Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
تو اس دن کیا صورت حال ہوگی جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور (اے نبی) آپ کو لائیں گے ہم ان پر گواہ بناکر
آیت 41 فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ یعنی اس نبی اور رسول کو گواہ بنا کر کھڑا کریں گے جس نے اس امت کو دعوت پہنچائی ہوگی۔ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ ۔ یعنی آپ ﷺ ‘ کو کھڑے ہو کر کہنا ہوگا کہ اے اللہ ! میں نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ ہماری عدالتی اصطلاح میں اسے استغاثہ کا گواہ prosecution witness کہا جاتا ہے۔ گویا عدالت خداوندی میں نبی مکرم ﷺ استغاثہ کے گواہ کی حیثیت سے پیش ہو کر کہیں گے کہ اے اللہ ‘ تیرا پیغام جو مجھ تک پہنچا تھا میں نے انہیں پہنچادیا تھا ‘ اب یہ خود ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چناچہ اپنی ہی قوم کے خلاف گواہی آگئی نا ؟ یہاں الفاظ نوٹ کر لیجیے : عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا اور عَلٰی ہمیشہ مخالفت کے لیے آتا ہے۔ ہم تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے شفاعت کی امید میں ہیں اور یہاں ہمارے خلاف مقدمہ قائم ہونے چلا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ دربار خداوندی میں ہمارے خلاف گواہی دیں گے کہ اے اللہ ! میں نے تیرا دین ان کے سپرد کیا تھا ‘ اب اسے دنیا میں پھیلانا ان کا کام تھا ‘ لیکن انہوں نے خود دین کو چھوڑ دیا۔ سورة الفرقان میں الفاظ آئے ہیں : وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا اور رسول ﷺ کہیں گے کہ پروردگار ‘ میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا“۔ سورة النساء کی آیت زیر مطالعہ کے بارے میں ایک واقعہ بھی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ ! انہوں نے عرض کیا حضور آپ کو سناؤں ؟ آپ ﷺ پر تو نازل ہوا ہے۔ فرمایا : ہاں ‘ لیکن مجھے کسی دوسرے سے سن کر کچھ اور حظ حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ رض نے سورة النساء پڑھنی شروع کی۔ حضور ﷺ ‘ بھی سن رہے تھے ‘ باقی اور صحابہ رض ‘ بھی ہوں گے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رض ‘ گردن جھکائے پڑھتے جا رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا : حَسْبُکَ ‘ حَسْبُکَ بس کرو ‘ بس کرو ! عبداللہ بن مسعود رض نے سر اٹھا کر دیکھا تو حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس وجہ سے کہ مجھے اپنی قوم کے خلاف گواہی دینی ہوگی۔
Top