Dure-Mansoor - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور ہم نے قرآن میں جابجا فصل رکھا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے
1:۔ نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ (آیت) ” وقرانا فرقنہ “ میں فرقنہ کو شد کے ساتھ پڑھتے تھے فرمایا قرآن نازل کیا گیا آسمان دنیا پر رمضان کی لیلۃ القدر میں ایک ہی مرتبہ (یعنی اکٹھا) اور مشرکین جب کوئی نیا سوال کرتے تو اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں آیات فرماتے تھے پس اللہ نے قرآن مجید کو جدا جدا کرکے اتارا بیس سال میں۔ قرآن کریم کا نزول لوح محفوظ سے یکبارگی ہوا۔ 2:۔ ابن ابی حاتم محمد بن نصر اور ابن انباری نے مصاحف میں ضحاک کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن یکبارگی نازل ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوح محفوظ سے کراما کاتبین سفیروں کے ذریعہ آسمان دنیا میں پھر ان فرشتوں نے تھوڑا کرکے نازل کیا جبرائیل (علیہ السلام) پر بیس راتوں میں پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کو نبی کریم ﷺ پر بیس سالوں میں اتارا مشرکین نے کہا ان پر قرآن ایک مرتبہ کیوں نازل نہیں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” کذلک لنثبت بہ فوادک “ (الفرقان آیت 32) تجھ پر اس لئے جدا جدا کرکے نازل کیا گیا تاکہ آپ ان کے سوالوں کا جواب دے سکیں اگر ہم اس کو تجھ پر ایک ہی مرتبہ نازل کیا دیتے پھر وہ آپ سے سوال کرتے تو تیرے پاس جواب نہ ہوتا جو وہ تجھ سے سوال کرتے۔ 3:۔ بزار اور طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن ایک مرتبہ نازل کیا گیا یہاں تک کہ آسمان دنیا کے بیت العزۃ میں رکھ دیا گیا پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کو محمد ﷺ پر بندوں کے کلام اور ان کے اعمال کے جواب کے مطابق نازل کیا۔ 4:۔ ابن شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے ابوالعالیہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اسے (یعنی فرقنا) کو شد (تشدید) کے ساتھ پڑھتے تھے یعنی ایک ایک کرکے نازل ہوا۔ 5:۔ بیہقی نے شعب میں حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ قرآن سیکھو پانچ پانچ آیتیں کرکے کیونکہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس ہر پانچ پانچ آیتیں لے کر نازل ہوتے تھے۔ 6:۔ ابن عساکر نے ابو نصرہ کے طریق سے روایت کیا کہ ابو سعید خدری ؓ کو ہم کو پانچ آیتیں صبح کو اور پانچ آیتیں شام کو سکھاتے تھے اور انہوں نے ہم کو بتایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) بھی قرآن کی پانچ پانچ آیتیں لے کر نازل ہوتے تھے۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ وہ (آیت) ” وقرانا فرقنہ “ کو تخفیف کے ساتھ پڑھتے تھے یعنی ہم نے اس کو بیان کردیا۔ 8:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقرانا فرقنہ “ کا معنی فصلنہ ہے یعنی ہم نے اس کو جداجدا کردیا ” علی مکث “ یعنی مدت ” یخرون للاذقان “ سے مراد ہے چیزوں کے لئے۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” علی مکث “ یعنی ٹھہر ٹھہر کر۔ 10:۔ ابن ضریس نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقرانا فرقنہ “ یعنی (قرآن) نازل نہیں ہوا ایک رات میں یا دوراتوں میں نہ ایک ماہ میں نہ دو ماہ میں نہ ایک سال میں نہ دو سالوں میں بلکہ اس کی ابتداء اور انتہاء کے درمیان بیس سال کا فاصلہ ہے یا جتنا اللہ نے چاہا۔ 11:۔ ابن ضریس نے قتادہ کے طریق سے حسن (رح) سے روایت کیا کہ کہا جاتا تھا کہ قرآن اللہ کے نبی محمد ﷺ پر آٹھ سال مکہ مکرمہ میں اور دس سال ہجرت کے بعد نازل ہوا قتادہ ؓ فرمایا کرتے تھے دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں نازل ہوتا رہا۔ 12:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان الذین اوتوا العلم من قبلہ “ سے اہل کتاب میں سے وہ لوگ مراد ہیں جب انہوں نے وہ کلام سنا جو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔ 13:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” من قبلہ “ یعنی نبی کریم ﷺ سے پہلے (آیت) ” اذا یتلی “ یعنی جو ان پر نازل ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ 14:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اذا یتلی علیہم “ سے مراد ہے انکی اپنی کتاب “ 15:۔ ابن مبارک، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عبدالاعلی تیمی (رح) سے روایت کیا کہ جس کو ایسا علم دیا گیا جو نہیں رلاتا ہے خالق کی (یاد اور خوف) کے لئے یا اسے ایسا علم دیا گیا جو اس کو نفع نہیں دیتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوعا “ (کہ وہ گریہ زاری کرتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرپڑتے ہیں) 16:۔ احمد نے زہد میں ابوالجراح سے اور انہوں نے ابوحازم (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ کے پاس ایک آدمی رو رہا تھا جبرائیل (علیہ السلام) نے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ فلاں آدمی ہے جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہم بنو آدم کے سارے اعمال کا وزن کرتے ہیں سوائے رونے کے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک آنسو کے ساتھ جن ہم کی آگ کی نہروں کو بجھا دیتے ہیں۔ 17:۔ حکیم ترمذی نے نضر بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امتوں میں کسی امت میں ایک بندہ رودے تو اللہ تعالیٰ اس امت کو آگ سے نجات دے دیتے ہیں اس بندہ کے رونے کی وجہ سے کوئی عمل نہیں ہوتا مگر اس کے لئے وزن اور ثواب ہوتا ہے سوائے آنسو کے ایک آنسو کے سمندروں کو بجھا دیتا ہے جو آنکھ خشیت الہی کی وجہ سے اپنے آنسووں سے ڈبڈباگئی تو اللہ تعالیٰ (اس کی وجہ سے) اس کے جسم کو آگ پر حرام فرمادیتے ہیں اگر وہ آنسو اس کے رخسار پڑا رہے تو اس کے چہرے پر نہیں چھائے گی کالک اور نہ ذلت۔ 18۔ ابن ابی شیبہ نے جعد ابوعثمان (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ داود (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے خدا کیا بدلہ ہے جس کی آنکھیں بہہ پڑیں تیرے خوف سے فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ میں اس کو امن میں رکھوں گا بڑی گھبراہٹ والے دن سے۔
Top