Dure-Mansoor - Al-Israa : 70
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق كَرَّمْنَا : ہم نے عزت بخشی بَنِيْٓ اٰدَمَ : اولاد آدم وَحَمَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں سواری دی فِي الْبَرِّ : خشی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا وَرَزَقْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَفَضَّلْنٰهُمْ : اور ہم نے اہنیں فضیلت دی عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : بہت سی مِّمَّنْ خَلَقْنَا : اس سے جو ہم نے پیدا کیا (اپنی مخلوق) تَفْضِيْلًا : بڑائی دیکر
اور یہ بات واقعی ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی میں اور سمندر میں سوار کیا۔ انہیں عمدہ چیزیں عطا چیزیں عطا فرمائیں اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
1:۔ طبرانی، بیہقی نے شعب میں اور خطیب نے تاریخ میں عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن بنو آدم سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ عزت والی نہ ہوگی پوچھا گیا یا رسول اللہ ! مقرب فرشتے بھی (زیادہ عزت والے نہ ہوں گے) فرمایا فرشتے تو سورج اور چاند کی طرح مجبور ہیں۔ 2:۔ بیہقی نے طریق آخر سے ابن عمر ؓ سے موقوفا روایت کیا کہ یہ روایت بھی صحیح ہے۔ 3:۔ بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ مومن اللہ کے نزدیک فرشتوں سے زیادہ عزت والا ہے۔ 4:۔ طبرانی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرشتوں نے کہا اے ہمارے رب آپ نے بنو آدم کو دنیاعطا فرمائی وہ اس میں کھاتے ہیں اور پیتے ہیں اور پہنتے ہیں اور ہم صرف تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور نہ ہم کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں اور نہ غافل ہوتے ہیں جس طرح ان کے لئے دنیا بنائی ہے تو ہمارے لئے آخرت بنا دیجئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس کی بیک اولاد کو میں ان کی طرح نہیں بناوں گا جس کو میں اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اس مخلوق کی طرح کہ جس کے لئے میں کہا ہوجاؤ پس وہ ہوگئی۔ 5:۔ عبدالرزاق ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 6:۔ ابن عساکر نے عروہ بن رویم کے طریق سے، انس بن مالک (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرشتوں نے عرض کیا اے ہمارے رب آپ نے ہم کو پیدا فرمایا اور بنوآدم کو پیدا فرمایا آپ نے ان کو ایسا بنایا کہ وہ کھانا کھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں اور کپڑے پہنتے ہیں اور عورتوں کے پاس آتے ہیں اور جانوروں پر سواری کرتے ہیں اور نیند کرتے ہیں اور آرام کرتے ہیں اور ہمارے لئے آپ نے کوئی چیز نہیں بنائی (اس لئے) ان کے لئے دنیا بنادیجئے اور ہمارے لئے آخرت بنادیجئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے جس کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور اس میں روح کو پھونکا میں اسے اس مخلوق کی طرح نہیں بناوں گا جن کو میں کہا ہوجا پس وہ ہوگئی۔ 7:۔ بیہقی نے شعب میں عروہ بن رویم سے مرسلا نقل کی ہے۔ 8:۔ بیہقی نے الاسماء والصفات میں عروہ بن رویم انصاری کے طریق سے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور اسی طرح ذکر فرمایا کہ وہ گھوڑے پر سواری کرتے ہیں اور اس میں یہ ذکر نہیں کیا میں نے اس میں روح کو پھونکا۔ 9:۔ ابن منذر ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کرمنا بنی ادم “ سے مراد ہے کہ ہم نے اس طرح بنایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کھاتے ہیں اور ساری مخلوق اپنے منہ سے کھاتی ہے۔ 10:۔ حاکم نے تاریخ میں اور دیلمی نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت) ” ولقد کرمنا بنی ادم “ میں الکرامۃ سے مراد ہے انگلیوں سے کھانا۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب کوئی آدمی کسی تکلیف میں مبتلا آدمی کو دیکھے تو یہ دعا پڑھے : الحمد للہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ وفضلینی علی کثیر ممن خلقہ تفضیلا : ترجمہ : سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے عافیت عطا فرمائی اس تکلیف سے جس میں تجھے مبتلا کیا ہے اور تجھ پر مجھے فضیلت عطا فرمائی اور بہت سی مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی۔ تو اللہ تعالیٰ اسکو اس تکلیف سے عافیت دیں گے خواہ وہ کوئی تکلیف ہو۔ 12:۔ ابونعیم اور بیہقی نے دلائل میں عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا فرمائے پھر انمیں بلند ترین جگہ کو چنا پھر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا اسے ٹھہرا یا پھر مخلوق کو پیدا فرمایا اس میں آدم کی اولاد کو چنا پھر آدم کی اولاد میں عرب کو چنا پھر عرب میں مضر (قبیلہ) کو چنا پھر مضر میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنوہاشم کو اور مجھے بنو ہاشم میں سے چنا اور میں سب بہتر لوگوں میں سے بہتر ہوں۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم ندعوا کل اناس بامامہم “ سے مراد ہے ہم بلائیں گے تمام انسانوں کو اپنے امام کے ساتھ یعنی ہدایت کے امام گمراہی کے امام۔ 14:۔ ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور خطیب نے تاریخ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم ندعوا کل اناس بامامہم “ میں امام سے مراد ان کا نبی ہے۔ 15:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) اسی طرح روایت کیا۔ 16:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم ندعوا کل اناس بامامہم “ یعنی ان کے اعمال کی کتاب کے ساتھ (یعنی اعمال نامے کے ساتھ) تمام لوگوں کو بلائیں گے۔ 17:۔ ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت) ” یوم ندعوا کل اناس بامامہم “ سے مراد ہے ہر قوم کو اپنے زمانے کے امام کے ساتھ پکارا جائے گا اور ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی کی سنت کے ساتھ (پکارا جائے گا) 18۔ ترمذی، بزار، ابن ابی حاتم، ابن حبان، حاکم اور ابن مردویہ، نے (ترمذی نے تحسین اور حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (آیت) ” یوم ندعوا کل اناس بامامہم “ کے بارے میں فرمایا ان میں ہر ایک کو بلایا جائے گا اور ان کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس کے لئے اس کے جسم میں اس کے چہرہ کی چمک ساٹھ ہاتھ بڑھا دی جائے گی اور اس کے سر پر چمکتے ہوئے نور کا تاج رکھاجائے گا وہ اپنے دوستوں کے پاس جائے گا اور وہ اس کو دور سے دیکھیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم کو بھی یہ عطا فرما اور ہمارے لئے اس میں برکت عطا فرما ئیے یہاں تک کہ وہ ان کے پاس پہنچ جائے گا پھر ارشاد ہوگا خوش خبری ہو تم میں ہر ایک کے لئے جو اس جیسا ہے اور کافر کا چہرہ سیاہ کردیا جائے گا اور آدم کی صورت پر اس کے جسم میں ساٹھ ہاتھ تاریکی بڑھا دی جائے گی اور اسے آگ کا تاج پہنایا جائے گا اور اس کے ساتھی اسے دیکھ کر کہیں گے ہم اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اے اللہ ہم کو یہ نہ عطا فرماوہ اپنے ساتھیوں کے پاس آئے گا تو وہ کہیں گے اے ہمارے رب اس کو ہم سے دور کردے اور وہ کہے گا اللہ تعالیٰ تم کو دور کردے کیونکہ تم میں سے ہر ایک آدمی کے لئے اسی طرح کا عذاب ہے۔ 19:۔ فریابی اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ اہل یمن میں سے ایک جماعت ابن عباس ؓ کے پاس تشریف لائی تو ایک آدمی نے ان سے سوال کیا اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ومن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی “ کے بارے میں بتائے ابن عباس ؓ نے فرمایا تم کو اس مسئلہ کا علم نہیں ہے اس سے پہلی والی آیت پڑھ (آیت) ” ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر “ (سے لے کر یہاں تک پہنچے) (آیت) ” وفضلنہم علی کثیر ممن خلقلنا تفضیلا “ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جو شخص اندھا ہے ان نعمتوں سے جس کو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ آخرت کے معاملہ میں بھی اندھا ہے جو نہیں دیکھی گئیں (آیت) ” واضل سبیلا “ یعنی جو اندھا ہے اور سیدھے راستے سے گمراہ ہے۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے اور ابوالشیخ نے عظمہ میں ابن عباس ؓ سے کہ (آیت) ” ومن کان “ یعنی دنیا میں (آیت) ” اعمی “ جو اندھا ہے آسمان زمین پہاڑ اور سمندر لوگ اور جانور اور اسی طرح کی اور اس کے مشابہ دوسری چیزوں کو دیکھنے سے (آیت) ” فھو “ (اور) (وہ اندھا ہے) ان چیزوں سے جو اس کے لئے بیان کردی گئیں آخرت میں اور اس نے ان کو نہیں دیکھا (آیت) ” اعمی واضل سبیلا “ (یعنی وہ اندھے ہیں اور راستے سے ہٹے ہوئے ہیں) اور وہ لوگ بہت دور ہیں دلیل کے لحاظ سے۔ 21:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص اندھا رہا دنیا میں اللہ کی قدرت (کا نظارہ) کرنے سے تو وہ آخرت میں اندھا ہوگا۔ 22:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں قتادہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جو شخص اندھا رہا سورج چاند رات اور دن دیکھنے سے اور دوسری مختلف نشانیوں کے دیکھنے سے اور ان کو دیکھ کر قدرت الہیہ کی تصدیق نہیں کرتا اور جو اللہ کی نشانیاں ان سے غائب ہیں ان سے تو یہ زیادہ اندھا ہوگا۔
Top