Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 149
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم کھلم کھلا کرو خَيْرًا : کوئی بھلائی اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ اَوْ تَعْفُوْا : یا معاف کردو عَنْ : سے سُوْٓءٍ : برائی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا قَدِيْرًا : قدرت والا
اگر تم بھلائی کو ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ یا تم برائی کو معاف کردیا کرو تو یقیناً اللہ بھی معاف فرمانے والا قدرت رکھنے والا ہے۔
آیت 149 اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ جہاں تک تو خیر کا معاملہ ہے تم اسے بلند آواز سے کہو ‘ ظاہر کرو یا چھپاؤ برابر کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے خیر تو ہر حال میں خیر ہی ہے ‘ عیاں ہو یا خفیہ۔ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کردینا یقیناً نیکی کا ایک اونچا درجہ ہے۔ اس لیے یہاں ترغیب کے انداز میں مظلوم سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ تمہیں چھوٹ ہے ‘ تمہاری بدگوئی کی بھی تم پر کوئی گرفت نہیں ‘ لیکن زیادتی کی تلافی کا اس سے اعلیٰ اور بلند تر درجہ بھی ہے ‘ تم اس بلند درجے کو حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ وہ یہ کہ تم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کر دو۔ اس کے ساتھ اللہ کی قدرت کا ذکر بھی ہوا ہے کہ انسان تو بسا اوقات بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کے باعث معاف کرنے پر مجبور بھی ہوجاتا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ قدیر ہے ‘ وہ تو جب چاہے ‘ جیسے چاہے there then خطاکار کو فوراً سزا دے کر حساب چکاسکتا ہے۔ لیکن اتنی قدرت کے باوجود بھی وہ معاف فرما دیتا ہے۔ آئندہ آیات میں پھر وحدت الادیان جیسے اہم مضمون کا تذکرہ ہونے جا رہا ہے اور اس سلسلے میں یہاں تمام غلط نظریات کی جڑ کاٹی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ بات زیر بحث آچکی ہے کہ فلسفۂ وحدت ادیان کا ایک حصہ صحیح ہے۔ وہ یہ کہ اصل origin سب ادیان کی ایک ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف ادیان کی موجودہ شکلوں میں بھی یک رنگی اور ہم آہنگی ہے تو اس سے بڑی حماقت ‘ جہالت ‘ ضلالت اور گمراہی کوئی نہیں۔ یہاں پر اب کانٹے کی بات بتائی جا رہی ہے کہ دین میں جس چیز کی وجہ سے بنیادی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ وہ غلطی یا خرابی ہے اللہ اور رسولوں میں تفریق ! ایک تفریق تو وہ ہے جو رسولوں کے درمیان کی جاتی ہے ‘ اور دوسری تفریق اللہ اور رسول ﷺ کو علیحدہ علیحدہ کردینے کی شکل میں سامنے آتی ہے ‘ اور یہ سب سے بڑی جہالت ہے۔ فتنۂ انکار حدیث اور انکار سنت اسی جہالت و گمراہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اہل قرآن سمجھتے ہیں اور ان کا نظریہ ہے کہ رسول ﷺ کا کام قرآن پہنچا دینا تھا ‘ سو انہوں نے پہنچا دیا ‘ اب اصل معاملہ ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اللہ کی کتاب عر بی زبان میں ہے ‘ ہم اس کو خود سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ رسول ﷺ نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو جو اس کی تشریح سمجھائی تھی اور اس زمانے کے لوگوں نے اسے قبول کیا تھا ‘ وہ اس زمانے کے لیے تھی۔ گویا رسول ﷺ کی تشریح کوئی دائمی چیز نہیں ‘ دائمی شے صرف قرآن ہے۔ اس طرح انہوں نے اللہ اور رسول ﷺ کو جدا کردیا۔ یہاں اسی گمراہی کا ذکر آ رہا ہے۔
Top