Bayan-ul-Quran - Al-Furqaan : 77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
(اے نبی ﷺ !) آپ کہہ دیجیے کہ میرے رب کو تمہاری کوئی پروا نہیں اگر نہ ہوتا تمہیں پکارنا اب جبکہ تم نے جھٹلادیا ہے تو عنقریب یہ (عذاب تمہیں) چمٹ کر رہے گا
آیت 77 قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ ج ” بنی نوع انسان کو راہ ہدایت دکھانے اور اس سلسلے میں ان پر اتمام حجت کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس قانون کی وضاحت سورة بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے : وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً کہ ہم کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتے جب تک ان کے درمیان رسول مبعوث نہ کردیں۔ اسی حوالے سے یہاں حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ تم لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا اور حق کی دعوت دینا مشیت الٰہی کے تحت ضروری نہ ہوتا تو میرے رب کو تم لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ضرورت اور قانون کے تحت تمہاری طرف مبعوث فرما کر مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ میں اس کا پیغام تم لوگوں تک پہنچاؤں۔ اس کے لیے میں سالہا سال سے تمہارے پیچھے خود کو ہلکان کر رہا ہوں۔ گلیوں اور بازاروں میں تمہارے پیچھے پیچھے پھرتا ہوں ‘ تمہارے گھروں میں جا کر تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا ہوں۔ خفیہ اور علانیہ ہر طرح سے تم لوگوں کو سمجھاتا ہوں۔ تم لوگ اس سے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ اس میں میری کوئی ذاتی غرض ہے یا تمہارے بغیر میرے رب کا کوئی کام ادھورا پڑا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے رب کے حضور تمہاری حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ اگر اللہ کو تمہیں راہ ہدایت دکھا کر اتمام حجت کرنا منظور نہ ہوتا ‘ اور اس کے لیے میرا تمہیں مخاطب کرنا نا گزیر نہ ہوتا تو میں ہرگز تمہارے پیچھے پیچھے نہ پھرتا۔ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا ” یعنی تمہارے اس انکار کی پاداش میں تم لوگوں کو سزا مل کر رہے گی۔ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم
Top