Bayan-ul-Quran - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں (ف 3) کہ اپنے رب کے پاس (ایسی حالت سے) جمع کیے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفیع ہوگا (ف 4) اس امید پر کہ وہ ڈر جاویں۔ (ف 5) (51)
3۔ حشر کے متعلق کل تین طرح کے آدمی ہیں ایک وہ جو جزا اس کے ثبوت کے معتقد ہیں دوسرے وہ جو متردد ہیں آیت میں ان ہی دونوں جماعتوں کا ذکر ہے تیسرے وہ جو جزما اس کے منکر ہیں اور انذار گوان کو بھی عام ہے جیسا اور آیات میں مصرح ہے لیکن یہاں مطلق انذار مراد نہیں بلکہ وہ انذار جس میں خاص اہتمام ہو سو یہ وہاں ہی ہوگا جہاں نفع متیقن یا متوقع ہو جیسا قسم اول دوم کا حال ہے بخلاف اس قسم سوم کے کہ بوجہ عدم توقع نفع ان کو انذار محض اتمام حجت کے لیے ہوگا توجہ کی بوجہ عنادان میں قابلیت ہی نہیں اس لیے یہاں قسمین اولین کی تخصیص کی گئی ہے جیسا بعض آیات میں بنابریقین نفع کے صرف قسم اول ہی کی تخصیص بھی ہے۔ 4۔ غیر اللہ کی ولایت اور غیر مومنین کے لیے شفاعت کی مطلقا منفی ہے اور اللہ کی ولایت اور مقبولین کی شفاعت مومنین کے لیے ثابت ہے۔ 5۔ آیت میں تین امور کی نفی کی گئی ہے قدرت علی الخزائن علم غیب اور ملکیت۔ مقصود اس سے دفع استبعاد کفار کا ہوسکتا ہے یعنی تم جو اقتراح آیات سے میری رسالت کی تکذیب کرتے ہو تو وہ محض بےمعنی ہے اس لیے کہ رسالت جس کا میں مع دلیل مدعی ہوں کوئی مستبعد امر نہیں ہے کسی امر عجب و غریب مثل قدرت وعلم و ملکیت مذکورہ کا تو میں مدعی نہیں جو اسکو مستبعد سمجھ کر انکار کرتے ہو۔
Top