Dure-Mansoor - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کرلیا مگر ابلیس نے نہیں کیا، وہ کہنے لگا کہ میں اسے سجدہ کروں جسے آپ نے کیچڑ سے بنایا ہے
1:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ابلیس نے آدم (علیہ السلام) پر حسد کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت عطا فرمائی تھی اور اس نے کہا میں آگ میں سے ہوں اور یہ مٹی میں سے ہیں پس گناہوں کا آغاز تکبر سے ہوا۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابلیس نے کہا آد م (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور مٹی سے کمزور پیدا کیا گیا اور میں آگ سے پیدا کیا گیا اور آگ ہر چیز کو جلا دیتی ہے (پھر کہنے لگا) (آیت) ” لاحتنکن ذریتہ الا قلیلا “ یعنی میں اس کی اولاد کو جڑ سے اکھیڑ پھینکوں گا اور اس کا گمان ان پر سچا نکلا۔ 3:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاحتنکن ذریتہ “ سے مراد ہے کہ میں ان پر مکمل غلبہ کروں گا۔ 4۔ ابن جریر، ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاحتنکن ذریتہ “ سے مراد ہے کہ میں ضرور ان کو مکمل طور پر پر گھیر لوں گا۔ 5:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاحتنکن ذریتہ الا قلیلا “ یعنی میں ان کو ضرور گمراہ کروں گا۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” جزآء موفورا “ سے مراد ہے مکمل (پوری کی پوری) 7:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فان جھنم جزآوکم جزآء موفورا “ سے مراد ہے کہ اس کا عذاب پورا پورا کافر کو دیا جائے گا اس (عذاب) میں سے کچھ بھی ذخیرہ (بچا) بنا کر نہیں رکھا جائے گا۔ 8:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واستفزز من استطعت منہم بصوتک “ یعنی ہر بلانے والے کی آواز جو اللہ کی نافرمانی کی طرف بلاتا ہے ” واجلب علیہم “ یعنی اللہ کی نافرمانی میں ہر سواری کرنے والا شیطان کا سپاہی ہے (آیت) ” وشارکہم فی الاموال “ یعنی ہر وہ مال جو اللہ کی نافرمانی میں خرچ ہو وہ شیطان کا مال ہے ’(آیت) ” والاولاد “ سے مراد ہے جو انہوں نے اپنی اولاد میں سے قتل کیا اور ان میں حرام کو لے آئے (یعنی زنا کی اولاد) یہ سب شیطان کی کارگزاری ہے۔ 9:۔ فریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واجلب علیہم بخیلک ورجلک وشارکہم فی الاموال والاواد وعدہم “ سے مراد ہے ہر وہ گھوڑا جو اللہ نافرمانی میں چلتا ہے اور ہر وہ آدمی جو اللہ کی نافرمانی میں چلتا ہے اور ہر وہ مال جو ناحق حاصل کیا جاتا ہے اور ہر زنا کی اولاد یہ سب شیطان کے کام ہے۔ 10:۔ سعید بن منصور، ابن ابی الدنیا نے ذم الملاہی میں ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واستفزز من استطعت منہم بصوتک “ سے مراد ہے غناء مزامیر (آلات موسیقی) اور باطل کے ذریعہ تو ان کو راہ راست سے ہٹانے اور ہدایت کے راستے سے اتارنے کی کوشش کرے (آیت) ” واجلب علیہم بخیلک ورجلک “ یعنی اللہ کی نافرمانی میں ہر سوار اور پیدل چلنے والا (آیت) ” وشارکہم فی الاموال والاولاد “ یعنی ہر مال جو اللہ کی اطاعت کے بغیر لیا جائے اور غیر حق میں خرچ کیا جائے اور اولاد سے مراد ہے زنا کی اولاد۔ 11:۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وشارکہم فی الاموال والاولاد “ سے مراد ہے وہ اموال جو وہ اپنے جانوروں میں سے حرام کرتے تھے اور اولاد سے زنا کی اولاد مراد ہے۔ 12:۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں میں روایت کیا کہ ان کا شریک بنانا مالوں میں یہ ہے کہ انہوں نے بحیرہ سائبہ اور وصیلہ اونٹنیاں غیر اللہ کے نام پر چھوڑ دی تھیں اور ان کا شریک بنانا اولاد میں یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے نام عبدالحارث عبد شمس رکھ دیئے۔ انسان پر شیطان کا تسلط : 13:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ ابلیس نے کہا اے میرے رب ! تو نے مجھ پر لعنت کی ہے اور مجھے جنت سے نکالا آدم کی وجہ سے اور میں اس کی طاقت نہیں رکھتا مگر تیری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو (انسانوں پر) مسلط کیا گیا ہے ابلیس نے کہا اے میرے رب ! اور زیادہ کیجئے فرمایا (آیت) ” واجلب علیہم بخیلک ورجلک وشارکہم فی الاموال والاولاد “ 14:۔ بیہقی نے شعب میں اور ابن عساکر نے ثابت (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ ابلیس نے کہا کہ اے میرے رب آپ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور میرے اور اس کے درمیان دشمنی بنادی مجھے ان پر مسلط فرما اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے سینے تیرے رہنے کی جگہیں ہیں ابلیس نے کہا اے میرے رب اور زیادہ دیجئے فرمایا آدمی کا ایک بچہ پیدا ہوگا اور تیرے دس بچے (پیدا) ہوں گے عرض کیا اے میرے رب ! اور زیادہ دیجئے فرمایا تو ان میں خون کے چلنے کی طرف چلے گا عرض کیا اے میرے رب اور زیادہ دیجئے فرمایا (آیت) ” واجلب علیہم بخیلک ورجلک وشارکہم فی الاموال والاولاد “ آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ابلیس کے بارے میں شکایت کی اور عرض کیا اے میرے رب آپ نے ابلیس کو پیدا فرمایا اور میرے اور اس کے درمیان میں دشمنی رکھ دی اور بغض رکھ دیا اور مجھ پر اس کو مسلط کردیا اور میں کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا مگر آپ کی مدد کے ساتھ فرمایا جو اولاد تیری پیدا ہوگی اس کی برے ساتھیوں سے حفاظت کے لئے اس پر دو فرشتوں کو مقرر کردوں گا عرض کیا اے میرے رب اور زیادہ کیجئے فرمایا تیری اولاد میں کسی کو توبہ سے محروم نہیں کروں گا جب تک اس کا سانس حلق تک نہیں پہنچتا۔ (واللہ اعلم )
Top