Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 30
وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَارًا١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ عُدْوَانًا : سرکشی (زرد) وَّظُلْمًا : اور ظلم سے فَسَوْفَ : پس عنقریب نُصْلِيْهِ : اس کو ڈالیں گے نَارًا : آگ وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اور جو کوئی بھی یہ کام کرے گا تعدی اور ظلم کے ساتھ تو ہم جلد اس کو جھونک دیں گے آگ میں اور یہ چیز اللہ پر بہت آسان ہے
آیت 30 وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا یعنی یہ دونوں کام۔۔ باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانا اور قتل نفس۔ فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا ط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا یہ مت سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کے بہت بڑے حصے کو جہنم میں کیسے جھونک دے گا ؟ یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگلی دو آیات میں انسانی تمدن کے دو بہت اہم مسائل بیان ہو رہے ہیں ‘ جو بڑے گہرے اور فلسفیانہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا مسئلہ گناہوں کے بارے میں ہے ‘ جن میں کبائر اور صغائر کی تقسیم ہے۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک اور پھر کفر ہے۔ پھر یہ کہ جو فرائض ہیں ان کا ترک کرنا اور جو حرام چیزیں ہیں ان کا ارتکاب کبائر میں شامل ہوگا۔ ایک ہیں چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں جو انسان سے اکثر ہوجاتی ہیں ‘ مثلاً آداب میں یا احکام کی جزئیات میں کوئی کوتاہی ہوگئی ‘ یا بغیر کسی ارادے کے کہیں کسی کو ایسی بات کہہ بیٹھے کہ جو غیبت کے حکم میں آگئی ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس ضمن میں صحت مندانہ رویہ یہ ہے کہ کبائر سے پورے اہتمام کے ساتھ بچا جائے کہ اس سے انسان بالکل پاک ہوجائے۔ فرائض کی پوری ادائیگی ہو ‘ محرمات سے مطلق اجتناب ہو ‘ اور یہ جو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ان کے بارے میں نہ تو ایک دوسرے پر زیادہ گرفت اور نکیر کی جائے اور نہ ہی خود زیادہ دل گرفتہ ہو اجائے ‘ بلکہ ان کے بارے میں توقع رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ ان کے بارے میں استغفار بھی کیا جائے اور یہی صغائر ہیں جو نیکیوں کے ذریعے سے خود بخود بھی ختم ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اعضائے وضو دھوتے ہوئے ان اعضاء کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے تو جب وہ کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی ڈالتا ہے تو اس کے منہ اور ناک سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ دھل جاتے ہیں۔ جب وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر اور کانوں سے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جب وہ پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور نماز پڑھنا اس کی نیکیوں میں اضافہ بنتا ہے۔ 1 ُ ّ یہ صغیرہ گناہ ہیں جو نیکیوں کے اثر سے معاف ہوتے رہتے ہیں ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ھود : 114 یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں“۔ ان برائیوں سے مراد کبائر نہیں ‘ صغائر ہیں۔ کبائر توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے اِلاّماشاء اللہ ! ان کے لیے توبہ کرنی ہوگی۔ اور جو اکبر الکبائر یعنی شرک ہے اس کے بارے میں تو اس سورت میں دو مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاءُ ط آیت 48 و 116 بلاشبہ اللہ تعالیٰ یہ بات تو کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ‘ اور اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا“۔ لیکن ہمارے ہاں مذہب کا جو مسخ شدہ perverted تصور موجود ہے اس سے ایک ایسا مذہبی مزاج وجود میں آتا ہے کہ جو کبائر ہیں وہ تو ہو رہے ہیں ‘ سود خوری ہو رہی ہے ‘ حرام خوری ہو رہی ہے ‘ مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکیر ہو رہی ہے۔ ساری گرفت ان باتوں پر ہو رہی ہے کہ تمہاری داڑھی کیوں شرعی نہیں ہے ‘ اور تمہارا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے کیوں ہے ؟ قرآن مجید میں اس معاملے کو تین جگہ نقل کیا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں درگزر سے بھی کام لو اور یہ کہ بہت زیادہ متفکر بھی نہ ہو۔ اس معاملے میں باہمی نسبت و تناسب پیش نظر رہنی چاہیے۔
Top