Dure-Mansoor - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور بیشک ہم نے آسمان میں ستارے پیدا کئے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے زینت والا بنایا
1:۔ امام ابن شیبہ، ابن ابی جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد جعلنا فی السمآء بروجا “ سے مراد ہیں ستارے۔ 2:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابوقتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد جعلنا فی السمآء بروجا “ سے مراد ہیں ستارے۔ 3:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد جعلنا فی السمآء بروجا “ سے مراد ہیں بڑے ستارے۔ 4:۔ امام ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد جعلنا فی السمآء بروجا “ سے مراد ہے آسمانوں میں محلات اور جس میں چوکیدار رہتے ہیں۔ 5:۔ امام عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وحفظنھا من کل شیطن رجیم “ میں رجیم سے مراد ہے لعنت کیا ہوا۔ ستاروں کے ذریعہ شیاطین کو جلانا : 6:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” الا من استرق السمع “ جب وہ ارادہ کرتا ہے کہ وہ بات کو اچک لے (یعنی چوری چھپے بات کو سن لے) جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” الا من خطف الخطفۃ “ (الصافات آیت 10) 7:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” الامن استرق السمع “ جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے (آیت ) ” الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شھاب ثاقب (10) “ (الصافات آیت 10) اور ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ شعلہ قتل نہیں کرتا لیکن اس کو جلا دیتا ہے اور اس کو بگاڑ دیتا ہے اور اس کو زخمی کردیتا ہے قتل کیے بغیر۔ 8:۔ امام ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جریر بن عبداللہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آسمان دنیا اور نچلی زمین کے بارے میں بتائیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا کے آسمان کو اللہ تعالیٰ نے دھویں سے پیدا فرمایا پھر اس کو بلند کیا اور اس میں سورج اور چمکتے ہوئے چاند کو رکھ دیا اور اس کو چراغوں یعنی ستاروں سے سجادیا اور ان ستاروں کو شیطان کے مارنے کے لئے بنایا اور اس کی حفاظت فرمائی ہر شیطان مردود سے۔ 9:۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والا رض مددنھا “ اور دوسری آیت میں اللہ عزوجل نے فرمایا (آیت) ” والارض بعد ذلک دحھا (30) “ (النازعات آیت 30) ہم کو ذکر کیا گیا کہ ام القری سے مکہ مراد ہے اور اس سے زمین کو بچھایا گیا قتادہ ؓ نے فرمایا اور حسن (رح) فرمایا کرتے تھے مٹی لے کر خوب پھیل جا اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” والقینا فیھا رواسی “ ھا سے مراد ہیں اس کے پہاڑ (اور فرمایا) (آیت ) ” وانبتنا فیھا من کل شیء موزون “ یعنی جو معلوم ہے اور تقسیم کی ہوئی۔ 10:۔ امام ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانبتنا فیھا من کل شیء موزون “ یعنی معلوم۔ 11:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانبتنا فیھا من کل شیء موزون “ سے مراد ہے مقدر۔ 12:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانبتنا فیھا من کل شیء موزون “ سے مراد ہے اندازہ کے مطابق۔ 13:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانبتنا فیھا من کل شیء موزون “ یعنی وہ اشیاء جو وزن کی جاتی ہیں۔ 14:۔ امام عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانبتنا فیھا من کل شیء موزون “ سے مراد ہے کہ پہاڑوں میں جو سرمہ پیدا کیا ہے اور اس کے مشابہ (دوسری چیزیں ) ۔ 15:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ومن لستم لہ برزقین “ سے مراد ہیں جانور اور چوپائے (جن کو تم خوراک دینے والے نہیں ) ۔ 16:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے منصور (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ومن لستم لہ برزقین “ یعنی ان وحشی جانوروں کو تم رزق دینے والے نہیں ہو۔ 17:۔ امام بزار اور ابن مردویہ نے عظمہ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کلام اللہ کے خزانے ہیں جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے لئے فرماتے ہیں ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔ 18۔ امام ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وان من شیء الا عندنا خزآء نہ “ (یعنی ان خزانوں میں سے) خاص طور پر بارش کے خزانے ہیں۔ ایسی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں مگر ہم اندازے کے ساتھ نازل فرماتے ہیں۔ 19:۔ امام ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما ننزلہ الا بقدر معلوم “ یعنی بارش (کو ہم نازل کرتے ہیں معلوم مقدار میں ) ۔ 20:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عظمہ میں نقل کیا ہے کہ حکم بن عتبہ (رح) سے (آیت) ” وان من شیء الا عندنا خزآئنہ، وما ننزلہ الا بقدر معلوم “ کے بارے میں فرمایا ہر سال بارش برابر نازل کی جاتی ہے نہ کسی سال زیادہ ہوتی ہے اور نہ کسی سال کم ہوتی ہے لیکن (وہ یوں ہوتا ہے) کہ کبھی کسی ایک قوم پر بارش ہوتی ہے اور دوسری محروم رہتی ہے اور کبھی کبھار سمندر میں (بارش) ہوتی ہے اور ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ ہر قطرہ کے ساتھ ابلیس کی اولاد اور آدم کی اولاد سے زیادہ فرشتے نازل ہوتے ہیں وہ ہر قطرہ کو گنتے ہیں جہاں وہ واقع ہوتا ہے اور جو وہاں اگتا ہے اور جو رزق حاصل کرتے ہیں ان بوٹیوں اور پودوں سے۔ 21:۔ امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بارش کبھی بھی کم نہیں ہوئی جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نازل کرنا شروع کیا ہے لیکن کبھی کسی زمین میں زیادہ ہوتی ہے دوسری زمین کی نسبت پھر یہ (آیت) ” وما ننزلہ الا بقدر معلوم “ پڑھی۔ 22:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کسی سال دوسرے سال کی نسبت زیادہ بارش نہیں ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ بارش کو بھیجتے ہیں جہاں چاہتے ہیں پھر یہ (آیت) ” وان من شیء الا عندنا خزآئنہ، وما ننزلہ الا بقدر معلوم “ پڑھی۔ 23:۔ امام ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے سے زیادہ کمانے والا نہیں اور نہ کسی سال زیادہ بارش ہوئی دوسرے سال سے لیکن اللہ تعالیٰ پھیر دیتے ہیں جہاں چاہتے ہیں (بارش کو) 24:۔ امام ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی سال دوسرے سال کی نسبت زیادہ بارش نہیں ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ اس کو پھیر دیتے ہیں جہاں چاہتے ہیں شہروں میں سے ہر قطرہ آسمان سے اور ہوا کا ہر جھونکا ناپ اور تول سے اترتا ہے۔ 25:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ کوئی قطرہ نازل نہیں ہوتا مگر میزان کے ساتھ۔ 26:۔ امام ابن ابی حاتم نے معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ کی کتاب حق ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کیوں نہیں واقعی حق ہے آپ نے فرمایا یہ (آیت) ” وان من شیء الا عندنا خزآئنہ، وما ننزلہ الا بقدر معلوم “ پڑھو کیا تم اس کے ساتھ ایمان نہیں لاتے اور کیا تم جانتے ہو کہ وہ حق ہے صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں آپ نے فرمایا پھر تم اس کے بعد مجھے کس طرح ملامت کرتے ہوا احنف کھڑا ہوا اور کہا اے معاویہ اللہ کی قسم ہم تم کو ملامت نہیں ان چیزوں پر جو اللہ کے خزانوں میں ہے لیکن ہم تجھ کو ملامت کرتے ہیں اس چیز پر جو اللہ تعالیٰ نے اتارا اپنے خزانوں میں سے پھر تو نے اسے جمع کرلیا اپنے خزانوں میں اور بند کردیتا ہے اس پر اپنے دروازے کو تو معاویہ ؓ خاموش ہوگئے۔ 27:۔ امام ابن ابی الدنیا نے کتاب السحاب میں، ابن جریر، ابوالشیخ نے عظمۃ میں، ابن مردویہ، دیلمی نے مسند الفردوس میں سند ضعیف کے ساتھ ضعیف کے ساتھ ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنوب کی ہوا جنت میں سے ہے اور یہ ہوا ” لواقح “ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا اور اس میں لوگوں کے نفعے میں اور شمال کی ہوا آگ میں سے ہے ہو نکلتی ہے اور جنت میں سے گزرتی ہے تو اسے جنت کا ایک جھونکا لگتا ہے اور اس کو ٹھندا کردیتا ہے۔ 28:۔ امام بن ابی الدنیا نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مدد کی گئی ہوا کے ذریعہ سے اور قوم عاد ہلاک کی گئی دبور (ہوا) اور جنوب کی ہوا جنت میں سے ہے اور یہی لواقح ہوا ہے۔ 29:۔ امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور خرائطی نے مکارم الاخلاق میں ابن مسعود ؓ سے روایت کا کہ (آیت ) ” وارسلنا الریح لواقح “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہوا کو بھیجتے ہیں وہ پانی کو اٹھاتی ہے اور اس کے ساتھ بادل بوجھل ہوجاتا ہے اس کے بعد وہ پانی ٹپکتا ہے بہت دودھ والی اونٹنی کے دودھ کی طرح پھر بارش برساتا ہے۔ 30:۔ امام ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے المعظمہ میں نقل کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہوا کو بھیجتے ہیں وہ پانی کو اٹھاتی ہے پھر بادل اس پانی کے ساتھ چلتا ہے پھر وہ ٹپکتا ہے دودھ دینے والی اونٹنی کے دودھ کی طرح۔ 31:۔ امام ابوعبید، ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وارسلنا الریح لواقح “ بار دار ہوائیں درختوں کو بار دار کرتی ہیں۔ اور بادلوں کی چلاتی ہیں۔ 32:۔ امام ابوعبید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے ابورجاء (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن (رح) سے (آیت ) ” وارسلنا الریح لواقح “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے کہ وہ درختوں کو بار آور کرتی ہیں میں نے عرض کیا یہ بادلوں کے لئے بھی ہوتی ہیں تو انہوں نے فرمایا ہاں یہ بادلوں کو لے جاتی ہیں یہاں تک کہ وہ برستے ہیں۔ 33:۔ امام ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وارسلنا الریح لواقح “ سے مراد ہے کہ وہ بھردیتی ہے پانی کو بادل میں۔ 34:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وارسلنا الریح لواقح “ سے مراد ہے کہ ان ہواوں کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے وہ اس کو بوجھل کردیتی ہیں پھر وہ پانی سے بھر جاتا ہے۔ 35:۔ امام ابن منذر نے عطاء خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ لواقح ہوا نکلتی ہے بیت المقدس کی چٹان کے نیچے سے۔ 36:۔ امام ابن حبان، ابن السنی نے عمل الیوم واللیلۃ میں، طبرانی، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی نے سنن میں سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب ہوا تیز ہوجاتی تو یہ (دعا) فرماتے ” اللہم لقحا لا عقیما “ یعنی اے اللہ اس ہوا کو باعث رحمت بنا اور اس کو باعث عذاب نہ بنا۔ 37:۔ امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ نے العظمۃ میں عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ بھیجتے ہیں خوشخبری دینے والی ہوا کو جو زمین کو صاف کردیتی ہے پھر بادلوں کے چلانے والی ہواوں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو اڑاتی ہیں پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے بنا دیتی ہیں پھر بادلوں کو جمع کرنے والی ہواوں کو بھیجتا ہے جو ان کو تہہ بہ تہہ بنا دیتی ہیں پھر بار آور ہواوں کو بھیجتا ہے جو بادل کو بار آور کرتی ہے پھر وہ بارش برساتا ہے۔ ہواوں کی چار قسمیں۔ 38:۔ امام ابن منذر نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ ہوائیں چار قسم کی ہیں ایک ہوا عام ہوتی ہے دوسری ہوا جو اٹھاتی ہے (بادلوں کو) اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے اور تیسری ہوا جو اس کو تہہ بہ تہہ کردیتی ہے اور چوتھی ہوا جو بارش برساتی ہے۔ 39:۔ امام ابوالشیخ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کیا کہ لواقح سے مراد ہے وہ ہوائیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں پھر بادلوں کو جمع کردیتی ہیں۔ 40:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وما انتم لہ بخزنین “ سے مراد ہے تم ان کو روکنے والے نہیں ہو (اور فرمایا) (آیت ) ” ونحن الورثون “ میں الوارث سے مراد ہے کہ ہم باقی رہنے والے ہیں۔
Top