Dure-Mansoor - Al-Hijr : 36
قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب فَاَنْظِرْنِيْٓ : تو مجھے مہلت دے اِلٰى : تک يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : جس دن (مردے) اٹھائے جائیں
ابلیس نے کہا کہ اے رب ! سو آپ مجھے اس دن تک کی مہلت دے دیجئے جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے۔
1:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فانظرنی الی یوم یبعثون “ سے مراد ہے کہ ابلیس نے ارادہ کیا کہ وہ موت کو نہ چکھے گا اسے کہا گیا کہ (آیت ) ” فانک من المنظرین (37) الی یوم الوقت المعلوم (38) پھر فرمایا نفخہ میں ابلیس مرجائے گا اور دونوں نفخہ کے درمیان چالیس سال کا وفقہ ہے فرمایا تو ابلیس چالیس سال تک مرا پڑا رہے گا۔ 2:۔ امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قال فانک من المنظرین “ سے مراد ہے کہ اس کی مہلت نہیں ملی اٹھائے جانے کے دن تک لیکن اس کو وقت معلوم تک مہلت دی گئی۔ 3:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا عبادک منہم المخلصین “ یعنی مومن۔ 4:۔ ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا عبادک منہم المخلصین “ سے مراد ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی استثناء ہے۔ 5:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” ھذا صراط علی مستقیم “ سے مراد ہے کہ حق لوٹتا ہے اللہ کی طرف اور اس کا سیدھا راستہ ہے وہ ٹیڑھا نہیں ہوتا۔ 6:۔ ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ھذا صراط علی مستقیم “ سے مراد ہے ” الی مستقیم “ یعنی میری طرف سیدھا راستہ ہے۔ 7:۔ ابوعبید، ابن جریر اور ابن منذر نے زیادبن ابی مریم اور عبداللہ بن کثیر رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ یہ دونوں حضرات اس کو اس طرح پڑھتے تھے (آیت) ” ھذا صراط علی مستقیم “ اور فرماتے تھے کہ علی الی کے معنی میں ہے۔ 8:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا (آیت) ” ھذا صراط علی مستقیم “ اور فرمایا اس کا معنی ہے رفیع مستقیم۔ 9:۔ ابوعبید، ابن جریر اور ابن منذر نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھا کرتے تھے (آیت) ” ھذا صراط علی مستقیم “ یعنی رفیع۔ 10:۔ ابن جریر نے قیس بن عباد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو اس طرح پڑھا (آیت) ” ھذا صراط علی مستقیم “ یعنی رفیع۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ان عبادی لیس لک علیہم سلطن “ میرے وہ بندے جن کے لئے میں نے جنت کا فیصلہ کردیا (آیت ) ” لیس لک علیہم “ کہ وہ کوئی گناہ کریں گے تو میں ان کو بخش دوں گا۔ 12:۔ ابن ابی الدنیا نے مکاید الشیطان میں ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے العظمۃ میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب ابلیس پر لعنت کی گئی تو اس کی فرشتوں والی صورت تبدیل ہوگئی تو اس سے وہ گھبرا گیا اور زور سے چیخ ماری اب دنیا میں ہر چیخ اس کی چیخ سے ہے قیامت کے دن تک۔ 13:۔ ابن جریر نے زید بن قیسط (رح) سے روایت کیا کہ انبیاء کی مسجدیں ہوتی تھیں ان کی بستیوں سے باہر جب نبی کریم ﷺ اپنے رب سے خیر طلب کرنے کا ارادہ فرماتے تھے کسی چیز کے بارے میں تو مسجد کی طرف جاتے اور اس میں نماز پڑھتے تقدیر الہی کے مطابق پھر اپنا سوال پیش کرتے ایک دفعہ ایک نبی (علیہ السلام) اپنی مسجد میں تھے کہ ابلیس آیا یہاں تک کہ بیٹھ گیا ان کے اور قبلہ کے درمیان نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے تین مرتبہ (پناہ مانگی) ابلیس نے کہا مجھ کو بتائیے کس چیز کے ساتھ تو مجھ سے نجات حاصل کرتا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلکہ تو مجھ کو بتا کس چیز کے ساتھ تو ابن آدم پر غالب آتا ہے ہر ایک نے دوسرے سے بات کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” ان عبادی لیس لک علیہم سلطن الا من اتبعک من الغوین (42) ابلیس نے کہا میں اس کو سن چکا ہوں تیرے پیدا ہونے سے پہلے (پھر) نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” واما ینزعنک من الشیطان نزغ فاستعذ باللہ “ (الاعراف آیت 200) اللہ کی قسم میں نے جب بھی تجھ کو محسوس کیا تو میں نے تیرے بارے میں اللہ سے پناہ مانگی ابلیس نے کہا تو نے سچ کہا ان کلمات کے ساتھ تم مجھ سے نجات پاتے ہو نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھ کو بتا کس چیز کے ساتھ ابن آدم پر غالب آتا ہے اس نے کہا میں اس کو غصہ کے وقت اور نفسانی خواہش کے ساتھ مغلوب کرتا ہوں۔ 14:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب “ (وہ سات دروازے یہ ہیں) جہنم السعیر، لظی، حطمۃ، جحیم، اور ھاویہ اور وہ نیچے والا دروازہ ہے۔ 15:۔ ابن مبارک، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، احمد نے زہد میں، ابن ابی الدنیا نے صفۃ النار میں، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہق نے البعث میں کئی طرق سے نقل کیا ہے کہ علی ؓ نے فرمایا جہنم کے ساتھ دروازے ہیں بعض بعض کے اوپر ہے پہلا بھرتا ہے پھر دوسرا بھرتا ہے پھر تیسرا یہاں تک کہ سب بھر جاتے ہیں۔ 16:۔ احمد نے زہد میں علی ؓ سے روایت کیا کہ کیا تم جہنم کے دروازوں کی کیفیت جانتے ہو ؟ ہم نے کہا جیسے یہ دروازے فرمایا نہیں بلکہ یہ اس طرح ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اور اپنی انگلیوں کے درمیان کشادگی پیدا کر کے فرمایا کہ ہر دروازے کے اوپر ایک دروازہ ہوگا۔ جہنم کے سات دروازے ہیں :۔ 17:۔ بیہقی نے البعث میں خلیل بن مرہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نہیں سوتے تھے یہاں تک کہ سورة تبارک الذی اور حم سجدہ پڑھ لیتے تھے اور فرمایا حوامیم سات ہیں اور جہنم کے دروازے سات ہیں جہنم، حظمہ، لظی، سعیر، سقر اور ھاویہ اور جحیم ان سورتوں میں سے ہر سورة قیامت کے دن ان دروازوں میں سے ہر دروازہ پر کھڑی ہوجائے گی اور کہے گی اسے اللہ تعالیٰ اس دروازے میں سے اس شخص کو داخل نہ کرے جو مجھ پر ایمان رکھتا تھا اور مجھ کو پڑھتا تھا۔ 18۔ بخاری نے تاریخ میں، ترمذی اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جہنم کے سات دروازے ہیں اس میں سے ایک اس کے لئے ہے جس نے تلوار کو لہرایا میری امت پر۔ 19:۔ حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں اور بزار نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آگ کا ایک دروازہ ہے جو صرف اس شخص کے لئے ہے جس کا ٹھنڈا ہوجائے غصہ اللہ کی ناراضگی کے ساتھ۔ 20:۔ ابونعیم نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ جہنم کے سات دروازے ہیں ان میں سب سے زیادہ غم پریشانی میں مبتلا کرنے والا اور سردوگرم اور سخت وبدبو والا زنا کرنے والوں کے لئے ہے 21:۔ ابن مردویہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک دروازہ ہے جہنم کا ایسا ہے کہ اس میں داخل نہ ہوگا مگر وہ شخص جس نے بےوفائی کی میرے گھر والوں کے بارے میں اور میرے بعد ان کا خون بہایا۔ 22:۔ احمد، ابن حبان طبری وابن مردویہ اور بیہقی نے البعث میں عتبہ بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات دروازے ہیں اور بعض دروازے بعض سے افضل ہیں۔ 23:۔ سعید بن منصور اور طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ طلوع ہوتا ہے سورج جہنم سے شیطان کے دو سینگوں کے درمیان اور جب سورج بلند ایک بانس (کے برابر) تو اس کے لئے جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے یہاں تک کے جب دوپہر ہوتی ہے تو دوزخ کے سارے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ 24:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب “ یعنی دوزخ کے سات طبقات ہیں۔ 25:۔ ابن جریر، اور ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کا اول جہنم ہے پھر لظی پھر حطمہ، پھر سعیر پھر سقر پھر جحیم پھر ھاویہ اور ابوجہل جحیم میں ہے۔ 26:۔ عبدبن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے تقتادہ ؓ سے (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب، لکل باب منہم جزء مقسوم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ کی قسم ! یہ منزلیں ہیں ان کے اعمال کے مطابق، 27:۔ عبدالرزاق ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ دوزخ کے دروازوں کے نام یہ ہیں جہنم، حطمہ، ھاویہ، لظی، سقر، جحیم، سعیر، جہنم اور ” النار “ ان سب کا نام ہے۔ 28:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” جزء مقسوم “ سے مراد ہے کہ ہر طبقہ کے لئے ایک علیحدہ فریق ہے۔ 29:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب، لکل باب منہم جزء مقسوم “ سے مراد ہے کہ ایک دروازہ ہے یہودیوں کے لئے، ایک دروازہ ہے صائبین کے لئے ایک دروازہ مجوس کے لئے اور ایک دروازہ ہے مشرکین عرب کے لئے اور ایک دروازہ ہے منافقین کے لئے اور ایک دروازہ ہے توحید والوں کے لئے اور یہ توحید والے وہ (گہنگار) ہیں جن کے نکلنے کی امید کی جاتی ہے اور دوسروں کے لئے کبھی بھی نکلنے کی امید نہیں کی جاتی۔ 30:۔ سعید بن منصور اور طبرانی ابن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سورج شیطان کے دونوں سنگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے جتنا آسمان کے کنارے پر بلند ہوتا ہے اسی کے بقدر جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں حتی کے جب جب زوال کا وقت ہوتا تو جہنم کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ 31:۔ ابن مردویہ اور بیہقی بعث کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ پل صراط جہنم کی پشت پر ہے بہت دہشت کی حالت میں انبیاء (علیہم السلام) بھی سلامتی کی دعا کریں گے بعض بجلی کی طرح بعض آنکھ جپکنے کی طرح بعض عمدہ گھوڑے کی طرح، خچر کی طرح، اونٹ کی طرح، تیز دوڑنے والے کی طرح بعض صحیح سالم پار ہوجائے گا اور بعض کو زخمی حالت میں چھوڑ دیا جائے گا اور بعض کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ قولہ تعالیٰ : (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب، لکل باب منہم جزء مقسوم “ 32:۔ ابن ابی حاتم نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (آیت ) ” لکل باب منہم جزء مقسوم “ کے بارے میں فرمایا دوزخ والوں میں سے بعض وہ ہوں گے جس کو آگ اس کے ٹخنے تک پکڑے گی اور ان میں سے بعض وہ ہوں گے جس کو آگ اس کے کمر تک پکڑے گی اور ان میں سے بعض وہ ہوں گے جس کو آگ اس کی ہنسلیوں تک پکڑے گی یہ ان کے منازل ہیں ان کے اعمال کے مطابق (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب، لکل باب منہم جزء مقسوم “ سے یہی مراد ہے پھر فرمایا اس میں سے ہر دروازے پر ستر ہزار آگ کی قناتیں ہوگی ہر قنات میں ستر ہزار قبے ہوں گے آگ میں سے ہر قبے میں ستر ہزار آگ کے تنورہون گے اس میں سے ہر تنور میں ستر ہزار آگ کے سوراخ ہوں گے اور ان میں سے ہر سوراخ میں ستر ہزار آگ کے بچھو ہیں ان میں ہر بچھو ستر ہزار دم ہیں اس میں سے ہر دم میں ستر ہزار آگے کے مہرے ہیں اور اس میں سے ہر مہرے میں ستر ہزار زہر کے مٹکے ہوں گے اور ستر ہزار آگ کے چولہے ہوں گے جن سے وہ آگ جلائی جائے گی اور فرمایا سب سے پہلے جو دوزخ والوں میں سے داخل ہوں گے وہ دوزخ کے دروازے پر چار لاکھ جہنم کے دارغوں کو دیکھیں گے ان کے چہرے کالے ہوں گے ان کے دانت نکلے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں سے رحمت نکالی ہوگی اور ان میں سے کسی ایک دل میں بھی ایک رائی کے دانے کے برابر بھی رحمت نہ ہوگی۔ 33:۔ ابونعیم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دوزخ ہر دن بھڑکائی جاتی ہے اور اس کے دروازے کھولے جاتے ہیں مگر جمعہ کے دن اس کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور نہ اس کو بھڑکایا جاتا ہے۔ 34:۔ سعید بن منصور نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ حق یہ ہے کہ بہت زیادہ جہنم سے پناہ مانگنے کا حق اس وقت ہے جب اس کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ 35:۔ ابن ابی حاتم نے یزید بن ابی مالک (رح) سے روایت کیا کہ جہنم (میں) سات آگیں ہیں ان میں سے کوئی آگ ایسی نہیں ہے کہ (جب) وہ اپنے سے نیچے والی آگ کو دیکھتی ہے تو خوف کرتی ہے کہ اس کو کھا نہ جائے۔ دوزخ کے قید خانہ کا تذکرہ : 36:۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ دوزخ میں ایک قید خانہ ہے جس میں سب سے بڑے لوگ داخل ہوں گے اس کا فرش آگ کا ہے اس کی چھت بھی آگ کی ہے اس کی دیواریں آگ کی ہیں اور اس میں آگ ہی بھڑکتی ہے۔ 37:۔ عبدالرزاق، حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ شہید کے لئے نور ہوگا اور حرور یہ کو قتل کرنے والے کے لئے دس نور ہوں گے اور وہ فرمایا کرتے تھے جن ہم کے لئے سات دروازے ہیں اس میں سے ایک دروازہ حروریہ کے لئے ہے اور فرمایا کہ یہ لوگ داود (علیہ السلام) کے زمانے میں نکلے تھے۔ 38:۔ ابن مردویہ اور خطیب نے تاریخ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے اس قول (آیت ) ” لھا سبعۃ ابواب، لکل باب منہم جزء مقسوم “ کے بارے میں فرمایا کہ ایک جزء اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے لئے ہے اور ایک جز اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کرنے والوں کے لئے ہے اور ایک جز اللہ سے غافل ہونے والوں کے لئے ہے۔ 39:۔ ترمذی، حاکم ابن ماجہ، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں (حاکم نے اس کی تصحیح بھی کی) عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ ان کی طرف بھاگے، میں بھی آیا تاکہ میں آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھوں جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھاتو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے نبی کا نہیں ہوسکتا پہلی بات جو میں نے آپ سے سنی (وہ یہ تھی) اے لوگوں (بھوکوں کو) کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو (اس وقت) نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاوگے۔ 40:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” امنین “ سے مراد ہے کہ وہ (قیامت کے دن) امن والے ہوں گے موت سے (یعنی دوسری مرتبہ بھی موت نہیں آئے گی) وہ نہ مریں گے اور نہ بوڑھے ہوں گے اور نہ بیمار ہوں گے اور نہ ننگے ہوں گے اور نہ بھوکے ہوں گے۔ 41:۔ سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر نے لقمان بن عامر کے طریق سے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے سینے سے کینے کو نکال دے گا حتی کے ایک انسان کے سینے سے اور یہاں تک کہ آدمی کے سینے سے کینے کو نکال دے گا خونخوار جانور کی طرح۔ 42:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے قاسم کے طریق سے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ داخل ہوں گے جنت والے جنت میں جو ان کے سینوں میں دنیا کا آپس میں کینہ وغیرہ موجود ہوگا یہاں تک کہ جب وہ آمنے سامنے بیٹھیں گے اپنے پلنگوں پر اللہ تعالیٰ ان کے سینوں سے نکال دیں گے دنیا کے کینے کو۔ 43:۔ ابن جریر نے علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ سے مراد ہے عداوت۔ 44:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے قتادہ (رح) سے (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو ابو المتوکل ناجی نے بیان کیا کہ ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن آگ سے نجات پالیں گے اور ایک پل پر روکے جائیں گے جنت اور دوزخ کے درمیان پھر اس کے بعض کے مظالم کا بعض سے قصاص لیا جائے گا جو ان کے درمیان دنیا میں تھے یہاں تک کہ جب وہ ان مظالم سے صاف ستھرے اور پاک ہوجائیں گے تو ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گی اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جنتیوں میں سے ہر شخص جنت میں اپنے منزل کے مقام کو دنیا کے منزل اور مقام سے زیادہ جانتا ہوگا۔ قتادہ ؓ نے فرمایا کہ کہا جاتا تھا جیسے جمعہ پڑھنے والے لوگ اپنے جمعہ سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف جاتے ہیں اور ان کو (گھر کی طرف جانے میں) کوئی شبہ نہیں پڑتا (اسی طرح جنت والے گھر کی طرف جانے میں کوئی شبہ نہیں پڑے گا ) 45:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت والوں کو روکا جائے گا پل صراط پار کرنے کے بعد یہاں تک کہ دنیا میں ان کے بعض کے مظالم کا بعض سے بدلہ لیاجائے گا اور وہ لوگ جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان دلوں میں ایک دوسرے کے بارے میں کینہ نہ ہوگا۔ 46:۔ ابن ابی حاتم نے عبدالکریم بن رشید (رح) سے روایت کیا کہ جنت والے جنت کے دروازے پر پہنچیں گے اور وہ دیکھ رہے ہوں گے ایک دوسرے کو غصہ آمیز نگاہوں سے لیکن جب اندر داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے سینوں سے کینہ کو نکال دیں گے۔ 47:۔ سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر، اور ابن مردویہ نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ آیت ہم بدروالوں کے لئے نازل ہوئی (آیت) ” سررمتقبلین “ 48:۔ ابن مردویہ نے عبداللہ بن ملیل کے طریق سے علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ (یعنی یہ آیت) عرب تین قبیلوں کے بارے میں نازل ہوئی بنوہاشم بنو تمیم، بنو عدی اور ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ دلوں سے حسد وکینہ نکالنا :ـ 49:۔ ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے کثیر النواء سے روایت کیا کہ میں نے ابو جعفر ؓ سے کہا کہ مجھ کو فلاں آدمی بیان کرتا ہے علی بن الحسین ؓ کی طرف سے کہ یہ آیت (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ابو جعفر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم واقعی ان کے بارے میں نازل ہوئی پھر میں نے پوچھا ان میں کون سا کینہ تھا ؟ فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کا کینہ کہ بنوتمیم، بنو عدی، اور بنوہاشم ان کے درمیان دشمنی تھی زمانہ جاہلیت میں جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو آپس میں محبت کرنے لگے ایک دفعہ ابوبکر ؓ کی پیٹھ میں درد ہوگیا تو علی ؓ نے اپنا ہاتھ گرم کرکے ابوبکر ؓ کی پیٹھ پر رکھ کر گرم کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 50:۔ سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور حاکم نے چند طرق سے علی ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن طلحہ ؓ سے فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اس آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے اس سے مراد میں اور تیرا باپ ہیں ان لوگوں میں سے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقبلین “ ہمدان میں سے ایک آدمی نے کہا اللہ تعالیٰ زیادہ انصاف کرنے والے ہیں اس سے (اس پر) علیؓ نے ایسی چیخ ماری کہ محل پھٹنے لگا اور فرمایا اگر ہم جنت کے مستحق نہیں تو پھر کس کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ 51:۔ سعید بن منصور، ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میں عثمان، زبیر اور طلحہ ؓ ہوں گے ان لوگوں میں سے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ 52:۔ ابن مردویہ نے مجاہد کے طریق سے ابن عباس ؓ سے (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ کے بارے میں روایت کیا کہ (یہ آیت) علی اور طلحہ اور زبیر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ 53:۔ شیرازی نے القاب میں، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے کلبی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ دس (صحابہ) کے بارے میں نازل ہوئی یعنی ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، عبد الرحمن بن عوف اور عبداللہ ابن مسعود ؓ اجمعین۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابو صالح سے موقافا نقل کیا۔ 54:۔ ابن مردویہ نے نعمان بن بشیر کے طریق سے علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ونزعنا مافی صدورہم من غل “ سے عثمان، طلحہ زبیر اور میں ؓ مراد ہیں۔ 55:۔ ھناد ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” علی سرر متقبلین “ سے مراد ہے کہ ان کا بعض، بعض کی گدی کو نہیں دیکھے گا (یعنی ایک دوسرے کے سامنے پلنگوں پر بیٹھے ہوں گے ) 56ـ:۔ ابن منذر اور ابن مردویہ نے مجاہد کی طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جنت والوں میں سے ان کا بعض بعض کی گردن نہ دیکھے گا پھر یہ آیت پڑھی (آیت ) ” متکئین علیھا متقبلین “ 57ـ:۔ ابن ابی حاتم، طبرانی، ابوالقاسم البغوی، ابن مردویہ، ابن عساکر نے زید بن ابی اوفی ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور یہ (آیت) ” اخوانا علی سرر متقبلین “ تلاوت فرما رہے تھے یعنی اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوئے وہ جنت میں ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ 58:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے فرمایا کہ (آیت) ” لا یمسہم فیھا نصب “ سے مراد ہے کہ مشقت اور تکلیف ان کو نہ ہوگی۔
Top