ ؓ اگر تم چاہو تو پڑھ لو (آیت) ” وقران الفجر ان قرآن الفجر کان مشہودا “ 29:۔ سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر اور طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رات اور دن کی نگہبانی کرنے والے فرشتے صبح کی نماز میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو (آیت) ” وقران الفجر ان قرآن الفجر کان مشہودا “ یعنی رات کے فرشتے اور ان کے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ فجر کی نماز میں محافظ فرشتے جمع ہوتے ہیں : 30:۔ حکیم ترمذی نے نوادر میں ابن جریر، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ (آیت) ” ان قرآن الفجر کان مشہودا “ پڑھی اور فرمایا اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ 31:۔ عبدالرزاق نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان قرآن الفجر کان مشہودا “ کہ صبح کی نماز کے وقت دن کے فرشتے اور رات کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ 32:۔ ابن ابی شیبہ نے قاسم (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ فجر کی نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہوئے جب کہ لوگ اپنے پیٹھوں سے سہارا لے کر بیٹھے قبلہ کی طرف پشت کرکے انہوں نے فرمایا قبلہ کی طرف ہوجاؤ فرشتوں اور نماز کے درمیان حائل نہ ہوجاؤ کیونکہ یہ دونوں رکعتیں فرشتوں کی نماز ہیں۔ 33:۔ ابن جریر ابن منذر محمد بن نصر نے کتاب الصلوۃ میں علقمہ واسود رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ اس سے مراد ہے کہ نیند کے بعد تہجد کی نماز ہوتی ہے۔ 34:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ رات کا قیام باقی لوگوں سے منسوخ ہوگیا سوائے نبی کریم ﷺ کے (کہ ان پر منسوخ نہیں ہوا) 35:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” نافلۃ لک “ یعنی نبی کریم ﷺ کو خاص طور پر رات کے قیام کا حکم دیا گیا اور ان پر فرض کردیا گیا۔ 36:۔ طبرانی نے الاوسط میں بیہقی نے سنن میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تین چیزین ایسی ہیں جو مجھ پر فرض ہیں اور وہ تمہارے لئے سنت ہیں وتر کی نماز، مسواک کرنا اور رات کا قیام کرنا۔ 37:۔ ابن جریر، ابن منذر اور محمد بن نصر اور بیہقی نے دلائل میں مجاہد (رح) سے (آیت) ” نافلۃ لک “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ نبی کریم ﷺ کے لئے زائد نماز تھی اس وجہ سے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردئیے گئے پس آپ ﷺ نے فرض نمازوں کے ساتھ جو کوئی نفل نماز پڑھی وہ آپ کے لئے نفل تھی فرض نمازوں کے علاوہ کیونکہ فرض نمازوں کے علاوہ تمام اعمال گناہوں کے کفارہ کے لئے ہوتے ہیں آپ کے لئے یہ اعمال نوافل اور زیادتی کے طور پر تھے اور جو لوگ فرض نمازوں کے علاوہ (زائد) عمل کرتے ہیں وہ گناہوں کے کفارہ کے لئے ہوتے ہیں یہ لوگوں کے لئے زائد نہیں ہوتے کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کے لئے خاص ہیں۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ظؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ ابن منذر نے حسن (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 38:۔ محمد بن نصر نے حسن (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ومن الیل فتھجد بہ نافلۃ لک “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ رات کے نوافل نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خاص تھے۔ 39:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم اور محمد بن نصر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” نافلۃ لک “ سے مراد ہے کہ آپ کے لئے نفل اور فضیلت ہے۔ 40:۔ احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابوامامہ ؓ سے (آیت) ” نافلۃ لک “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ نبی ﷺ کے لئے نفل ہے اور تمہارے لئے فضیلت ہے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ یہ نفل خاص ہے رسول اللہ ﷺ کے لئے۔ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے کھڑا ہونا افضل ہے : 41:۔ طیالسی، ابن نصر، طبرانی ابن مردویہ بیہقی نے شعب میں اور خطیب نے تاریخ میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ جب مسلمان آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر بیٹھتا ہے تو اس حالت میں بیٹھتا ہے کہ اس کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے تو یہ اس کے لئے فضیلت ہوتی ہے اس سے پوچھا گیا (یہ نماز) نفل ہے ؟ فرمایا یہ نبی کریم ﷺ کے لئے نفل تھی عام آدمی کے لئے کیسے نفل ہوسکتی ہے۔ وہ تو خطاوں اور گناہوں میں لگارہتا ہے لیکن یہ فضیلت ہے (انکے لئے) 42:۔ سعید بن منصور، بخاری، ابن جریر، اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل چلیں گے ہر امت اپنے نبی کے پیچھے جائے گی لوگ اپنے اپنے نبی سے کہیں گے فلاں ہماری سفارش کر یہاں تک کہ لوگ سفارش کے لئے نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوں گے یہ وہ دن ہوگا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر بھیجیں گے۔ 43:۔ احمد، ترمذی، ابن جریر، ابی حاتم، ابن مردویہ، اور بیہقی نے دلائل میں (ترمذی نے تحسین بھی کی) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “ کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا یہ وہ مقام ہے کہ جس میں میں اپنی امت کے لئے شفاعت کروں گا۔ 44:۔ ابن جریر اور بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مقام محمود سے مراد ہے مقام شفاعت۔ 45:۔ ابن جریر، طبرانی اور ابن مردویہ نے طرق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “ سے مراد ہے مقام شفاعت۔ 46:۔ ابن مردویہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے مقام محمود کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا وہ شفاعت ہے۔ 47:۔ احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، حاکم، اور ابن مردویہ نے (حاکم نے تصحیح بھی کی) کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے اور میں اور میری امت ایک ٹیلہ پر ہوگی میرا رب مجھے سبز جوڑا پہنائے گا پھر مجھے وہ کلمات کہنے کی اجازت دے گا جو اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ میں کہوں اور وہ مقام محمود ہے۔ 48:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے تصحیح بھی کی) علی بن حسین ؓ سے روایت کیا کہ مجھے اہل علم میں سے ایک آدمی نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن زمین چمڑے کی طرح پھیلائی جائے گی اور ہر انسان کے لئے صرف باقی رکھنے کی جگہ ہوگی۔ سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا تو میں سجدہ میں گر پڑوں گا پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور میں کہوں گا اے میرے رب مجھے اس جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا اور جبرائیل (علیہ السلام) رحمان کے دائیں طرف ہوگا اللہ کی قسم کہ بلاشبہ آپ نے میری طرف ان کو بھیجا اور جبرائیل (علیہ السلام) خاموش ہوں گے کوئی بات نہیں کریں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے سچ کہا پھر مجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی جائے گی میں کہوں گا اے میرے رب تیرے بندوں نے تیری عبادت کی زمین کے اطراف میں اور یہ مقام محمود ہے۔ 49:۔ ابن ابی شیبہ، نسائی، بزار، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابونعیم نے حلیہ میں ابن مردویہ اور بیہقی نے بعث میں اور خطیب نے المتفق والمفترق میں (حاکم نے تصحیح بھی کی) حذیفہ عمر ؓ نے فرمایا کہ لوگوں کو ایک زمین میں جمع کیا جائے گا کہ ان کو ایک پکارنے والا آواز سنائے گا اور سب کی نظر گذر جائے گی ننگے بدن ننگے پاوں ہوں گے جیسے پیدا کئے گئے تھے سب کھڑے ہوں گے کوئی آدم بات نہیں کرسکے گا مگر اس کی اجازت سے آواز دی جائے گی اے محمد تو وہ جواب دیں گے ( اے اللہ) میں حاضر ہوں اور تیری عبادت کے ساتھ موافقت کرتا ہوں اور خیر آپ کے ہاتھوں میں ہے اور شر آپ کی طرف نہیں ہے اور ہدایت پانے والا وہ ہے جس کو آپ نے ہدایت دی اور آپ کا بندہ آپ کے سامنے ہے کوئی پناہ کی جگہ اور جائے نجات نہیں مگر تیری طرف تو بڑی برکت والا ہے تو بڑی بلند ذات ہے تیری ذات پاک ہے جو رب ہے گھر کا یہ مقام محمود ہے۔ 50:۔ بخاری، ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سورج البتہ قریب ہوجائے گا یہاں تک کہ آدھے کان کے رگ کے قریب پہنچ جائے گا لوگ اسی کیفیت میں ہوں گے لوگ آدم (علیہ السلام) سے مدد مانگیں گے تو وہ کہیں گے تو وہ کہیں گے میں اس لائق نہیں ہوں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ بھی معذرت کریں گے پھر محمد ﷺ شفاعت فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے پھر آپ چلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کے حلقہ کو پکڑیں گے اس دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائیں گے تمام لوگ اس دن آپ کی تعریف کررہے ہوں گے۔ 51:۔ احمد، ابن جریر، ابن منذر، حاکم اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں ضرور کھڑا ہوں گا مقام محمود پر پوچھا گیا مقام محمود کیا ہے ؟ فرمایا جب تم کو بلایا جائے گا ننگے پاوں ننگے بدن بغیر ختنہ کے سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے خلیل کو لباس پہنادو دو سفید چادریں لائیں جائیں گی اور ان کو پہنائی جائیں گئی پھر وہ عرش کے مقابل بیٹھ جائیں گے پھر ایک لباس لایا جائے گا تو میں اس کو پہنوں گا اور میں عرش کے داہنی طرف ایک ایسے مقام پر کھڑا ہوں گا کہ کوئی بھی اس جگہ کھڑا نہ ہوگا اور پہلے لوگ اور آخری لوگ مجھ پر رشک کریں گے پھر نہر کوثر حوض کی طرف کھول دی جائے گی۔ مقام محمود کی تعین : 52:۔ ابن مردویہ نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ مقام محمود کیا ہے ؟ جس کو آپ کے رب نے آپ کو لئے ذکر کیا آپ نے فرمایا قیامت کے دن لوگ ننگے بدن اور بغیر ختنہ کئے ہوئے اکٹھے کئے جائیں گے اس حالت کی طرح جس دن تم (ماں کے پیٹ سے) پیدا ہوئے یہاں ان کے لئے بڑی گھبراہٹ ہوگی اور بڑی مصیبت انکو انتہائی پریشان کرے گی اور پسینہ انکے مونہوں کو پہنچے گا انتہائی شدت اور تکلیف میں ہوں گے مجھے ہی سب سے پہلے بلایا جائے گا اور مجھے ہی سب سے پہلے لباس عطا کیا جائے گا پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا جائے گا اور ان کو جنت کے کپڑوں میں سے دو سفید کپڑے پہنائے جائیں گے پھر حکم دیا جائے گا اور ان کو کرسی کے سامنے بٹھایا جائے گا پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا میرے علاوہ ساری مخلوق میں سے وہاں کوئی کھڑا نہ ہوگا میں بات کروں گا اور سب سنیں گے اور میں گواہی دوں گا تو سب لوگ تصدیق کریں۔ 53:۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “ کی تلاوت کی اور فرمایا (پھر اللہ تعالیٰ ) ان کو تخت پر بٹھائیں گے۔ آپ ﷺ اولاد آدم کے سردار ہیں :ـ 54:۔ ترمذی، ابن جریر، اور ابن مردویہ نے (ترمذی نے تحسین بھی کی) ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں آدم (علیہ السلام) کی اولاد کا سردار ہوں گا اور کوئی فخر نہیں اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور (مجھے) کوئی فخر نہیں اور اس دن آدم (علیہ السلام) اور آپ کی ساری اولاد میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لئے زمین پھٹے گی اور (مجھے) کوئی فخر نہیں اور لوگوں کو تین مرتبہ گھبراہٹیں لاحق ہوں گی لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ ہمارے باپ ہیں اپنے رب کی طرف ہماری سفارش کیجئے وہ فرمائیں گے مجھ سے ایک غلطی ہوئی تھی جس کی وجہ سے میں زمین کی طرف اتارا گیا لیکن تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ تو وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے وہ فرمائیں گے میں نے زمین والوں کے لئے بدعا کی تھی وہ سب ہلاک ہوگئے تھے تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ لوگو ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے وہ فرمائیں گے موسیٰ کے پاس جاؤ تو لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے وہ بھی فرمائیں گے میں نے ایک جان کو قتل کیا تھا لیکن تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ وہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے میں اللہ کو چھوڑ کر میری عبادت کی گئی لیکن تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے میں ان کے ساتھ چلوں گا اور میں جنت کے دروازہ کے حلقہ کو پکڑوں گا اور اس کو کھٹکھٹاوں گا پوچھا جائے گا یہ کون ہے ؟ میں کہوں گا محمد ﷺ ہوں تو فرشتے میرے لئے کھول دیں گے اور کہیں گے مرحبا میں سجدہ میں گر جاوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھے حمد وثناء اور بزرگی بیان کرنے کے لئے میرے دل میں الفاظ ڈالیں گے پھر حکم ہوگا اپنے سر کو اٹھائیے سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول ہوگئی اور کہئے آپ کی بات سنی جائے گی اور یہ مقام محمود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “ 55:۔ ابن مردویہ نے ابوسعید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں اور قبلہ والوں میں سے ایک قوم کو آگ میں سے نکالیں گے محمد ﷺ کی سفارش سے اور یہ مقام محمود ہے۔ 56ـ:۔ ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے جہنمیین کی حدیث کا ذکر فرمایا تو ان سے کہا گیا یہ کیا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” انک من تدخل النار فقد اخزیتہ “ (آل عمران آیت : 192) اور فرمایا (آیت) ” کلما ارادو ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا “ (السجدہ آیت 20) انہوں نے کہا کیا تم قرآن پڑھتے ہو ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تو نے اس میں مقام محمود کے بارے میں نہیں سنا ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا بلاشبہ وہ محمد ﷺ کا مقام ہے کہ ان کے ذریعہ اور وسیلہ سے اللہ تعالیٰ (دوزخ کی آگ سے) نکالیں گے جس کو چاہیں گے۔ 57ـ:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ شفاعت کے بارے میں اجازت دیں گے تو روح القدس جبرائیل (علیہ السلام) کھڑے ہوں گے پھر ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کھڑے ہوں گے پھر عیسیٰ (علیہ السلام) یا موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہوں گے پھر تمہارے نبی کریم ﷺ سفارش کرنے کے لئے کھڑے ہوں گے آپ کے بعد آپ سے زیادہ کسی کی سفارش قبول نہیں گی جائے گی اور یہی مقام محمود ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “۔ 58:۔ ابن مردویہ نے ابوسعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم اللہ سے سوال کرو تو اس سے میرے لئے اس مقام محمود کا سوال کرو جس کا انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ 59:۔ بخاری نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھے۔ اللہم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلوۃ القائمۃ ات محمد الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمودا الذی وعدتہ انک لا تخلف المیعاد : ترجمہ : اے اللہ اس پوری پکار کے مالک اور قائم ہونے والی نماز کے بعد محمد ﷺ کو وسیلہ عطا فرما ان کو فضیلت عطا فرما اور ان کو مقام محمود پر پنچا جس کو تو ان سے وعدہ فرمایا ہے تو اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال (یعنی واجب) ہوجائے گی۔ 60:۔ ابن ابی شیبہ نے سلمان ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کہا جائے گا آپ سوال فرمائیں آپ کو عطا کیا جائے گا آپ سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہوگی آپ دعا فرمائیں آپ کی دعا قبول ہوگی آپ اپنے سر مبارک کو اوپر اٹھائیں گے اور فرمائیں گے میری امت دو مرتبہ ایسا فرمائیں گے سلمان ؓ نے فرمایا آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ہر اس شخص کے لئے جس کے دل میں گیہوں کے دانہ کے برابر ایمان ہے یا جو کے برابر ایمان ہے یا رائی کے دانے کے ایمان ہے سلمان ؓ نے فرمایا کہ یہی تمہارا مقام محمود ہے۔ 61:۔ دیلمی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مقام محمود کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے نیچے اتریں گے تو وہ چڑچڑائے گا جیسے کہ نیا کجاوہ اپنی تنگی کی وجہ سے چڑچڑاتا ہے۔ 62:۔ طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو بٹھائیں گے درمیان اپنے اور درمیان جبرائیل (علیہ السلام) کے اور آپ اپنی امت کے لئے سفارش کریں گے یہی مقام محمود ہے۔ 63:۔ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “۔ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ مجھ کو بٹھائیں گے اپنے ساتھ تخت پر۔ 64:۔ ابن جریر نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کو اختیار دیا گیا کہ آپ بندے اور نبی بن جائیں یا نبی اور بادشاہ بن جائیں جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کی طرف تواضع اختیار کرنے کا اشارہ دیا تو آپ نے اختیار فرمایا کہ میں بندہ اور نبی بن جاوں تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو دو چیزیں عطا فرمائیں گئیں سب سے پہلے آپ کی زمین کھلے گی (یعنی آپ کی قبر مبارک سب سے پہلے کھلے گی) اور آپ سب سے پہلے سفارش کرنے والے ہوں گے اور اہل علم اسے مقام محمود خیال کرتے ہیں۔ 65:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا “۔ سے مراد ہے کہ (اللہ تعالیٰ ) آپ کو (یعنی محمد ﷺ کو) بٹھائیں گے اپنے ساتھ عرش پر۔
Top