Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور تم بجائے ایک بی بی کے دوسری بی بی کرنا چاہو اور تم اس ایک کو انبار کا انبار مال دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ بھی مت لو (ف 3) کیا تم اس کو لیتے ہو بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہوکر۔ (20)
3۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ حدیث میں تاکید آئی ہے کہ مہر کم مقرر کرنے کی اور اس آیت سے زیادہ کا جواز معلوم ہوتا ہے تو اس کا دفع یہ ہے کہ یہ جواز مفہوم من القرآن بمعنی صحت ونفاذ ہے۔ اور حدیث میں جواز بمعنی اباحت مطلقہ وعدم کراہت کی نفی ہے پس کچھ تعارض نہیں رہا اور حضرت عمر کا ایک واقعہ میں زیادہ مہر کے جواب کو مان لینا اس لیے تھا کہ سامعین اس کو حرام نہ سمجھنے لگیں پس اس سے کراہت کا عدم ثابت نہیں ہوتا نہ حضرت عمر پر کوئی اعتراض لازم آتا ہے۔
Top