Dure-Mansoor - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیوں کو چلاتا ہے۔ تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ بلاشبہ وہ تم پر مہربان ہے۔
1:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” یزجی “ سے مراد ہے یجری یعنی چلتا ہے۔ 2:۔ عبدالرزاق ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عطاء خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یزجی لکم الفلک “ سے مراد کشتیوں کو تمہارے لئے سمندر میں چلاتا ہے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے عطاء خراسنی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الفلک “ سے مراد ہے کشتی۔ 4:۔ اوزاعی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” انہ کان بکم رحیما “ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی۔ 5:۔ ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویرسل علیکم حاصبا “ یعنی پتھروں کی بارش۔ 6:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویرسل علیکم حاصبا “ یعنی پتھر آسمان سے (آیت ) ’ ’ ثم لا تجدوا لکم وکیلا “ میں وکیلا کے معنی ہے حفاظت کرنے والا اور دمدد کرنے (آیت) ” ام امنتم ان یعیدکم فیہ تارۃ اخری “ یعنی دوسری مرتبہ لے جائے تم کو سمندر میں۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فیرسل علکم قاصفا من الریح “ یعنی ایسی سخت آندھی جو کشتیوں کو غرق کردے۔ 8:۔ ابوعبید اور ابن منذر نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ قاصف اور عاصف سمندر میں چلنے والی ہوائیں۔ 9:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قاصفا سے مراد ہے آندھی (اور فرمایا) (آیت) ” ثم لاتجدوا لکم علینا بہ تبیعا “ یعنی مدد کرنے والا۔ 10:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے رویت کیا کہ تبیعا سے مراد ہے انتقام لینے والا۔ 11:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم لاتجدوا لکم علینا بہ تبیعا “ سے مراد ہے کہ کوئی بھی ہمارے پیچھے آنے والا نہیں۔
Top